بھم ْ
زلزلہ انسانی زندگی کا ایک بڑا واقعہ ہوا کرتا ہے جو انسانوں کی زندگی کا ایک موڑ بن جاتا ہے
دوپہر کا وقت تھا، میں کھانے پر بچوں کا انتظار کر رہا تھا اور دفع الوقتی کے لیے ٹی وی کو سرسری انداز میں دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً سب کچھ ہلنے لگ گیا۔ پنکھوں پر لرزش طاری ہو گئی، ان کی رفتار بدل گئی، پورے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بجنے لگے اور میں جس صوفے پر بیٹھا تھا وہ کوئی عام سی ہلکی پھلکی کرسی نہ تھی لیکن اس کی رگ و پے میں بھی گدگدی ہونے لگی، جب کچھ دیر کے لیے یہ سلسلہ جاری رہا تو میرے منہ سے اپنی گاؤں کی زبان میں نکلا 'بھم'۔ ہم گاؤں میں زلزلے کو بھم کہتے ہیں اور یہ میری زندگی کا ایک اور بھم تھا۔
بھم کے بھاری بھر کم موٹے لفظ سے ہی زلزلہ کا مفہوم نکلتا ہے جو بعد میں گاؤں کے حافظے میں اسی موٹے تازے لفظ سے زندہ رہتا ہے کہ یہ اس سال کی بات ہے جب بھم آیا تھا اور فلاں کا کوٹھا گر گیا تھا اور اتنی بکریاں مر گئی تھیں اور گاؤں کی مادی زندگی یکدم خوفزدہ ہو کر بدل گئی تھی۔ اس تبدیلی کا ذکر اللہ تعالیٰ خود اپنی کتاب میں کرتا ہے۔
مختصر سی صورۃ زلزال کی چند آیات میں فرماتا ہے کہ ''جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلائی جاوے گی اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی اور اس حالت کو دیکھ کر کافر کہے گا کہ اس کو کیا ہوا۔ اس روز زمین اپنی سب 'اچھی بری' بیان کرنے لگے گی۔ اس سبب سے کہ آپ کے رب کا اس کو یہی حکم ہو گا۔ اس روز لوگوں کی مختلف جماعتیں ہوں گی جو واپس ہوں گی تا کہ اپنے اعمال کے ثمرات دیکھ لیں۔ سو جو شخص دنیا میں ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ وہاں اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔''
مفسرین نے اس مختصر سی سورہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن ایک عام آدمی اعمال کی نیکی بدی کا تصور کرتا ہے اور زمین کے الٹ پلٹ ہونے کی بات کرتا ہے کہ زمین سب کچھ باہر اگل دیتی ہے اور پھر ذرہ برابر نیکی اور بدی سب آشکار ہوتی ہے۔
زلزلہ انسانی زندگی کا ایک بڑا واقعہ ہوا کرتا ہے جو انسانوں کی زندگی کا ایک موڑ بن جاتا ہے اور اس حادثے سے زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، ہم پاکستانی اس زلزلے سے گزرے ہیں۔ یہ ہمیں ہمارے اعمال کی ایک نرم قسم کی سزا تھی جو چند لمحوں میں آئی اور گزر گئی ورنہ ہمارے گاؤں میں تو بھم کا لفظ ادا کرنے سے پہلے منہ بھر کر اور گویائی کا زور لگا کر ہمت کرنی پڑتی ہے تا کہ بھم کی مہلک اور خوفناک کیفیت کو اس ایک لفظ میں بیان کیا جا سکے۔
زلزلہ تو بھم کے مقابلے میں ایک نرم سا لفظ ہے جو اس کی شدت کو پوری طرح بیان نہیں کرتا البتہ شہری لوگوں کو ڈرانے کے لیے پھر بھی بہت ہے۔ شہروں میں ہر طرح کی عمارتیں ہوا کرتی ہیں جن کو زلزلے کی ایک لرزش ذرا ہلا دے تو کچھ نہ کچھ زمین پر گر پڑتا ہے۔ ہمارے دیہات میں تو ایک سیدھا سادا گھر ہوتا ہے، چار دیواری اور اس کے اندر گھر۔ اگر کوئی دیوار گر پڑے یا اس میں دراڑ آ جائے تو اس کی مرمت کا سامان بھی وہیں موجود رہتا ہے۔
ہمارے ہاں مکان کی تعمیر اور مرمت کا کام ایک ہی آدمی کرتا ہے۔ چاچا اللہ یار ایک مشہور لوہار تھا جب وہ کوئی کمرہ تعمیر کرتا تو اس پر چھت ڈال کر حاضرین کو خبردار کر دیتا کہ دور ہو جاؤ اللہ کے کاموں کا کچھ پتہ نہیں کیونکہ خطرہ رہتا کہ کچی چھت اپنے بوجھ سے ہی نہ گر پڑے۔ مٹی کے گارے سے چنی ہوئی دیوار ان گھڑے پتھروں سے تعمیر کی گئی دیوار کا ایک پتھر بھی اگر گر جائے تو پھر ساری دیوار زمین پر اور اس کی زد میں آنے والا جاندار بھی اللہ کے حوالے۔ زلزلہ ہو یا اور کوئی افتاد کسی مکان کے گرنے کی صورت میں جو کچھ ہوتا ہے اسے اللہ کا فیصلہ سمجھ کر برداشت کیا جاتا ہے اور اذانوں کی صورت میں اللہ سے پناہ مانگی جاتی ہے۔
شہروں میں رہتے رہتے میں اس سادہ خوبصورت اور آسان زندگی کو بھول جاتا ہوں اور شہری زندگی کی لاتعداد الجھنوں میں پھنس کر خوامخواہ کی کئی نئی الجھنیں مول لیے لیتا ہوں۔ سب بے فائدہ اور بے معنی جن میں سے زیادہ تر ٹی وی کے کارندوں نے پھیلائی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ خوبصورت اور پرسکون زمانے گزر گئے جب ٹی وی نہیں تھا۔ زلزلہ نہیں تھا صرف بھم ہوتا تھا جسے ہر کوئی اپنے اعمال کی سزا تصور کرتا تھا اور زندگی میں کبھی کبھار ایسی کسی مصیبت کو اپنے اعمال کا نتیجہ قرار دیتا تھا اور اس پر صبر کر لیتا تھا، اس صبر میں جو برکت ہوا کرتی ہے وہ ہمارے دیہات کے خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہے جو آیندہ صرف اس بھم کو یاد کریں گے جو خیریت سے گزر گیا مگر کئی کہانیاں چھوڑ گیا۔