مودی سرکار
انھی صفحات پہ لکھا تھا جب مودی سرکار گجرات سے پھیل کر ہندوستان کی راجدھانی تک پہنچے تھے۔
QUETTA:
انھی صفحات پہ لکھا تھا جب مودی سرکار گجرات سے پھیل کر ہندوستان کی راجدھانی تک پہنچے تھے۔ وہ خطرات جو مجھے نظر آرہے تھے کہ ہندوستان فاشزم کے نرغے میں جا رہا ہے۔ یہی لکھا تھا کہ کس طرح ہٹلر نے جرمنی کو اپنی زہر آلود تقاریر سے نرغے میں لیا تھا، اور پھر کس طرح جرمنی نے اسے بیلٹ باکس پر جتوایا تھا اور پھر کس طرح ایک فاشسٹ بالآخر آمر بن کے ابھرا۔ ہوا کیا؟ پوری دنیا کو جنگ کے بادلوں کی نذر کیا۔
اور بالآخر شرمیلا ٹیگور بول اٹھی کہ ہندوستان میں یوں لگتا ہے ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہے۔ جب اندرا نے ایمرجنسی نافذ کی تھی تو یوں کہیے کہ وہ ہندوستان کے Context میں مارشل لا تھی۔ جب سرخ انقلاب کے بہانے اوڑھ کر، روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر وہ آمر بن کے ابھری تھی۔ میں نے لکھا تھا انھی صفحات پر کہ پھر جس طرح سپریم کورٹ آف انڈیا اس سے ٹکرائی تھی بالکل اسی طرح کورٹ ہی ہوگی جو مودی کو روکے گی۔
پاکستان کا وجود، دائیں بازو کے انتہا پرستوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ تو پھر کیا ہوا جہاں مودی کی R.S.S چھوٹی پڑجاتی ہے، وہاں شیوسینا، بال ٹھاکرے آگے آجاتے ہیں اور نفرت زدہ اپنی اس Narrative میں ہوا بھرتے ہیں۔ اب کی بار جو جمہوریت کے لبادے سے ہندوستان میں آمریت برپا ہو رہی ہے، اس کی طاقت کے پھلنے پھولنے کی بنیاد پاکستان دشمنی پر ہے۔ تو پھر ہمارے ہاں بھی ہیں ایسے لوگ جو یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
وہاں کی اس انتہا پرست سوچ نے پاکستان کا کرنا کچھ نہیں ہے اور کر کچھ بھی نہیں سکتے مگر اس بہانے اپنے ہندوستان کے لوگوں کو یرغمال کریں گے۔ اور پھر جو کیا تھا ہٹلر نے جرمنی کے ساتھ، یہی کیا تھا ضیا الحق نے پاکستان کے ساتھ، اور یہی کرے گی ہر آمریت، وہ جہاں بھی ہو، جدھر بھی ہو مگر جو تاریخ کا شاگرد ہے اسے پتا ہے کہ اس بار اس طرح ہونا ممکن نہیں۔ اب تو رسم چل پڑی ہے، ہندوستان میں اہل قلم جن کو ریاست نے تمغے دیے ہیں، ایسے کوئی پچاس کے لگ بھگ رائٹر ہیں جنھوں نے یہ تمغے واپس کردیے ہیں، کیونکہ جب یہ ریاست گاندھی کی نہیں رہی تو پھر تمغے کاہے کے۔
ہمارے ہاں ماجرا کچھ اور ہے، ہم نے بہت سے ایسے نفرت پھیلانے والے لوگوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔ لیکن ہم نے اب بھی بہت سے ایسی سوچ رکھنے والوں سے بالکل ناتا نہیں توڑا۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو اب بھی ہم Strategic Assets سمجھتے ہیں۔
یہ ہندوستان کے پاکستان کے وجود کو نہ ماننے کے رویے تھے، جس نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی وہ چاہے اچھی تھی یا بری، اپنے انداز سے مرتب کرنے پر مجبور کیا۔ کل وہ سوویت یونین کا ساتھی تھا تو ہم سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کے پٹھو تھے۔ آج وہ امریکا کے بہت چہیتے ہیں تو ہم چائنا کے بہت قریب ہیں۔ تو ساتھ ساتھ ہم امریکا سے بھی تعاون کر رہے ہیں اور اپنی بقا کی خاطر اب ہم سعودی عرب کی بہت ساری دخل اندازیوں کے خلاف بھی ہیں۔ ہم ایران کے بھی قریب آنا چاہتے ہیں۔
لیکن آج ہندوستان کے اندر بہت سے ایسے ہیں جو اس فاشزم کے خلاف اٹھنا چاہتے ہیں، ہمیں اس ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، لیکن اخلاقی طور پر، جس طرح ایک امن پرست، جمہوریت پرست، ترقی پسند، دنیا کے امن میں اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ بھی کھڑا ہوتا ہے۔
ہم سب برصغیر میں رہتے ہیں، برصغیر ہمارا وشال عرض ہے، ہمارا پڑوسی ہے، ہم پر سب سے پہلا حق پڑوسیوں کا ہوتا ہے۔ ہمیں انتہا پرستی زیب نہیں دیتی، وہ اس لیے کہ ہماری انتہا پرستی دنیا کے اندر اس انتہا پرستی سے جڑتی ہے جو القاعدہ کے روپ میں ہے، جو را کے روپ میں ہے، اور جب ہم نے ان کے خلاف کام کیا تو یہ بات بھی ہندوستان کی انتہا پرست سوچ جو ریاست کے اندر اداروں کے روپ میں بیٹھی ہے جسے RAW وغیرہ بھی کہا جاسکتا ہے، ان کو اچھی نہیں لگی اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ اب اس مذہبی انتہا پرستی میں بھی ہمارے ہاں ان کے نادیدہ اور سرگرم ہاتھ ہیں۔
پراکسی جنگ ادھر سے ہو یا ادھر سے دونوں غلط اور خود سوز ہیں اور دونوں کی شدید انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ ایمرجنسی یہاں لگے یا وہاں لگے، دونوں کی شدید انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ جمہوریت پرست، امن پرست، ترقی و حوشحالی پرست یہاں ہوں یا وہاں ہوں، ہم دونوں ایک ہیں۔ ہمارا برصغیر ایک ہے، ہماری تاریخ ایک ہے، ہم نے وجود سے جنم پالیے۔ مسلمانوں نے لگ بھگ آٹھ سو سال ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ تاج محل ان کا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ طبلہ ہو یا ستار، بھگت کبیر ہوں یا شاہ لطیف، ان کے بھی ہیں اور میرے بھی ہیں۔
اور اگر آپ میں سے کوئی تاریخ کا شاگرد ہے تو پھر فیض کی اس بات سے جو وہ ''لوح و قلم سے لکھا ہے'' کہ حوالے سے کرتے تھے۔ ایک دن برصغیر ایک ہونا ہے۔ یورپی یونین کی طرح، اور دنیا کے بہت سے ریجنل معاشی اتحادوں کی طرح۔ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ غربت ہے جو اس ہندوستان پاکستان دشمنی کی وجہ سے اور بڑھتی ہے۔
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
انھی صفحات پہ لکھا تھا جب مودی سرکار گجرات سے پھیل کر ہندوستان کی راجدھانی تک پہنچے تھے۔ وہ خطرات جو مجھے نظر آرہے تھے کہ ہندوستان فاشزم کے نرغے میں جا رہا ہے۔ یہی لکھا تھا کہ کس طرح ہٹلر نے جرمنی کو اپنی زہر آلود تقاریر سے نرغے میں لیا تھا، اور پھر کس طرح جرمنی نے اسے بیلٹ باکس پر جتوایا تھا اور پھر کس طرح ایک فاشسٹ بالآخر آمر بن کے ابھرا۔ ہوا کیا؟ پوری دنیا کو جنگ کے بادلوں کی نذر کیا۔
اور بالآخر شرمیلا ٹیگور بول اٹھی کہ ہندوستان میں یوں لگتا ہے ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہے۔ جب اندرا نے ایمرجنسی نافذ کی تھی تو یوں کہیے کہ وہ ہندوستان کے Context میں مارشل لا تھی۔ جب سرخ انقلاب کے بہانے اوڑھ کر، روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر وہ آمر بن کے ابھری تھی۔ میں نے لکھا تھا انھی صفحات پر کہ پھر جس طرح سپریم کورٹ آف انڈیا اس سے ٹکرائی تھی بالکل اسی طرح کورٹ ہی ہوگی جو مودی کو روکے گی۔
پاکستان کا وجود، دائیں بازو کے انتہا پرستوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ تو پھر کیا ہوا جہاں مودی کی R.S.S چھوٹی پڑجاتی ہے، وہاں شیوسینا، بال ٹھاکرے آگے آجاتے ہیں اور نفرت زدہ اپنی اس Narrative میں ہوا بھرتے ہیں۔ اب کی بار جو جمہوریت کے لبادے سے ہندوستان میں آمریت برپا ہو رہی ہے، اس کی طاقت کے پھلنے پھولنے کی بنیاد پاکستان دشمنی پر ہے۔ تو پھر ہمارے ہاں بھی ہیں ایسے لوگ جو یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
وہاں کی اس انتہا پرست سوچ نے پاکستان کا کرنا کچھ نہیں ہے اور کر کچھ بھی نہیں سکتے مگر اس بہانے اپنے ہندوستان کے لوگوں کو یرغمال کریں گے۔ اور پھر جو کیا تھا ہٹلر نے جرمنی کے ساتھ، یہی کیا تھا ضیا الحق نے پاکستان کے ساتھ، اور یہی کرے گی ہر آمریت، وہ جہاں بھی ہو، جدھر بھی ہو مگر جو تاریخ کا شاگرد ہے اسے پتا ہے کہ اس بار اس طرح ہونا ممکن نہیں۔ اب تو رسم چل پڑی ہے، ہندوستان میں اہل قلم جن کو ریاست نے تمغے دیے ہیں، ایسے کوئی پچاس کے لگ بھگ رائٹر ہیں جنھوں نے یہ تمغے واپس کردیے ہیں، کیونکہ جب یہ ریاست گاندھی کی نہیں رہی تو پھر تمغے کاہے کے۔
ہمارے ہاں ماجرا کچھ اور ہے، ہم نے بہت سے ایسے نفرت پھیلانے والے لوگوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔ لیکن ہم نے اب بھی بہت سے ایسی سوچ رکھنے والوں سے بالکل ناتا نہیں توڑا۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو اب بھی ہم Strategic Assets سمجھتے ہیں۔
یہ ہندوستان کے پاکستان کے وجود کو نہ ماننے کے رویے تھے، جس نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی وہ چاہے اچھی تھی یا بری، اپنے انداز سے مرتب کرنے پر مجبور کیا۔ کل وہ سوویت یونین کا ساتھی تھا تو ہم سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کے پٹھو تھے۔ آج وہ امریکا کے بہت چہیتے ہیں تو ہم چائنا کے بہت قریب ہیں۔ تو ساتھ ساتھ ہم امریکا سے بھی تعاون کر رہے ہیں اور اپنی بقا کی خاطر اب ہم سعودی عرب کی بہت ساری دخل اندازیوں کے خلاف بھی ہیں۔ ہم ایران کے بھی قریب آنا چاہتے ہیں۔
لیکن آج ہندوستان کے اندر بہت سے ایسے ہیں جو اس فاشزم کے خلاف اٹھنا چاہتے ہیں، ہمیں اس ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، لیکن اخلاقی طور پر، جس طرح ایک امن پرست، جمہوریت پرست، ترقی پسند، دنیا کے امن میں اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ بھی کھڑا ہوتا ہے۔
ہم سب برصغیر میں رہتے ہیں، برصغیر ہمارا وشال عرض ہے، ہمارا پڑوسی ہے، ہم پر سب سے پہلا حق پڑوسیوں کا ہوتا ہے۔ ہمیں انتہا پرستی زیب نہیں دیتی، وہ اس لیے کہ ہماری انتہا پرستی دنیا کے اندر اس انتہا پرستی سے جڑتی ہے جو القاعدہ کے روپ میں ہے، جو را کے روپ میں ہے، اور جب ہم نے ان کے خلاف کام کیا تو یہ بات بھی ہندوستان کی انتہا پرست سوچ جو ریاست کے اندر اداروں کے روپ میں بیٹھی ہے جسے RAW وغیرہ بھی کہا جاسکتا ہے، ان کو اچھی نہیں لگی اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ اب اس مذہبی انتہا پرستی میں بھی ہمارے ہاں ان کے نادیدہ اور سرگرم ہاتھ ہیں۔
پراکسی جنگ ادھر سے ہو یا ادھر سے دونوں غلط اور خود سوز ہیں اور دونوں کی شدید انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ ایمرجنسی یہاں لگے یا وہاں لگے، دونوں کی شدید انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ جمہوریت پرست، امن پرست، ترقی و حوشحالی پرست یہاں ہوں یا وہاں ہوں، ہم دونوں ایک ہیں۔ ہمارا برصغیر ایک ہے، ہماری تاریخ ایک ہے، ہم نے وجود سے جنم پالیے۔ مسلمانوں نے لگ بھگ آٹھ سو سال ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ تاج محل ان کا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ طبلہ ہو یا ستار، بھگت کبیر ہوں یا شاہ لطیف، ان کے بھی ہیں اور میرے بھی ہیں۔
اور اگر آپ میں سے کوئی تاریخ کا شاگرد ہے تو پھر فیض کی اس بات سے جو وہ ''لوح و قلم سے لکھا ہے'' کہ حوالے سے کرتے تھے۔ ایک دن برصغیر ایک ہونا ہے۔ یورپی یونین کی طرح، اور دنیا کے بہت سے ریجنل معاشی اتحادوں کی طرح۔ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ غربت ہے جو اس ہندوستان پاکستان دشمنی کی وجہ سے اور بڑھتی ہے۔
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو