بھارت کی شرانگیزی پاکستان ورلڈ ٹی 20 میں کس طرح شریک ہوگا
امپائر علیم ڈارکوکیوں ہٹایا، جنوبی افریقہ سے سیریز کو ہی غیررسمی قرار دے دینا چاہیے تھا
بھارتی انتہاپسندی پر آئی سی سی کے ردعمل نے آصف اقبال کو مایوس کردیا، سابق کپتان کا کہنا ہے کہ علیم ڈار چھٹیوں پر نہیں، کونسل کی جانب سے دی گئی ڈیوٹی نبھارہے تھے، صرف پاکستانی امپائر کو کیوں ہٹایا گیا، حالات آفیشلز کیلیے سازگار نہیں تھے تو جنوبی افریقا کیخلاف سیریز کو ہی غیر رسمی قرار دینا مناسب فیصلہ ہوتا، سیاسی مقاصد کیلیے پیدا کیے جانے والے اس شرانگیز ماحول میں پاکستان ٹیم ورلڈٹوئنٹی میں کس طرح شرکت کرسکے گی۔
تفصیلات کے مطابق آصف اقبال نے ایک کالم میں کہا ہے کہ ممبئی میں شیو سینا کی جانب سے بی سی سی آئی ہیڈ کوارٹرز پر دھاوا بولے جانے کے بعد جو حالات ہوئے چیئرمین پی سی بی شہریار خان کو دہلی جاکر انتظارکرنے اور بھارتی بورڈکے سربراہ ششانک منوہر کے بجائے دوسرے درجے کی قیادت راجیو شکلا سے ملاقات کرنے کی ضرورت نہیں تھی،ان کو یہ کہتے ہوئے وطن واپس لوٹ آنا چاہیے تھا کہ اب اگلی ملاقات لاہور یا دبئی میں ہوگی، سیریز کا میزبان پاکستان ہونے کی وجہ سے اصولی طور پربات چیت کیلیے بھارتی عہدیداروں کا ہی دورہ کرنا بنتا تھا مگر ہم نے وہاں جاکرخفت اٹھائی۔
سابق کپتان نے کہا کہ علیم ڈار چھٹیوں پر نہیں بلکہ آئی سی سی کی جانب سے دی گئی ڈیوٹی نبھانے کیلیے بھارت میں موجود تھے، سیاسی وجوہات پر دھمکیاں ملنے کے بعد حالات سازگارنظرنہیں آرہے تھے تو صرف پاکستانی امپائر کو ہٹانے کے بجائے کونسل بی سی سی آئی کو پیغام دیتی کہ تمام آفیشلز کو تحفظ یقینی ہونے کے بعد ہی بھارت بھیجا جائے گا، ایسا نہ ہونے پرجنوبی افریقہ کیخلاف سیریز کو ہی غیر رسمی قرار دیتے ہوئے کہا جاتا کہ دونوں ملکوں کے بورڈز اتفاق رائے سے نجی طور پر امپائرز کا انتخاب کرلیں، آئی سی سی نے غلط رسم ڈالتے ہوئے صرف علیم ڈار کو دستبردارکروادیا جس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں۔
آصف اقبال نے کہا کہ سیاسی مقاصد کیلیے پیدا کیے جانے والے اس شر انگیز ماحول میں پاکستان ٹیم ورلڈٹوئنٹی میں کس طرح شرکت کرسکے گی، آئی سی سی بھارتی بورڈ کو خبردار کرے کہ اگر امن و امان کی صورتحال میں بہتری نہ آئی تو میگا ایونٹ کی میزبانی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
تاہم فی الحال اس طرح کا کوئی قدم اٹھائے جانے کاامکان نظر نہیں آتا،اب پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلہ کرے، حکام کو خود سوچنا ہوگاکہ قومی کرکٹرز کواس طرح کے ماحول میں کھیلنے کیلیے کہنا جائز بات ہوگی۔ انھوں نے کہاکہ ''بگ تھری'' کی حمایت کے عوض بی سی سی آئی سے معاہدے کی کوئی دستاویزی حیثیت نظرنہیں آتی کیونکہ اصل فیصلہ تو بھارتی حکومت کو کرنا ہے، باہمی سیریز میں بہت بڑا مالی فائدہ متوقع ہوتب بھی پی سی بی کا موجودہ طرز عمل کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تفصیلات کے مطابق آصف اقبال نے ایک کالم میں کہا ہے کہ ممبئی میں شیو سینا کی جانب سے بی سی سی آئی ہیڈ کوارٹرز پر دھاوا بولے جانے کے بعد جو حالات ہوئے چیئرمین پی سی بی شہریار خان کو دہلی جاکر انتظارکرنے اور بھارتی بورڈکے سربراہ ششانک منوہر کے بجائے دوسرے درجے کی قیادت راجیو شکلا سے ملاقات کرنے کی ضرورت نہیں تھی،ان کو یہ کہتے ہوئے وطن واپس لوٹ آنا چاہیے تھا کہ اب اگلی ملاقات لاہور یا دبئی میں ہوگی، سیریز کا میزبان پاکستان ہونے کی وجہ سے اصولی طور پربات چیت کیلیے بھارتی عہدیداروں کا ہی دورہ کرنا بنتا تھا مگر ہم نے وہاں جاکرخفت اٹھائی۔
سابق کپتان نے کہا کہ علیم ڈار چھٹیوں پر نہیں بلکہ آئی سی سی کی جانب سے دی گئی ڈیوٹی نبھانے کیلیے بھارت میں موجود تھے، سیاسی وجوہات پر دھمکیاں ملنے کے بعد حالات سازگارنظرنہیں آرہے تھے تو صرف پاکستانی امپائر کو ہٹانے کے بجائے کونسل بی سی سی آئی کو پیغام دیتی کہ تمام آفیشلز کو تحفظ یقینی ہونے کے بعد ہی بھارت بھیجا جائے گا، ایسا نہ ہونے پرجنوبی افریقہ کیخلاف سیریز کو ہی غیر رسمی قرار دیتے ہوئے کہا جاتا کہ دونوں ملکوں کے بورڈز اتفاق رائے سے نجی طور پر امپائرز کا انتخاب کرلیں، آئی سی سی نے غلط رسم ڈالتے ہوئے صرف علیم ڈار کو دستبردارکروادیا جس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں۔
آصف اقبال نے کہا کہ سیاسی مقاصد کیلیے پیدا کیے جانے والے اس شر انگیز ماحول میں پاکستان ٹیم ورلڈٹوئنٹی میں کس طرح شرکت کرسکے گی، آئی سی سی بھارتی بورڈ کو خبردار کرے کہ اگر امن و امان کی صورتحال میں بہتری نہ آئی تو میگا ایونٹ کی میزبانی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
تاہم فی الحال اس طرح کا کوئی قدم اٹھائے جانے کاامکان نظر نہیں آتا،اب پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلہ کرے، حکام کو خود سوچنا ہوگاکہ قومی کرکٹرز کواس طرح کے ماحول میں کھیلنے کیلیے کہنا جائز بات ہوگی۔ انھوں نے کہاکہ ''بگ تھری'' کی حمایت کے عوض بی سی سی آئی سے معاہدے کی کوئی دستاویزی حیثیت نظرنہیں آتی کیونکہ اصل فیصلہ تو بھارتی حکومت کو کرنا ہے، باہمی سیریز میں بہت بڑا مالی فائدہ متوقع ہوتب بھی پی سی بی کا موجودہ طرز عمل کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔