اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے سے منفی اثرات سامنے آنے لگے
سرکاری اور نجی اسکولوں میں بچوں کو پڑھائی، ہوم ورک، غیرحاضری اور شرارتوں پر سزائیں دی جاتی ہیں
UNITED NATIONS:
اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے سے ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، بچے والدین اور اساتذہ کے رویے سے تعلیم میں عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
ایکسپریس سروے کے مطابق کراچی کے سرکاری اور نجی اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دی جاتی ہے، بیشتر اسکولوں میں اساتذہ بچوں کو پڑھائی میں عدم دلچسپی، ہوم ورک نہ کرنے ،غیر حاضری اور شرارتیں کرنے پر سزائیں دیتے ہیں ان سزاؤں میں ہاتھ کی ڈیسک پر کھڑے کرنا، کلاس کے باہر کھڑے کرنا، ہتھیلیوں پر اسکیل مارنا،منہ پر طماچہ مارنا، کان موڑنا، اٹھک بیٹھک کرانا اور مرغا بنانے کی سزائیں شامل ہیں۔
ان سزاؤں سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں زیادہ شرارتی بچے مستقل سزائیں سہنے کی وجہ سے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں کئی بچوں کے ذہن میں مستقل سزائیں بھگتنے سے باغیانہ پن فروغ پاتا ہے اور وہ گھر یا اسکول سے بھاگنے لگتے ہیں، یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ایسے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں بچوں کی بہت بڑی تعداد اسکول نہیں جاتی، پاکستان میں 55 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور جو اسکول پہنچ جاتے ہیں ۔
انھیں اسکولوں میں سہولتوں کی کمی اور اساتذہ کے ظالمانہ رویے کا سامنا ہے، پاکستان میں والدین اور اساتذہ سمجھتے ہیں کہ بچے کی بہتر تربیت کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے۔
سماجی تنظیم ''پلان پاکستان'' کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق32 اسکولوں کے 137 اساتذہ سے انٹرویوکیے گئے جس کے مطابق 75فیصد اساتذہ کا کہنا تھا کہ بدتمیز اور ڈھیٹ بچوں کو جسمانی سزا دینا ضروری ہے جبکہ 84 فیصد والدین کا بھی یہی کہنا ہے کہ بدتمیز اور نافرمان بچوں کو جسمانی سزا دینا اساتذہ کے لیے ضروری ہے، آغاخان یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈیولپمنٹ نے کراچی میں20 سرکاری اور نجی اسکولوں میں ریسرچ کی جس میں انکشاف ہوا کہ والدین اور اساتذہ بچوں کو اس لیے مارتے ہیں کیونکہ وہ بچوں کی تربیت کے کسی اور طریقے سے ناواقف ہیں۔
بچوں کو اسکولوں میں جسمانی سزا دینے سے بچے کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے، لگاتار سزائیں بھگتنے سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور ان میں منفی سوچ پروان چڑھتی ہے،ان خیالات کا اظہار ماہر نفسیات نیلوفر سلطانہ نے گفتگو میں کیا ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں اور گھروں میں بچے مستقل جسمانی مارکھانے سے تشدد پسند اور ضدی ہوجاتے ہیں بچے اپنے مسئلے کا حل صرف تشدد میں ڈھونڈتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں انتہاپسندی اور عدم برداشت میں اضافہ ہورہا ہے، بیشتر بچوں پر تشدد کرنے کے اثرات وقت گزرنے کے بعد نمایاں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بالغ عمری میں مرگی کا دورہ اور فوبیا جیسے نفسیاتی امراض میں منتقل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے سے ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، بچے والدین اور اساتذہ کے رویے سے تعلیم میں عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
ایکسپریس سروے کے مطابق کراچی کے سرکاری اور نجی اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دی جاتی ہے، بیشتر اسکولوں میں اساتذہ بچوں کو پڑھائی میں عدم دلچسپی، ہوم ورک نہ کرنے ،غیر حاضری اور شرارتیں کرنے پر سزائیں دیتے ہیں ان سزاؤں میں ہاتھ کی ڈیسک پر کھڑے کرنا، کلاس کے باہر کھڑے کرنا، ہتھیلیوں پر اسکیل مارنا،منہ پر طماچہ مارنا، کان موڑنا، اٹھک بیٹھک کرانا اور مرغا بنانے کی سزائیں شامل ہیں۔
ان سزاؤں سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں زیادہ شرارتی بچے مستقل سزائیں سہنے کی وجہ سے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں کئی بچوں کے ذہن میں مستقل سزائیں بھگتنے سے باغیانہ پن فروغ پاتا ہے اور وہ گھر یا اسکول سے بھاگنے لگتے ہیں، یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ایسے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں بچوں کی بہت بڑی تعداد اسکول نہیں جاتی، پاکستان میں 55 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور جو اسکول پہنچ جاتے ہیں ۔
انھیں اسکولوں میں سہولتوں کی کمی اور اساتذہ کے ظالمانہ رویے کا سامنا ہے، پاکستان میں والدین اور اساتذہ سمجھتے ہیں کہ بچے کی بہتر تربیت کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے۔
سماجی تنظیم ''پلان پاکستان'' کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق32 اسکولوں کے 137 اساتذہ سے انٹرویوکیے گئے جس کے مطابق 75فیصد اساتذہ کا کہنا تھا کہ بدتمیز اور ڈھیٹ بچوں کو جسمانی سزا دینا ضروری ہے جبکہ 84 فیصد والدین کا بھی یہی کہنا ہے کہ بدتمیز اور نافرمان بچوں کو جسمانی سزا دینا اساتذہ کے لیے ضروری ہے، آغاخان یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈیولپمنٹ نے کراچی میں20 سرکاری اور نجی اسکولوں میں ریسرچ کی جس میں انکشاف ہوا کہ والدین اور اساتذہ بچوں کو اس لیے مارتے ہیں کیونکہ وہ بچوں کی تربیت کے کسی اور طریقے سے ناواقف ہیں۔
بچوں کو اسکولوں میں جسمانی سزا دینے سے بچے کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے، لگاتار سزائیں بھگتنے سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور ان میں منفی سوچ پروان چڑھتی ہے،ان خیالات کا اظہار ماہر نفسیات نیلوفر سلطانہ نے گفتگو میں کیا ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں اور گھروں میں بچے مستقل جسمانی مارکھانے سے تشدد پسند اور ضدی ہوجاتے ہیں بچے اپنے مسئلے کا حل صرف تشدد میں ڈھونڈتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں انتہاپسندی اور عدم برداشت میں اضافہ ہورہا ہے، بیشتر بچوں پر تشدد کرنے کے اثرات وقت گزرنے کے بعد نمایاں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بالغ عمری میں مرگی کا دورہ اور فوبیا جیسے نفسیاتی امراض میں منتقل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔