شیوسینا اور بھارتی عوام

20فیصد مسلمانوں اور کم و بیش اسی قدر دیگر تمام اقلیتوں کی مجموعی تعداد کو شامل کر لیا جائے

Amjadislam@gmail.com

یوں تو نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ گجرات کی طرح سارے ہندوستان میں تعصب اور ظلم کا بازار گرم کر دے گا اور ہندوؤں کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے وہاں کی زمین تنگ ہو جائے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مثال بھی دی جا رہی تھی کہ اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں چند برس قبل قائم ہونے والی بی جے پی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے رویے میں بہت مثبت تبدیلی پیدا کر لی تھی سو عین ممکن ہے کہ نریندر مودی بھی انھی کے نقش قدم پر چلے اور اپنے تعصباتی رویوں کا سایا اپنے اہل وطن اور ہمسایوں پر نہ پڑنے دے ہمسایہ ممالک کی حد تک تو یہ خوش فہمی بہت جلد رفع ہو گئی لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے شیوسینا اور آر ایس ایس کی معرفت ہونے والی جو کارروائیاں سامنے آئی ہیں اس نے بھارت کے مبینہ سیکولر چہرے پر ایسی کالک مل دی ہے جسے دھونے میں شاید زمانے لگ جائیں مگر اس کے بعد بھی یہ چہرہ دنیا کو دکھانے کے قابل نہ ہو سکے کہ اب کے اس کا اصل ہدف خود بھارتی عوام کی وہ غالب اکثریت ہے جو اس مختصر مگر طاقتور اور حکومتی شہ اور آشیر باد کی حامل شیوسینا کے ہاتھوں اپنے ہی وطن میں بے بس اور بے وطن ہو کر رہ گئی ہے۔

بھارتی مسلمان' سکھ اور عیسائی اقلیت ہونے کے باعث اور پاکستان اور آبادی کے اعتبار سے دیگر نسبتاً چھوٹے ہمسائے تو کسی نہ کسی وجہ سے کم و بیش ابتدا ہی سے بھارتی حکومتوں کی جارحیت اور ہندو اکثریت کے تکبر اور تنگ دلی کا نشانہ رہے ہیں لیکن اب تو خود چھوٹی ذات کے دلت کہلانے والے ہندو بھی شیوسینا کی ہٹ لسٹ پر آ گئے ہیں جو ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت کی کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں۔ 20فیصد مسلمانوں اور کم و بیش اسی قدر دیگر تمام اقلیتوں کی مجموعی تعداد کو شامل کر لیا جائے تو یہ جماعت زیادہ سے زیادہ بیس پچیس فی صد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ترجمان ٹھہرتی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ خود اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اکثریت بھی ڈر کی وجہ سے خاموش رہے تو اور بات ہے وگرنہ وہ بھی ان غنڈوں بدمعاشوں اور مذہب کے نام پر ظلم و تشدد کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اس محدود مگر ظالم اور متشدد گروہ اور ان کے حامی یا ان سے خوفزدہ بھارتی میڈیا کی خبریں تو بہت اچھالتا ہے مگر ان آوازوں کی بات بہت کم کرتا ہے جو بھارت کے اصل باشندوں اور اس کی رائے عامہ کی ترجمان ہیں اور جن کی تعداد ان شیوسینا والوں سے کئی گنا زیادہ ہے اور یوں چند خود پرست اور انصاف دشمن لوگوں کی وجہ سے دنیا اور بالخصوص پاکستان کے عوام انھیں سارے بھارت کا نمایندہ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔

بلاشبہ گزشتہ چند دنوں میں ہمارے فن کاروں' کھیل اور اس سے متعلق قومی نمایندوں اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری صاحب سے شیوسینا کے لوگوں نے بے حد زیادتی اور بدسلوکی کی ہے جس پر غصہ اور احتجاج ہمارا حق ہے اور اس کا اظہار ضرور ہونا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ خود بھارت کے اندر ہر سطح پر اس کی کس قدر اور کس کس طرح سے مذمت کی جا رہی ہے اس کے خلاف کس قدر مظاہرے ہوئے ہیں اور اب دفن اور دیگر فنون لطیفہ سے متعلق کتنے لوگوں نے بطور احتجاج اپنے قومی سطح پر ملنے والے میڈل اور ایوارڈ واپس کیے ہیں، اتفاق سے مجھے گزشتہ ایک برس میں مختلف پروگراموں کے حوالے سے تین بار بھارت جانے کا موقع ملا ہے اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ ان حالیہ واقعات سے قبل بھی وہاں کے بیشتر پڑھے لکھے اور متوازن مزاج لوگ نریندر مودی کے نہ صرف مخالف تھے بلکہ واضح طور پر ان خدشات کا اظہار بھی کرتے تھے جو آج امر واقعہ بن کر سب کے سامنے ہیں۔ میرؔ صاحب کا کیا برمحل شعر ہے کہ


جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے
ان کو اس روز گار میں دیکھا

میری طرح آپ لوگوں نے بھی مشہور صحافی کرن تھاپر کا نریندر مودی سے وہ انٹرویو سوشل میڈیا پر ضرور دیکھا ہو گا جس میں وہ کرن تھاپر کے تیز اور چبھتے ہوئے مگر انتہائی جینوئن سوالات سے ناراض ہو کر چلتے پروگرام سے واک آؤٹ کر گیا تھا اب جہاں تک کرن تھاپر کا تعلق ہے وہ نہ تو پرو پاکستان ہے اور نہ ہی اینٹی بی جے پی وہ ایک بیدار مغز جرات مند پڑھا لکھا اور ذمے دار صحافی اور ٹی وی اینکر ہے، اتفاق سے وہ میرے دوست گروندر سنگھ کوہلی کے چھوٹے داماد کا سگا ماموں بھی ہے اور اسی واسطے سے گزشتہ دورے کے دوران مجھے اس سے ایک رسمی ملاقات کا موقع بھی مل گیا جہاں وہ اپنی انھی دنوں میں انتقال کرنے والی والدہ کی ایک تعزیتی تقریب کا میزبان تھا اس موقع پر تو اس کا ضرورت سے زیادہ بااخلاق بننا بنتا تھا لیکن اس کی گفتگو اور اس کے بارے میں عمومی رائے سے بھی اندازہ ہوا کہ وہ ایک ذہین زمانہ دیدہ مقبول اور باکردار صحافی ہے جو خاندانی طور پر بھی اعلیٰ طبقے کا فرد ہے کہ اس کا باپ بھارتی فوج کا کمانڈر ان چیف رہ چکا ہے سو اس نے مذکورہ انٹرویو میں وہی کچھ کیا جو اس کا فرض بنتا تھا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں کرن تھاپر جیسے صحافیوں کی بھی کمی نہیں اور یہی صورت حال زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ہے۔ فلم ساز مہیش بھٹ اور شاعر منور رانا سمیت وہاں کے بے شمار اہم لوگوں کا ردعمل سامنے آیا ہے اور ان سب نے شیوسینا کے کردار' کارروائیوں اور مودی سرکاری کی مجرمانہ خاموشی اور شرپسندوں کی مبینہ ہلاشیری پر خوب کھل کر تنقید کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس ردعمل کو بھی مناسب کوریج دے تا کہ دونوں ملکوں کے امن پسند لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی طرف سے میل نہ آئے جہاں تک دونوں ملکوں کی حکومتوں اور خارجہ امور کے محکموں کا تعلق ہے ان کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر حق اور اصول کے نام پر غیر جانب دار ہو کر انصاف کی بات کی جائے تو اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب آئیں بلکہ حکومتی پالیسیوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور یوں شیوسینا اور اس جیسی دوسری انسان دشمن تنظیموں کے خلاف رائے عامہ کی ایک ایسی دیوار اٹھائی جا سکے گی جس میں نریندر مودی بھی چاہے تو ان کے لیے رستہ نہیں بن سکے گا۔
Load Next Story