بلاول اور پارٹی کو درپیش بحران
اقتدار کا نشہ انھیں اس زعم اور غرور میں مبتلا کیے رکھا کہ وہی سب سے مقبول و معروف حکمراں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی رفقاء کا خیال ہے کہ پارٹی آج کل جس بحرانی صورتحال سے گزر رہی ہے وہ اس سے جلد یا بدیر باہر نکل آئے گی اور ایک بار پھر عوام کی ہر دلعزیز سیاسی جماعت بن کر پاکستان کے سیاسی افق پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگائے گی۔
لیکن ہمارے بہت سے صاحبِ علم و دانش اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں تو ایسی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی کہ پارٹی اپنے حالیہ دورِ زوال و انحطاط سے نکل کر ایک بار پھر ملک کے کروڑوں لوگوں کی آرزؤں اور تمناؤں کا مرکز بن سکے گی۔ وہ اس حال میں کیونکر اور کیسے پہنچی، اگر پارٹی کے رہنما اِس کا صحیح طور پر فہم و ادراک کر لیں تو پھر شاید اس کے اسباب و محرکات کی تہہ تک پہنچنے میں انھیں آسانی ہو گی۔
لیکن افسوس کہ وہ ابھی بھی اس کی اصل وجوہات پر غور کرنے کے بجائے اس خام خیالی میں مگن ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے صرف نام کی کرشماتی حیثیت کا سحر انھیں ایک بار پھر عوام کی نظروں میں محترم و مقدم کر دے گا جسے وہ آج تک اپنے وجود اور بقا کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کے گزشتہ دورِ اقتدار میں انھوں نے جن طریقوں سے اس قوم پر حکمرانی کی وہ قابل ستائش طرز حکومت قرار نہیں دی جا سکتی۔
ان کے دور میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے ادارے کرپشن اور ناجائز دولت کمانے کا ذریعہ بن چکے تھے۔ انھیں جن جن طریقوں سے لوٹا اور برباد کیا گیا ایسا شاید ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پارٹی کے بہی خواہ حکمرانوں کو بروقت ان سب باتوں سے آگاہ اور متنبہ کرتے رہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
اقتدار کا نشہ انھیں اس زعم اور غرور میں مبتلا کیے رکھا کہ وہی سب سے مقبول و معروف حکمراں ہیں۔ ان کی دوستی اور مفاہمتی سیاست کا جادو پورے پانچ سال اپنا سحر دکھاتا رہا اور وہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کو اپنا ہم رکاب بنا کر پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کو پورا کرتے رہے۔
ان کی ساری توجہ اقتدار کو بچانے اور اس کے پانچ سال پورے کرنے پر ہی مرکوز رہی اور وہ اس سارے عرصے میں اپنے نامہ اعمال میں کوئی قابلِ ذکر کارکردگی درج نہ کروا سکے۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ پارٹی چاروں شانوں چت ہو کر انتخابی دنگل میں ایسی شکست سے دوچار ہوئی کہ آج ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود وہ اوسان بحال نہیں کر پائی بلکہ جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں وہ مزید تنہائی اور گمنامی کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔
آج ملک کے سیاسی میدان میں مسلم لیگ (ن) سے مقابلے کے لیے اس کی جگہ ایک نئی پارٹی نے لے لی ہے، جسے اس مقام پر پہنچانے میں خود اس کی اپنی کوششوں سے زیادہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کا عمل دخل ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی ناکامیوں ہی کی بدولت پاکستان تحریک انصاف کو وہ سیاسی خلاء پر کرنے کا بھرپور موقع مل گیا جسے وہ گزشتہ دس پندرہ سال سے تلاش کر رہی تھی۔
شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے دانشور اور اہلِ بصیرت تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو انتخابی میدان سے مکمل آؤٹ کرنے کا کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ زبردست عوامی پذیرائی اور مقبولیت کا سبب اور وجہ پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت اور عوام کی جانب سے بے اعتنائی اور لاتعلقی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اگر اپنے پچھلے دور میں طرز ِحکمرانی کی کوئی اچھی مثال قائم کرتی تو شاید نہ اسے یہ دن دیکھنا پڑتا اور نہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف اس سطح پر پہنچ پاتا۔ پی پی پی سے مایوس ووٹر، اس کا کارکن اور جیالا خود کو سیاسی طور پر زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے خان صاحب کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے لگا۔ اور یوں سوائے صوبہ سندھ کے باقی تمام صوبوں میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہوا تو ہوا مگر خان صاحب کی پارٹی کو بڑی آسانی سے واک اوور مل گیا اور وہ تیسری یا چوتھی بڑی سیاسی جماعت بننے کے بجائے براہ راست ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن گئی۔
اس غیر متوقع کامیابی نے خان صاحب کے مزاج اور انداز کو بھی یکسر بدل ڈالا اور وہ ملک و قوم کی حکمرانی کا اصل حقدار سمجھنے لگے۔ بدقسمتی سے انھیں اپنے مقابل آج جس مضبوط حریف کا سامنا ہے کارکردگی کے میدان میں اس کا ٹریک ریکارڈ باقی دوسری تمام جماعتوں سے بہتر ہے۔ جلسے اور جلوسوں کی حد تک تو خان صاحب اور ان کی ٹیم اپنے اندر بھرپور صلاحیت رکھتی ہے کہ ملک کی نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کر سکیں لیکن کارکردگی کے معاملے میں وہ ابھی اس درجے پر نہیں پہنچے ہیں جہاں میاں صاحب بڑی تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ خان صاحب نے گزشتہ ڈھائی برس یونہی ضایع کر دیے۔
اپنی ساری قوت اور توانائی انھوں نے احتجاجی سیاست کی نذر کر دی وہ اگر یہی توانائی صوبہ خیبرپختونخوا میں اچھی کارکردگی پر صرف کرتے تو شاید آج انھیں یہ خواری اٹھانی نہیں پڑتی اور وہ باآسانی تمام ضمنی الیکشن جیت جاتے۔ بلکہ قوم کی محبت اور پذیرائی سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہوتے۔ انھیں میاں صاحب کی جانب سے کسی بڑی غلطی کا انتظار نہیں کرنا پڑ رہا ہوتا کہ وہ کسی دستی بم کو خود اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماریں گے اور خان صاحب کی وزیر ِاعظم بننے کی امیدیں بر آئیں گی۔
رہ گیا سوال کہ پیپلزپارٹی اپنی موجودہ شکستہ حالی اور دور انحطاط سے باہر نکل پائے گی بھی یا نہیں اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسے ایک بار پھر چاروں صوبوں کے عوام کی واحد پسندیدہ جماعت بنا پائیں گے بھی یا نہیں۔ اس سوال کا جواب ابھی شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ وہ جس طرح پارٹی کو چلا رہے ہیں اس سے تو یہ توقع کرنا بالکل عبث ہے کہ پارٹی اپنی سابقہ پوزیشن بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
خاص کر صوبہ پنجاب میں انھوں نے پارٹی کی کمان جن لوگوں کے ہاتھوں میں دی ہوئی ہے ان کے اندر یہ صلاحیت اور اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ تیزی سے ٹوٹتی پھوٹتی اس پارٹی کو بچا سکیں۔ رفتہ رفتہ اس کے دیرینہ مخلص کارکن اپنی قیادت سے مایوس ہو کر یا تو لاتعلق ہو رہے ہیں یا پھر نئی ابھرتی ہوئی جماعت پی ٹی آئی جوائن کر رہے ہیں۔
جب تک پارٹی کی زبوں حالی کے اسباب و محرکات کا صحیح طور پر تعین نہیں کر لیا جاتا اس کا مناسب اور درست علاج ممکن ہی نہیں۔ قائدین ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کرپشن اور مالی بدعنوانیاں ہی پارٹی کے اس زوال کا اصل محرک اور سبب ہیں۔ جب تک یہ بات انھیں سمجھ نہیں آئے گی اور وہ خود کو اس مسئلے سے دور رہنے کی جدوجہد اور تہیہ نہیں کر لیتے پارٹی عوام کی نظروں میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے گی جس کی وہ کبھی اہل تصور کی جاتی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری چونکہ ابھی تک اپنے والد کے اثرات سے نکل کر آزادی اور خودمختاری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اس لیے ان سے یہ امید کرنا کہ وہ پارٹی کو صحیح معنوں میں فعال اور متحرک کر پائیں گے خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جب تک وہ پارٹی کی بدنامی کا باعث بننے والے کرپٹ لوگوں کو تحفظ دینے کے بجائے انھیں نکال باہر نہیں کر لیتے پارٹی عوام میں دوبارہ مقبول و محترم نہیں ہو سکتی اور اس کے لیے سب سے پہلے انھیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ کرپشن ہی پارٹی کے زوال و پستی کی اصل وجہ ہے اور شاید ایسی وسیع النظری اور کشادہ دلی کا اظہار ان جیسے کم عمر، کم تجربے کار اور ناآشنا لیڈر کے لیے فی الحال ناممکن ہے۔