مدنی زندگی کی اسپرٹ
وہ بچہ نہیں نوجوان تھا لیکن بڑوں کے سامنے بیٹھا ہوتوبچہ ہی کہلائے گا
آؤ بچوسیرکرائیں تم کو پاکستان کی۔ وہ بچہ نہیں نوجوان تھا لیکن بڑوں کے سامنے بیٹھا ہوتوبچہ ہی کہلائے گا۔وہ نوجوان پاکستان کا نظریہ سمجھنا چاہتا تھا۔ جب کہا کہ پاکستان کا نظریہ وہی ہے جو ریاست مدینہ کا تھا تو اسے اس جملے پر یقین آیا۔جو واقعات چودہ سو سال پہلے پیش آئے ہو بہو وہی واقعات پاکستان کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ یقین نہیں آرہا۔ اچھا تو چلیں بات کو یوں آگے بڑھاتے ہیں۔
چوہدری رحمت علی کے کہنے پر ہم نے اپنے ملک کا نام پاکستان رکھا یعنی پاک لوگوں کی سرزمین جب کہ مدینہ طیبہ کا بھی یہی مطلب ہے۔ پاکستان دنیا کی دوسری ریاست تھی جو مذہب کے نام پر قائم ہوئی۔ نوجوان نے یاد دلایا کہ اسرائیل بھی تو مذہب کے نام پر بنا تھا۔ بالکل! اب تک نصف درجن ممالک ایسے ہیں جن کی بنیاد مذہب ہے اور مشرقی تیمور بھی ان میں شامل ہے۔ ہمیں پاکستان بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ بڑا اہم سوال تھا۔ قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے کہا کہ ہم ہندوؤں سے الگ ہیں۔ دونوں قوموں کا کھانا پینا، رہنا سہنا، رسوم و رواج، لباس، شادی بیاہ و موت میت کے معاملات جب کہ کیلنڈر بھی مختلف ہیں۔ اور تو اور ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن تو ایک کا ولن دوسرے کا ہیرو۔ محمد بن قاسم اور راجہ داہر سے شروع ہونے والا سلسلہ قائد اعظم محمد علی جناح سے کرم چندگاندھی تک جاری ہے۔ یوں بٹوارا ہوا اور دو ملک قائم ہوگئے۔ ہندو اکثریت کا ہندوستان اور مسلم اکثریت کا پاکستان۔ نوجوان نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ بت پرستوں کی اکثریت کا ہندوستان اور توحید کے ماننے والوں کا پاکستان۔ جی بالکل۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے۔
مدینے اور پاکستان میں خوبصورت نام اور مذہبی ریاست ہونے کے علاوہ اورکیا کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں؟ اٹھ کر نوجوان کی کرسی تک آیا اور الماری سے ایک کتاب نکالی۔ مصنف نے اس میں آنحضرتؐ کو دنیا کا سب سے کامیاب انسان قرار دیا ہے۔
مکے اور مدینے کے بیچ چند جنگیں لڑی گئیں جن کا اختتام آپ کی فتح مندی اور مکہ میں بطور فاتح واپسی پر ہوا۔
فتح مکہ تک مسلمان کیسے پہنچے؟ یہ نوجوان کا سوال تھا۔ اس میں بدرکا میدان بھی آتا ہے اور احد کے پہاڑ بھی۔ اس میں غزوہ احزاب کا معرکہ بھی ہے جس میں خندق کھودی گئی، صلح حدیبیہ ہے تو خیبر کا قلعہ بھی۔ کیا پاکستان کو بھی ایسی ہی مہمات کا سامنا رہا ہے؟ ہو بہو ویسے ہی واقعات پیش آ رہے ہیں۔ صرف ایک فرق ہے۔ جو کام قدرت نے نبی مہربانؐ سے ایک سال میں لیا، ہم گنہگاروں کو اس میں دس سال لگے۔ میں کچھ سمجھا نہیں کہ مدینے اور پاکستان میں کیا چیز مشترک ہے؟ ہمیں بھی اپنے بت پرست دشمن سے جنگیں کرنی پڑیں۔ ہجرت کے بعد ہمیں بھی جنگ ستمبر کا معرکہ، مشرقی پاکستان میں جنگ اور کارگل جیسے واقعات پیش آئے۔ دونوں مقامات پر دشمن سے جنگی کشمکش۔غزوہ بدر دوسری ہجری میں ہوئی، اسی طرح 65 کی جنگ تب ہوئی جب ہماری ہجرت کو دوسرا عشرہ چل رہا تھا۔ دونوں مقامات پرکئی گنا بڑے دشمن کو مسلمانوں نے شکست دی۔ اسی طرح غزوہ احد ہجرت کے تیسرے سال ہوئی اور ہندوستان سے مشرقی محاذ پر جنگ 71 میں ہوئی جب قیام پاکستان کو چوبیس سال ہوچکے تھے۔ یعنی یہ ہماری ہجرت کا تیسرا عشرہ تھا۔ دونوں مقامات پر نبیؐ کی نافرمانی نے صدمے سے دوچارکیا۔ اس کی تفصیل کیا ہے؟
نظریہ پاکستان سمجھنے والا نوجوان دو جنگوں میں مماثلت کے واقعات دلچسپی سے سن رہا تھا۔ احد کے مقام پر حکم دیا گیا کہ یہ پہاڑی درہ نہ چھوڑنا کہ دشمن حملہ کرسکتا ہے۔ حکم نبویؐ نہ مانا گیا تو صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ ہم نے اپنے بنگالی بھائیوں کے لیے وہی پسند نہ کیا جو ہمیں اپنے لیے پسند تھا۔ غزوہ احزاب پانچ ہجری میں ہوئی جس میں مسلمانوں نے خندق کھود کر اپنا دفاع کیا۔ یہ ترکیب حضرت سلمان فارسیؓ نے کسریٰ جیسی سپرپاور سے سیکھ کر اسلامی ریاست تک پہنچائی۔ دس ہزار کی فوج آمنے سامنے کھڑی تھی اورکفار مکہ بغیر اپنا مقصد حاصل کیے ناکام واپس لوٹ گئے۔ اب ذرا کارگل کا واقعہ دیکھیں تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ یہاں مشرف کی حکومت تھی تو وہاں واجپائی حکمراں تھے۔ یہ ہماری ہجرت کا پانچواں عشرہ تھا۔ ہمارا دفاع ایٹم بم تھا جس کی ترکیب ڈاکٹر عبدالقدیر بذریعہ ہالینڈ سپرپاور سے لائے تھے۔ دس لاکھ کی فوجیں eye ball to eye ball کھڑی رہیں۔ بت پرست یہاں بھی ایک خدا کے ماننے والوں پر حملے کی نیت سے آئے تھے لیکن نامراد لوٹ گئے۔ اب نوجوان کی آنکھوں میں چمک تھی۔یہ تین نہیں تیرہ ملتے جلتے واقعات ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ آٹھویں عشرے میں پاکستانیوں کو ''فتح مکہ'' جیسی خوشخبری مل سکتی ہے؟
دیکھو! توحید کے ماننے والے بت پرستوں کے دیس سے پاک سرزمین پر سکون سے بیٹھنے کے لیے ہجرت نہیں کرتے۔ انھیں واپس کامیابی کے ساتھ اپنے وطن جانا ہوتا ہے اور توحید کا جھنڈا پورے وطن پر لہرانا ہوتا ہے۔ آپ کا مطلب ہے کہ جس طرح آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا تھا تو ہماری ہجرت کے آٹھویں عشرے کے مکمل ہونے پر برصغیر میں کچھ ہوسکتا ہے؟ شرماؤ نہیں نوجوان۔ کھل کر دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی بات کرو۔ لوگ اسے طنزیہ انداز میں نہیں لیں گے؟ قیام پاکستان کو دیکھ لو یا سائنسدانوں کی کسی چیزکو ایجاد کرنے کے ارادے کو دیکھ لو، آپ کو ہمیشہ طنزیہ مسکراہٹ والے چہرے نظر آئیں گے۔ کیا میں سمجھوں کہ 2027 میں برصغیر کا نقشہ بدل جائے گا؟ آج یہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ پانچ سال پہلے اور بھی مشکل لگ رہا تھا۔ وقت کے ساتھ پاکستان مضبوط ہوتا جائے گا اور بھارت کمزور۔ اب دیکھ لو ضرب عضب، کراچی آپریشن، بلوچوں کے زخموں پر مرہم اور پاک چائنا راہداری نے ہمیں مضبوط کیا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ مسلمانوں کے بعد سکھوں سے الجھاؤ اور کشمیر و پنجاب میں زور پکڑتی آزادی کی تحریکیں۔
مدنی زندگی کی اسپرٹ کیا ہے؟ حلقہ یاراں ہو تو ریشم کی طرح نرم اور باطل سے مقابلہ ہو تو فولاد، پلٹنا جھپٹنا اور پھر پلٹ کر جھپٹنا۔کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ۔ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔ نوجوان نے پوچھا کہ دیوانے کا خواب تو نہیں۔ اسلام بزدلوں اور کم ہمتوں کے لیے نازل نہیں ہوا، یہ جواں مردوں کا دین ہے۔ جناب یہ تو چودہ سوسال پہلے کی بات ہے جب اچھے مسلمان معرکے برپا کریا کرتے تھے۔ کمزور ویت نامیوں نے ابھی پرسوں امریکیوں کو شکست دی، بھوکے ننگے افغانیوں نے کل سوویت روس کو مار بھگایا اور آج شمالی کوریا کی طرف کوئی نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی میں انڈیا سے آگے ہے۔ اگلے بارہ برسوں میں ایمانداری، محنت اور سادگی ہمیں سرخرو کرے گی۔ پہلی اسلامی ریاست والی بات ہم میں کس طرح پیدا ہوسکتی ہے؟ ''شمشیر و سناں اول' طاؤس و رباب آخر'' یہ ہے مدنی زندگی کی اسپرٹ۔