ادویہ کی قیمتوں کے تعین کیلیے سمری پرائسنگ بورڈ کو ارسال
وزارت صحت کی طرف سے بھجوائی گئی 530 ادویہ کی فہرست پرغورکیلیے اجلاس آئندہ ماہ ہوگا
وزارت صحت کے رجسٹریشن بورڈ کی طرف سے رجسٹرڈ کی گئی530 ادویہ کی قمیتوں کے تعین کیلیے سمری پرائسنگ بورڈ کو بھجوا دی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ان ادویہ کی قیمتوں کے تعین کیلیے پرائسنگ بورڈ کا اجلاس آئندہ ماہ نومبر میں ہو گا۔ نئی رجسٹرڈ کی جانے والی ادویہ میں ہپاٹائٹس سی کے کنٹرول کی دوا بھی شامل ہے جس کی قیمت مختص کرنے کے حوالے سے اس بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد کو بھی سامنے رکھا جا ئے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ ہپاٹائٹس کی دوا( sofosbuvir) سمیت بچوں اور بڑوں کے امرا ض کیلیے رجسٹرڈ کی گئی نئی ادویہ کی قیمتوں کے تعین کے بعد قانون کے تحت ان ادویہ کی چھ ماہ کے اندر اندر مارکینٹ میں فراہمی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق کسی بھی قومی یا ملٹی نیشنل کمپنی کی دوا کی باقاعدہ رجسٹریشن کے بعد اس دوا کو چھ ماہ کے دوران مریضوں کیلیے مارکیٹ میں لانا ضروری ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اکثر ادویہ ساز کمپنیاں ایسی بیماری کی ادویہ رجسٹرڈ کرا لیتی ہیں لیکن پھر ذاتی مفادات اور ڈرگ اتھارٹی کے حکام کو بلیک میل کرنے کیلیے ان ادویہ کو مارکیٹ میں لانے کے بجائے مصنوعی قلت پیدا کر دیتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت وزارت صحت میں80 ہزار سے زاید ادویہ رجسڑڈ ہیں جبکہ مارکیٹ میں ان کمپنیوں کی ادویہ کی مکمل فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے پیچیدہ امراض ک تدارک کیلیے مریضوں کو طے شدہ قیمت سے زیادہ قیمت پر دوا باہر سے منگوانا پڑتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ان ادویہ کی قیمتوں کے تعین کیلیے پرائسنگ بورڈ کا اجلاس آئندہ ماہ نومبر میں ہو گا۔ نئی رجسٹرڈ کی جانے والی ادویہ میں ہپاٹائٹس سی کے کنٹرول کی دوا بھی شامل ہے جس کی قیمت مختص کرنے کے حوالے سے اس بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد کو بھی سامنے رکھا جا ئے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ ہپاٹائٹس کی دوا( sofosbuvir) سمیت بچوں اور بڑوں کے امرا ض کیلیے رجسٹرڈ کی گئی نئی ادویہ کی قیمتوں کے تعین کے بعد قانون کے تحت ان ادویہ کی چھ ماہ کے اندر اندر مارکینٹ میں فراہمی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق کسی بھی قومی یا ملٹی نیشنل کمپنی کی دوا کی باقاعدہ رجسٹریشن کے بعد اس دوا کو چھ ماہ کے دوران مریضوں کیلیے مارکیٹ میں لانا ضروری ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اکثر ادویہ ساز کمپنیاں ایسی بیماری کی ادویہ رجسٹرڈ کرا لیتی ہیں لیکن پھر ذاتی مفادات اور ڈرگ اتھارٹی کے حکام کو بلیک میل کرنے کیلیے ان ادویہ کو مارکیٹ میں لانے کے بجائے مصنوعی قلت پیدا کر دیتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت وزارت صحت میں80 ہزار سے زاید ادویہ رجسڑڈ ہیں جبکہ مارکیٹ میں ان کمپنیوں کی ادویہ کی مکمل فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے پیچیدہ امراض ک تدارک کیلیے مریضوں کو طے شدہ قیمت سے زیادہ قیمت پر دوا باہر سے منگوانا پڑتی ہے۔