زلزلہ تو آگیا اب کیا کریں
عوام سے اپیل ہے کہ جعل ساز این جی اوز، افراد اور اداروں کو اپنے قیمتی عطیات دے کر ضائع نہ کریں۔
2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے دس سال بعد پاکستان میں ایک اور تباہ کن زلزلہ آیا۔ آج سے 10 سال قبل آنے والے زلزلے کے بعد 3 دن تک تو میڈیائی کیمرے، اخباری ادارئیے، ریڈیو کی خبریں سبھی کچھ مارگلہ ٹاور کے گرد ہی گھومتے رہے، تین دن بعد قوم کو علم ہوا کے مارگلہ ٹاور سے تو کئی گنا زیادہ قیامت کشمیر اور دیگر علاقوں پر ٹوٹ پڑی ہے، مگر گذشتہ روز آنے والے زلزلے میں میڈیا کا کردار بہت شاندار رہا ہے، چند منٹوں ہی میں ملک کے کونے کونے سے خبریں قوم کو دی گئیں، تادم تحریر اس زلزلے سے 215 کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہیں، سینکڑوں مکانات تباہ اور مواصلاتی نظام تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ زلزلے کے بعد کئے جانے والے چند اہم اقدامات کو مختصراً اس تحریر میں پیش کیا جا رہا تا کہ زیادہ نقصانات سے بچا جاسکے۔
زلزلے کے بعد سب سے پہلے ملبے تلے دبے ہوئے انسانوں کی زندگی بچانا ہوتا ہے، اس کے لئے ماہر افراد درکار ہوتے ہیں، غیر تربیت یافتہ افراد دورانِ آفت اپنی اور متاثرہ افراد کی جانیں لے سکتے ہیں، ملبے تلے دبے افراد کو محض جذبات کے ذریعے نہیں بچایا جاسکتا۔ میرا تعلق چونکہ کشمیر سے ہے اِس لیے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ 2005ء کے زلزلے میں تربیت یافتہ رضا کاروں کی عدم دستیابی اور ریسکیو ٹیموں کے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان ہوا، اگر ریسیکو اہلکار اور رضا کار وقت پر پہنچ جاتے تو کئی افراد کو بچایا جاسکتا ہے، اس لئے حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئیے اور آفات سے نمٹنے کے لئے رضا کاروں کی تیاری کی جائے، بوائے اسکائوٹس اور گرلز گائیڈز کو فعال کیا جاسکتا ہے، تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو بھی تربیت دینی چاہئیے۔
کسی بھی قدرتی آفت میں زخمی ہونے والے افراد کو ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کرنی چائیے، زلزلے میں مواصلاتی نظام تباہ ہوجاتا ہے، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ زخمی افراد کو ابتدائی طور پر سکون مل سکے اور اسپتال پہنچنے تک اس کو بچایا جاسکے۔ گذشتہ زلزلے میں ابتدائی طبی امداد میں تاخیر کی وجہ سے زخمیوں کا خون بہہ گیا تھا جس کی وجہ سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس لئے فرسٹ ایڈ کی تربیت ہر سطح پر لازمی ہے۔
حالیہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کو پہنچا جہاں، 199 سے زائد افراد جاں بحق اور 1 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے، متاثرہ علاقوں میں پشاور، شانگلہ، لوئردیر، اپر دیر، گلگت، اسکردو، چترال، نوشہرہ اور خیبر ایجنسی شامل ہیں، المیہ یہ ہے کہ ان تمام علاقوں میں کوئی بڑا اسپتال نہیں اگر ہے تو وہ پشاور میں اور ریسکیو کا ادارہ بھی صرف یہاں ہی کام کر رہا ہے، دیگر علاقوں میں نہ طبعی سہولیات ہیں اور نہ ہی ریسیکو کے ادارے، اس لئے یہاں سب سے زیادہ ضرورت موبائل اسپتالوں، ادویات اور ڈاکٹرز کی ہے۔ کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے اور اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے میڈیکل کی سہولیات پہنچانا اولین کام ہوتا ہے۔
انسانی زندگی کی بقاء کے لئے خوراک بنیادی ضرورت ہوتی ہے اس لئے زلزلہ، سیلاب یا دیگر آفت سے متاثرہ افراد کے لئے خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے، ابتدائی طور پر پکے پکائے کھانے، انرجی ڈرنکس اور پیکنگ میں موجود کھانا سپلائی کیا جانا چاہئے جو زیادہ دیر تک قابل استعمال ہو، کیوںکہ ابتدائی طور پر متاثرین کھانا بنانے کے قابل نہیں ہوتے، اس لئے امدادی سرگرمیوں میں اس عمل کو مدِ نظر رکھا جائے۔
سر چھپانے کے لیے چھت انسان کے لیے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں جانوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اِس میں عمارتیں اور مکانات تباہ ہوجاتے ہیں۔ عارضی رہائشیں، خیموں یا تعلیمی اداروں میں رکھی جاتی ہیں، لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے، اِس لیے ضروری عمل یہ ہے کہ متاثرین کو فوری طور پر مستقل شیلٹرز فراہم کئے جائیں۔ پاکستان کے باسی محب وطن ہیں اور ہم وطنوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں، 2005ء کے زلزلے کے دوران بحیثیت رضا کار متاثرہ علاقوں کے لئے فنڈ ریزنگ اور وہاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بھرپور موقع ملا اور تجربہ بھی حاصل کیا۔ اسی تناظر میں چند اداروں کے کردار اور طریقہ کار بیان کرتا ہوں۔
حکومتی سطح پر آفات میں دو ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ریسکیو 1122 فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے دو ذیلی ادارے قائم ہیں، صوبائی ادارہ (پی ڈی ایم اے) جبکہ ضلعی ادارہ (ڈی ڈی ایم اے) کہلاتا ہے۔ حالیہ زلزلے میں اس ادارے کی کارکردگی تاحال غیر تسلی بخش ہے جبکہ ریسکیو 1122 صرف پشاور کی حد تک موجود ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں اس کی رسائی نہیں ہے۔ قدرتی آفات میں پاک آرمی کا کردار یقینًا قابل تعریف ہے جو ہروقت سب سے پہلے متاثرین کی مدد کو پہنچتی ہے، جب کہ پاکستان آرمی کے بعد اگر سیاسی اور نظریاتی اختلاف سے بالا ہو کر دیکھوں تو دینی طبقے سے وابستہ این جی اوز متاثرین کی مدد کو پہنچتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ زلزلہ سے متاثرہ افراد کی مدد کیسے کی جائے؟ اس کے لئے آپ سرکاری اداروں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے ریسکیو اور بحالی کے کاموں میں مصروف افراد سے رابطہ کریں یا مقامی افراد سے اس بارے میں معلومات حاصل کریں کہ کون لوگ، ادارے یا این جی اوز وہاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، آپ اپنے عطیات (نقدی، خیمہ، ادویات، کھانے کا سامان اور گرم کپڑے ) ان تک پہنچا دیں تاکہ وہ امدادی سرگرمیوں میں ان کا استعمال کر سکیں۔
جعل ساز این جی اوز، افراد اور اداروں کو اپنے قیمتی عطیات دے کر ضائع نہ کریں، یہاں حکومتِ پاکستان سے دردمندانہ اپیل بھی کروں گا کہ گذشتہ سالوں میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے بعد ادارے تو بنا دئیے گئے لیکن ان کی فعالیت اور کردار تاحال ایک سوالیہ نشان ہے۔ اداروں کے کردار کو موثر بنانے کی ضرورت اور فوری امدادی سرگرمیوں کے لئے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے آفات میں ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم اس طرف توجہ کم دیتے ہیں اور سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مصداق آئندہ سے بہتر کارکردگی دکھانے کے عہدِ باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ حکومتوں کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ سابقہ واقعات سے سبق سیکھنے کے بجائے جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر دوبارہ سے کام شروع کردیں، امید ہے کہ آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا اور حکومت اس قدرتی آفت میں موثر کردار ادا کرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
1۔ بچاؤ
زلزلے کے بعد سب سے پہلے ملبے تلے دبے ہوئے انسانوں کی زندگی بچانا ہوتا ہے، اس کے لئے ماہر افراد درکار ہوتے ہیں، غیر تربیت یافتہ افراد دورانِ آفت اپنی اور متاثرہ افراد کی جانیں لے سکتے ہیں، ملبے تلے دبے افراد کو محض جذبات کے ذریعے نہیں بچایا جاسکتا۔ میرا تعلق چونکہ کشمیر سے ہے اِس لیے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ 2005ء کے زلزلے میں تربیت یافتہ رضا کاروں کی عدم دستیابی اور ریسکیو ٹیموں کے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان ہوا، اگر ریسیکو اہلکار اور رضا کار وقت پر پہنچ جاتے تو کئی افراد کو بچایا جاسکتا ہے، اس لئے حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئیے اور آفات سے نمٹنے کے لئے رضا کاروں کی تیاری کی جائے، بوائے اسکائوٹس اور گرلز گائیڈز کو فعال کیا جاسکتا ہے، تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو بھی تربیت دینی چاہئیے۔
2۔ ابتدائی طبی امداد
کسی بھی قدرتی آفت میں زخمی ہونے والے افراد کو ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کرنی چائیے، زلزلے میں مواصلاتی نظام تباہ ہوجاتا ہے، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ زخمی افراد کو ابتدائی طور پر سکون مل سکے اور اسپتال پہنچنے تک اس کو بچایا جاسکے۔ گذشتہ زلزلے میں ابتدائی طبی امداد میں تاخیر کی وجہ سے زخمیوں کا خون بہہ گیا تھا جس کی وجہ سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس لئے فرسٹ ایڈ کی تربیت ہر سطح پر لازمی ہے۔
3۔ میڈیکل ریلیف
حالیہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کو پہنچا جہاں، 199 سے زائد افراد جاں بحق اور 1 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے، متاثرہ علاقوں میں پشاور، شانگلہ، لوئردیر، اپر دیر، گلگت، اسکردو، چترال، نوشہرہ اور خیبر ایجنسی شامل ہیں، المیہ یہ ہے کہ ان تمام علاقوں میں کوئی بڑا اسپتال نہیں اگر ہے تو وہ پشاور میں اور ریسکیو کا ادارہ بھی صرف یہاں ہی کام کر رہا ہے، دیگر علاقوں میں نہ طبعی سہولیات ہیں اور نہ ہی ریسیکو کے ادارے، اس لئے یہاں سب سے زیادہ ضرورت موبائل اسپتالوں، ادویات اور ڈاکٹرز کی ہے۔ کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے اور اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے میڈیکل کی سہولیات پہنچانا اولین کام ہوتا ہے۔
4۔ خوراک
انسانی زندگی کی بقاء کے لئے خوراک بنیادی ضرورت ہوتی ہے اس لئے زلزلہ، سیلاب یا دیگر آفت سے متاثرہ افراد کے لئے خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے، ابتدائی طور پر پکے پکائے کھانے، انرجی ڈرنکس اور پیکنگ میں موجود کھانا سپلائی کیا جانا چاہئے جو زیادہ دیر تک قابل استعمال ہو، کیوںکہ ابتدائی طور پر متاثرین کھانا بنانے کے قابل نہیں ہوتے، اس لئے امدادی سرگرمیوں میں اس عمل کو مدِ نظر رکھا جائے۔
5۔ شیلٹر
سر چھپانے کے لیے چھت انسان کے لیے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں جانوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اِس میں عمارتیں اور مکانات تباہ ہوجاتے ہیں۔ عارضی رہائشیں، خیموں یا تعلیمی اداروں میں رکھی جاتی ہیں، لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے، اِس لیے ضروری عمل یہ ہے کہ متاثرین کو فوری طور پر مستقل شیلٹرز فراہم کئے جائیں۔ پاکستان کے باسی محب وطن ہیں اور ہم وطنوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں، 2005ء کے زلزلے کے دوران بحیثیت رضا کار متاثرہ علاقوں کے لئے فنڈ ریزنگ اور وہاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بھرپور موقع ملا اور تجربہ بھی حاصل کیا۔ اسی تناظر میں چند اداروں کے کردار اور طریقہ کار بیان کرتا ہوں۔
حکومتی سطح پر آفات میں دو ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ریسکیو 1122 فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے دو ذیلی ادارے قائم ہیں، صوبائی ادارہ (پی ڈی ایم اے) جبکہ ضلعی ادارہ (ڈی ڈی ایم اے) کہلاتا ہے۔ حالیہ زلزلے میں اس ادارے کی کارکردگی تاحال غیر تسلی بخش ہے جبکہ ریسکیو 1122 صرف پشاور کی حد تک موجود ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں اس کی رسائی نہیں ہے۔ قدرتی آفات میں پاک آرمی کا کردار یقینًا قابل تعریف ہے جو ہروقت سب سے پہلے متاثرین کی مدد کو پہنچتی ہے، جب کہ پاکستان آرمی کے بعد اگر سیاسی اور نظریاتی اختلاف سے بالا ہو کر دیکھوں تو دینی طبقے سے وابستہ این جی اوز متاثرین کی مدد کو پہنچتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ زلزلہ سے متاثرہ افراد کی مدد کیسے کی جائے؟ اس کے لئے آپ سرکاری اداروں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے ریسکیو اور بحالی کے کاموں میں مصروف افراد سے رابطہ کریں یا مقامی افراد سے اس بارے میں معلومات حاصل کریں کہ کون لوگ، ادارے یا این جی اوز وہاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، آپ اپنے عطیات (نقدی، خیمہ، ادویات، کھانے کا سامان اور گرم کپڑے ) ان تک پہنچا دیں تاکہ وہ امدادی سرگرمیوں میں ان کا استعمال کر سکیں۔
جعل ساز این جی اوز، افراد اور اداروں کو اپنے قیمتی عطیات دے کر ضائع نہ کریں، یہاں حکومتِ پاکستان سے دردمندانہ اپیل بھی کروں گا کہ گذشتہ سالوں میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے بعد ادارے تو بنا دئیے گئے لیکن ان کی فعالیت اور کردار تاحال ایک سوالیہ نشان ہے۔ اداروں کے کردار کو موثر بنانے کی ضرورت اور فوری امدادی سرگرمیوں کے لئے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے آفات میں ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم اس طرف توجہ کم دیتے ہیں اور سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مصداق آئندہ سے بہتر کارکردگی دکھانے کے عہدِ باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ حکومتوں کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ سابقہ واقعات سے سبق سیکھنے کے بجائے جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر دوبارہ سے کام شروع کردیں، امید ہے کہ آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا اور حکومت اس قدرتی آفت میں موثر کردار ادا کرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔