عظیم مشن اور مستقل مزاجی
کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے،
لاہور:
کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کی قیمت ہمیشہ جہد مسلسل و مستقل مزاجی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
اگر کسی انسان کو سفر کرکے ہزاروں میل دور منزل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل قدم اٹھاتا جائے، اگر وہ قدم نہیں اٹھاتا یا راستے میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ نے تاریخ ساز لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ''انقلابیوں'' سے کہا تھا: ''ہزاروں میل کا فاصلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔'' بہت سے لوگ کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس جیسا بننے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کی طرح جدوجہد نہیں کرتے۔
اس کے موجودہ مقام و مرتبہ پر رشک تو کرتے ہیں، لیکن اس مقام کے پیچھے طویل عرصے کی جدوجہد پر نظر نہیں ڈالتے۔ ہر کامیاب شخص ایک طویل محنت و جدوجہد کرنے کے بعد ہی اس مقام تک پہنچتا ہے، جو مقام ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے یقیناً ہمیں بھی اسی تسلسل کے ساتھ محنت کرنا ہوگی جس تسلسل کے ساتھ کسی بھی کامیاب شخص نے محنت کی۔
کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے انسان میں صرف شوق اور ہمت کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کامیابی کا ملنا محال ہے۔ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی کشتی کو ایک دن ضرور ساحل پر پہنچا کر رہتے ہیں اور جو ہمت ہار جائیں تو ان کی کشتی ہمیشہ بھنور میں پھنسی رہتی ہے۔ کسی صاحب خرد و دانش کا قول ہے: ''کسی کام کو کرنے سے پہلے سو بار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے یا نہیں۔ جب تمہارا ذہن اس کام کے کرنے کا فیصلہ دے دے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرچکو۔ اس بات سے نہ گھبراؤ کہ راستے میں مشکلات آئیں گی۔
اپنی منزل کی طرف نگاہ کر کے آگے بڑھتے چلے جاؤ۔ انشاء اللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔'' بہت سے لوگ کسی کام کا آغاز کرتے وقت بہت جوش و خروش دکھاتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ جوش و خروش مدہم ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ ہمت ہار جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور پھر جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کامیابی کو ان کے قدموں میں لے آتی ہے۔
بہت سے لوگ ایک اچھا لکھاری بننے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دو چار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور لکھنا چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ لکھنا لکھنے سے آتا ہے اور تحریر میں نکھار مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے مستقل مزاجی سے پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔ بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنا شروع کرتے ہیں، چند دن تک شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن چند دن کے بعد ہی وہ اپنی تعلیم سے اکتا کر کسی اور وادی میں اترجاتے ہیں اور انجام کار امتحان میں ناکامی کا داغ لگ جاتا ہے۔
اس کے برعکس کتنے ہی طالب علموں کو اگرچہ تعلیم کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے اور وہ پورا سال پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے کامیابی بھی ان کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مسلسل محنت میں پوشیدہ ہے۔ پانی کا دھارا بھی اگر مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو اس میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ عظیم محدث حافظ خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ''ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا، لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا، چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب علم حاصل نہیں کرے گا۔
اس کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا، جس کی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گررہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان میں شگاف پیدا کردیا تھا، طالب علم نے چٹان پر گرتے پانی کو دیکھا اور بولا: ''پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا تو میں کیوں علم حاصل نہیں کرسکتا؟ سو اللہ کی قسم ! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا، پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور علم کو حاصل کر لیا۔'' مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ منزل نہیں پاسکتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ انسانی فطرت میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے، لیکن جب منزل طے ہوجائے تو اس کے بعد بار بار متبادل کا سوچنا راہ نجات نہیں۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی وجہد مسلسل کی بدولت بہت سے لوگوں نے اپنے بلند و بالا خوابوں کو حقیقت کردکھایا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ عظیم، ہیرو اور لیڈر بنے ان کی کامیابی کاراز جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی ہے۔ دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔
اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے، جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔
دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔ مستقل محنت اور جہد مسلسل سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ جب انسان کسی کام کی تکمیل کا عزم مصمم کر لے تو اس کی راہ میں حسد رکاوٹ بنتا ہے، نہ دھوکا آڑے آتا ہے۔
سازش خلل ڈالتی ہے، نہ کوئی اور چیز مانع ہوتی ہے۔ بند راستے، پرخار وادی اور کھڑی رکاوٹیں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے، تب بھی ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل سے روشن کرتا رہے تو ترقی اور کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی۔
کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کی قیمت ہمیشہ جہد مسلسل و مستقل مزاجی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
اگر کسی انسان کو سفر کرکے ہزاروں میل دور منزل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل قدم اٹھاتا جائے، اگر وہ قدم نہیں اٹھاتا یا راستے میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ نے تاریخ ساز لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ''انقلابیوں'' سے کہا تھا: ''ہزاروں میل کا فاصلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔'' بہت سے لوگ کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس جیسا بننے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کی طرح جدوجہد نہیں کرتے۔
اس کے موجودہ مقام و مرتبہ پر رشک تو کرتے ہیں، لیکن اس مقام کے پیچھے طویل عرصے کی جدوجہد پر نظر نہیں ڈالتے۔ ہر کامیاب شخص ایک طویل محنت و جدوجہد کرنے کے بعد ہی اس مقام تک پہنچتا ہے، جو مقام ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے یقیناً ہمیں بھی اسی تسلسل کے ساتھ محنت کرنا ہوگی جس تسلسل کے ساتھ کسی بھی کامیاب شخص نے محنت کی۔
کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے انسان میں صرف شوق اور ہمت کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کامیابی کا ملنا محال ہے۔ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی کشتی کو ایک دن ضرور ساحل پر پہنچا کر رہتے ہیں اور جو ہمت ہار جائیں تو ان کی کشتی ہمیشہ بھنور میں پھنسی رہتی ہے۔ کسی صاحب خرد و دانش کا قول ہے: ''کسی کام کو کرنے سے پہلے سو بار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے یا نہیں۔ جب تمہارا ذہن اس کام کے کرنے کا فیصلہ دے دے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرچکو۔ اس بات سے نہ گھبراؤ کہ راستے میں مشکلات آئیں گی۔
اپنی منزل کی طرف نگاہ کر کے آگے بڑھتے چلے جاؤ۔ انشاء اللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔'' بہت سے لوگ کسی کام کا آغاز کرتے وقت بہت جوش و خروش دکھاتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ جوش و خروش مدہم ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ ہمت ہار جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور پھر جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کامیابی کو ان کے قدموں میں لے آتی ہے۔
بہت سے لوگ ایک اچھا لکھاری بننے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دو چار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور لکھنا چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ لکھنا لکھنے سے آتا ہے اور تحریر میں نکھار مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے مستقل مزاجی سے پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔ بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنا شروع کرتے ہیں، چند دن تک شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن چند دن کے بعد ہی وہ اپنی تعلیم سے اکتا کر کسی اور وادی میں اترجاتے ہیں اور انجام کار امتحان میں ناکامی کا داغ لگ جاتا ہے۔
اس کے برعکس کتنے ہی طالب علموں کو اگرچہ تعلیم کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے اور وہ پورا سال پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے کامیابی بھی ان کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مسلسل محنت میں پوشیدہ ہے۔ پانی کا دھارا بھی اگر مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو اس میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ عظیم محدث حافظ خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ''ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا، لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا، چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب علم حاصل نہیں کرے گا۔
اس کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا، جس کی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گررہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان میں شگاف پیدا کردیا تھا، طالب علم نے چٹان پر گرتے پانی کو دیکھا اور بولا: ''پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا تو میں کیوں علم حاصل نہیں کرسکتا؟ سو اللہ کی قسم ! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا، پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور علم کو حاصل کر لیا۔'' مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ منزل نہیں پاسکتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ انسانی فطرت میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے، لیکن جب منزل طے ہوجائے تو اس کے بعد بار بار متبادل کا سوچنا راہ نجات نہیں۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی وجہد مسلسل کی بدولت بہت سے لوگوں نے اپنے بلند و بالا خوابوں کو حقیقت کردکھایا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ عظیم، ہیرو اور لیڈر بنے ان کی کامیابی کاراز جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی ہے۔ دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔
اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے، جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔
دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔ مستقل محنت اور جہد مسلسل سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ جب انسان کسی کام کی تکمیل کا عزم مصمم کر لے تو اس کی راہ میں حسد رکاوٹ بنتا ہے، نہ دھوکا آڑے آتا ہے۔
سازش خلل ڈالتی ہے، نہ کوئی اور چیز مانع ہوتی ہے۔ بند راستے، پرخار وادی اور کھڑی رکاوٹیں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے، تب بھی ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل سے روشن کرتا رہے تو ترقی اور کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی۔