دو دلیپ کمار

ایک نوجوان ابتدا میں ریلوے اسٹیشن پر پھل اور ڈرائی فروٹ بیچتا ہے


یونس ہمدم October 24, 2015
[email protected]

صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) کے دو مختلف شہروں پشاور اور سوات سے اپنی اپنی جوانی کے دور میں دو نوجوانوں کی زندگی کے ایک اہم سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک نوجوان بمبئی کے دامن میں سمٹ جاتا ہے اور دوسرا نوجوان کراچی کا باسی بن جاتا ہے۔

ایک نوجوان ابتدا میں ریلوے اسٹیشن پر پھل اور ڈرائی فروٹ بیچتا ہے اور دوسرا نوجوان کراچی کی سڑکوں پر رکشہ اور ٹیکسی چلاتا ہے پھر وقت کے پنے پلٹے ہیں، پشاور کا یوسف خان بمبئی کی فلم انڈسٹری کا نامور اداکار دلیپ کا روپ دھار لیتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی عظیم فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے اور سوات سے آنے والا نوجوان پاکستان کی پہلی پشتو فلم کا ہیرو بن کر منظر عام پر آتا ہے اور فلموں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرتا ہے وہ نوجوان بدر منیر کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے اور اسے اتنا عروج ملتا ہے کہ شہرت اس کے قدموں کی کنیز بن جاتی ہے اور فلمی دنیا اسے پشتو فلموں کے دلیپ کمار کا خطاب دیتی ہے۔ کراچی سے پشاور تک بدر منیر کی تاج پوشیاں کی جاتی ہیں۔

اسے بھی پشتو فلموں کا شہنشاہ قرار دیا جاتا ہے اور ان دو نوجوانوں کے کچھ ایسے خواب پورے ہوتے ہیں جو ان دونوں نے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے۔ بمبئی کے دلیپ کمار کو میں نے کراچی کی ایک تقریب میں دیکھا تھا اور بس دیکھتا ہی رہ گیا تھا کیوں کہ میں بھی دلیپ کمار کے کروڑوں پرستاروں میں سے ایک تھا۔

پشتو فلموں کے دلیپ کمار سے میری کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں بے شمار ملاقاتیں ہوئی تھیں اور اس لیجنڈ اداکار سے جب وہ ایک عام شخص تھا، اسٹوڈیو کے گیٹ پر پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ جب بدر منیر ایسٹرن اسٹوڈیو کے گیٹ کے باہر فلمسٹار محمد علی اور وحید مراد کو بڑے شوق سے دیکھنے کے لیے آتا تھا اور اس کی ٹیکسی گیٹ کے باہر کھڑی رہتی تھی اور خود گھنٹوں اپنے پسندیدہ فنکاروں کو دیکھنے کے لیے کھڑا رہتا تھا، پھر قسمت سے بدر منیر کو اسٹوڈیو کے اندر داخلہ مل گیا تھا اور پھر میں نے بدر منیر کو اسٹوڈیو کی کینٹین میں چائے سرو کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور ایک دن جب میں فلم ایڈیٹر عقیل خان کے کمرے میں بیٹھا تھا تو بدر منیر دو کپ چائے لے کر کمرے میں داخل ہوا تو میں نے بدر منیر سے پوچھا تھا۔

ایک بات بتاؤ بدر منیر کیا تم بھی ہیرو بننے کے خواب دیکھتے ہوئے اس اسٹوڈیو میں ملازمت کی غرض سے آئے ہو تو بدر منیر نے بے ساختہ کہا تھا ہم اور ہیرو بنے گا خواب ہم تو کسی فلم میں فائٹر مائٹر کا کام بھی نہیں کر سکتا۔ بس ہم تو روٹی روزی کے لیے اسٹوڈیو کے کینٹین میں کام کرتا ہے، رکشہ ٹیکسی چلانے سے ادھر کام کرنا ہم کو اچھا لگتا ہے۔ آرٹسٹ لوگ بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے جب ادھر سے دل بھر جائے گا تو پھر کدھر اور چلا جائے گا۔ کہنے کو تو بدر منیر نے یہ سب کچھ ایک سانس میں کہہ دیا تھا مگر کس کی قسمت میں کیا لکھا ہے وہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔

ایک دن میں نے وحید مراد کی فلم کی شوٹنگ کے دوران بدر منیر کو ٹرالی بوائے کے روپ میں دیکھا۔ فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی اور بدر منیر کیمرہ ٹرالی کو گھسیٹتا ہوا نظر آیا۔ پھر مجھے کیمرہ مین نذیر حسین جس سے میری بڑی بے تکلفی تھی اس نے بتایا کہ اس کے کہنے پر وحید مراد پروڈکشن کے کیمرہ ڈپارٹمنٹ میں بدر منیر کو ملازم رکھ لیا گیا ہے۔ کیمرہ مین نذیر حسین نے کچھ دنوں کے بعد اس کی محنت، شوق اور لگن کو دیکھ کر اسے اپنا اسسٹنٹ بنا لیا تھا۔

اسی دوران وحید مراد پروڈکشن میں نوجوان عزیز تبسم بھی اسسٹنٹ ہدایت کار کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، اس کا تعلق بھی سرحد ہی سے تھا۔ اسی طرح بدر منیر اور عزیز تبسم میں بہت گہری دوستی ہو گئی تھی۔ کیمرہ مین نذیر چاہتا تھا کہ بدر منیر ایک محنتی نوجوان ہے اگر سنجیدگی سے محنت کرتا رہے گا تو ایک دن فل کیمرہ مین بھی بن جائے گا اور ایک اچھے مستقبل سے وابستہ ہو جائے گا، اسی دوران ایسٹرن اسٹوڈیو ہی کے ایک سینئر ٹیکنیشنز شفیع قاضی کے دماغ میں ایک پلان آیا اس نے کیمرہ مین نذیر حسین سے کہا کہ میں ایک فلم بنانا چاہتا ہوں اور اس میں مجھے تمہاری مدد درکار ہے۔

وہ فلم پشتو زبان میں ہو گی اور کراچی میں لاکھوں پٹھان بستے ہیں۔ فلم پر کچھ زیادہ خرچہ بھی نہیں آئے گا، ہم بدر منیر کو ہیرو لیں گے اور کوئی نئی پشتو بولنے والی کو ہیروئن کاسٹ کر لیں گے۔ دیگر فنکار بھی ہمیں مفت میں مل جائیں گے، کہانی کا آئیڈیا عزیز تبسم سے میں نے لیا ہے۔ پشتو کی ایک رومانی کہانی ہے یوسف خان شیر بانو۔ علاقائی زبانوں پر بے شمار لوک کہانیوں پر فلمیں بنی ہیں اور کامیاب ہوئی ہیں۔

جیسے ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، عمر ماروی، مومل رانو، نوری جام تماچی۔ اسی طرح اگر یوسف خان شیر بانو جو پشتو کی مشہور لوک کہانی ہے اسے فلمایا جائے تو کراچی کے پٹھان بھائی پشتو زبان کی اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینماؤں پر ٹوٹ پڑیں گے اور پھر کراچی سے لے کر پشاور تک نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ تو اس فلم کے فلاپ ہونے اور نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر تھوڑے سرمائے سے بنائی جانے والی یہ فلم ہمیں بڑا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ یہ بات کیمرہ مین نذیر حسین کی سمجھ میں بھی آ گئی اور پھر کچھ دنوں کی محنت اور مشاورت کے بعد ایسٹرن اسٹوڈیو میں پہلی پشتو فلم ''یوسف خان شیربانو'' کا آغاز کر دیا گیا۔

شفیع قاضی اور کیمرہ مین نذیر حسین فلمساز تھے اور فلم کا ہدایت کار عزیز تبسم تھا۔ فلم کی موسیقی لال محمد اقبال نے دی تھی، اس فلم کی تیاری میں بدر منیر، یاسمین خان، نعمت سرحدی اور دیگر چھوٹے آرٹسٹوں نے بھی دن رات محنت سے کام کیا، ابتدا میں کچھ لوگوں نے اس فلم کے بارے میں بہت سے غلط اندازے لگائے تھے مگر جب یہ فلم تیار ہو کر کراچی میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تو کراچی کے لاکھوں پٹھانوں نے دل کھول کر اپنی زبان کی اس خوبصورت فلم کا استقبال کیا۔

یوسف خان شیربانو، کراچی، حیدرآباد کے علاوہ صوبہ سرحد میں بھی توقع سے زیادہ پسند کی گئی اور اس پشتو فلم نے پشتو فلموں کے دلیپ کمار کو جنم دیا اور پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ ایسٹرن اسٹوڈیو کے باہر جس طرح محمد علی، وحید مراد کو دیکھنے کے لیے پرستاروں کا ہجوم ہوتا تھا، اسی طرح اسٹوڈیو کے باہر بدر منیر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سیکڑوں دیوانے ہر وقت جمع رہتے تھے۔ پھر بدر منیر کی کامیابی کا پشاور میں ایک جشن منایا گیا، بدر منیر کی پشتو فلموں کے دلیپ کی حیثیت سے ان کی تاج پوشی کی گئی۔

پہلی پشتو فلم کے بعد بدر منیر کی پہلی اردو فلم ''دلہن ایک رات کی'' کے نام سے بنائی گئی اسے بھی اس طرح کامیابی نصیب ہوئی، جس طرح بطور ہیرو رنگیلا کی فلم ''دیا اور طوفان'' کو کامیابی ملی تھی، پھر کراچی میں کیمرہ مین نذیر حسین اور عزیز تبسم نے بدر منیر اور یاسمین خان کو لے کر ایک خوبصورت اردو فلم ''جہاں برف گرتی ہے'' کے نام سے بنائی۔ یہ ایک اچھی ایکشن فلم تھی اور خاص طور پر فوٹوگرافی کے اعتبار سے اس فلم کو فلم بینوں کے ساتھ ساتھ کریٹکس نے بھی بڑا سراہا تھا، بڑے بڑے فوٹوگرافرز نے کیمرہ مین نذیر حسین کو اس فلم کی فوٹوگرافی کی وجہ سے خراج تحسین پیش کیا تھا۔

بدر منیر کی اس اردو فلم نے بھی اچھا بزنس کیا تھا اور یہ بھی اس کی یادگار فلموں میں شامل ہے۔ بدر منیر بلاشبہ پشتو فلموں کا دلیپ کمار تھا مگر اس نے اردو اور پنجابی کی بھی بہت سی فلمیں کی تھیں جو پسندیدگی کی سند بنی تھیں مگر جتنی شہرت اور عروج بدر منیر کو حاصل ہوا کاش اس کو زندگی بھی کچھ اور مل جاتی لیکن زندگی اس سے وفا نہ کر سکی، اس نے جس تیزی کے ساتھ کامیابی کا سفر طے کیا تھا اتنی ہی جلدی اس نے آخرت کے سفر کے لیے بھی دکھائی اور عین عالم شباب میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس طرح فلمی دنیا پشتو کے دلیپ کمار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔

بدر منیر اس دنیا سے چلا گیا مگر وہ فلم بینوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا جس طرح بمبئی کے دلیپ کمار کے پشاور والے گھر کو صوبائی حکومت نے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اسی طرح پشتو فلموں کے دلیپ کمار بدر منیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پشاور کے سینما روڈ کو بدر منیر روڈ سے منسوب کر دیا گیا ہے، دونوں دلیپ کماروں کی زندگی پر مشتمل ایک ایک کتاب بمبئی ہندوستان اور پشاور پاکستان میں شایع ہو چکی ہے، ایک ''دلیپ کمار ایک لیجنڈ'' کے نام سے ہے دوسری کتاب کا نام ''دی لیجنڈ بدر منیر'' ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔