نئے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر وزیراعظم کا مستحسن فیصلہ

جنجوعہ صاحب کا عہدہ وفاقی وزیر مملکت کے برابر اور ان کا دفتر پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میں ہو گا۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

PESHAWAR:
یہ خبر بڑے یقین کے ساتھ شایع اور نشر کی گئی کہ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کو وزیر اعظم جناب نواز شریف کا خصوصی مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی مقرر کیا جا رہا ہے۔ یہ عہدہ جناب سرتاج عزیز کے پاس تھا جو وزیر اعظم صاحب کے مشیرِ خصوصی برائے امورِ خارجہ ہیں۔ جنرل ناصر جنجوعہ چند ہفتے قبل ہی فوج سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جنرل جنجوعہ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سرتاج عزیز کے کندھوں کا بوجھ نسبتاً کم ہو جائے گا اور وہ غیر منقسم ذہن کے ساتھ خارجہ امور پر اپنی توجہات مرکوز کر سکیں گے۔

جنجوعہ صاحب کا عہدہ وفاقی وزیر مملکت کے برابر اور ان کا دفتر پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میں ہو گا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا یہ ایک اور مستحسن فیصلہ ہے۔ یہ نیا تقرر وزیر اعظم اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان مزید اتحاد کا باعث بھی بنے گا اور فریقین کے باہمی تعاون میں اضافہ بھی ہو گا۔ غالباً یہ جنابِ سرتاج عزیز کی خارجہ امور میں بے پناہ مصروفیت کی وجہ ہی تھی کہ گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران نیشنل سیکیورٹی کمیٹی صرف چار بار اپنے اجلاس منعقد کر سکی۔ آخری میٹنگ ایک سال قبل ہوئی تھی۔

جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کے مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی بنائے جانے کی خبروں پر بھارتی اور بعض مغربی و امریکی اداروں کے پیٹ میں ابھی سے مروڑ اٹھنے لگے ہیں۔ امریکی میڈیا نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ جنرل جنجوعہ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بننے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے نواز شریف کی سویلین حکومت میں ایک اور بڑا عہدہ وصول کر لیا ہے۔ مغربی میڈیا کی یہ شرمناک حرکت ہے۔ معروف امریکی جریدے ''ٹائم'' نے اپنے 19 اکتوبر 2015ء کے شمارے میں جنرل جنجوعہ کے حوالے سے یہ سرخی جمائی ہے: The Pakistan Military Has Tightened its Control of the Country Security Policy یہ خبر ایک ہندو صحافی، رِشی آئنگر، کے نام سے شایع ہوئی ہے۔ اس میں دانستہ شرانگیزی سے کام لیا گیا ہے تا کہ میاں صاحب کی حکومت اور پاکستان کی عسکری قیادت کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دیا جا سکے۔ دوسری طرف جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی انٹیلی جنس بیورو (جو فوج ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے) کے سابق سربراہ اور پاکستان و اسلام دشمن شخص، اجیت ڈوول، کو اپنا نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بنایا تو ''ٹائم'' ایسے کسی امریکی جریدے کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہوئی کہ یہ تعیناتی تو بھارتی فوج کی طرف سے مودی کی منتخب حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کا ایک اقدام ہے۔ ''نیوز ویک'' اور امریکی اخبار ''نیویارک ٹائمز'' نے بھی جنرل جنجوعہ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بننے کی خبر پر ایسے ہی منفی خیالات کا اظہار کیا ہے۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ''ٹائم'' اور ''نیویارک ٹائمز'' کی شرانگیزیوں پر انھیں اسی طرح کی شَٹ اَپ کال دیں جس طرح ترک وزیر اعظم جناب طیب اردوان نے گزشتہ دنوں ''نیویارک ٹائمز'' کو سخت الفاظ میں جھاڑا ہے۔ اس امریکی اخبار نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے جناب اردوان کی حکومت پر بے بنیاد الزام عائد کیے اور بے جا تنقید بھی کی تو ترک وزیر اعظم نے مذکورہ اخبار کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اسے وارننگ دی: ''تم ترکی کے معاملات میں دخل اندازی سے باز آ جاؤ اور اپنی اوقات میں رہو۔'' اخبار کا منہ لٹک گیا۔ ''ٹائم'' میگزین نے یہ بھی ہوائی چھوڑ دی تھی کہ جنرل جنجوعہ مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی کا عہدہ سنبھال کر وزیر اعظم کے ساتھ واشنگٹن جا رہے ہیں۔ یہ بات سرے سے غلط ثابت ہوئی۔ مغربی اخبارات، جن کا ہمارے ہاں خاصا اعتبار پایا جاتا ہے، کو ایسی بے پرکی اڑاتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔ جنرل جنجوعہ کے حوالے سے امریکی اخبارات نے عین اس وقت فساد پھیلانے کی سازش کی جب نواز شریف صاحب امریکی دورے کے لیے واشنگٹن میں تھے۔


جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اسلام آباد میں بروئے کار نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، جو ایک مستحکم تھنک ٹینک بھی ہے اور افواجِ پاکستان کا ممتاز تربیتی ادارہ بھی، کے صدر بھی رہے ہیں۔ اگست 2013ء میں جب جنرل پرویز کیانی نے انھیں لیفٹیننٹ جنرل عالم خٹک کی جگہ کوئٹہ کا کورکمانڈر مقرر کیا تو بلوچستان کے حالات خاصے دگرگوں تھے۔ بھارتی مداخلتی ہاتھ کی کارفرمائیاں اور زیادتیاں زوروں پر تھیں۔ بعض مرکزِ گریز عناصر کی کارروائیاں حد سے متجاوز ہو رہی تھیں۔ ایسے پُر آزما حالات میں جنرل جنجوعہ صاحب کو ایک کڑے میدان میں اتارا گیا تھا۔ بلند توقعات کے ساتھ۔ وہ نہ صرف پاک فوج کی قیادت، منتخب حکومت اور بلوچ عوام کی توقعات پر پورا اترے بلکہ امیدوں سے بڑھ کر اپنا شاندار کردار ادا کیا۔ بلوچستان میں دشمنانِ پاکستان کا صفایا ہی نہ کیا بلکہ ان کے غیر ملکی پُشتی بانوں اور سرپرستوں کو بھی بے نقاب کیا۔

آج وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے رفقائے کار جس زبردست اعتماد کے ساتھ یو این او کے حکام، امریکی وزیر خارجہ اور مغربی سفارتکاروں کے سامنے بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں اور شیطانیوں کے ثبوت پیش کر رہے ہیں، ان ثبوتوں کو ناقابلِ تنسیخ دستاویزی شکل دینے میں جنرل ناصر جنجوعہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جنجوعہ صاحب کو نئی ذمے داریاں تفویض کیے جانے کی خبر پا کر سب سے زیادہ تکلیف بھارت کے سینے میں اٹھ رہی ہے۔ اب بھارتی سلامتی کونسل کے مشیر اجیت ڈوول کے بالمقابل پاکستان کی طرف سے ایک مضبوط اور تجربہ کار شخص کو سامنے لانے کی بات آئی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹھنڈے پسینے چھوٹنے لگے ہیں۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان بجا طور پر سیر کے مقابلے میں سوا سیر لایا ہے۔ یوں جنرل (ر) جنجوعہ کے انتخاب پر وزیر اعظم نواز شریف کو بھی بجا طور پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔

جنرل (ر) ناصر جنجوعہ صاحب نے بلوچستان میں سدرن کمانڈ کی عنانیں سنبھالتے ہی ناپسندیدہ عناصر سے نمٹنے کے لیے بیک وقت ''گاجر'' اور ''ڈنڈے'' کا استعمال کیا۔ ریاستِ پاکستان اور صوبہ بلوچستان کے خلاف معاندانہ رویہ رکھنے والوں سے وہ عسکری قوت سے بھی نبٹے اور صلح جویانہ اقدامات بھی کیے۔ انھیں مقامی منتخب سیاسی قیادت کا بھرپور تعاون بھی میسر رہا۔ یعنی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب بھی ان کے ہم قدم رہے اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی۔ بلوچستان میں جو عناصر حد سے تجاوز کرتے ہوئے غیروں کی انگلیوں پر ناچ رہے تھے، انھیں ان کی زبان میں جواب دیا گیا۔ جو ناراضیاں اور شکررنجیاں فراموش کرنے پر تیار ہوئے، انھیں محبت و اخوت کے ساتھ سینے سے بھی لگایا گیا اور تالیفِ قلب کے لیے ان کی مالی اعانت بھی کی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے بہتر اور پرامن مستقبل کے لیے جنجوعہ صاحب نے سخت محنت کی ہے۔ وہ جب سدرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے، بلوچستان انسر جنسی میں سلگ رہا تھا اور جب وہ اپنے فرائض سے سبکدوش کیے گئے، بلوچستان میں ریاست کے خلاف سرکشیدہ عناصر میں خاطر خواہ کمی آ چکی تھی۔

جب تک جنرل جنجوعہ کوئٹہ کے کور کمانڈر رہے، میڈیا اور پریس سے ان کا رابطہ قریبی بھی رہا اور مضبوط بھی۔ وہ ہر آپریشن اور اقدام کے حوالے سے میڈیا کو بریف کرتے رہے تا کہ قوم تک مثبت پیغام پہنچتا رہے اور شفافیت بھی برقرار رہے۔ پاکستان کے سینئر ترین اخبار نویسوں سے ان کی مسلسل ملاقاتیں رہتیں۔ تقریباً سبھی نے ان کی شخصیت، ان کے کیے گئے فیصلوں اور اٹھائے گئے عسکری اقدامات کی حمایت بھی کی اور تحسین بھی۔ یہ اجتماعی بیانیہ ہی ہے جس کے کارن اب وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کا عہدہ تفویض کیا ہے۔ قوم یقینا ان کی تجربہ کار شخصیت اور عسکری مشاہدات سے فیض یاب ہو گی۔ واقعہ یہ ہے کہ جنرل جنجوعہ ملٹی ڈائمنشنل شخصیت کے حامل ہیں۔

این ڈی یو کے صدر ہونے کے ناتے انھوں نے جو بے شمار اور شاندار میڈیا سیمینارز کروائے، اس اقدام نے انھیں جہاں ملکی و غیر ملکی صحافیوں سے بھی متعارف کروایا، وہیں وہ اس راز سے بھی آشنا ہوئے کہ میڈیا کی طاقت کو عسکری اداروں کی طاقت میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے۔ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ سوات آپریشن میں بھی خود شریک رہے اور ان مسلح پاکستان دشمنوں سے دو دو ہاتھ کیے جنھیں غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے مالی و اسلحی اشیرواد حاصل تھی۔ گویا وہ ٹی ٹی پی کے ظالمان کی نفسیات سے بھی براہ راست واقف ہیں۔ اب نئی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد یقینا ضربِ عضب آپریشن کی طاقت میں بھی اضافہ ہو گا اور بھارتی مفسد عناصر سے بھی وہ بخوبی نمٹ سکیں گے۔ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری منتخب سویلین اور عسکری قیادت کے لیے یکساں طور پر بے پناہ اثاثہ ثابت ہوں گے۔
Load Next Story