پرانی ہائی برڈگاڑیوں کی بڑے پیمانے پرانڈرانوائسنگ کاالزام
کم ویلیوایشن سے 50فیصدچھوٹ کی حامل گاڑیوں پر4ہزار ڈالرفی کاربچائے جا رہے ہیں
ماہرین آٹوسیکٹرمیں نئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی حکومتی پالیسی پر الجھن کا شکار ہیں جبکہ حکومتی محکمے بندرگاہوں پر انڈرانوائس گاڑیاں کلیئر کرتے ہوئے ان کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
حکومت نے ہائبرڈ الیکٹریکل وہیکلز (ایچ ای ویز) پر ڈیوٹیز اور ٹیکسوں میں کمی کی ہے تاکہ کم ایندھن خرچ کاروں کو فروغ دیا جا سکے تاہم انڈر انوائس گاڑیوں کی ہائی برڈ کے تحت بہت زیادہ درآمدکی وجہ سے یہ منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا ہے، محتاط اندازوں کے مطابق 2015-16 کی پہلی سہ ماہی کے دوران درآمدی ہائبرڈ گاڑیوں کی تعداد 2 ہزار 300 یونٹس سے زائد ہے جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کی نسبت 125 فیصد زیادہ ہے اور جن میں 1100 ہونڈا ویزل ہائبرڈ گاڑیاں ہیں۔
سروے کے مطابق یہ ہائبرڈ گاڑیاں اصل سے کم قیمت پر درآمد کی جار ہی ہیں جس کا ڈیوٹی پر کئی گنا منفی اثر ہو رہا ہے جو پہلے ہی ایس آر او499کے تحت نصف کی جا چکی ہے، 1100 ہونڈا ویزل ہائبرڈ گاڑیوں کی تحقیق سے انکشاف ہواکہ کسٹم ویلیوایشن کے مرحلے میں 23ہزار 500کے بجائے 16 تا 17 ہزار ڈالر فی یونٹ قیمت لگائی جا رہی ہے۔
یہ ماڈل 1500 سی سی کیٹگری کے تحت آتا ہے (یہ کار 1496 سی سی ہے) اور اس پر 60 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 17 فیصد سیلز ٹیکس، 6 فیصد انکم ٹیکس اور اضافی ٹیکس لگنا چاہیے جیسا سی این ایف قیمت پر قانون کے تحت لاگو ہے جبکہ انڈر انوائسنگ کے تحت ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کے حساب کتاب میں یہ گاڑی درآمد کنندگان کو اضافی فوائد پہنچاتی ہے۔
ان ہائی برڈگاڑیوں پر اصل ڈیوٹی 25ہزار 900 ڈالر فی یونٹ تک ہے تاہم کسٹمزکے عملے کی انڈرانوائسنگ کے تحت لاگو کی جانے والی رقم صرف 17ہزار 900ڈالر بنتی ہے، علاوہ ازیں ایس آر او 499 کے تحت ڈیوٹی میں کمی کا 50 فیصد فائدہ بھی درآمد کنندہ لے جاتا ہے، اس طرح انڈر انوائس ہونڈا ویزل ہائی برڈ 12ہزار950 کے بجائے صرف 8ہزار 950 ڈالرفی یونٹ ادائیگی پر کلیئر ہوجاتی ہے۔ ماہرین نے نشاندہی کی کہ سرکاری محاصل کی مد میں فی کار 4ہزار ڈالرکا خسارہ ہورہا ہے۔
اس طرح اب تک 40.83 ملین ڈالرکا نقصان ہو چکا ہے جو صرف 3ماہ میں بڑھ کر 429 ملین روپے بنتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ حکومت نے بلاوجہ آٹو پالیسی میں تاخیر کر دی ہے اور استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، موجودہ پالیسی کا جھکاؤ استعمال شدہ درآمدی ایچ ای اوی مارکیٹ کی جانب ہے جو مقامی صنعت کے بدلے پھل پھول رہی ہے، اگر حکومت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کی خواہش مند ہے تو اسے استعمال شدہ کاروں کی درآمد کے بارے میں اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا چاہیے اور انڈر انوائس درآمدی کاروں پر کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔
حکومت نے ہائبرڈ الیکٹریکل وہیکلز (ایچ ای ویز) پر ڈیوٹیز اور ٹیکسوں میں کمی کی ہے تاکہ کم ایندھن خرچ کاروں کو فروغ دیا جا سکے تاہم انڈر انوائس گاڑیوں کی ہائی برڈ کے تحت بہت زیادہ درآمدکی وجہ سے یہ منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا ہے، محتاط اندازوں کے مطابق 2015-16 کی پہلی سہ ماہی کے دوران درآمدی ہائبرڈ گاڑیوں کی تعداد 2 ہزار 300 یونٹس سے زائد ہے جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کی نسبت 125 فیصد زیادہ ہے اور جن میں 1100 ہونڈا ویزل ہائبرڈ گاڑیاں ہیں۔
سروے کے مطابق یہ ہائبرڈ گاڑیاں اصل سے کم قیمت پر درآمد کی جار ہی ہیں جس کا ڈیوٹی پر کئی گنا منفی اثر ہو رہا ہے جو پہلے ہی ایس آر او499کے تحت نصف کی جا چکی ہے، 1100 ہونڈا ویزل ہائبرڈ گاڑیوں کی تحقیق سے انکشاف ہواکہ کسٹم ویلیوایشن کے مرحلے میں 23ہزار 500کے بجائے 16 تا 17 ہزار ڈالر فی یونٹ قیمت لگائی جا رہی ہے۔
یہ ماڈل 1500 سی سی کیٹگری کے تحت آتا ہے (یہ کار 1496 سی سی ہے) اور اس پر 60 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 17 فیصد سیلز ٹیکس، 6 فیصد انکم ٹیکس اور اضافی ٹیکس لگنا چاہیے جیسا سی این ایف قیمت پر قانون کے تحت لاگو ہے جبکہ انڈر انوائسنگ کے تحت ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کے حساب کتاب میں یہ گاڑی درآمد کنندگان کو اضافی فوائد پہنچاتی ہے۔
ان ہائی برڈگاڑیوں پر اصل ڈیوٹی 25ہزار 900 ڈالر فی یونٹ تک ہے تاہم کسٹمزکے عملے کی انڈرانوائسنگ کے تحت لاگو کی جانے والی رقم صرف 17ہزار 900ڈالر بنتی ہے، علاوہ ازیں ایس آر او 499 کے تحت ڈیوٹی میں کمی کا 50 فیصد فائدہ بھی درآمد کنندہ لے جاتا ہے، اس طرح انڈر انوائس ہونڈا ویزل ہائی برڈ 12ہزار950 کے بجائے صرف 8ہزار 950 ڈالرفی یونٹ ادائیگی پر کلیئر ہوجاتی ہے۔ ماہرین نے نشاندہی کی کہ سرکاری محاصل کی مد میں فی کار 4ہزار ڈالرکا خسارہ ہورہا ہے۔
اس طرح اب تک 40.83 ملین ڈالرکا نقصان ہو چکا ہے جو صرف 3ماہ میں بڑھ کر 429 ملین روپے بنتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ حکومت نے بلاوجہ آٹو پالیسی میں تاخیر کر دی ہے اور استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، موجودہ پالیسی کا جھکاؤ استعمال شدہ درآمدی ایچ ای اوی مارکیٹ کی جانب ہے جو مقامی صنعت کے بدلے پھل پھول رہی ہے، اگر حکومت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کی خواہش مند ہے تو اسے استعمال شدہ کاروں کی درآمد کے بارے میں اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا چاہیے اور انڈر انوائس درآمدی کاروں پر کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔