دوست یادشمن

پہلی گزارش تویہ کہ ہمارے جیسے بڑے ملک کوامریکا یا کسی بھی ملک سے قطعاًمرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔

raomanzarhayat@gmail.com

پاکستان اورامریکا کے تعلقات ایک ایساعنوان ہے، جس پرسینکڑوں دانشورانتہائی حقیقت اورغیرحقیقت پسندانہ طرزسے لکھ چکے ہیں،مستندرائے دے چکے ہیں۔ موجودہ حالات کے مطابق اس پیچیدہ تعلق پر لکھنا وقت کی ضرورت ہے اورشائدفرض بھی۔

پہلی گزارش تویہ کہ ہمارے جیسے بڑے ملک کوامریکا یا کسی بھی ملک سے قطعاًمرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔یہ بات خیالی یاجذباتی نہیں بلکہ حقیقت میں صورتحال ایسی ہے کہ پاکستان دنیاکے اہم ترین ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس میں امریکا بھی شامل ہے۔یہ اہمیت کیوں ہے،اس کادورانیہ کتناہوگااورکیاہمارے رہنمااس اہمیت سے ملک اورعوام کے لیے مثبت نتائج حاصل کر پائینگے۔ یہ بالکل مختلف مگرسنجیدہ سوالات ہیں۔

بروس رِڈل(Bruce Riedel)امریکی انتظامیہ میں کلیدی عہدوں پرفائزرہاہے۔پاکستان کے متعلق پالیسی بنانے میں اسکاذاتی اثراورخطیرحصہ ہے۔براہِ راست امریکی صدرپراثراندازہوکر ہمارے ملک کے متعلق اہم فیصلہ سازی کرتارہاہے۔بنیادی طورپر سی آئی اے سے وابستہ رہا۔اس کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے معاملات پرامریکی حکومت کی معاونت کرتارہا۔آج کل بروکنگزادارے(Brookings Institute)سے وابسطہ ہے۔

اس شخص کی اہمیت کااندازہ اس اَمرسے بھی لگاسکتے ہیں کہ مارچ2009 میں صدرابامہ کی ذاتی استدعاپرپاکستان اورافغانستان کے متعلق امریکی ایجنسیوں کی پالیسی پرماہرانہ نظرڈالی اوراس کے بعدایک نئی پالیسی تشکیل دی۔یہ حکمتِ عملی آج بھی اسی طرح نافذالعمل ہے۔2011 میں بروس رِڈل نے ایک بہت دلچسپ کتاب تحریرکی۔اسکانام موت سے بغلگیری(Deadly Embrace)ہے۔یہ کتاب ان دنوں میں تیسری بار پڑھنے کااتفاق ہوا۔وجہ صرف یہ کہ قومی زاویہ سے ہٹ کر امریکی نقطہ نظر سے،محترم نوازشریف کے امریکی دورے کاتجزیہ کیا جاسکے۔

اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پرامریکی اورپاکستانی نقطہ نظرمیں بہت زیادہ فرق ہوتاہے۔ہم اکثراوقات جذباتیت کی رومیں بہہ کرایسی توقعات وابسطہ کرلیتے ہیں، جو حقیقت سے بہت دورہوتیں ہیں۔جب یہ معصومانہ خواہشات زمین بوس ہوتی ہیں تو امریکا کوبدترین دشمن کے طور پرآڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ عوامی رائے کاجائزہ لیں تو جذبات سے بپھرے ہوئے جلوس،مذمتی نعرے بلندکرتے ہوئے امریکی انتظامیہ یاصدرکے پتلے جلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔عملی دنیامیں ایسے ردِعمل سے جزوی فرق تو پڑ سکتا ہے مگردقیق معاملات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی۔معروضی معاملات اورفیصلے بالکل ویسے ہی رہتے ہیں۔

1998 میں برو س رِڈل نے امریکی صدربل کلنٹن کو ایک تجزیہ پیش کیاتھا۔درج تھاکہ"پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے"۔اس جملے کواَن گنت جگہوں پر دہرایا گیا۔ جملہ کی واحدوجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے بنانے میں دنیاکاسب سے تیزرفتارملک تھا۔ یہ سوچ امریکی انتظامیہ کی آج بھی ہے اوراسکااظہارگاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔تجزیہ میں رڈل یہ بھی رقم کرتاہے کہ ایران نے تصدیق کی ہے کہ1985 میں پاکستان نے اس ملک کو ایٹمی سینٹری فیوج(Centrifuge)کے نقشے مہیاکیے تھے۔

میں نیوکلیئراستطاعت کے خریدوفروخت پربات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اوراس پربے تحاشہ لکھا جا چکا ہے۔مگر1998 میں بروس رِڈل کاپاکستان کے متعلق تجزیہ میری نظرمیں حقیقت سے کوسوں دورتھا۔امریکی انتظامیہ آج تک یہ ادراک نہیں کرسکی کہ ہماراہمسایہ ملک انڈیاہمیں کسی صورت میں بہترہوتے ہوئے نہیں دیکھ پاتا۔اس کی خارجہ پالیسی کی بنیادپاکستان دشمنی پراستوارہے۔

ایک محب وطن شہری کے طورپرمیرے لیے یہ اَمرباعثِ اطمینان ہے کہ پاکستان1998 میں بھی اورآج بھی ایٹمی ٹیکنالوجی میں تیزترین راستے پرگامزن ہے۔آپ جومرضی سوچیے یالکھیے مگر سچ یہ ہے کہ ہماراامن نیوکلیئردفاعی قوت میں چھپا ہوا ہے۔ ہمیں اورہمارے حکمرانوں کواس پرقطعاًدفاعی پوزیشن میں نہیں ہوناچاہیے۔وقت نے بروس رِڈل کے تجزیے کوغلط ثابت کردیا۔ کتاب میں درج ہے کہ سی آئی اے اورپاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اشتراک سے ابتداء میں القاعدہ کے خلاف بہت موثر کاروائی شروع کی گئی۔ مگرچارپانچ سال کے بعداس تعاون کے نتائج میں بہت کمزوری آنی شروع ہوگئی۔


یہیں سے وہ ڈبل گیم کاالزام شروع ہوا جسکی بازگشت ابھی تک سنائی دیتی ہے۔پاکستان کے متعلق ہندوستان کی سوچ کا یہاں سے بھی اندازہ لگائیں کہ وہ ہمارے ملک میں گرم تعاقب(Hot Pursuit)اورسرجیکل حملے(Surgical Strikes)کی باتیں کرتارہا،مگرامریکا اورمغربی ممالک نے قطعاًان دھمکیوں کی مذمت نہیں کی۔تمام مواداس بات کی گواہی دیتاہے کہ پاکستان کے علاقائی وحدت کووہ اہمیت نہیں دی گئی جواسکاحق ہے۔مجھے کتاب میں کوئی بھی ایک لفظ نظرنہیں آیا جوہندوستان کے عسکری اور سیاسی شدت پسندی پرتنقیدکرتا ہو۔یہیں سے وہ بے اعتباری کی بنیادپڑتی ہے جس میں امریکا کو غیرجانبدارفریق سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

مجموعہ میں وہ تمام واقعات اورحالات درج ہیں جس میں محترمہ بینظیربھٹواورصدرپرویزمشرف کے مابین مذاکرات اورایک فیصلہ ہواتھا۔یہ امریکی انتظامیہ ہی تھی جسکے کہنے پردونوں فریقین دبئی میں مذاکرات کررہے تھے۔ خلاصہ یہ تھا،کہ امریکی انتظامیہ چاہتی تھی کہ صدرمشرف قومی سیکیورٹی کے مسائل کودیکھتے رہیں اورپیپلزپارٹی پاکستان کے اندرونی معاملات پرکام کرتی رہے۔بروس رِڈل کے مطابق یہ تمام کاروائی پہلے دن سے ہی ناکام تھی اورآنے والے وقت نے ثابت کردیاکہ محترمہ اورپرویزمشرف اکٹھے کام نہیں کر سکتے۔ بروس رِڈل کے مطابق یہ امریکی صدرکی نظرمیں پرویز مشرف کو بچانے کی ایک حکمتِ عملی تھی۔

کتاب میں"بمبئی حملے"اورہندوستان کے ردِعمل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔مگرعجیب بات یہ کہ اس میں وضاحت سے ایک متوازن رائے نہیں رکھی گئی۔ گزارش کرونگا کہ"اجمل قصاب"جسے ان حملوں کامرکزی کردار بتایا گیا ہے وہ توحملے سے دوسال قبل نیپال سے ہندوستان کی حراست میں تھا۔ مگر اس اہم پہلوکو نظر اندازکردیاگیا۔

خیراب میں اس نسخہ کی مجموعی سوچ کی جانب آتا ہوں۔ پاکستان کو ایک ایسے فریق کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے جو عالمی جہادمیں شامل ہوسکتاہے۔درجنوں صفحات اسی مفروضہ پرسیاہ کیے گئے ہیں۔ باربارکہاگیاہے کہ القاعدہ فیصلہ کن پوزیشن میں آسکتی ہے کہ وہ اس خطے سے لڑائی کی ایسی ابتداء کرے جودنیاکے لیے تباہ کن بن جائے۔ دیگر اسلامی ممالک کے لوگوں کے لیے یہ ایک ایسی مثال بن جائے جس میں وہ لاکھوں کی تعدادمیں شامل ہوجائیں۔طالبعلم کی نظرمیں یہ مفروضہ بالکل غلط ہی نہیں ،بلکہ بے سروپا ہے۔

2011 کے بعدآج تک،یہ ایک پاکستان دشمن سوچ کی غمازی کرتاہے نہ ایک اتحادی کی۔اس کتاب کااختتام بہت دلچسپ ہے۔اس میں تالبوت اوربروس رِڈل کی جانب سے وہ تمام اقدامات کاذکرہے جوانھوں نے پاکستان کی قیادت کو ایٹمی دھماکا کرنے سے روکنے کے لیے اٹھائے تھے۔اس میں کئی بلین ڈالرکی امداداوردیگرمراعات شامل تھیں۔

مگران تمام ترغیبات کے باوجودپاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے۔ بروس رِڈل کے لیے وہ ناکامی تھی،مگرمیرے جیسے وطن پرست طالبعلم کے لیے ایک مکمل کامیابی۔وقت نے ثابت کیاکہ امریکا نے پاکستان سے تمام مشکل کام لیا۔کام نکل جانے کے بعداسکو اجنبی کے طور پر مکمل چھوڑدیا۔کیاامریکا ایک قابل اعتماداتحادی ہے یا نہیں۔ماضی کے معروضی حالات کاتجزیہ سب کچھ بتاتاہے مگر اعتمادکافقدان بدستورموجودتھااورآج بھی ہے۔

محدودسے کالم میںلمبی بات نہیں کرسکتا۔انتہائی مختصر تناظرمیں وزیراعظم کے حالیہ امریکی دورے پر گزارشات پیش کرناچاہتاہوں۔یہ دورہ ایک منتخب وزیراعظم نے اس وقت کیاجب"بروس رڈل"اوراس جیسے امریکی انتظامیہ کے متعدداہم ارکان پاکستان کودہشت گردی کی عینک کے بغیر دیکھنے سے قاصرتھے۔پاکستان نے امریکا کے تمام سیاسی اور فوجی پنڈتوں کوغلط ثابت کردیاہے۔دنیاسوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہماری سیاسی اورعسکری قیادت دہشت گردی کے جن کو مفلوج کرکے بوتل میں واپس ڈال دیگی۔اس دشوارترین فریضہ میںتمام فریقین نے کمال دانشمندی اور پختگی کامظاہرہ کیا۔

انڈیااوراس کے زیرِاثر امریکی سیاسی لابی مکمل طور پر ششدررہ چکی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان یہ مشکل معجزہ کرگزرے گا۔

مگرحقیقت یہ ہے کہ ہم لوگوں نے نہ صرف یہ کیابلکہ دہشت گردی کے وارکوسینہ پربرداشت کرکے اس عفریب کونیست ونابودکرڈالا۔یہ بھی درست ہے کہ ابھی سب کچھ ٹھیک نہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔مگرسچ یہ ہے کہ ہماراراستہ بالکل درست ہے۔وزیراعظم کایہ دورہ انتہائی معنی خیزکامیاب اورپُراعتمادتھا۔مجھے یقین ہے کہ اس سے ترقی کے وہ راستے کھلیں گے جوہمارے اپنے تعین کردہ ہونگے۔ہمارے قومی مفادکی ترجمانی کرتے ہوئے۔احتیاط لازم مگرکوشش انتہائی کامیاب رہی!
Load Next Story