خان صاحب ’نئے پاکستان‘ کا موقع ہاتھ سے گیا نہیں

خان صاحب اگر خیبر پختونخوا میں تعلیمی انقلاب آگیا تو سمجھ لیجئے گا کہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی۔


ایچ ایم کالامی November 02, 2015
طلباء نے اپنے مطالبات کے حق میں کئی بار احتجاجی مظاہرے بھی کئے لیکن تبدیلی سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی۔ فوٹو :فائل

دنیا جمہوری طرزِ انتخاب کو بہترین طرزِ حکومت قرار دیتی ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو اس طرزِ حکومت کے خلاف ہو۔ لیکن باوجود اس کے جمہوریت بھی ناقدین کے نشانے سے بچ نہیں سکتی۔ ناقدین کا اس بات پر اعتراض ہے کہ جس ملک میں تعلیم کی کمی ہو اور عوام اتنی با شعور نہ ہو کہ کسی اہل شخص کا چناؤ کرسکیں تو ایسے وقت میں وہاں جمہوری نظام انتخاب نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جمہوریت میں انتخاب اکثریت کی بناء پر ہوتا ہے جس میں عموماََ قابلیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

اگر اِس تمام تر صورتِ حال کا بہ نظرِعمیق جائزہ لیا جائے تو پاکستانی جمہوریت پر تنقید بجا ہے کہ جہاں کی عوام تعلیمی لحاظ سے انتہائی پسماندہ ہے، جہاں ڈھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جنہوں نے اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا۔ جہاں پر 40 فیصد اسکول پینے کے صاف پانی، واش روم اور دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ پاکستان جیسے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ملک کی جمہوریت پر تنقید کی بڑی گنجائش ہوتی ہے، لیکن سچ پوچھئے تو سیاسی حلقے محض سیاسی مفادات اور انا کی بناء پر جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ہر الیکشن کے بعد سیاست دان آپس میں دست و گریبان ہوجاتے ہیں، جس کا خمیازہ اس بد قسمت قوم کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

خان صاحب کی پارٹی پی ٹی آئی کے زیر اقتدار خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے باعث دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ تعلیمی صورت حال بھی انتہائی مخدوش ہوچکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب بھی 25 لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ 25 ہزار اساتذہ کی کمی ہے اور تعلیمی صورتِ حال انتہائی گھمبیر ہوچکی ہے، ایسا صوبہ جمہوریت کی جنگ کے لئے دھرنوں اور وفاق کے ساتھ چھیڑ خانی کےسبب کئی ماہ تک مکمل طور پر نظر انداز رہا۔ حکومتی مشینری وزیرِ اعلیٰ سمیت اسلام آباد کی شاہراؤں پر مصروف رہی۔

اگر پاکستان تحریک انصاف ملک میں واقعی حقیقی جمہوریت کی متمنی ہوتی تو اس حقیقت کو تسلیم کرتی کہ حقیقی جمہوریت کے لئے عوام کو تعلیم یافتہ اور باشعور بنانا ناگزیر ہے، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں تعلیمی انقلاب برپا کرتی۔ نئے اسکول تعمیر کرتی، کالجز اور یونیورسٹیوں کے جال بچھاتی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرتی۔ مگر ہم اہلیانِ خیبرکی بدقسمتی کہ ہم جسے منتخب کریں وہ ہماری توقعات کے برعکس ہی نکلتا ہے۔ خان صاحب نے پہلے تعلیمی بجٹ جس میں 111 ارب روپے کی خطیر رقم تعلیم کے لئے مختص کی،
''پڑھو لکھو اور زندگی بناؤ''

کے نام سے ایک مہم کا بھی باقاعدہ آغاز خان صاحب نے پشاور میں بذات خود ایک بچے کو اسکول میں داخل کراتے ہوئے کیا تھا، جس کا مقصد صوبے کے ان 25 لاکھ بچوں کو اسکول میں داخل کرنا تھا جنہوں نے اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا۔ اِس کے بعد ''گھر آیا استاد'' اور اس قبیل کی کئی مہمات پر اربوں روپے روپے خرچ ہوئے مگر، نتیجہ بے سود۔

پی ٹی آئی کی یہ عجیب منطق ہمارے دماغ کو چھوئے بغیر سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے کہ اگر بچوں کے پڑھنے کے لئے اسکول کی عمارت موجود نہیں، استاد نہیں، کتابیں نہیں، سہولیات نہیں تو تعلیمی شعور بیدار کرکے ان بچوں کو کس طرح تعلیم یافتہ بنایا جاسکتا ہے۔راقم کے اپنے علاقہ کالام سوات کی تعلیمی کتھا سناؤں تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ایک لاکھ 25 ہزار کی آبادی کے لئے ایک ہی ہائر سیکنڈری اسکول موجود ہے اور اس کی بھی حالت زار یہ ہے کہ اس میں صرف دو استاد پڑھاتے ہیں، وہ بھی صرف انگریزی اور اردو، باقی تمام سائنس کے مضامین کے لئے اساتذہ تو دور کی بات طلباء کو پڑھنے کے لئے ابھی تک کتابیں بھی نہیں ملی ہیں، صرف سوات کوہستان نہیں تمام پسماندہ قبائلی علاقوں کے کالجوں میں تاحال سائنس کے اساتذہ کی تعیناتی نہ ہوسکی۔

طلباء نے اپنے مطالبات کے حق میں کئی بار احتجاجی مظاہرے بھی کئے لیکن تبدیلی سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی، صرف یہی نہیں بلکہ پورے خیبر پختونخوا بشمول پشاور کے کئی علاقوں میں اب بھی بچے کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور ہیں۔ دوسرا سالانہ بجٹ پیش ہوا جس میں بھی تعلیم کی مد میں 97 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی، ہم پھر آس لگا بیٹھے کہ نئے اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے، اسکولوں کو سہولیات فراہم کی جائیں گے اور نئے تعلیمی ادارے بنائے جائیں گے، مگر مرغی کی وہی ایک ٹانگ! تعلیمی بجٹ حکومتی پبلسٹی کی نذر ہوگیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے عوام اب بھی امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خان صاحب اپنی پوری توجہ خیبر پختونخوا کی خستہ حال تعلیمی صورت حال پر مرکوز کریں اور وفاق کے ساتھ اگر دست و گریباں ہونا ہی ہے تو آئین کے آرٹکل 25A کی پاسداری کی جنگ لڑیں جس کے تحت شہریوں کو بنیادی تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، تاکہ عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہوسکیں اور حکمرانوں کے انتخاب کے دوران اہل اور نا اہل میں تمیز کرسکیں۔ خان صاحب اگر خیبر پختونخوا میں تعلیمی انقلاب آگیا تو سمجھ لیجئے گا کہ ''نئے پاکستان'' کی بنیاد رکھ دی گئی۔ پھر دیکھنا اگلے الیکشن میں کس طرح آپ کا ''نیا پاکستان'' کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے، ورنہ یہ لوگ آپ کی پارٹی کا بھی وہی حشر کریں گے جس طرح انہوں نے کے پی کے میں دوسری سیاسی جماعتوں کا کیا، خان صاحب ''نیا پاکستان'' کا موقع ابھی ہاتھ سے گیا نہیں۔

[poll id="743"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں