ساکنانِ شہر قائد کا 24 واں عالمی مشاعرہ
جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی کے بجائے اسلام آباد بنادیا گیا تھا
بلاشبہ کراچی کو صنعت و تجارت کا مرکز ہونے کے علاوہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے سے شہر قائد ہونے کی بے مثل اور سب سے نمایاں فضیلت حاصل ہے، لیکن کراچی والے اپنے جمالیاتی ذوق کے حوالے سے بھی اپنی ایک الگ اور مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔ شعرا سخن کے حوالے بھی کراچی ایک انتہائی مردم خیز شہر ہے۔
جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی کے بجائے اسلام آباد بنادیا گیا تھا تو اس موقعے پر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے یہ فرمایا تھا کہ پاکستان میں صرف کراچی کے اندر اتنی کثیر تعداد میں شاعر موجود ہیں کہ اگر ان سب کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے تین روز تک لگاتار اسپیشل ٹرینیں چلائی جائیں تب بھی یہ سارے کے سارے کراچی سے اسلام آباد منتقل نہیں ہوسکتے۔
ظاہر ہے کہ تب سے آج تک اس شہرکے شاعروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ خیر یہ تو محض ایک جملہ معترضہ تھا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں صرف سخن ور ہی نہیں بلکہ سخن شناس اور سخن پرور بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اس بے مثال شہر کا انمول سرمایہ اور آبرو بھی ہیں۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ''ساکنانِ شہر قائد'' کی جانب سے ہر سال نہایت پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ عالمی مشاعرے کا انعقاد اس شہر کے باسیوں کے لیے ذہنی اور قلبی آسودگی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی مرکزکے شہریوں کو برق رفتار زندگی کی مصروفیات کے بعد ایک گوشہ سکون بھی تو درکار ہوتا ہے۔ کراچی شہر کا یہ امتیاز اور اختصاص ہے کہ یہاں آپ کو وطن عزیز کی تہذیب و ثقافت کا ہر زاویہ اور ہر پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
''ساکنانِ شہر قائد'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعرے کے توسط سے مختلف شعرائے کرام نہ صرف امن و آشتی کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں بلکہ معاشرتی رویوں میں مثبت اقدار کے فروغ کا موثر ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس طرح کی ادبی سرگرمیوں کی روشنی تنگ نظری، منافرت اور تعصب کے اندھیروں کو مٹانے میں نہایت اہم اور موثرکردار بھی ادا کرتی ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب کہ ہمارا وطن عزیز دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے میں مصروف ہے، اس طرح کی مثبت سرگرمیوں کی اہمیت وافادیت دو آتشہ ہوجاتی ہے۔
''ساکنانِ شہر قائد'' کے زیر اہتمام اولین عالمی مشاعرہ ''نیشنل اسٹیڈیم'' میں منعقد ہوا تھا جب کہ امسال اس مشاعرے کا انعقاد 10 اکتوبر کی شب کے۔ایچ۔اے گراؤنڈ گلشن اقبال میں روایتی اہتمام کے ساتھ کیا گیا۔ حسب روایت اس مشاعرے میں مقامی شعرائے کرام کے علاوہ بیرونی ممالک کے شعرا نے بھی شرکت کی اور اہل ذوق سے داد و تحسین وصول کی۔
اگرچہ یہ قصہ 26 سال پرانا ہے مگر لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہے۔ اپنا شہر کراچی جو 'منی پاکستان' کہلاتا ہے خوف و ہراس اور مایوسی کی فضا میں ڈوبا ہوا تھا اور وحشت کے بادل اس کے اوپر منڈلا رہے تھے۔ امید اور مسرت کی کوئی کرن اس وقت دور دور تک نظر نہیں آتی تھی۔ کیفیت یہ تھی کہ بقول شاعر:
وہ حبس ہے کہ لُوکی دعا مانگتے ہیں لوگ
ہر چہرہ بجھا بجھا سا تھا اور ہر دل اداس اداس تھا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہر کے حالات کبھی نیا رخ بھی اختیارکرسکیں گے اور اس موسم خزاں کے بعد کبھی بہار کی رُت بھی لوٹ کر آئے گی۔
ایسے نامساعد اور مایوس کن حالات میں جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل طلبا کی انجمن یونی کیرینز سے تعلق رکھنے والے چند دیوانوں نے شہر قائدکی مسموم فضا کو یکسر تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام کے لیے انھوں نے سب سے موثر ہتھیار کے طور پر محفل شعروسخن برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ طے پایا کہ ایک عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد کیا جائے تاکہ دل کی بات کو عوام الناس تک پہنچایا جائے۔ رہی بات دل کی بات کی اثر انگیزی تو اس کے بارے میں تو علامہ اقبال کا یہ فرمانا سند کا درجہ رکھتا تھا کہ:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اب سوال یہ تھا کہ یہ غیر معمولی ذمے داری کس کو سونپی جائے۔خوش قسمتی سے اس کام کو سرانجام دینے کے لیے یونی کیرینز کی انتظامیہ کی نظر انتخاب اظہر عباس ہاشمی اور پیرزادہ قاسم صاحب پر پڑی اور بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ یہ فیصلہ صد فیصد بروقت اور درست تھا۔ اور اس کے بعد یہ ہوا کہ بقول مجروح سلطان پوری:لوگ ساتھ آتے گئے اورکاررواں بنتا گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ناامیدی اور مایوسی کے بادل چھٹنے شروع ہوگئے اور پھر وہ روشنی اور خوشیوں بھرا دن بھی آگیا، جب 22 مارچ 1989 کو ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام پہلا عالمی مشاعرہ بڑی دھوم دھام اور آب وتاب کے ساتھ منعقد ہوا۔ یہ مشاعرہ کیا تھا ،گویا جادوکی چھڑی تھی جس نے شہر کے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ۔
ساکنان شہر قائد کا پہلا مشاعرہ 22 مارچ کی شب منعقد کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لیے ایک علیحدہ آزاد مملکت حاصل کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ 23 مارچ 1940 کو کیا تھا۔
یہ تھا ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں کا مختصر پس منظر۔ یہ امر باعث فخر و اطمینان ہے کہ تب سے آج تک ان مشاعروں کا تسلسل پابندی کے ساتھ برقرار ہے اور حالات خواہ جیسے بھی ہوں اس مشاعرے کا انعقاد حسب معمول ہوتا رہتا ہے۔
اس عظیم الشان مشاعرے کے انعقاد کے لیے تمام منتظمین نے اپنا اپنا رول ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ادا کیا۔مشاعرہ کمیٹی کے کنوینر محمود احمد خان کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ یہ عالمی مشاعرہ شہر کی ہنگامی صورت حال میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے اس عالمی مشاعرے کے انعقاد کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں امن کو مستحکم کرنے کے لیے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ''ساکنان شہر قائد'' کا سالانہ عالمی مشاعرہ کراچی کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی شناخت بن گیا ہے۔ شہرکے باذوق خواتین وحضرات پورے سال نہایت شدت کے ساتھ اس کا انتظارکرتے ہیں۔ اس سے اس حقیقت کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ اہل کراچی بنیادی طور پر علم و ثقافت کے علم بردار اور فطرتاً امن پسند اور صلح جو ہیں۔
''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے حالیہ 24 ویں عالمی مشاعرے میں اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی ممتاز شاعروں نے شرکت کی اور حاضرین و سامعین کو اپنے کلام سے مسحور و سرشار کیا۔ اگرچہ ماضی کی طرح امسال بھی یہ عالمی مشاعرہ کامیاب رہا لیکن بھارت سے اس مرتبہ صرف ایک ہی شاعر طاہر سرفراز ہی اس مشاعرے میں شرکت کرسکے۔
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے گورنر ہاؤس میں ''ساکنان شہر قائد'' کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعرائے کرام کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا۔
اس موقعے پر اپنے مختصر خطاب میں انھوں نے کہا کہ عالمی مشاعرہ ہمارے شہرکی تہذیبی شناخت ہے اور اس کی روایت کو زندہ رکھنے والوں کی کارکردگی لائق تحسین ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔اس موقر پر مشاعرہ کمیٹی کے کنوینر اور دیگر ارکان نے گورنر سندھ کوعالمی مشاعرے کے موقعے پر شایع ہونے والا خوبصورت مجلہ بھی پیش کیا۔
جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی کے بجائے اسلام آباد بنادیا گیا تھا تو اس موقعے پر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے یہ فرمایا تھا کہ پاکستان میں صرف کراچی کے اندر اتنی کثیر تعداد میں شاعر موجود ہیں کہ اگر ان سب کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے تین روز تک لگاتار اسپیشل ٹرینیں چلائی جائیں تب بھی یہ سارے کے سارے کراچی سے اسلام آباد منتقل نہیں ہوسکتے۔
ظاہر ہے کہ تب سے آج تک اس شہرکے شاعروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ خیر یہ تو محض ایک جملہ معترضہ تھا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں صرف سخن ور ہی نہیں بلکہ سخن شناس اور سخن پرور بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اس بے مثال شہر کا انمول سرمایہ اور آبرو بھی ہیں۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ''ساکنانِ شہر قائد'' کی جانب سے ہر سال نہایت پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ عالمی مشاعرے کا انعقاد اس شہر کے باسیوں کے لیے ذہنی اور قلبی آسودگی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی مرکزکے شہریوں کو برق رفتار زندگی کی مصروفیات کے بعد ایک گوشہ سکون بھی تو درکار ہوتا ہے۔ کراچی شہر کا یہ امتیاز اور اختصاص ہے کہ یہاں آپ کو وطن عزیز کی تہذیب و ثقافت کا ہر زاویہ اور ہر پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
''ساکنانِ شہر قائد'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعرے کے توسط سے مختلف شعرائے کرام نہ صرف امن و آشتی کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں بلکہ معاشرتی رویوں میں مثبت اقدار کے فروغ کا موثر ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس طرح کی ادبی سرگرمیوں کی روشنی تنگ نظری، منافرت اور تعصب کے اندھیروں کو مٹانے میں نہایت اہم اور موثرکردار بھی ادا کرتی ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب کہ ہمارا وطن عزیز دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے میں مصروف ہے، اس طرح کی مثبت سرگرمیوں کی اہمیت وافادیت دو آتشہ ہوجاتی ہے۔
''ساکنانِ شہر قائد'' کے زیر اہتمام اولین عالمی مشاعرہ ''نیشنل اسٹیڈیم'' میں منعقد ہوا تھا جب کہ امسال اس مشاعرے کا انعقاد 10 اکتوبر کی شب کے۔ایچ۔اے گراؤنڈ گلشن اقبال میں روایتی اہتمام کے ساتھ کیا گیا۔ حسب روایت اس مشاعرے میں مقامی شعرائے کرام کے علاوہ بیرونی ممالک کے شعرا نے بھی شرکت کی اور اہل ذوق سے داد و تحسین وصول کی۔
اگرچہ یہ قصہ 26 سال پرانا ہے مگر لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہے۔ اپنا شہر کراچی جو 'منی پاکستان' کہلاتا ہے خوف و ہراس اور مایوسی کی فضا میں ڈوبا ہوا تھا اور وحشت کے بادل اس کے اوپر منڈلا رہے تھے۔ امید اور مسرت کی کوئی کرن اس وقت دور دور تک نظر نہیں آتی تھی۔ کیفیت یہ تھی کہ بقول شاعر:
وہ حبس ہے کہ لُوکی دعا مانگتے ہیں لوگ
ہر چہرہ بجھا بجھا سا تھا اور ہر دل اداس اداس تھا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہر کے حالات کبھی نیا رخ بھی اختیارکرسکیں گے اور اس موسم خزاں کے بعد کبھی بہار کی رُت بھی لوٹ کر آئے گی۔
ایسے نامساعد اور مایوس کن حالات میں جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل طلبا کی انجمن یونی کیرینز سے تعلق رکھنے والے چند دیوانوں نے شہر قائدکی مسموم فضا کو یکسر تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام کے لیے انھوں نے سب سے موثر ہتھیار کے طور پر محفل شعروسخن برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ طے پایا کہ ایک عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد کیا جائے تاکہ دل کی بات کو عوام الناس تک پہنچایا جائے۔ رہی بات دل کی بات کی اثر انگیزی تو اس کے بارے میں تو علامہ اقبال کا یہ فرمانا سند کا درجہ رکھتا تھا کہ:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اب سوال یہ تھا کہ یہ غیر معمولی ذمے داری کس کو سونپی جائے۔خوش قسمتی سے اس کام کو سرانجام دینے کے لیے یونی کیرینز کی انتظامیہ کی نظر انتخاب اظہر عباس ہاشمی اور پیرزادہ قاسم صاحب پر پڑی اور بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ یہ فیصلہ صد فیصد بروقت اور درست تھا۔ اور اس کے بعد یہ ہوا کہ بقول مجروح سلطان پوری:لوگ ساتھ آتے گئے اورکاررواں بنتا گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ناامیدی اور مایوسی کے بادل چھٹنے شروع ہوگئے اور پھر وہ روشنی اور خوشیوں بھرا دن بھی آگیا، جب 22 مارچ 1989 کو ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام پہلا عالمی مشاعرہ بڑی دھوم دھام اور آب وتاب کے ساتھ منعقد ہوا۔ یہ مشاعرہ کیا تھا ،گویا جادوکی چھڑی تھی جس نے شہر کے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ۔
ساکنان شہر قائد کا پہلا مشاعرہ 22 مارچ کی شب منعقد کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لیے ایک علیحدہ آزاد مملکت حاصل کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ 23 مارچ 1940 کو کیا تھا۔
یہ تھا ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں کا مختصر پس منظر۔ یہ امر باعث فخر و اطمینان ہے کہ تب سے آج تک ان مشاعروں کا تسلسل پابندی کے ساتھ برقرار ہے اور حالات خواہ جیسے بھی ہوں اس مشاعرے کا انعقاد حسب معمول ہوتا رہتا ہے۔
اس عظیم الشان مشاعرے کے انعقاد کے لیے تمام منتظمین نے اپنا اپنا رول ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ادا کیا۔مشاعرہ کمیٹی کے کنوینر محمود احمد خان کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ یہ عالمی مشاعرہ شہر کی ہنگامی صورت حال میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے اس عالمی مشاعرے کے انعقاد کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں امن کو مستحکم کرنے کے لیے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ''ساکنان شہر قائد'' کا سالانہ عالمی مشاعرہ کراچی کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی شناخت بن گیا ہے۔ شہرکے باذوق خواتین وحضرات پورے سال نہایت شدت کے ساتھ اس کا انتظارکرتے ہیں۔ اس سے اس حقیقت کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ اہل کراچی بنیادی طور پر علم و ثقافت کے علم بردار اور فطرتاً امن پسند اور صلح جو ہیں۔
''ساکنان شہر قائد'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے حالیہ 24 ویں عالمی مشاعرے میں اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی ممتاز شاعروں نے شرکت کی اور حاضرین و سامعین کو اپنے کلام سے مسحور و سرشار کیا۔ اگرچہ ماضی کی طرح امسال بھی یہ عالمی مشاعرہ کامیاب رہا لیکن بھارت سے اس مرتبہ صرف ایک ہی شاعر طاہر سرفراز ہی اس مشاعرے میں شرکت کرسکے۔
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے گورنر ہاؤس میں ''ساکنان شہر قائد'' کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعرائے کرام کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا۔
اس موقعے پر اپنے مختصر خطاب میں انھوں نے کہا کہ عالمی مشاعرہ ہمارے شہرکی تہذیبی شناخت ہے اور اس کی روایت کو زندہ رکھنے والوں کی کارکردگی لائق تحسین ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔اس موقر پر مشاعرہ کمیٹی کے کنوینر اور دیگر ارکان نے گورنر سندھ کوعالمی مشاعرے کے موقعے پر شایع ہونے والا خوبصورت مجلہ بھی پیش کیا۔