انتہا پسند ہندوؤں کی کارستانیاں حصہ اول

سیکولرازم کے دعویدار بھارت میں مسلم دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے


Shabbir Ahmed Arman October 27, 2015
[email protected]

سیکولرازم کے دعویدار بھارت میں مسلم دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک ہی تقسیم ہند کا سبب بنا۔ پاکستان ایک مسلم ریاست بن جانے سے تاحال بھارت نے صدق دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ خود بھارتی مسلمان بھی متعصب ہندوؤں کی چیرا دستیوں سے محفوظ نہیں رہے، اس دن سے لے کر آج تک بھارتی مسلمان اپنی بقا کا دفاع کر رہے ہیں، ہندو مسلم فسادات معمول بن چکا ہے، اب تک ہزاروں مسلمان متعصب ہندوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

1992 میں بھارتی انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں تاریخی بابری مسجد شہید ہوئی تو بھارتی مسلمانوں نے احتجاج کیا اور تین مہینوں تک بمبئی میں مسلم کشی کا بازار گرم رہا اس دوران بھی ایک ہزار کے قریب مسلمان شہید کیے گئے اور ان کی املاک کو آگ لگا دی گئی۔ موجودہ دور میں بھی بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کی مسلم دشمنی عروج پر ہے گزشتہ دو ہفتوں سے مسلم دشمنی اپنی انتہا پر ہے۔

بھارت میں ابھرنے والی مسلم دشمنی کی لہر شدید قابل ذکر ہے حالیہ جارحیت و تشدد کا تعلق زیادہ تر بھارتی مسلمانوں اور پاکستان سے ہے۔ پہلے ایک واقعے میں ممبئی میں شیوسینا کے کارندوں نے پاکستانی سینئر فنکار غلام علی کا کنسرٹ زبردستی منسوخ کروا دیا، دوسرے واقعے میں سابق پاکستانی وزیرخارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب کے میزبان کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی۔

اس سے قبل دہلی سے باہر ایک گاؤں میں ایک مسلمان کو مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے پر قتل کردیا گیا، بعدازاں مشتعل ہندوؤں نے گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں 50 سالہ اخلاق احمد کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اسے اینٹیں مار مار کر شہید کیا، پاکستان و بھارت کی دوستی بس کو بھارت نے آنے سے روکے رکھا جس سے پاکستانی اور بھارتی مسافر شدید پریشان رہے ابھی ان حالات کی بازگشت جاری تھی کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے گائے ذبح کرنے کے الزام میں ایک اور بے گناہ مسلمان 20 سالہ نعمان کو تشدد کرکے ہلاک کردیا۔

بھارتی ریاست اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا سے متصل دادری کے علاقے میں بسراڑا گاؤں میں افواہ پھیل گئی تھی کہ کچھ لوگ گوشت کھا رہے ہیں، جس کے بعد مشتعل لوگوں نے اخلاق احمد کے گھر پر حملہ کردیا، اس حملے میں اخلاق احمد موقعے پر ہی جاں بحق ہوگیا جب کہ ان کا 22 سالہ بیٹا زخمی ہوگیا۔اخلاق احمد کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے فریج میں بکرے کا گوشت رکھا ہوا تھا، گائے کا نہیں۔

اخلاق احمد کی 18 سالہ بیٹی ساجدہ نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ تقریباً 100 افراد پر مشتمل گروپ دروازہ توڑ کرگھر میں داخل ہوا اور والد اور بھائی کو لاتوں اور مکوں سے تشدد کیا اور وہ والد کو گھسیٹ کرگھر سے باہر لے گئے اور وہاں اینٹوں سے مارا۔ پولیس نے 10 افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے جن میں سے 6 کو گرفتارکرلیا گیا ہے اور پولیس نے گوشت قبضے میں لے کر اسے جانچ کے لیے بھیجا ہے۔ اس واقعے کی رپورٹ بھارتی وزارت داخلہ کو پیش کردی گئی ہے۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق رپورٹ میں اخلاق احمد کے قتل کی وجہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں ''گوشت یا گائے'' کے الفاظ استعمال کیے بغیر کہا گیا ہے کہ ایسے الزامات نہیں کہ اس شخص کو ایک ''جانور کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل کیا گیا ہے جس کی قربانی پر پابندی ہے۔'' تحقیقات جاری ہے اور ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ ادھر اس ضمن میں بھارتی ریاست اترپردیش کے سینئر وزیر اعظم خان نے اقوام متحدہ کو مداخلت کا خط لکھ دیا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے نام خط میں اپیل کی گئی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار کا نوٹس لیا جائے، انتہا پسند ہندو جماعت آر ایس ایس سیکولر بھارت کو ''ہندو راشٹریہ'' میں بدلنے کے درپے ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ فاشسٹ قوتیں معاشرے کو تقسیم کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں سرگرم ہیں۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اگر مسلمانوں کو ملک میں رہنا ہے تو انھیں گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا۔ بی بی سی کے مطابق انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے منوہر لال کھڑ نے کہا کہ مسلمان یہاں رہیں لیکن انھیں گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا، یہ ہمارا عقیدہ ہے، گائے کا گوشت چھوڑ کر بھی تو وہ مسلمان رہ سکتے ہیں، لیکن بیف کھانے سے معاشرے کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، وہ آپ نہیں کرسکتے۔

ادھر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست اترپردیش کے علاقے دادری میں گائے کا گوشت کھانے کی افواہ پر محمد اخلاق کے قتل اور ممبئی میں پاکستانی گلوکار غلام علی کوکنسرٹ کرنے کی اجازت دینے سے انکارکو افسوس ناک اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے ساتھ ہی اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات میں مرکزی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، حزب اختلاف گائے کا گوشت کھانے پر محمد اخلاق کی ہلاکت کے واقعے پر تنازع پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی نے کبھی ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے بنگلہ زبان کے اخبار آنند بازار پتریکا کو انٹرویو میں کیا ہے۔

بھارت میں گائے کے گوشت کے بعد مسلمانوں کے ٹوپی پہننے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا ہے کہ اب فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ ہندوؤں سے لڑنا ہے یا غربت سے۔ نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے ہیں۔ انتہا پسند ہندو تنظیم کے رہنما راجہ سنگھ کے جلوس کے موقعے پر مسلمانوں کے سر پر ٹوپی پہن کر سڑکوں پر آنے پر پابندی عائد کردی گئی۔

راجہ سنگھ کے جلوس کے راستے میں مساجد کو بھی بزور طاقت بند کروا دیا گیا۔ ان واقعات کے کچھ روز قبل ہندو تنظیم وشواہند پریشد کے کارکنوں نے ایک جھنڈا جس پر کلمہ طیبہ تحریر تھا، نذر آتش کردیا تھا۔ اس گستاخانہ کارروائی کے خلاف مسلمانوں کو احتجاج کرنا تھا مگر مقبوضہ کشمیر کی قابض انتظامیہ نے مسلمانوں کو گھروں سے باہر نکلنے نہ دیا اور مسلم کمیونٹی میں سول کرفیو نافذ کیا گیا۔

اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوری میں مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن راجوری اور تحریک غلامانِ مصطفیٰ کے زیر اہتمام مظاہرین نے ایک بڑا جلوس نکالا اور مجرموں کو گرفتار نہ کرنے پرکٹھ پتلی انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس اور ہندو انتہا پسندوں کی دیگر تنظیموں سے وابستہ بعض عناصر مسلمانوں کو نشانہ بناکر اور ان کے جذبات کو مجروح کرکے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق دھولیہ کے نیرگاؤں میں مسلمان سخت خوف زدہ ہیں۔ اس علاقے میں تقریباً 800 مسلمان آباد ہیں اور تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کا تبلیغ کے لیے یہاں آنا جانا رہتا ہے مگر اب ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ وہ اس علاقے کا رخ نہ کریں۔

اس بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دھولیہ ضلع میں ہندو انتہا پسندوں نے جامع مسجد دریائی کے احاطے میں نجس مردہ جانور پھینک دیا تھا اور مسلمانوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ علاقے میں داخل نہ ہوں۔ مسلمانوں کی جانب سے ان معاملات کی شکایت پولیس کے پاس درج کروائی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ فسادات پھیلانے کی کوشش کرنے والے انتہا پسندوں کو گرفتار کیا جائے۔ ہندو انتہا پسندوں کے خوف کے باعث مقامی مسلمان یہاں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ جنوری 2015 میں پیش آیا تھا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں