نا انصافی پرمبنی معاشرے قائم نہیں رہ سکتے
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو بیچارے ایس ایچ او میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ اپنی مرضی سے فائر کھول دے،
ہمارے ملک میں یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی بڑے کیس میں قربانی کا بکرا چھوٹے افسران کو بنا دیا جاتا ہے جب کہ بڑے لیڈر، افسر اور سیاستدان بچ نکلتے ہیں، آپ حالیہ تاریخیں اُٹھا کر دیکھ لیں سانحہ ماڈل ٹاؤن، بے نظیر قتل کیس، ایان علی کیس، ایفیڈرین کیس اور دیگر کیسز میں تمام چھوٹے افسران جیل گئے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو بیچارے ایس ایچ او میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ اپنی مرضی سے فائر کھول دے، یا اکیلے سعود عزیز میں اتنی مجال کہ وہ بے نظیر قتل کے بعد جائے وقوعہ کو دھو ڈالے اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم بھی نہ ہونے دے، یا اکیلی ایان علی میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ پانچ لاکھ ڈالر لے کر سفر کرے۔ ان حالات میں بھلا پاکستان کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔
جب 17جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تھا تو اس کے فوری بعد میں مرکز منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن پہنچا تو ایسے لگا جیسے میں کسی تباہ حال علاقے میں آ گیا ہوں، پھر وہاں سے پتا چلا کہ شہداء کی میتیں قریبی جناح اسپتال میں پڑی ہوئی ہیں اور زخمی بھی وہیں زیر علاج ہیں۔ وہاں پہنچا تو برآمدے میں لاشیں دیکھ کر میں افسردہ ہو گیا اور یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی حکومت نے اپنے عوام پر گولیاں چلائی ہیں ۔
زخمیوں سے ملاقات ہوئی تو چند ایک نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے زارو قطار رو رہے تھے کیوں کہ انھوں نے موت کو بڑے قریب سے دیکھا تھا۔ ہر کوئی سسٹم کی تبدیلی کا نعرہ لگا رہا تھا، وہاں موجود چند ایک صحافی دوستوں سے بھی رسمی سلام دعا ہوئی تو ایک دوست نے کہا کہ ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا گیا، انھیں انصاف ضرور ملنا چاہیے، اور فلاں فلاں کو تو ضرور سزا ملنی چاہیے۔
میں نے بڑے وثوق سے جواب دیا کہ تم بھی یہاں اور میں بھی یہاں، دیکھ لینا کسی بڑے افسر کو سزا تو دور کی بات اس سے پوچھ گچھ بھی نہیں ہو گی، میرا یہ ناگوار سا جواب مجھے خود بھی بہت بُرا لگا، لیکن میں اس وقت صحیح تھا بلکہ سو فیصد صحیح تھا، کیوں کہ گزشتہ ہفتے ہی یہ فیصلہ آیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ایس ایچ او سمیت 5 اہلکاروں پر فرد جرم عائد کر دی ہے، یہ فیصلہ کے آنے کے بعد اسی مذکورہ دوست کا فون آیا کہ بھائی آپ صحیح تھے، ''اوپر'' والے سارے افسران بچ گئے ہیں اور 5 معمولی پولیس اہلکار وں کوقربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔
میں دوست کے فون آنے اور مجھے یاد کرانے پر بڑا حیران تھا کہ ایسے لوگ بھی زندہ ہیں جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں اور ایسے ''معمولی'' واقعہ کو اتنا سیریس لیتے ہیں! میں تو سمجھا تھا کہ سارا زمانہ ہی حکمرانوں کی طرح بے حس ہو چکا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نامزد بڑے بڑے نام ٹیکنیکل طریقے سے بچ نکلے، ایک کمال کی بات یہ ہے کہ مذکورہ کیس میں شہدا کے ورثا پر ہی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔مذکورہ دوست مجھ سے پوچھتا رہا کہ آپ کو اتنا یقین کیوں تھا کہ 'بڑوں' کو کچھ نہیں ہو گا۔ بقول شاعر
تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدم
دنیا کے حادثات نے دیوانہ کردیا
آپ بے نظیر قتل کیس کو دیکھ لیں، اس میں بھی بڑے لوگ بچ گئے اور آج کل چھوٹے ملزموں کو عدالتوں میں کھپایا جا رہا ہے۔ سعود عزیز اور خرم شہزاد پر بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں نا کامی، جائے حادثہ دھلوانے اور بے نظیر کی نعش کا پو سٹ مارٹم نہ کرنے کے الزامات تھے، انھوں نے جیلیں بھی کاٹیں لیکن ان کا کیا ہوا جن کا نام بے نظیر بھٹو نے لیا تھا کہ میرے بعد قتل کے ذمے دار یہ لوگ ہوں گے۔ جب اوپر سے آرڈر آتے ہیں تو ماتحت عملہ پابند ہوتا ہے کہ وہ احکامات پر عمل کرے لیکن ہمارے ادارے اوپر سے آنے والے احکامات کا جائزہ لے کر ذمے داران کے خلاف کارروائیاں کیوں نہیں کرتے، میرے نزدیک بینظیر بھٹو کے قاتل وہی لوگ ہیں جو جائے حادثہ سے فرار ہوئے۔
جنہوں نے خالد شہنشاہ کا قتل کروایا۔ وہ بلیک بیری فون جو بے نظیر بھٹو کی ملکیت تھا وہ کہاں گیا؟ کون سے مخلص دوست و احباب اپنی محبوب شخصیت کو دہشت گردوں کی آماجگاہ کی طرف روانہ کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے لوگوں نے سانحہ کارساز کے بعد بھی بینظیر کے جلسے جلوس منسوخ نہ کیے۔ ساری قوم جانتی ہے کہ
خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا
ہمارے موجودہ حکمران بے نظیر کے کیس کو رہنے دیں کیوں کہ وہ اُن کی پہنچ سے بہت دور ہے اور بی بی کے قاتل تو اس کی پارٹی کے لوگ 5سال حکومت کرنے کے بعد بھی نہیں پکڑ سکے تو آپ کیا پکڑیں گے، حکومت صرف اتنا کردے کہ ان مظلوم خاندانوں کو انصاف دلوا دے جو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اس ریاست اور اس حکومت میں انھیں انصاف ملے، ہم جانتے ہیں کہ حالیہ سروے میں آپ کی مقبولیت بھی73فیصد ہوگئی ہے۔
حالانکہ سروے والے نہ تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کو جانتے ہیں نہ قصور میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کے کیسز کو ، نہ مظفرگڑھ میں ایک طالبہ سے پولیس والوں کی زیادتی اور طالبہ کا انصاف نہ مل کر خود کو تھانے کے سامنے جلانے جیسے واقعہ کو اور نہ ہی ملتان میں پٹواریوں سے تنگ آئے رکشہ ڈرائیور شہباز کی خودکشی کے بارے میں، مانا کہ آپ ادھر اُدھر بہت بھاگتے اور دلجوئی سے کام کرتے ہیں لیکن فوٹو سیشن اور حقیقی کام میں بہت فرق ہوتا ہے۔
آخر میں ایک قصہ۔ کسی ملک میں ایک ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ساری رعایا اس کے ظلم و ستم سے بہت تنگ تھی۔ ایک دن تنگ آکر رعایا نے بادشاہ کو ملک بدر کر دیا۔ جب نئے بادشاہ کو منتخب کرنے کا وقت آیا تو ہر طرف بحث شروع ہو گئی۔ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آراء پیش کیں۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ ملک کے سب سے بے ضرر انسان کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ عوام پر کوئی ظلم نہ ہو اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے بعد عوام نے متفقہ طور پر ایک مداری کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔
جب ہمسایہ ممالک کو علم ہوا کہ وہاں اب ایک مداری حکومت کر رہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے سازباز کر کے حملہ کر دیا۔ محل میں کسی نے آکر مداری کو اطلاع دی کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ مداری کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے تماشے میں مگن رہا۔ آہستہ آہستہ حملے کی خبر پھیل گئی تو لوگ محل کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ دربان نے مداری کو بتایا کہ ''بادشاہ سلامت، محل کے باہر سب لوگ جمع ہو گئے ہیں اور کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں''۔
یہ سن کر مداری نے ڈگڈگی پکڑی اور اپنے بندر کو لے کر محل سے باہر آیا۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ بے فکر رہو میں کارروائی کرنے لگا ہوں۔ اور اس کے بعد سب لوگ بندر کا تماشہ دیکھنے میں محو ہو گئے اور انھیں یاد ہی نہ رہا کہ دشمن کی فوجیں ان کے سر پر پہنچ چکی ہیں۔ جب ایک ہرکارے نے آخری بار سب کو خطرے سے آگاہ کیا تو مداری اپنے گدھے پر اپنے سازوسامان سمیت سوار ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ ''جو میں تمہارے لیے کر سکتا تھا کر دیا، اب تم جانو اور تمہارا ملک!''
کیا ملک پاکستان کا آئین و قانون حکمرانوں اور رعایا کے ساتھ الگ الگ سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے؟ بجلی، گیس، پٹرول کمیاب ہے۔ مہنگائی، بدامنی کا شکار عوام کب تک گھروں میں بیٹھ کر تبدیلی کا انتظار کرتے رہیں گے۔ بار بار کہنے پر آخر کار وہ نکل ہی آئیں گے۔ کیوں کہ ابھی تک عملی کام عوام کو نظر نہیں آیا، لہٰذا انصاف کا بول بالا کریں، اسی میں سب کی بھلائی ہے بقول شاعر
وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا