چائے کی پیالی میں طوفان
ہمارے ملک میں کوئی انقلاب آیا ہے نہ آئندہ اس قسم کا کوئی امکان ہے۔
جب سے آزاد عدلیہ وجود میں آئی ہے ، اس کے کسی فیصلے میںایک لفظ بھی ایسا نہیں آیا
جس سے مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اختلاف کیا ہو۔ وہ ہر فیصلے کے ہر حرف اور ہر لفظ کو مقدس قرار دیتی رہی اور چودھری نثار علی ہمیشہ ان پر من و عن عملدرآمد کا مطالبہ کرتے تھے۔ ماضی میں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی والوں کے خلاف انکوائریاں بھی ایف آئی اے سے کروائیں اور انکوائری افسروں کا انتخاب بھی خود ہی کیا۔ یہ ایجنسی اس وقت بھی وزیر داخلہ رحمان ملک کے ماتحت تھی۔ اصغر خان کیس میں میاں نوازشریف سمیت متعدد سیاستدانوں پر الیکشن میں دھاندلی کے لئے آئی ایس آئی سے مختلف مالیت کی رقوم لینے کا ذکر کیا گیا ہے، جنہیں ثابت کرنے کیلئے کوئی دستاویزی ثبوت موجودنہیں۔فیصلے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ 88ء کے الیکشن پر پہلے ہی سوالیہ نشانات تھے، اب سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ 90ء کا الیکشن بھی چرایا گیا ۔ اس حقیقت کو بالواسطہ یا کھلے الفاظ میں جنرل(ر) اسلم بیگ ان کے ساتھی نجی ٹی وی چینلوں پر پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔
ایجنسیوں سے پیسہ لینا یا الیکشن میں ووٹ چرانا یا فراڈ کرنا پاکستان میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس لئے ملزموں کو خود پریشان ہونے کی کوئی ضرورت ہے نہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ایسی دھمکیاں دینے کی کہ ذمہ داروں کو ہر صورت سز ا ملے گی اور ان سے ''پائی پائی'' واپس لیں گے۔ وصولی کا جو طریقہ کار انہوں نے بیان کیا ہے وہ برطانیہ میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ وہاں ایسے بڑے بڑے نادہندگان جن کے پاس ادائیگی کے لئے کچھ نہ ہو کے خلاف ڈگری جاری کر کییہ رعایت دے دی جاتی ہے کہ وہ ہفتہ وار یا ماہوار ایک پائونڈ جمع کرواتے رہیں۔ اس طرح اکثر نادہندگان واجب الادا رقم ادا کئے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
راجہ صاحب نے پائی پائی وصول کرنے کا جو نسخہ تجویز کیا ہے، اس پر عملدرآمد کیلئے پائی کا سکہ ڈھالنا پڑے گا جس پر اصل رقم سے زیادہ خرچہ ہو گا لیکن وصولی تو کرنی ہے چاہے خرچہ 8گنا کیوں نہ آ جائے۔ سپریم کورٹ نے رقم لینے والے سیاستدانوں سے سود سمیت پیسہ وصول کرنے کا حکم دیا ہے اور 1990ء کے الیکشن میں دھاندلی پر سابق آرمی چیف جنرل(ر) اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آئی جنرل(ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
ہمارے ملک میں جنرل یحییٰ خان کو توپوں کی سلامی دے کر سپردخاک کیا گیا ہے۔ جنرل ضیاء جمہوریت ملیا میٹ کر کے فیصل مسجد کے احاطے میں دفن ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف منتخب ادارے توڑنے 'وزیر اعظم کو جیل میں ڈالنے اور جلا وطن کرنے کے علاوہ 2002ء میں جعلی الیکشن کروانے اور مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے باوجود پوری شان و شوکت کے ساتھ اسلام آباد سے رخصت ہوئے۔
ہمارے ملک میں کوئی انقلاب آیا ہے نہ آئندہ اس قسم کا کوئی امکان ہے۔ یہاں کوئی مائی کا لال جنرل(ر ) اسلم بیگ اور جنرل(ر) درانی کے دروازے پر دستک دے گا؟ رہ گیا رائے ونڈ تو ایف آئی اے کو 1988ء کے دور میں یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ کوئی نازیبا حرکت کی تو پولیس انہیں گرفتار کر کے رائے ونڈ تھانے میں بند کر دے گی۔
غیر جانبدار کمیشن بنانے کے سلسلے میں چودھری نثار علی کی تجویز بہت معقول ہے۔ ایک آدھ سال غیر جانبدار ارکان ڈھونڈنے میں لگ جائے گا اور کمیشن کے قیام پر کسی نتیجے میں پہنچنے سے پہلے الیکشن ہو جائیں گے ، ممکن ہے 1990ء والے ہی دوبارہ آ جائیں اور اس طرح سپریم کورٹ کے اس تازہ ترین تاریخی فیصلے پر عملدرآمد یقینی ہو جائے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اس حوالے سے تاریخ ساز ہے کہ یہ بات سچ ثابت ہو گئی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے ریاستی وسائل اور شاطر دماغ استعمال کئے گئے اور پاکستان آج جن حالات میں گھرا ہوا ہے اس کی بنیاد اسی دھاندلی نے ڈالی تھی۔ پاکستان کے آج کے حالات کی بیشتر خرابیاں اس سیاسی دشمنی کا نتیجہ ہیں جو آئی جے آئی بنانے کے بعد ملکی عوام کے دو ںحصوں میں اور پھر اس سے اوپر سیاسی قیادت کے درمیان پیدا کی گئی۔ آئی جے آئی بنا کر بھٹو مخالف کیمپ کو ایک جذباتی بخار میں تبدیل کیا گیا اور اس کے بعد اس بخار کو چار حکومتوں کے خاتمے کے لئے استعمال کیا گیا ۔ اسی غلام اسحاق خان نے جو آئی جے آئی بنوانے کے ماسٹر مائنڈ تھے، بینظیر کی پہلی حکومت کا خاتمہ کیا۔
پھر بینظیر کے بعد جب نواز شریف کو برسر اقتدار لایا گیا تو نصف عرصہ گزرنے کے بعد ان کی حکومت کے بھی درپے ہو گئے اور تب پتہ چلا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی پرورش اس لئے نہیں کی تھی کہ وہ انہیں برسراقتدار رکھنا چاہتی تھی بلکہ وہ تو محض ایک مہرے تھے جن کو سیاسی عدم ا ستحکام پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ وہ سیاسی عدم استحکام جو اسٹیبلشمنٹ کے لئے ہمیشہ تازہ اور خالصتاً آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ اسی عدم استحکام کو بینظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کے لئے استعمال کیا گیا اور پھر وہی نواز شریف کی دوسری حکومت کے خاتمے کے لئے بھی کام آیا۔ یہ کھیل جنرل مشرف کے بعد بھی جاری رہتا لیکن دو بڑے واقعات ہو گئے ۔ ایک یہ کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے فوراً یہ فیصلہ کیا کہ اس بار صدر بھی پیپلز پارٹی کا ہو گا اور صدر کوئی اور نہیں ' وہ خود ہوں گے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صدر ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت یا جمہوری حکومت کا خاتمہ ہمیشہ صدر کا آفس استعمال کر کے ہی کیا ہے۔ اگر وہ خود صدر بن جائیں تو اسٹیبلشمنٹ ''معذور''ہو جائے گی اور جمہوریت چلتی رہے گی۔
ابھی کچھ روز پہلے ایک محترم شخصیت کی طرف سے یہ تبصرہ سامنے آیا ہے کہ ملک میں اگر جمہوریت قائم ہے تو اس کا کریڈٹ جنرل کیانی کو جاتا ہے ۔ یہ ضرور سچ ہو گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر زرداری صدر نہ ہوتے تو جمہوری دور اس مرتبہ دو اڑھائی برس بھی نہ چلتا' پہلے سال ہی اس کا خاتمہ ہو جاتا۔
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران یہ بالکل سچ کہا ہے کہ اگر غلام اسحاق اور اسلم بیگ اس وقت مذکورہ سازش نہ کرتے تو پھر نہ 12اکتوبر ہوتا نہ 3نومبر ۔12اکتوبر کو جنرل مشر ف نے مارشل لاء لگایا تھا اور 3نومبر کو انہی جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اب یہ دیکھنا ہو گا کہ اسلم بیگ اور جنرل اسددرانی کے خلاف
کارروائی کی شکل کیا ہو گی جس کی ہدایت سپریم کورٹ نے کی ہے۔ ان کا کورٹ مارشل ہو گا یا آئینی عدالت میں مقدمہ چلے گا؟ کارروائی کی نوعیت کیا ہو گی؟ یعنی محض اختیارات کے ناجائز استعمال کا مقدمہ چلایا جائے گا یا آئین سے بغاوت کا یعنی آرٹیکل6کی خلاف ورزی کا۔1990ء کی دھاندلی سے برسراقتدار آنے والوںسے رقوم وصول کرنے کیلئے کیاسلوک ہو گا؟
سوچتے رہئے اور انتظار فرمائیے۔فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ چائے کی پیالی میں طوفان ضرور اٹھے گا، پھر سب کچھ ٹھنڈا ٹھار ہو جائے گا۔