دریا بہ دریا یم بہ یم
وہ بھی ایک دور تھا جب ’’خرگوش‘‘ کے مونوگرام والا وہ میگزین منشیات کی طرح چھپایا جاتا تھا۔
وہ بھی ایک دور تھا جب ''خرگوش'' کے مونوگرام والا وہ میگزین منشیات کی طرح چھپایا جاتا تھا۔ بیرون ملک سے آنے والے شوقین لوگ ایئرپورٹ پر پکڑے جانے کے ڈر سے اس میگزین کا ٹائٹل پھاڑ کر پھینکنے کے بعد اس میگزین کو کپڑوں کے درمیان چھپا کر لاتے تھے اور جب تک وہ ایئرپورٹ سے باہر نہ نکلتے پکڑے جانے کا خوف ان کے چہرے کے رنگ تبدیل کرتا تھا۔ اور مذکورہ میگزین کے حوالے سے یہ حشر صرف ہمارے جیسے ممالک ہی نہیں بلکہ یورپ کے سوشلسٹ بلاک میں بھی اس میگزین کی بہت ڈیمانڈ تھی جو میگزین سرد جنگ کے دور میں شجر ممنوعہ تھا۔ مگر یورپ تو پھر بھی یورپ تھا۔ وہاں بسنے والے نوجوان لڑکوں کو وہ میگزین دیکھنے کا بہت شوق رہا کرتا تھا جب کہ روس، پولینڈ، بلغاریہ اور مشرقی جرمنی کی نوجوان لڑکیاں خواب دیکھا کرتی تھیں کہ ان کی تصویر اس میگزین کے ٹائٹل اور سینٹرل اسپریڈ کی زینت بنے۔ جس طرح امریکا سے شایع ہونے والا ''ٹائم'' میگزین عالمی خبروں کے حوالے سے ایک باوثوق ''برانڈ'' تصور کیا جاتا تھا، ویسے ہی ''پلے بوائے'' انٹرٹینمنٹ اور شوبز کے حوالے سے پرنٹ میڈیا کا ایک پرکشش جریدہ سمجھا جاتا تھا۔
یہ وہ میگزین تھا جس نے گذشتہ صدی کے دوراں برہنگی کے حوالے سے ایک نیا مارکیٹ بنایا تھا۔ وہ میگزین جس کے مالک مدیر نے اپنی ماں سے تھوڑے سے پیسے ادھار لے کر پرنٹ میڈیا میں اس بزنس کا آغاز کیا اور دیکھتے دیکھتے یہ میگزین یورپ اور امریکا میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ پلے بوائے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس دور میں اور بھی بہت سارے میگزین مارکیٹ کی زینت بنے مگر پلے بوائے تو پھر بھی پلے بوائے تھا اور اس جریدے کا اور کوئی جریدہ مقابلہ نہ کرپایا۔وہ میگزین جس نے پہلی بار ہالی ووڈ کی مشہورہ اداکارہ مارلن منرو کا نیکڈ شوٹ شایع کیا۔ اس پر اچھا خاصا تنازع بھی ہوا، مگر مارکیٹ میں ''کنٹروورشل'' ہونا بھی تو کمرشلائزیشن کے حوالے سے کامیابی کا سبب سمجھا جاتا ہے، اس طرح یہ متنازع میگزین مسلسل ترقی کرتا گیا۔
اس میگزین کی ایک خاص خوبی یہ بھی تھی کہ اس نے نیوڈیٹی کے حوالے سے کبھی زرد صحافت کا ساتھ نہیں دیا۔ اس نے کبھی کسی کے خلاف کوئی متنازع اسٹوری شایع نہیں کی۔ اس نے اسکینڈلز کو وجہ شہرت بنانے کے بجائے مغرب کی اس آزاد دنیا کا آئینہ بننا پسند کیا جو بیسویں صدی کے آخر میں تو آوارگی کی حدود میں داخل ہوچکی تھی۔ ہم جیسے شرمیلے تو اس میگزین کے ملائم اور چمکتے ہوئے کاغذ پر شایع ہونے والی تصویروں کو دیکھ کر گناہ گار خوابوں میں کھو جاتے تھے مگر اصل حقیقت یہ تھی کہ اس متنازع میگزین میں مغرب کے نوبل انعام یافتہ ادیب بھی بولڈ افسانے لکھتے تھے۔
وہ میگزین جو اپنے دور کے مشہور کھلاڑیوں، اداکاروں اور شوبز کی مشہور شخصیات کی جنسی زندگی پر ان کے خیالات کو منظر عام پر لاتا تھا۔ اس میگزین پر بہت سارے مقدمات بھی ہوئے مگر ہر مقدمے کے بعد اس کی اشاعت اور فروخت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ سارے تنازعات کے باوجود اس میگزین کو نہ صرف مقبولیت بلکہ معیار کے حوالے سے بھی بڑی قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اٹلی کی وہ خاتون جرنلسٹ جس نے ''اے مین'' جیسا ناول اور ''تاریخ سے انٹرویو'' جیسی کتاب لکھی اور جس خاتون جرنلسٹ کا انتظار حکمران بھی کیا کرتے تھے اس صحافی خاتون نے اس میگزین کے بانی ایڈیٹر کا انٹرویو لیا اور اس انٹرویو کو پوری دنیا میں شوق سے پڑھا گیا۔
اس معاشرے کے بہروپیے پن کی حقیقت بیان کرنے کی جرأت سعادت حسن منٹو جیسے چند اہل قلم انسانوں میں تھی مگر اس سعادت حسن منٹو نے اپنی زندگی کس طرح بسر کی؟ اس نے کیا کچھ برداشت نہیں کیا؟ اس کی ایک معمولی جھلک اس فلم میں موجود ہے جس میں آرٹسٹک انداز کی کمی ہونے کے باوجود ہمیں اس سے یہ پتہ ضرور ملتا ہے کہ سچ کو بیان کرنے کی سزا کتنی زیادہ ہے۔ ابھی کچھ دن قبل میں عصمت چغتائی کے حوالے سے ایک کتاب پڑھ رہا تھا تو یہ بات جان کر ایک عجیب سا احساس دل کو اداس کرگیا جس میں عصمت چغتائی نے لکھا تھا کہ اس کے ایک افسانے پر داخل ہونے والے کیس میں افسانے کی کتابت کرنے والے کاتب کو بھی ملزم ٹھہرایا گیا اور جب عدالت میں اس کاتب سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے افسانہ پڑھا ہے؟ تو اس نے جواب دیا ''نہیں'' یہ بڑی حیران کردینے والی بات تھی، مگر حقیقت تھی۔ کیوں کہ ایک کاتب پوری کہانی نہیں پڑھتا۔ وہ تو صرف ایک ایک لفظ پڑھتا اور لکھتا جاتا ہے۔
ہمیں یہ جان کر زیادہ افسوس ہوا کہ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ فحش ویب سائٹ کو ہمارے ملک میں دیکھا جاتا ہے۔جدید میڈیا نے جہاں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کردی ہیں وہاں بہت سارے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ اور ایسے مسائل کا سامنا صرف ہم نہیں بلکہ پوری دنیا اور اس دنیا کی حقیقت بیان کرنے والا میڈیا بھی اسی اذیت سے گزر رہا ہے۔ میڈیا صرف اسی تبدیلی کا سامنا نہیں کر رہا کہ پہلے ایک سیاستدان اپنی بات کو عوام تک پہنچانے کے لیے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا کرتا تھا اب وہ اپنے لیپ ٹاپ یا اپنے سیل فون سے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنا بیان جاری کردیتا ہے اور سیکنڈوں میں اس کی وہ بات پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔آج ہمارا روایتی میڈیا اس بات پر سنجیدگی سے سوچ رہا ہے کہ وہ دن بہ دن بڑھتے ہوئے سوشل میڈیا کا مقابلہ کس طرح کرے؟ اس کے لیے ہمارے میڈیا کو نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح بے لباسی کے معرفت پوری دنیا میں اپنی مارکیٹ قائم کرنے والا جریدہ پلے بوائے انٹرنیٹ کے بعد اس آزمائش میں ہے کہ وہ اپنے وجود کو کس طرح قائم رکھے؟ اس سلسلے میں پلے بوائے نے آخرکار یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اب وہ اپنے صفحات میں مکمل طور پر بے لباس لڑکیوں کی تصاویر شایع نہیں کرے گا۔
اس جریدے کے ایڈیٹر نے چند روز قبل امریکا کے مشہور اخبار ''دی ٹیلی گراف'' کے رپورٹر بارنی ہڈرسن سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اب انٹرنیٹ کی وجہ سے بے لباسی عام ہوگئی ہے۔ اس لیے ہم صرف بے لباس لڑکیوں کی تصاویر کو نہیں بیچ سکتے۔ کیوں کہ اب بے لباسی کی کوئی مارکیٹ نہیں رہی۔ اس لیے ہم اپنے میگزین میں جنسی موضوعات کو تخلیقی انداز سے پیش کرنے پر سوچ رہے ہیں''۔ اب ہمارے پرنٹ میڈیا کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس طرح نئے مسائل کا سامنا کرے اور انٹرنیٹ کے دور میں وہ اپنے قارئین کو کس طرح اپنی اہمیت جتلائے؟پلے بوائے کی بات تو محض ایک مثال ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم پرانے طریقوں سے اپنے پڑھنے والوں کا جی بہلا سکتے ہیں یا ہمیں اپنے معاشرے کی اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے خبروں اور تبصروں میں تخلیق کی ایک نئی روح بیدار کرنے پڑے گی یا ہم پرانے انداز سے چلتے ہوئے اپنے وجود کو برف کے مانند پگھلنے کے لیے آزاد چھوڑدیں؟ ہمیں اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ اس دور میں ہمارے روایتی طریقوں کے پگھلنے کی رفتار قطرہ بہ قطرہ نہیں بلکہ دریا بہ دریا یم بہ یم ہے۔