راسپوتن اور پوتن آخری حصہ

تاتاری نسل سے تعلق رکھنے والا پرنس فیلکس یوسپوف حسین و جمیل ہونے کے ساتھ بیحد دولت مند بھی تھا

tishna.brelvi@yahoo.com

پھر1914 میں پہلی عالمی جنگ چھڑگئی ۔ آسٹریا کے ولی عہد فرڈیننڈ کو سربیا کے دارالحکومت سرائیوو میں ایک انارکسٹ گبریل پرنشپ نے شوٹ کرکے ہلاک کردیا۔آسٹریا نے سربیا کو الٹی میٹم دے دیا ۔ قیصرِجرمنی آسٹریا کی مدد کوآگیا اور پھر فرانس، انگلینڈ اور روس بھی جنگ میں کود پڑے ۔ ایک بہت سخت دور شروع ہوگیا ۔ زارِ روس کی مشکلات بہت بڑھ گئیں۔ راسپوتن کی وجہ سے نظام حکومت تباہ ہوگیا لہٰذا مملکت کے ''بااثر'' لوگوں نے اس جعلی پیرکو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

تاتاری نسل سے تعلق رکھنے والا پرنس فیلکس یوسپوف حسین و جمیل ہونے کے ساتھ بیحد دولت مند بھی تھا اور بہت پڑھا لکھا بھی۔ وہ ایک زمانہ میں حسن پرست راسپوتن کے کافی قریب بھی رہا تھا ۔ اس کی شادی زارِ روس کی بھتیجی ایلینا سے ہوئی تھی جو خود بھی رشکِ حور تھی۔ جب راسپوتن کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تو یوسپوف سب سے آگے تھا ۔

ایلینا سے ملانے کے بہانے سے راسپوتن کو یوسپوف کے محل میں بلایا گیا اور زہر آلود پیسٹریاں پیش کی گئیں، اس نے ساری پیسٹریاں کھالیں لیکن زہر کا راسپوتن پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ پھر پستول سے گولیاں برسائی گئیں مگر راسپوتن بھاگ نکلا۔بالآخر وہ ایک تالاب میں ڈوبا ہوا پایا گیا ۔1916 میں راسپوتن کی موت کے بعد سے رومانوف فیملی کا زوال شروع ہوگیا ۔ جنگ کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی جلد ہی فروری انقلاب برپا ہوگیا جس کا لیڈرکیرنسکی تھا ۔

برطانیہ کی طرف سے مشہور ناول نگار سمرسٹ مائم ایک سیکرٹ ایجنٹ کے طور پر روانہ کیاگیا تاکہ وہ کیرنسکی کی حکومت کو مضبوط کرسکے اورکمیونسٹوں کے بڑھتے ہوئے اثرکو روک سکے ۔

مگر لینن کو تو اپنے بڑے بھائی کی پھانسی کا انتقام لینا تھا ۔جرمن حکومت نے زیورچ میں موجود لینن کو چپکے سے روس روانہ کیا ( لینن کی ماں جرمن تھی) جلد ہی ایک اور انقلاب (اکتوبر انقلاب) کی راہ ہموار ہوگئی اور لینن نیا حاکم بن گیا۔اس نے سب سے پہلے روس کے وسیع علاقے جرمنی کے حوالے کیے اور جرمنی کے ساتھ ایک ذلت آمیز معاہدہ (Treaty of Brest-litovsk) کرلیا اور مزدوروں کی آمریت Dictatorship Of Proletariat نافذ کردی گئی ۔ ملک تباہ حال تھا اور لوگ بھوکے مررہے تھے، البتہ لینن کا انتقام پورا ہوچکا تھا۔

لینن جلد ہی انتقال کرگیا ۔گمان ہے کہ اس کو زہر دیاگیا تھا ۔ اب اسٹالن اقتدارکا مالک بن گیا ۔ روس کے جنوب میں اور ایران کے شمال میں ایک ملک ہے (جارجیا گرجستان)یہ ملک بھی خوبصورت اور یہاں کے لوگ بھی خوبصورت ۔ جس طرح آسٹریا کا غریب پینٹر اڈولف ھٹلر جرمنی کا ڈکٹیٹر بن گیا، ٹھیک اسی طرح ایک غیر ملکی آوارہ نوجوان، ایک موچی کا بیٹا ، یوسف ژوگاش ویلی روس کا آمر بن گیا اور ساری دنیا پر اثر انداز ہوا ( جارج برنارڈ شا بھی اپنے بیڈ روم میں کامریڈ اسٹالن کا Bust رکھتا تھا۔) اورکمیونسٹ پارٹی کے ذریعے مشرق ومغرب میں اس کی پوجاکی جاتی تھی۔اسٹالن نے اپنے حریف لیون ٹراٹسنکی کو بھی راستے سے ہٹا دیا۔

معاشرے کی تطہیر(Purge )کے نام پرلاکھوں قتل کیے گئے ۔ مگردوسری جنگِ عظیم چھڑجانے کے بعداسٹالن نے اہم قائدانہ رول ادا کیا اور ہٹلرکو شکست دینے کے بعد سب سے پہلے برلن میں روس کا سرخ پرچم ہی لہرایا گیا۔ وہ فاتح جرمنی کہلانے کا حقدار بنا۔ جنگ کے خاتمے پراسٹالن نے زبردست ہوشیاری کامظاہرہ کیا۔

مشرقی یورپ کا ایک بہت بڑاعلاقہ اس کے قبضے میں آگیا۔ وسطیٰ ایشیا اور قازستان توپہلے ہی اس کے قبضے میں تھے۔(واضح رہے کہ روس اب بھی اتنا بڑا ملک ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک 11 ٹائم زون ہیں۔ جب ایک سرے پر صبح پھوٹتی ہے تودوسرے سرے پر چاند نکلا ہوتا ہے۔ کراچی سے ہیوسٹن امریکا کا فاصلہ اس سے کم ہے۔مزے کی بات ہے کہ روس اور بنگلہ دیش کی آبادی برابرہیں۔ لیکن روس رقبہ میں 128 گنا بڑا ہے۔)

1953میں اسٹالن کاانتقال ہوگیاپھر1956 میں خروشیف نے وہ تقریرکی جس نے روس کوہلا کررکھ دیا۔اس نے اسٹالن کا بت پاش پاش کردیا۔اسی دور میں خلاء میں روس نے اسپوٹنک بھیجی اوراسی دورمیں روس اورامریکا کے درمیان جنگی تصادم کے حالات بھی پیدا ہوگئے ۔سبب تھا CUBAN MISSILE CRISIS روس نے کمیونسٹ کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کرنے کامنصوبہ بنایا۔کیوبا امریکا کے بہت قریب ہے۔صدرکینڈی نے اس موقعے پر سخت وارننگ دی اورایٹمی جنگ کاخطرہ منڈلانے لگا۔بڑی مشکل سے مسئلہ حل ہوا۔کیوبا میں میزائل نہیں لگے اورامریکا نے ترکی سے اپنے میزائل ہٹالیے۔اب روس میں خروشیف کادورختم ہوا اورنئی ٹیم آئی۔


برژنیف اورکوسیگن۔اس 18 سالہ دور میں روس نے اسلحے کی دوڑ میں برابری حاصل کر لی اوراسی دور میں روس افغانستان پر قابض ہوگیا۔ 1982 میں برژنیف کے انتقال کے بعدگورباچیف کو اقتدار ملا لیکن وہ کمزورثابت ہوا۔ اسی کے دورمیں سوویت یونین ٹوٹا اور مشرقی یورپ اورسینٹرل ایشیاکے ممالک آزادہوگئے۔ پھر یلسن کو اقتدار ملا لیکن یہ عمررسیدہ رہنما بھی بالکل بیکار ثابت ہوا۔ روس بدحالی کاشکار تھا اور چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا۔

بالآخردسمبر1999 میں KGB کے ایک افسر''ولادی میر پوتن''(VLADIMIR PUTIN )نے زمامِ اقتداراپنے ہاتھوں میں لی۔وہ 1952 میں پیدا ہوا۔اس لحاظ سے 63 سال کی عمرمیں وہ خاصا جوان ہے اورتندرست بھی اس لیے کہ پوتن مارشل آرٹ کا پرستار ہے۔ وہ اور اس کا ساتھی مدودیف دونوں تقریباً ہم عمر ہیں اور بہت جفاکش بھی۔ پوتن نے روس کوخاصا خوشحال بنایا ہے اورمعیارِ زندگی بلندکیا ہے۔اس لیے روسی عوام میں وہ مقبول ہے ۔اس نے صنعتی ترقی کوبھی بہت اہمیت دی ہے اور فوجی اعتبارسے تو روس ایک سپر پاور پہلے ہی سے ہے۔

پوتن کا اصل امتحان 2008 میں جارجیا میں ہوا۔ امریکا اور یورپ نے روس کو ہمیشہ حقیر سمجھا اور اسے دھوکا دیا۔ ہٹلرکی طرح امریکا کی بھی یہ خواہش تھی کہ روس پر قبضہ کیا جائے یا اس کو بہت محدود کردیا جائے ۔2004 میںروس کے جنوبی شہر بسلانBeslan پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا جس میں سیکڑوں بچے مارے گئے ۔کہا گیا کہ دہشت گردوں کو امریکا کی حمایت حاصل تھی ۔اس کے بعد 2008 میں روس کی جھڑپ جارجیا سے ہوئی ۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے جارجیا کے صدرکاش ویلی کو یقین دلایا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ تنازعہ تھا Lossetia کے جنوبی علاقے کے بارے میں۔روس نے بہت سخت رویہ اختیارکیا اور جارجیا کو بری طرح شکست ہوئی ( بھلا ہاتھی اورخرگوش کا مقابلہ ہی کیا ۔) مگر امریکی امداد نہیں آئی ۔ اسے بھی امریکی ''شکست '' ہی شمارکیا گیا۔

سوویت یونین کے زمانے میں روس اور یوکرین بالکل ایسے تھے جیسے ایک گھر کے دوکمرے ۔ 1954 میں'' خیر سگالی''کے طور پرکریمیا Crimeaکو یوکرین کے حوالے کردیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ الماری ایک کمرے سے نکال کر دوسرے کمرے میں رکھ دی جائے ۔ مگر اس عرصے میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور یوکرین آزاد ہوگیا۔یوکرین کے رہنما بھی امریکی اثر میں آچکے تھے لہذا خطرہ پیدا ہوگیا کہ Sevastapol کی بیحد اہم بندرگاہ NATO کے قبضے میں آجائے اور وہاں ایک امریکی بحری اڈّہ قائم ہوکر روسی نیوی کو مفلوج کردے۔

بحرِ اسود پر جزیرہ نما کریمیا کو روس کا دروازہ کہا جا سکتا ہے۔1853- 56 میں Crimean war ہوئی تھی جس میں روس کو شکست ہوئی ۔ بندرگاہ سیو استوپول Sevastopol ہر روسی کے دل پر نقش ہے اور عظیم مصنف ٹالسٹائی نے جنگی خدمت انجام دی تھی۔لٰہذا پوٹن نے یہاں بھی سخت موقف اختیار کیا اورکریمیا پر قبضہ کر کے روسی فیڈریشن میں شامل کرلیا۔ امریکا اور یورپ کچھ نہ کرسکے۔ اب روس اور ترکی کے درمیان بھی تنازعات پیدا ہورہے ہیں۔

روس کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ روس شام میں بشار الاسد کی مدد کے لیے داخل ہوا ہے۔امریکی بہت پریشان ہیں۔ پوتن کہتا ہے کہ ہم نے مغرب کومنگولوں سے بچایا ، نپولین سے بچایا ۔ ہٹلر سے بچایا اور اب داعش /القاعدہ سے بچانے کے لیے میدان میں ہیں۔

خوشی کی بات ہے کہ پاکستان سے بھی روس کے تعلقات بڑھ رہے ہیں ۔ جنگی ہیلی کاپٹر خریدے جارہے ہیں اور روس دو ارب ڈالر کی لاگت سے ایک گیس پائپ لائن بھی کراچی سے بچھانے والا ہے۔ چین اور روس مل کر پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ کاش ہماری قیادت اس سنہری موقعے سے پورا فائدہ اٹھا سکے۔

مژدہ! مرے وطن کو نئے دوست مل گئے

رونق بڑھی چمن میں نئے پھول کھل گئے
Load Next Story