مجھے افسوس ہے کہ
ہر آنکھ نم ہے، ہردل غم میں ڈوبا ہوا ہے، ہر جگہ ماتم برپا ہے
ہر آنکھ نم ہے، ہردل غم میں ڈوبا ہوا ہے، ہر جگہ ماتم برپا ہے۔ کسی معصوم کے سر سے باپ کا ہاتھ چلا گیا ہے۔ کوئی اپنی ماں کے جنازے سے لپٹا رو رہا ہے۔ کسی کے پھول سے بچے مٹی کے نیچے دب چکے ہیں۔ ماں باپ اپنے لال کا آخری دیدار بھی نہیں کر سکے۔ کسی جگہ سے اطلاع آ رہی ہے کہ جس زمین نے سہارا دیا ہوا ہے وہ ہی زمین پیروں کے نیچے سے چلی گئی ہے۔ کسی کونے سے یہ درد ناک خبر آ رہی ہے کہ پہاڑوں نے اپنے سینے چاک کرنا شروع کر دیے ہیں۔
کوئی تصویروں سے یہ بتاتا پھر رہا ہے کہ اس کے مکان کو زمین نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سیکڑوں لوگ ایک لمحے میں اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کاش میں اور آپ یہ سب نہ دیکھ سکتے۔
کاش ہم زمین کے لرزنے سے پہلے اپنے پیاروں کو بتا سکتے۔ کاش کے ہم انھیں اتنا محفوظ کر سکتے کہ زمین انھیں نگل نہ سکتی، لیکن ہر سال برسی کا موسم بنانے والوں نے صرف بیانات دے کر ہمارے زخم بھرنے کی کوشش کی ہے اور ایک بار پھر ہمیں قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ لوگ پھر نکل پڑے ہیں۔ ہمیں یہ بتانے اورسکھانے کے لیے کہ ابھی خاموش ہو جاؤ۔ ابھی کچھ مت کہو۔ ہم آپ کی مدد کریں گے، جبتک خبروں میں اس عذاب کی جگہ رہے گی تب تک یہ لوگ اپنے چہرے دکھاتے رہیں گے اور پھر اگلے اکتوبر میں برسی منانے کے لیے سب سے پہلے قطار میں کھڑے ہو جائیں گے۔
آہ کیجیے اور بس اپنے غم کو خود ہی برداشت کرتے رہیں۔ سب یہاں ایک کہانی سُنا رہے ہیں کہ پورے دس سال بعد ایک بار پھر اکتوبر میں زلزلہ آیا ہے، لیکن کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ یہ تو قدرتی عمل ہے یا پھر ہماری اجتماعی نااہلی۔ وہ کیوں بھول جاتے ہیں ان دس سالوں میں پاکستان میں 18 زلزلے آ چکے ہیں۔ اُس وقت کیوں آنکھیں نہیں کھولی گئیں کہ ایک بار پھرکوئی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔ کیا جب 8 اکتوبر کو دس سال مکمل ہوئے تھے یہاں کھڑے کسی شخص نے یہ کہا تھا کہ ہم نے تمام تباہ حال لوگوں کے سر پرچھت فراہم کر دی ہے۔ کیا کسی نے یہ کہا تھا کہ بالا کوٹ اب مکمل طور پر آباد ہو چکا ہے۔
ان جھو ٹے آنسو بہانے والوں میں سے کسی نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ جاپان بڑے زلزلے کے پانچ سال بعد تمام لوگوں کو گھر دے چکا تھا اور ہم دس سال بعد بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ ہمیں امداد کہاں سے ملے گی۔
یہ جو لوگ بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں کہ ہم متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں وہ یہ عرض کر کے ہمارے دکھوں کو کم کریں گے کہ جو لوگ دس سال پہلے ایک دکان چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے اُن کے محل تعمیرہو گئے ہیں۔ جناب آپ کی ساری باتیں مان لیں گے لیکن پہلے یہ ارشاد فرما دیجیے کہ آپ نے وہ سارے اسکول تعمیرکرا دیے ہیں جس کا دس سال پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔
دو سال پہلے ستمبر میں پورا بلوچستان زلزلے سے لرزگیا تھا۔ جہاں ساڑھے تین سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ آپ کو یاد ہے کہ ابھی تک خضدار، تربت میں وہ لوگ قدرت کا ستم اور آپ کا نظر انداز کیا جانا بھولے نہیں ہیں۔ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے لوگوں کے آنسو صاف کرنے کے لیے کوئی ''صاحب'' گیا ہے۔ کسی کو معلوم ہے کہ وہاں اب بھی درجنوں ایسے لوگ ہیں جو معذور ہوئے تھے لیکن ان کو حکومت کی طرف سے تسلی کے چار الفاظ تک نہیں ملے۔
یہاں جب تک تباہی آ نہیں جاتی اُس وقت تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صوبہ خیبر پختوانخوا میں یہ زلزلہ نیا تو نہیں ہے۔ آپ مجھے بتا دیجیے کہ نیا پاکستان بنانے والوں کو وہاں حکومت کرتے ہوئے تین سال ہونے والے ہیں۔ وہاں پر زیادہ تر لوگوں کی ہلاکت بہتر گھر نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جہاں پر چھتیں گرنے سے لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ جہاں پر مکان کی دیوار کے نیچے دب کر بچے شہید ہوئے ہیں۔ وہاں پر اگر قانون پر عمل کرایا جاتا۔ گھروں کو محفوظ بنایا جاتا۔ تو یہ سانحات پیش نہیں آتے۔
میں مان لیتا ہوں کہ زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے اور شاید آپ اُس کو روک نہیں سکتے، لیکن ایک بہترحکومت کے طور پر آپ یہ تو کر سکتے تھے کہ یہاں کے لوگوں کو اس بات کا پابندکر دیتے کہ وہ اپنے گھروں کی تعمیر بہتر کریں۔ حکومت اتنا تو کرسکتی تھی کہ ایک سروے مکمل کر لیتی کے کون کون سے مکان ایسے ہیں جو زلزلے کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت جو صوبے کے گلے میں ساری برائی ڈال کر یہ سمجھتی ہے اُس کا دامن پاک ہو گیا۔ وہ کیوں اس بات کو یقینی نہیں بنا سکی کہ کوئی قومی پلان ترتیب دے کر اُس کو لاگو بھی کیا جاتا۔ اب یہاں جگہ جگہ کانفرنسیں ہونگی۔ اپوزیشن، حکومت پر ملبہ گرائے گی۔ حکومت سابقہ دور کو برا بھلا کہہ کر اپنا دامن جھاڑے گی۔
سب کی کوشش یہ ہو گی کہ کون میڈیا میں کتنی جگہ حاصل کر سکتا ہے۔ باتیں، باتیں اور بس باتیں ہونگی۔ الزام، الزام اور بس الزام کی سیاست ہو گی۔ ٹینڈر، پراجیکٹ اور پیسے کا نیا گیم شروع ہو جائے گا۔ موسمی کیڑے پھر مارکیٹ میں سرگرم ہو جائیں گے۔ ڈیزاسٹرمینجمنٹ بس بار بار بیان جاری کرے گی۔ وہ ہی پرانی کہانیاں دہرائی جائیں گی لیکن حتمی حل کی طرف کوئی نہیں بڑھے گا۔ نہ ہی ہم سے یہ ہو سکے گا کہ ایک مر بوط سروے کیا جا سکے اور نہ ہی ہمیں یہ توفیق ہو گی کی اپنے لوگوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
سیکڑوں لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں بالکل یہ کہوں گا کہ ان کا قتل گیا ہے۔ لاپرواہی کی وجہ سے، اپنی کرپشن کی وجہ سے اور بد انتظامی کی وجہ سے وہ سب لوگ مجرم ہیں، جن کے پاس اختیار تھا یا ہے۔ کچھ لوگ اس سارے عمل کو عذاب قرار دے کر اپنی دکان چلانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سچ بتانے میں قاصر ہیں کہ اس سارے نقصان کے ذمے دار ہم سب ہیں۔ جو اپنے گھروں کی تعمیر کے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتے ہیں کہ ہم اپنے آپ سے دھوکا کر رہے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کے قاتل بن رہے ہیں لیکن یہ غریب لوگ بھی کیا کر سکتے ہیں جن کے وسائل اتنے نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کر سکیں۔ اسی لیے تو سیلاب آئے یا پھر زلزلہ ہمیشہ غریب ہی اس کے نشانے پر رہتا ہے اور ایسے میں ان ڈرے ہوئے لوگوں کو اور ڈرا دیا جاتا ہے۔ جب انھیں یہ کہا جائے کہ یہ تو تمھیں سزا ملی ہے۔ پھر اس ملک کے بڑے بڑے حکمرانوں کو کیوں سزا نہیں ملتی۔ جن کے لیے ہر دوسرا پاکستانی جھولی پھیلا پھیلا کر بد دعا کر رہا ہوتا ہے۔
بات آسان سی ہے کہ اس سارے معاملے میں بس اپنی دکان چلائی جاتی ہے۔ کوئی بیانات دے کر خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے۔ کوئی دوسرے پر الزامات دے کر اپنا کالر اونچا کرتا ہے۔ کوئی ہمیں عذاب کا بتا کر اپنی طرف راغب کرتا ہے اور پھر ہم سب آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کے لیے ایک ہو سکتے ہیں تو ہم قدرتی آفات سے بچنے کے لیے کیوں ایک نہیں ہو سکتے۔
جس طرح کا آپریشن دہشت گردوں کے خلاف ہو رہا ہے، ایسی ہی کارروائی کیوں اُن ظالموں کے خلاف نہیں ہو سکتی جو رشوت لے کر ایسے مکانات بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ کیوں یہ سب ایک عام اور غریب آدمی کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ کیوں سیلاب آتا ہے توغریب کا ہی سامان بہہ جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب سورج آگ برساتا ہے تو کراچی میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں۔ کیوں جب زلزلہ آتا ہے تو سارے مرنے والے غریب ہی ہوتے ہیں۔
جس کے پاس دولت کا انبار ہے وہ تو خود ہی اپنا تحفظ کر لیتا ہے، لیکن غریب کا کوئی بھی نہیں ہے۔ اسی لیے تو ریاست ہوتی ہے۔ اسی لیے تو لوگوں کو جمہوریت پر ایمان ہے کہ ہمارے حکمران ہمیں زندگی کا تحفظ فراہم کریں گے، لیکن جب ان کی ہی غفلت، کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی ان کی جان لینے لگ جائے تو پھر کس کی طرف دیکھا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ جن کے جگر کا گوشہ جاتا ہے دکھ وہی جان سکتا ہے ہم تو صرف تماشہ دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تونئے تماشے ڈھونڈھنے لگ جاتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ کچھ عرصے بعد مجھے پھریہ ہی سب لکھنا پڑے گا کیونکہ یہاں سب پرانا ہی رہے گا۔