پاکستانی برطانیہ میں بھی درست ترجیحات نہیں اپنا سکے
سینئر قانون دان ضیاء اللّٰہ رانجھا کے مطالعاتی دورۂ لندن کے مشاہدات
مصنف ضیاء اللہ رانجھا مختلف مواقع پر ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد، پولیس اکیڈمی اسلام آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور، اور دیگر اہم اداروں میں تدریسی اور تربیتی فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن کی دعوت پر وہ کچھ عرصہ قبل چھ ماہ کے تربیتی کورس کے لیے لندن گئے۔ پاکستان کے ایک صاحب علم، درد مند اور حساس شہری کی حیثیت سے انہوں نے وہاں کے اداروں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے مشاہدات اور خیالات کو سپرد قلم کیا ہے۔ ان کے مضمون کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
٭٭
برطانیہ میں چھ ماہ قیام کے دوران مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھ کر خوشی ہوئی، لیکن برطانیہ کا وطن عزیز کے حالات سے موازنہ مجھے اکثر افسردہ بھی کر دیتا تھا۔ ہیتھرو ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو گویا میں ایک نئی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔ ایک دوست کے ساتھ زیر زمین ریل (جسے ٹیوب کہا جاتا ہے) کے ذریعے اپنی عارضی قیام گاہ کے لیے روانہ ہوا، جو پریمروز ہل (Primrose Hill) میں واقع تھی۔ پہلی نظر میں ہی ٹیکنالوجی اور ثقافتی میدان میں ان کی حیران کن ترقی آپ کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ لندن ایک جدید، کثیرالثقافتی اور چہل پہل والا شہر ہے۔
میرے لیے سب سے پہلا چیلنج یہ تھا کہ یہاں مجھے کھانا پکانے سے صفائی ستھرائی تک ہر کام خود کرنا تھا۔ دوست نے مجھے کھانا پکانا اور صفائی کرنا سکھایا۔وطن عزیز کی یاد ایک مرتبہ پھر دل میں آئی۔
مجھے ایشیائی خواتین کی مشقت اور ایثار کا احساس ہوا۔ وہ پورے خاندان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، اس کے باوصف ان کو سراہنا تو کجا، اکثر اوقات ان کی خدمات کا اعتراف بھی نہیں کیا جاتا۔ اگلی صج ریجنٹس پارک میں یہ منظر دیکھا کہ بزرگ و جوان، خواتین و حضرات اپنے پالتو کتوں کے ہمراہ جاگنگ میں مصروف ہیں۔ کتے اپنے مالکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور خوش نظر آ رہے تھے، کیوں کہ وہ ان کے ساتھ چل پھر سکتے تھے۔ یورپ میں جانوروں کو خصوصی حقوق حاصل ہیں، جبکہ ہمارے ہاں انسانوں کو بھی دھتکار دیا جاتا ہے۔
عجیب و غریب رویے اور سماجی تنگ نظری، ہمارے بچوں، خواتین اور غریبوں کی مسکراہٹوں کو ابتدا میں ہی ختم کر دیتی ہے۔ ان خیالات کو پرے دھکیلتے ہوئے میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ جاگنگ شروع کی، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔ اپنی جسمانی برداشت (Stamina) کے بارے میں میری خوش فہمی رفع ہو گئی۔ بہرحال اس سے مجھے صحت مند زندگی گزارنے سے متعلق اچھا سبق ملا اور میں نے اگلے ہی روز نفیلڈ ہیلتھ کلب کی رکنیت لے لی۔
چونکہ شہر میں نیا تھا، اس لیے چند دن مختلف مقامات کی سیاحت میں اس طرح گزار دیئے، جیسے کوئی مہم جو خزانے کی تلاش میں پھرتا ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے میں کالونیل دور سے موجودہ برطانیہ تک، تاریخ کے مختلف ادوار میں سفر کرتا رہا ہوں۔ دریائے ٹیمز کے کنارے چہل قدمی کرنا، بڑا شاندار تجربہ تھا۔ یہاں شیکسپئیر تھیٹر، لندن برج اور شارڈ ٹاور (جو یورپ کا بلند ترین ٹاور ہے) جیسے قابل دید مقامات ہیں۔ برٹش میوزیم میں قدیم اور جدید تہذیبوں کو محفوظ کیا گیا ہے، جو ہمیں عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی ہیں۔ برٹش لائبریری میں کئی تاریخی کتابیں اور کاغذات موجود ہیں۔
نویں صدی کا قرآن پاک یہاں محفوظ ہے۔ نمایاں سائنسدانوں، آرٹسٹوں اور دیگر اصحاب علم کی تحریروں کے اصل مسودوں کو بھی اکٹھا کیا گیا ہے۔ سینٹ پال کیتھڈرل مسیحت کی علامت کے طور پر شہر کے وسط میں موجود ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق وہاں لوگوں نے مذہب کو سماجی ضرورت کے طور پر مسترد کر دیا ہے اور یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ تاہم سیاست میں ابھی تک مذہب کا عمل دخل ہے، برطانوی حکومت چرچ آف انگلینڈ (ایک مخصوص مذہبی تنظیم) کی سرپرستی کرتی ہے، تاہم سماجی معاملات میں حکومت مختلف فرقوں کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھتی۔
اپنے قیام کے تیسرے ہفتے مجھے لنکنز ان، لاء سوسائٹی، رائل کورٹس آف جسٹس اور برطانوی سپریم کورٹ جانے کا موقع ملا۔ لنکنز ان میں مجھے قائد اعظم، علامہ اقبال اور سرسید کی یاد آئی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہاں ان کی روح مجھ سے پاکستان کے بارے میں سوالات کر رہی ہے۔انگریزوں سے برصغیر کی آزادی اور پھر دو الگ ممالک کے قیام کے لیے جناح اور گاندھی کی جدوجہد کو یاد کیا۔ میں نے سوچا امید پر دنیا قائم ہے۔ تاہم میں نے بانیان پاکستان کے سامنے تسلیم کیا کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ مجھے انہیں بتانا پڑا کہ ہمارے ہاں عمومی طور پر قانون کے احترام کا چلن نہیں ہے۔ حق زندگی اور مذہب کی آزادی جیسے بنیادی انسانی حقوق کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ہمارے ہاں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے، دوسروں کے حقوق پر غیرقانونی قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔
ہم نے نہ تو اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھا ہے اور نہ سرسید کی تعلیم کے فروغ اور فکری تنوع کے لیے جدوجہد کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی ایک ایسے معاشرے کا تقاضا کرتا ہے جو جامد نہ ہو، جہاں وقت کے ساتھ ساتھ علم اور اخلاقیات ارتقائی منازل طے کریں۔ جبکہ سرسید کھلے ذہن کے ساتھ علم کی جستجو کو نیکی کا درجہ دیتے ہیں۔ تعلیم اور ترقی کے ان رجحانات کو فروغ دینے کے بجائے، ہم نے اپنے ہاں بڑھتی ہوئی مادہ پرستی کے ساتھ جدید افکار کے لیے تنگ نظری اور عجیب سی گھٹن پیدا کر دی ہے۔ مغربی تہذیب کے مرکز میں بیٹھ کر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے قومی رہنما ایک فرد میں بے چین روح، پیہم ترقی و بہتری، رجائیت، عقلیت پسندی، اعتماد اور یقین جیسی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔
وہ ایک ایسے مثالی فرد کا خواب دیکھتے تھے جو مسلسل بہتری، ترقی اور سماج میں مثبت تبدیلی لانے پر یقین رکھتا ہو۔ پھر میں نے پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر دوڑائی اور سوچنے لگا: ہم نئے چینلجز سے عہدہ برا ہونے کے لیے کوئی متفقہ حل (اجتہاد) تلاش کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟ ہم اپنے اداروں کو مضبوط اور بہتر کیوں نہیں بنا سکے، تاکہ وہ لوگوں کے مسائل پر رہنمائی فراہم کرتے؟ اقبال، جناح اور سرسید کی ارواح افسردہ نظر آ رہی تھیں، لیکن وہ اس کے باوجود پاکستان کے مستقبل کے لیے پرامید تھیں۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے یہ جذبات اپنے ہم وطنوں تک پہنچاؤں گا۔
رائل کورٹ آف جسٹس میں صاحب حکمت منصفوں سے ملنے کا موقع ملا، جو لوگوں کی دادرسی کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ صاحب علم وکلاء اپنے مقدمات کے لیے پوری طرح تیار ہو کر آئے تھے۔ دیگر عدالتی عملہ موثر انداز میں نظم و ضبط کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پوری عدالتی کاروائی کو ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ شہریوں کو اپنی عدالتوں پر مکمل اعتماد ہے، اور وہ انہیں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
عام شہریوں کو عدالتی کاروائی دیکھنے کی اجازت ہے۔ سکول اور کالجز اپنے طلباء کو عدالتی کاروائی دیکھنے کے لیے بھیجتے ہیں، تاکہ وہ عدالتی نظام سے جانکاری پیدا کر سکیں۔ چنانچہ بچے آغاز میں ہی معاشرے میں قانون کی ضرورت اور قانون کی حکمرانی کی اہمیت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لاء سوسائٹی اچھی خدمات کی فراہمی کے لیے پیشہ ور وکلاء کو مسلسل تربیت فراہم کرتی ہے اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے۔ دوسری طرف، ہماری بار کونسلز کو قانون کے شعبے میں بہتری سے زیادہ اپنی داخلی سیاست مرغوب ہے۔
برطانیہ کی سپریم کورٹ جا کر وہاں کے نظام انصاف سے متعلق مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ اور عدالت عالیہ کے جج صاحبان اکٹھے بیٹھ کر قانون کے اہم حصوں پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں تاکہ نظام انصاف کے تعلیمی اور عملی پہلوؤں کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے۔ یہاں پھر وطن عزیز کا خیال آیا، جہاں عدالتوں میں عمومی طور پر قانون کی علمی بحثوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
چنانچہ ہمارے عدالتی فیصلوں میں حقائق اور قانون کا ذکر تو موجود ہوتا ہے، لیکن اس کے پیچھے موجود قانون کی روح اور فلسفہ (jurisprudence) غائب ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے وکلاء، جج صاحبان اور ریاست کے دوسرے ملازمین میں نقد و نظر کی صلاحیت پیدا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں، جس کا نتیجہ بری حکمرانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آزادانہ تنقیدی سوچ اور سوالات کرنے کو ہمارے معاشرے کے طے شدہ پیمانوں کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ طے شدہ معیار حتمی سچائی نہیں ہیں۔یہ بات صرف عدالتی نظام تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اسے خاندانی نظام، تعلیم اور دوسرے شعبوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم ہر شعبہ زندگی میں اندھی تقلید اور جمود کا شکار ہیں۔
چونکہ میں یونیورسٹی آف لندن کی دعوت پر آیا تھا، میرا زیادہ تر وقت وہاں گزرا۔ مجھے اس کے ساتھ آکسفورڈ اور کیمبرج میں بین الاقوامی قانون اور فلسفہ قانون پر مختلف علمی مباحث میں شریک ہونے کا موقع بھی ملا۔ برٹش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ کمپریٹو لاء اور رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز میں منعقد ہونے والی کچھ مباحث میں بھی شریک ہوا۔ ان دانش گاہوں میں قابل پروفیسرز سے مل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، جو میرے لیے ایک شاندار تجربہ تھا۔
ایڈروڈ سعید اور پاکستا نی دانشور اقبال احمد کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ان اداروں میں منعقد ہونے والی مباحث میں طلباء اور اہل علم پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی جامعات تخلیقی اور اوریجنل تحقیق کے لیے اپنے طلباء کو تیار کرتی ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں کو مختلف نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کرتے ہوئے، اسے مختلف سیاق و سباق میں سمجھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ طالب علم شائستگی کے ساتھ اپنے اساتذہ کے افکار کو چیلنج بھی کر سکتے ہیں۔
پوری دنیا سے آنے والے دانشور ان اداروں میں اساتذہ اور طالب علموں کے سامنے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہیں۔ مختلف تصورات کی تعبیر مختلف ہوتی ہے اور اسے کسی خاص وقت اور جگہ کے پس منظر کے ساتھ دیکھا اور سمجھا نہیں جا سکتا۔ میرے خیال میں علم کا یہ تصور ہمارے معاشرے میں فکر تازہ پیدا کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
مغرب میں تعلیمی ادارے ارباب بست و کشاد کو پالیسی سازی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں، جبکہ ہمارے تعلیمی ادارے یہ مثبت کردار ادا کرنے سے معذور ہیں۔ دوسری طرف ہماری حکومتی اور انتظامی حکمت عملی وقتی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کی جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے سخت گیر اور تنگ نظر رجحانات کا فکری محاذ پر مقابلہ کرتے ہوئے آزادانہ سوچ کے لیے راہ ہموار کریں، اور دوسری طرف ریاست کے اداروں کے ساتھ اشتراک سے ملک میں امن اور ترقی کے لیے کام کریں۔
کچھ ہفتے ایک برطانوی خاندان کے کرائے دار کی حیثیت سے رہنے کا اتفاق بھی ہوا، جو اپنی جگہ دلچسپ تجربہ تھا۔ دراصل میرے میزبان نے اس رہائش کا انتظام اس مقصد کے لیے کیا تھا کہ میں برطانیہ کے خاندانی نظام سے متعلق واقفیت حاصل کر سکوں۔ کچھ ہی دنوں میں، میں نے خاندان کے افراد اور ان کی پالتو بلی سے شناسائی پیدا کر لی۔
اکثر و بیشتر ہم نے آپس میں برطانوی اور پاکستانی کھانوں کا تبادلہ بھی کیا۔ کچھ عرصہ بعد میں گوڈنیف کالج کی اقامت گاہ میں منتقل ہو گیا، جو لندن کے مرکز میں واقع ہے۔ یہاں مجھے لائق، ذہین طلباء اور اصحاب علم کی صحبت میں رہنا نصیب ہوا۔ اس کے علاوہ کھانے کی میز پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا، جہاں موسیقی سے نینو ٹیکنالوجی تک تقریباً ہر موضوع پر گفتگو ہوئی۔ پاکستان کے بارے میں کچھ لوگ بالکل نہیں جانتے تھے، جبکہ دوسروں کے ذہن میں ایک کمزور، غریب، انتشار اور خانہ جنگی کے شکار ملک کا خاکہ تھا۔ ان کو اس سے تھوڑا مختلف سوچنے پر آمادہ کرنا مشکل کام تھا۔
ہفتے کے اختتام پر اپنے پاکستانی دوستوں سے ملنے جایا کرتا تھا۔ سفر کے دوران میں تین طرح کے اعلانات سننے کا عادی ہو گیا۔ ٹیوب میں: ''فاصلہ رکھیں'' ، بس میں: ''اوپر کے حصے میں جگہ خالی ہے'' اور لفٹ میں: ''دروازہ کھلنے لگا ہے۔'' ان الفاظ سے مجھے احساس ہوا کہ اگر ایک فرد کو اپنے موجودہ مقام کا علم ہو، اور اس کی نظریں کسی اونچے مقصد کے حصول پر مرکوز ہوں، اس کے لیے کئی دروازے اور مواقع کھلے ہوتے ہیں۔ میرے پاکستانی دوستوں کی اکثریت ان ہدایات کو نظرانداز کر دیتی تھی، اور وہ مغربی لوگوں کی مثبت اقدار جیسے صحت مند زندگی، تعلیم اور نظم و ضبط وغیرہ پر بھی عمل پیرا نہیں ہوتے تھے۔
میں نے محسوس کیا کہ ان کے بچے یہاں خود کو غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے گھر اور باہر کے رہن سہن کے فرق میں کوئی مطابقت پیدا نہیں کر سکتے۔ میں نے کچھ ہفتے اپنے پاکستانی دوست افتخار کے گھر قیام کیا۔ ایک دن اس کی سات سالہ بیٹی فاطمہ اپنی والدہ کے ساتھ بڑی دلچسپ گفتگوکر رہی تھی۔ فاطمہ نے اپنے سکول میں ہونے والی کرسمس پارٹی کا ذکر کیا۔ اس کی ماں نے بتایا: ''ہم مسلمان ہیں، ہم کرسمس نہیں مناتے۔'' فاطمہ اپنی سکول کی کتاب لے کر میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ''انکل دیکھیں، میری کتاب میں کرسمس کی تقریبات کے بارے میں لکھا ہے، لیکن امی کہتی ہیں کہ میں اس میں شرکت نہیں کر سکتی۔ ایسا کیوں ہے؟'' اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات تھے۔
مختلف باتوں کو سیکھنے کا یہ تجسس پاکستانی بچوں میں بھی پیدا کرنا چاہیے۔ اگلے دن افتخار کے بچے میرے پاس ایک کارڈ لائے، جس میں لکھا تھا: ''ہم اپنی امی اورابو سے محبت کرتے ہیں، لیکن ہم اپنے انکل سے بھی محبت کرتے ہیں۔'' اس طرح کے معصوم سے واقعات سے لندن میں میرا دل لگا رہا۔ دوسری طرف، لندن میں مقیم کچھ پڑھے لکھے پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، جو مغربی اقدار کے مطابق ڈھلتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہر قومیت یا گروہ دوسروں کی اقدار کا احترام کر کے اپنی منفرد شناخت قائم رکھ سکتا ہے۔
اس بات کا ادراک بھی تکلیف دہ ہے کہ خرچ کے معاملے میں ہم مسلمانوں کی ترجیحات درست نہیں۔ برطانیہ میں، میں نے ایک قبرستان دیکھا، جسے ماربل کی سلوں سے بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مسجد کے اکاؤنٹ میں ڈھائی کروڑ پاؤنڈ موجود تھے۔ ظاہر ہے مساجد پر خرچ کرنا بری بات نہیں، لیکن ہمیں تعلیمی ادارے، فلاحی ہسپتال، لائبریریز اور ریسرچ سنٹرز کے قیام کے لیے بھی اپنی رقم خرچ کرنی چاہیے۔ قرآن پاک کا پہلا حکم ہی پڑھنے سے متعلق تھا: پڑھیے اپنے رب کے نام سے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اللہ اور رسولﷺ کو تو مانتے ہیں، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو متنازع نظریات سے خطرہ ہے، جبکہ اسلام کو زیادہ نقصان اس سے پہنچ رہا ہے کہ ہم نے جدید فکرکے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی۔
کیا بہتر انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، صاف خوراک، سکول، ہسپتال، بلدیاتی ادارے، عدالتیں، فرض شناس سرکاری ملازم اور جائز کاروبار، ہمارے بنیادی حقوق میں شامل نہیں ہیں؟ کیا صفائی کو نصف ایمان نہیں کہا گیا؟ ایسے مذہب کا کیا کام، جس میں دوسروں کی بھلائی کا نہ سوچا جائے۔ کیا ہم کرپشن کو کارنامہ، دھوکہ بازی کو ذہانت اور استحصال کو چالاکی کا نام نہیں دیتے؟ قانون کو توڑنا کیا ہمارے ہاں طاقت کی علامت نہیں ہے؟ مغرب میں برا انفراسٹرکچر علاقے کے مکینوں کی توہین سمجھا جاتا ہے، جبکہ ہم بدترین حالات میں مطمئن رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوان سیاستدانوں کے لیے کمپئین کر کے انہیں جتواتے ہیں، مگر ان کے سامنے اپنے بنیادی حقوق کے لیے لب کشائی کی جسارت بھی نہیں کرتے۔
یورپ کی ترقی رجائیت، سائنسی ایجادات اور معاشی استحکام کے رہین منت ہے۔ مگر اسے عالمی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کو چیلنج کرتے ہوئے عام لوگوں تک دولت کی انصاف سے تقسیم اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ مغرب کو اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغرب اور دوسرے ممالک کو باہمی اشتراک کے پہلو تلاش کر کے دنیا بھر میں امن اور خوشحالی کے لیے مشترکہ کام کرنا چاہیے۔ اس امید کے ساتھ، میں نے جہاز کی کھڑکی سے لندن کو الوداع کہا۔
ہم پاکستانی یہ اسباق حاصل کر سکتے ہیں:
٭ پاکستان میں بسنے والے مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو کھلے ذہن کے ساتھ صحت مند مکالمہ کرنا چاہیے تاکہ باہمی عدم اعتماد کی فضا ختم ہو۔ ہمیں پاکستان کی ترقی اور استحکام کے نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کر کے اعلیٰ سطح پر مباحث کا انعقاد کرنا چاہیے، جسے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے۔
٭ تعلیمی نظام اور نصاب میں بہتری اور بعض جگہوں پر ہمہ جہت تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
٭ ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ، عالمانہ اور معیاری مواد نشر اور شائع کرے۔ اصحاب علم اور سنجیدہ فکر کے حامل لوگوں کو پذیرائی دی جائے، جو ملکوں کو درپیش طویل المدتی مسائل کا حل پیش کریں۔
میرے خیال میں یہ تجاویز پاکستان کو برداشت، اعتدال، انصاف، امن، امید، ترقی اور جمہوریت کی راہ پر گامزن کر دیں گی۔ مگر اس کے لیے ہم سب کو مل کر سخت جدوجہد کرنا ہو گی۔
٭٭
برطانیہ میں چھ ماہ قیام کے دوران مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھ کر خوشی ہوئی، لیکن برطانیہ کا وطن عزیز کے حالات سے موازنہ مجھے اکثر افسردہ بھی کر دیتا تھا۔ ہیتھرو ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو گویا میں ایک نئی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔ ایک دوست کے ساتھ زیر زمین ریل (جسے ٹیوب کہا جاتا ہے) کے ذریعے اپنی عارضی قیام گاہ کے لیے روانہ ہوا، جو پریمروز ہل (Primrose Hill) میں واقع تھی۔ پہلی نظر میں ہی ٹیکنالوجی اور ثقافتی میدان میں ان کی حیران کن ترقی آپ کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ لندن ایک جدید، کثیرالثقافتی اور چہل پہل والا شہر ہے۔
میرے لیے سب سے پہلا چیلنج یہ تھا کہ یہاں مجھے کھانا پکانے سے صفائی ستھرائی تک ہر کام خود کرنا تھا۔ دوست نے مجھے کھانا پکانا اور صفائی کرنا سکھایا۔وطن عزیز کی یاد ایک مرتبہ پھر دل میں آئی۔
مجھے ایشیائی خواتین کی مشقت اور ایثار کا احساس ہوا۔ وہ پورے خاندان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، اس کے باوصف ان کو سراہنا تو کجا، اکثر اوقات ان کی خدمات کا اعتراف بھی نہیں کیا جاتا۔ اگلی صج ریجنٹس پارک میں یہ منظر دیکھا کہ بزرگ و جوان، خواتین و حضرات اپنے پالتو کتوں کے ہمراہ جاگنگ میں مصروف ہیں۔ کتے اپنے مالکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور خوش نظر آ رہے تھے، کیوں کہ وہ ان کے ساتھ چل پھر سکتے تھے۔ یورپ میں جانوروں کو خصوصی حقوق حاصل ہیں، جبکہ ہمارے ہاں انسانوں کو بھی دھتکار دیا جاتا ہے۔
عجیب و غریب رویے اور سماجی تنگ نظری، ہمارے بچوں، خواتین اور غریبوں کی مسکراہٹوں کو ابتدا میں ہی ختم کر دیتی ہے۔ ان خیالات کو پرے دھکیلتے ہوئے میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ جاگنگ شروع کی، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔ اپنی جسمانی برداشت (Stamina) کے بارے میں میری خوش فہمی رفع ہو گئی۔ بہرحال اس سے مجھے صحت مند زندگی گزارنے سے متعلق اچھا سبق ملا اور میں نے اگلے ہی روز نفیلڈ ہیلتھ کلب کی رکنیت لے لی۔
چونکہ شہر میں نیا تھا، اس لیے چند دن مختلف مقامات کی سیاحت میں اس طرح گزار دیئے، جیسے کوئی مہم جو خزانے کی تلاش میں پھرتا ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے میں کالونیل دور سے موجودہ برطانیہ تک، تاریخ کے مختلف ادوار میں سفر کرتا رہا ہوں۔ دریائے ٹیمز کے کنارے چہل قدمی کرنا، بڑا شاندار تجربہ تھا۔ یہاں شیکسپئیر تھیٹر، لندن برج اور شارڈ ٹاور (جو یورپ کا بلند ترین ٹاور ہے) جیسے قابل دید مقامات ہیں۔ برٹش میوزیم میں قدیم اور جدید تہذیبوں کو محفوظ کیا گیا ہے، جو ہمیں عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی ہیں۔ برٹش لائبریری میں کئی تاریخی کتابیں اور کاغذات موجود ہیں۔
نویں صدی کا قرآن پاک یہاں محفوظ ہے۔ نمایاں سائنسدانوں، آرٹسٹوں اور دیگر اصحاب علم کی تحریروں کے اصل مسودوں کو بھی اکٹھا کیا گیا ہے۔ سینٹ پال کیتھڈرل مسیحت کی علامت کے طور پر شہر کے وسط میں موجود ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق وہاں لوگوں نے مذہب کو سماجی ضرورت کے طور پر مسترد کر دیا ہے اور یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ تاہم سیاست میں ابھی تک مذہب کا عمل دخل ہے، برطانوی حکومت چرچ آف انگلینڈ (ایک مخصوص مذہبی تنظیم) کی سرپرستی کرتی ہے، تاہم سماجی معاملات میں حکومت مختلف فرقوں کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھتی۔
اپنے قیام کے تیسرے ہفتے مجھے لنکنز ان، لاء سوسائٹی، رائل کورٹس آف جسٹس اور برطانوی سپریم کورٹ جانے کا موقع ملا۔ لنکنز ان میں مجھے قائد اعظم، علامہ اقبال اور سرسید کی یاد آئی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہاں ان کی روح مجھ سے پاکستان کے بارے میں سوالات کر رہی ہے۔انگریزوں سے برصغیر کی آزادی اور پھر دو الگ ممالک کے قیام کے لیے جناح اور گاندھی کی جدوجہد کو یاد کیا۔ میں نے سوچا امید پر دنیا قائم ہے۔ تاہم میں نے بانیان پاکستان کے سامنے تسلیم کیا کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ مجھے انہیں بتانا پڑا کہ ہمارے ہاں عمومی طور پر قانون کے احترام کا چلن نہیں ہے۔ حق زندگی اور مذہب کی آزادی جیسے بنیادی انسانی حقوق کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ہمارے ہاں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے، دوسروں کے حقوق پر غیرقانونی قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔
ہم نے نہ تو اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھا ہے اور نہ سرسید کی تعلیم کے فروغ اور فکری تنوع کے لیے جدوجہد کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی ایک ایسے معاشرے کا تقاضا کرتا ہے جو جامد نہ ہو، جہاں وقت کے ساتھ ساتھ علم اور اخلاقیات ارتقائی منازل طے کریں۔ جبکہ سرسید کھلے ذہن کے ساتھ علم کی جستجو کو نیکی کا درجہ دیتے ہیں۔ تعلیم اور ترقی کے ان رجحانات کو فروغ دینے کے بجائے، ہم نے اپنے ہاں بڑھتی ہوئی مادہ پرستی کے ساتھ جدید افکار کے لیے تنگ نظری اور عجیب سی گھٹن پیدا کر دی ہے۔ مغربی تہذیب کے مرکز میں بیٹھ کر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے قومی رہنما ایک فرد میں بے چین روح، پیہم ترقی و بہتری، رجائیت، عقلیت پسندی، اعتماد اور یقین جیسی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔
وہ ایک ایسے مثالی فرد کا خواب دیکھتے تھے جو مسلسل بہتری، ترقی اور سماج میں مثبت تبدیلی لانے پر یقین رکھتا ہو۔ پھر میں نے پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر دوڑائی اور سوچنے لگا: ہم نئے چینلجز سے عہدہ برا ہونے کے لیے کوئی متفقہ حل (اجتہاد) تلاش کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟ ہم اپنے اداروں کو مضبوط اور بہتر کیوں نہیں بنا سکے، تاکہ وہ لوگوں کے مسائل پر رہنمائی فراہم کرتے؟ اقبال، جناح اور سرسید کی ارواح افسردہ نظر آ رہی تھیں، لیکن وہ اس کے باوجود پاکستان کے مستقبل کے لیے پرامید تھیں۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے یہ جذبات اپنے ہم وطنوں تک پہنچاؤں گا۔
رائل کورٹ آف جسٹس میں صاحب حکمت منصفوں سے ملنے کا موقع ملا، جو لوگوں کی دادرسی کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ صاحب علم وکلاء اپنے مقدمات کے لیے پوری طرح تیار ہو کر آئے تھے۔ دیگر عدالتی عملہ موثر انداز میں نظم و ضبط کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پوری عدالتی کاروائی کو ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ شہریوں کو اپنی عدالتوں پر مکمل اعتماد ہے، اور وہ انہیں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
عام شہریوں کو عدالتی کاروائی دیکھنے کی اجازت ہے۔ سکول اور کالجز اپنے طلباء کو عدالتی کاروائی دیکھنے کے لیے بھیجتے ہیں، تاکہ وہ عدالتی نظام سے جانکاری پیدا کر سکیں۔ چنانچہ بچے آغاز میں ہی معاشرے میں قانون کی ضرورت اور قانون کی حکمرانی کی اہمیت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لاء سوسائٹی اچھی خدمات کی فراہمی کے لیے پیشہ ور وکلاء کو مسلسل تربیت فراہم کرتی ہے اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے۔ دوسری طرف، ہماری بار کونسلز کو قانون کے شعبے میں بہتری سے زیادہ اپنی داخلی سیاست مرغوب ہے۔
برطانیہ کی سپریم کورٹ جا کر وہاں کے نظام انصاف سے متعلق مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ اور عدالت عالیہ کے جج صاحبان اکٹھے بیٹھ کر قانون کے اہم حصوں پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں تاکہ نظام انصاف کے تعلیمی اور عملی پہلوؤں کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے۔ یہاں پھر وطن عزیز کا خیال آیا، جہاں عدالتوں میں عمومی طور پر قانون کی علمی بحثوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
چنانچہ ہمارے عدالتی فیصلوں میں حقائق اور قانون کا ذکر تو موجود ہوتا ہے، لیکن اس کے پیچھے موجود قانون کی روح اور فلسفہ (jurisprudence) غائب ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے وکلاء، جج صاحبان اور ریاست کے دوسرے ملازمین میں نقد و نظر کی صلاحیت پیدا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں، جس کا نتیجہ بری حکمرانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آزادانہ تنقیدی سوچ اور سوالات کرنے کو ہمارے معاشرے کے طے شدہ پیمانوں کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ طے شدہ معیار حتمی سچائی نہیں ہیں۔یہ بات صرف عدالتی نظام تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اسے خاندانی نظام، تعلیم اور دوسرے شعبوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم ہر شعبہ زندگی میں اندھی تقلید اور جمود کا شکار ہیں۔
چونکہ میں یونیورسٹی آف لندن کی دعوت پر آیا تھا، میرا زیادہ تر وقت وہاں گزرا۔ مجھے اس کے ساتھ آکسفورڈ اور کیمبرج میں بین الاقوامی قانون اور فلسفہ قانون پر مختلف علمی مباحث میں شریک ہونے کا موقع بھی ملا۔ برٹش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ کمپریٹو لاء اور رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز میں منعقد ہونے والی کچھ مباحث میں بھی شریک ہوا۔ ان دانش گاہوں میں قابل پروفیسرز سے مل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، جو میرے لیے ایک شاندار تجربہ تھا۔
ایڈروڈ سعید اور پاکستا نی دانشور اقبال احمد کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ان اداروں میں منعقد ہونے والی مباحث میں طلباء اور اہل علم پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی جامعات تخلیقی اور اوریجنل تحقیق کے لیے اپنے طلباء کو تیار کرتی ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں کو مختلف نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کرتے ہوئے، اسے مختلف سیاق و سباق میں سمجھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ طالب علم شائستگی کے ساتھ اپنے اساتذہ کے افکار کو چیلنج بھی کر سکتے ہیں۔
پوری دنیا سے آنے والے دانشور ان اداروں میں اساتذہ اور طالب علموں کے سامنے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہیں۔ مختلف تصورات کی تعبیر مختلف ہوتی ہے اور اسے کسی خاص وقت اور جگہ کے پس منظر کے ساتھ دیکھا اور سمجھا نہیں جا سکتا۔ میرے خیال میں علم کا یہ تصور ہمارے معاشرے میں فکر تازہ پیدا کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
مغرب میں تعلیمی ادارے ارباب بست و کشاد کو پالیسی سازی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں، جبکہ ہمارے تعلیمی ادارے یہ مثبت کردار ادا کرنے سے معذور ہیں۔ دوسری طرف ہماری حکومتی اور انتظامی حکمت عملی وقتی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کی جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے سخت گیر اور تنگ نظر رجحانات کا فکری محاذ پر مقابلہ کرتے ہوئے آزادانہ سوچ کے لیے راہ ہموار کریں، اور دوسری طرف ریاست کے اداروں کے ساتھ اشتراک سے ملک میں امن اور ترقی کے لیے کام کریں۔
کچھ ہفتے ایک برطانوی خاندان کے کرائے دار کی حیثیت سے رہنے کا اتفاق بھی ہوا، جو اپنی جگہ دلچسپ تجربہ تھا۔ دراصل میرے میزبان نے اس رہائش کا انتظام اس مقصد کے لیے کیا تھا کہ میں برطانیہ کے خاندانی نظام سے متعلق واقفیت حاصل کر سکوں۔ کچھ ہی دنوں میں، میں نے خاندان کے افراد اور ان کی پالتو بلی سے شناسائی پیدا کر لی۔
اکثر و بیشتر ہم نے آپس میں برطانوی اور پاکستانی کھانوں کا تبادلہ بھی کیا۔ کچھ عرصہ بعد میں گوڈنیف کالج کی اقامت گاہ میں منتقل ہو گیا، جو لندن کے مرکز میں واقع ہے۔ یہاں مجھے لائق، ذہین طلباء اور اصحاب علم کی صحبت میں رہنا نصیب ہوا۔ اس کے علاوہ کھانے کی میز پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا، جہاں موسیقی سے نینو ٹیکنالوجی تک تقریباً ہر موضوع پر گفتگو ہوئی۔ پاکستان کے بارے میں کچھ لوگ بالکل نہیں جانتے تھے، جبکہ دوسروں کے ذہن میں ایک کمزور، غریب، انتشار اور خانہ جنگی کے شکار ملک کا خاکہ تھا۔ ان کو اس سے تھوڑا مختلف سوچنے پر آمادہ کرنا مشکل کام تھا۔
ہفتے کے اختتام پر اپنے پاکستانی دوستوں سے ملنے جایا کرتا تھا۔ سفر کے دوران میں تین طرح کے اعلانات سننے کا عادی ہو گیا۔ ٹیوب میں: ''فاصلہ رکھیں'' ، بس میں: ''اوپر کے حصے میں جگہ خالی ہے'' اور لفٹ میں: ''دروازہ کھلنے لگا ہے۔'' ان الفاظ سے مجھے احساس ہوا کہ اگر ایک فرد کو اپنے موجودہ مقام کا علم ہو، اور اس کی نظریں کسی اونچے مقصد کے حصول پر مرکوز ہوں، اس کے لیے کئی دروازے اور مواقع کھلے ہوتے ہیں۔ میرے پاکستانی دوستوں کی اکثریت ان ہدایات کو نظرانداز کر دیتی تھی، اور وہ مغربی لوگوں کی مثبت اقدار جیسے صحت مند زندگی، تعلیم اور نظم و ضبط وغیرہ پر بھی عمل پیرا نہیں ہوتے تھے۔
میں نے محسوس کیا کہ ان کے بچے یہاں خود کو غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے گھر اور باہر کے رہن سہن کے فرق میں کوئی مطابقت پیدا نہیں کر سکتے۔ میں نے کچھ ہفتے اپنے پاکستانی دوست افتخار کے گھر قیام کیا۔ ایک دن اس کی سات سالہ بیٹی فاطمہ اپنی والدہ کے ساتھ بڑی دلچسپ گفتگوکر رہی تھی۔ فاطمہ نے اپنے سکول میں ہونے والی کرسمس پارٹی کا ذکر کیا۔ اس کی ماں نے بتایا: ''ہم مسلمان ہیں، ہم کرسمس نہیں مناتے۔'' فاطمہ اپنی سکول کی کتاب لے کر میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ''انکل دیکھیں، میری کتاب میں کرسمس کی تقریبات کے بارے میں لکھا ہے، لیکن امی کہتی ہیں کہ میں اس میں شرکت نہیں کر سکتی۔ ایسا کیوں ہے؟'' اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات تھے۔
مختلف باتوں کو سیکھنے کا یہ تجسس پاکستانی بچوں میں بھی پیدا کرنا چاہیے۔ اگلے دن افتخار کے بچے میرے پاس ایک کارڈ لائے، جس میں لکھا تھا: ''ہم اپنی امی اورابو سے محبت کرتے ہیں، لیکن ہم اپنے انکل سے بھی محبت کرتے ہیں۔'' اس طرح کے معصوم سے واقعات سے لندن میں میرا دل لگا رہا۔ دوسری طرف، لندن میں مقیم کچھ پڑھے لکھے پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، جو مغربی اقدار کے مطابق ڈھلتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہر قومیت یا گروہ دوسروں کی اقدار کا احترام کر کے اپنی منفرد شناخت قائم رکھ سکتا ہے۔
اس بات کا ادراک بھی تکلیف دہ ہے کہ خرچ کے معاملے میں ہم مسلمانوں کی ترجیحات درست نہیں۔ برطانیہ میں، میں نے ایک قبرستان دیکھا، جسے ماربل کی سلوں سے بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مسجد کے اکاؤنٹ میں ڈھائی کروڑ پاؤنڈ موجود تھے۔ ظاہر ہے مساجد پر خرچ کرنا بری بات نہیں، لیکن ہمیں تعلیمی ادارے، فلاحی ہسپتال، لائبریریز اور ریسرچ سنٹرز کے قیام کے لیے بھی اپنی رقم خرچ کرنی چاہیے۔ قرآن پاک کا پہلا حکم ہی پڑھنے سے متعلق تھا: پڑھیے اپنے رب کے نام سے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اللہ اور رسولﷺ کو تو مانتے ہیں، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو متنازع نظریات سے خطرہ ہے، جبکہ اسلام کو زیادہ نقصان اس سے پہنچ رہا ہے کہ ہم نے جدید فکرکے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی۔
کیا بہتر انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، صاف خوراک، سکول، ہسپتال، بلدیاتی ادارے، عدالتیں، فرض شناس سرکاری ملازم اور جائز کاروبار، ہمارے بنیادی حقوق میں شامل نہیں ہیں؟ کیا صفائی کو نصف ایمان نہیں کہا گیا؟ ایسے مذہب کا کیا کام، جس میں دوسروں کی بھلائی کا نہ سوچا جائے۔ کیا ہم کرپشن کو کارنامہ، دھوکہ بازی کو ذہانت اور استحصال کو چالاکی کا نام نہیں دیتے؟ قانون کو توڑنا کیا ہمارے ہاں طاقت کی علامت نہیں ہے؟ مغرب میں برا انفراسٹرکچر علاقے کے مکینوں کی توہین سمجھا جاتا ہے، جبکہ ہم بدترین حالات میں مطمئن رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوان سیاستدانوں کے لیے کمپئین کر کے انہیں جتواتے ہیں، مگر ان کے سامنے اپنے بنیادی حقوق کے لیے لب کشائی کی جسارت بھی نہیں کرتے۔
یورپ کی ترقی رجائیت، سائنسی ایجادات اور معاشی استحکام کے رہین منت ہے۔ مگر اسے عالمی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کو چیلنج کرتے ہوئے عام لوگوں تک دولت کی انصاف سے تقسیم اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ مغرب کو اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغرب اور دوسرے ممالک کو باہمی اشتراک کے پہلو تلاش کر کے دنیا بھر میں امن اور خوشحالی کے لیے مشترکہ کام کرنا چاہیے۔ اس امید کے ساتھ، میں نے جہاز کی کھڑکی سے لندن کو الوداع کہا۔
ہم پاکستانی یہ اسباق حاصل کر سکتے ہیں:
٭ پاکستان میں بسنے والے مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو کھلے ذہن کے ساتھ صحت مند مکالمہ کرنا چاہیے تاکہ باہمی عدم اعتماد کی فضا ختم ہو۔ ہمیں پاکستان کی ترقی اور استحکام کے نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کر کے اعلیٰ سطح پر مباحث کا انعقاد کرنا چاہیے، جسے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے۔
٭ تعلیمی نظام اور نصاب میں بہتری اور بعض جگہوں پر ہمہ جہت تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
٭ ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ، عالمانہ اور معیاری مواد نشر اور شائع کرے۔ اصحاب علم اور سنجیدہ فکر کے حامل لوگوں کو پذیرائی دی جائے، جو ملکوں کو درپیش طویل المدتی مسائل کا حل پیش کریں۔
میرے خیال میں یہ تجاویز پاکستان کو برداشت، اعتدال، انصاف، امن، امید، ترقی اور جمہوریت کی راہ پر گامزن کر دیں گی۔ مگر اس کے لیے ہم سب کو مل کر سخت جدوجہد کرنا ہو گی۔