بھارتی الیکٹرونک ووٹنگ مشین غیرمحفوظ اور ناقابل بھروسہ قرار
مشینوں میں ری چیکنگ کا آپشن نہیں، ان کے ذریعے مینڈیٹ چرایا جاسکتا ہے، نرسیما راؤ کا انکشاف
بھارتی انتخابی ماہر نرسیما راؤ نے انڈین الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت کیلیے خطرہ قرار دیدیا۔
نرسیما راؤ کا کہنا ہے بھارتی الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے با آسانی الیکشن چرائے جا سکتے ہیں، مشین میں پیپر آڈٹ ٹریل نہ ہونے سے ری چیکنگ کا آپشن نہیں رہتا جو شفافیت کو مشکوک بنا دیتا ہے، مشین کا سافٹ ویئر کمزور ہونے کی وجہ سے ووٹ جمپنگ اور ہارڈ ویئر تبدیل کرکے کسی کا بھی مینڈیٹ چرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے ہمیشہ ہی تاثر دیا جاتا ہے کہ بھارت میں جمہوریت مضبوط ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی پرکوئی ا عتراض نہیں کرتا لیکن بھارتی محقق نرسیما راؤ نے اپنے ملک کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر چارج شیٹ عائد کردی ہے۔ نرسیما راؤ نے اپنی کتاب ''ڈیموکریسی ایٹ رسک'' میں لکھا ہے کہ بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بھارتی وزارت دفاع اور انڈین اٹامک انرجی کمیشن کے ذریعے بنوایا گیا جس کے تحت بھارت میں دو ہزار چار، دو ہزار نو اور دو ہزار چودہ تک لوک سبھاکے تمام الیکشن ہوئے۔
نرسیما راؤ نے لکھا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین غیر محفوظ، غیر شفاف اورنا قابل بھروسہ ہے، اس مشین کو با آسانی ہیک کیا جاسکتاہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ای وی ایم میں پیپر آڈٹ ٹریل نہیں جبکہ برازیل اور وینزویلا کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں پیپر آڈٹ ٹریل موجود ہے۔ بھارتی مشین میں پیپر نہ ہونے کی وجہ سے ری چیکنگ کا آپشن باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے ووٹر کو پتہ نہیں چلتا کہ واقعی اس کا ووٹ اسی کو ڈالا گیا ہے جسے وہ ووٹ کرنا چاہتا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ بھارتی الیکٹرانک مشین کے ذریعے باآسانی فراڈ ممکن ہے جبکہ مشینوں کی سٹوریج کا مناسب انتظام نہ ہونے سے ووٹ جمپبگ کا امکان موجود رہتا ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ کے باوجود تین ہفتوں بعد نتائج کا اعلان شفافیت کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ کتاب کی تحقیق کی سابق بھارتی وزیر ایل کے ایڈوانی اور اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ ڈل نے بھی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ مشین عالمی معیار پر پورا نہیں اترتی، ووٹ چوری با آسانی ممکن ہے۔
بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ہیک کرنے کی وڈیو بھی جاری ہوگئی ہے جسے بھارتی ہیکر ہری پرساد نے ہیک کیا ہے ، وڈیو میں ہیکر مشین کی ہارڈ ویئر تبدیل کرتا ہے اور با آسانی اپنی مرضی کی ووٹنگ پر مشتمل ہارڈ ویئر فکس کردیتا ہے، یوں اپنی مرضی اور جعلی ووٹنگ نمبرز والی ہارڈ وئیر لگاکر کسی کا بھی ووٹ چرایا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف تو دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو نا قابل اعتماد قراردیا جارہا ہے تو دوسری جانب پاکستانی سیاسی جماعتیں بنا کسی تحقیق کے مطالبات کر رہی ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کیلیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی جائے جس کی ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کمیٹی میں شدید مخالفت کی ہوئی ہے اور واضح طور پر آگاہ کیاہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مکمل طور پر محفوظ نہیں جس کے باعث عام انتخابات میں اس کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
نرسیما راؤ کا کہنا ہے بھارتی الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے با آسانی الیکشن چرائے جا سکتے ہیں، مشین میں پیپر آڈٹ ٹریل نہ ہونے سے ری چیکنگ کا آپشن نہیں رہتا جو شفافیت کو مشکوک بنا دیتا ہے، مشین کا سافٹ ویئر کمزور ہونے کی وجہ سے ووٹ جمپنگ اور ہارڈ ویئر تبدیل کرکے کسی کا بھی مینڈیٹ چرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے ہمیشہ ہی تاثر دیا جاتا ہے کہ بھارت میں جمہوریت مضبوط ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی پرکوئی ا عتراض نہیں کرتا لیکن بھارتی محقق نرسیما راؤ نے اپنے ملک کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر چارج شیٹ عائد کردی ہے۔ نرسیما راؤ نے اپنی کتاب ''ڈیموکریسی ایٹ رسک'' میں لکھا ہے کہ بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بھارتی وزارت دفاع اور انڈین اٹامک انرجی کمیشن کے ذریعے بنوایا گیا جس کے تحت بھارت میں دو ہزار چار، دو ہزار نو اور دو ہزار چودہ تک لوک سبھاکے تمام الیکشن ہوئے۔
نرسیما راؤ نے لکھا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین غیر محفوظ، غیر شفاف اورنا قابل بھروسہ ہے، اس مشین کو با آسانی ہیک کیا جاسکتاہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ای وی ایم میں پیپر آڈٹ ٹریل نہیں جبکہ برازیل اور وینزویلا کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں پیپر آڈٹ ٹریل موجود ہے۔ بھارتی مشین میں پیپر نہ ہونے کی وجہ سے ری چیکنگ کا آپشن باقی نہیں رہتا جس کے ذریعے ووٹر کو پتہ نہیں چلتا کہ واقعی اس کا ووٹ اسی کو ڈالا گیا ہے جسے وہ ووٹ کرنا چاہتا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ بھارتی الیکٹرانک مشین کے ذریعے باآسانی فراڈ ممکن ہے جبکہ مشینوں کی سٹوریج کا مناسب انتظام نہ ہونے سے ووٹ جمپبگ کا امکان موجود رہتا ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ کے باوجود تین ہفتوں بعد نتائج کا اعلان شفافیت کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ کتاب کی تحقیق کی سابق بھارتی وزیر ایل کے ایڈوانی اور اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ ڈل نے بھی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ مشین عالمی معیار پر پورا نہیں اترتی، ووٹ چوری با آسانی ممکن ہے۔
بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ہیک کرنے کی وڈیو بھی جاری ہوگئی ہے جسے بھارتی ہیکر ہری پرساد نے ہیک کیا ہے ، وڈیو میں ہیکر مشین کی ہارڈ ویئر تبدیل کرتا ہے اور با آسانی اپنی مرضی کی ووٹنگ پر مشتمل ہارڈ ویئر فکس کردیتا ہے، یوں اپنی مرضی اور جعلی ووٹنگ نمبرز والی ہارڈ وئیر لگاکر کسی کا بھی ووٹ چرایا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف تو دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو نا قابل اعتماد قراردیا جارہا ہے تو دوسری جانب پاکستانی سیاسی جماعتیں بنا کسی تحقیق کے مطالبات کر رہی ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کیلیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی جائے جس کی ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کمیٹی میں شدید مخالفت کی ہوئی ہے اور واضح طور پر آگاہ کیاہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مکمل طور پر محفوظ نہیں جس کے باعث عام انتخابات میں اس کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔