میڈیا کانفرنس
بہت سے مقامی ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اردو زبان و ادب سے متعلق پروگرام نہ صرف بہت کثرت سے ہوتے ہیں
UNITED NATIONS:
کچھ عرصہ قبل لندن سے ایک دعوت نامہ ملا جس کا لب لباب یہ تھا کہ 30 اکتوبر سے 3نومبر تک لندن' برمنگھم اور مانچسٹر میں تین میڈیا کانفرنسز کا اہتمام کیا جا رہا ہے جن میں پاکستان سے تیس کے قریب ٹی وی اینکرز' صحافی اور کالم نگار شرکت کریں گے اور یہ کہ نہ صرف آپ کو دعوت دی جاتی ہے بلکہ آپ کا نام ان پانچ منتخب افراد میں بھی ہے جن کو اس موقع پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیے جائیں گے نام اتنے بھاری بھر کم اور پروگرام اتنا بھرپور تھا کہ پہلی نظر میں یہ منصوبے سے زیادہ مبین رشید کی Wishfull thinking لگی جو اس پروگرام کے کنوینئر تھے ان سے فون پر بات ہوئی تو کئی پرانی یادیں بھی تازہ ہو گئیں، معلوم ہوا کہ مجلس انتظامیہ کے سب احباب اپنے وطن کے دیوانے اور ابلاغ کی شمع کے پروانے ہیں میڈیا سے متعلق بھی ہیں اور اس کی ترقی' بہتری اور فروغ کے خواہاں بھی کہ وہ اس قدر مشکل اور مہنگا پروگرام کسی بیرونی امداد کے بغیر محض اپنے وسائل اور قلبی اور ذہنی وابستگی کے بل پر کر رہے ہیں۔
ابتدائی فہرست میں دیے گئے ناموں میں سے تا دم تحریر مشتاق منہاس' رحمت علی رازی' غریدہ فاروقی اور انیق احمد لندن پہنچ چکے ہیں جب کہ لاہور سے ڈاکٹر امجد ثاقب' عطاء الحق قاسمی' سید وصی شاہ' مجیب الرحمن شامی اور میں آیندہ دو دنوں میں (انشاء اللہ) وہاں پہنچ جائیں گے جب کہ مبین رشید کی تازہ ترین ای میل کے مطابق جن احباب کی شمولیت مصدقہ ہے ان میں ریحام خان' آفتاب اقبال' سلیم صافی' عادل عباسی' ابصار عالم' جواد احمد (گلوکار) اور مجاہد بریلوی صاحبان کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
1984 سے لے کر اب تک انگلستان کا یہ غالباً بارہواں دورہ ہو گا مگر یہ پہلا موقع ہے کہ میں وہاں کے لیے شاعر اور ڈرامہ کے علاوہ کسی اور حوالے (کالم نگاری) سے سفر کروں گا اس سے میرا دھیان پاکستان سے باہر اور بالخصوص انگلستان کی اردو صحافت کی طرف مڑ گیا کہ تقریباً ڈیڑھ صدی تک برطانوی کالونی رہنے کی وجہ سے اردو بولنے والی دنیا کا سب سے زیادہ میل جول برطانیہ سے ہی رہا ہے لیکن اس تعلق میں آزادی کے بعد بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں جو صورت حال بنی اس کی کوئی نظیر نہ اس سے پہلے ملتی ہے اور نہ اس کے بعد کہ ان دنوں میں کئی لاکھ لوگ (جن میں زیادہ تعداد میر پوریوں اور لیبر کلاس کی تھی) برطانوی شہریت حاصل کر کے وہاں منتقل ہوئے تاکہ دوسری جنگ عظیم میں ہونے والے افرادی نقصان کا خلا پر کیا جا سکے آج کل وہاں ان لوگوں کی تیسری نسل چل رہی ہے جو اپنی دونوں بزرگ نسلوں کی نسبت اگرچہ انگریزی سے زیادہ قریب ہے لیکن اب بھی ان کے باہمی رابطے کی زبان (مادری بولیوں سے قطع نظر) اردو ہی ہے، سو اسی حوالے سے مختلف وقتوں میں وہاں سے اردوکے بہت سے اخبارات اور رسائل شایع ہوتے رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر بوجوہ کچھ عرصے کے بعد بند بھی ہوگئے مگر چند ایک نے نسبتاً لمبی عمر بھی پائی اور ان میں سے کچھ تو آج بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد اور تعداد اشاعت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح زیادہ پاکستانی آبادی والے علاقوں مثلاً لندن' برمنگھم' مانچسٹر' بریڈ فورڈ اور گلاسگو میں تو ادبی محفلیں اور مشاعرے بڑے تواتر اور تسلسل سے ہوتے رہتے ہیں۔
بہت سے مقامی ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اردو زبان و ادب سے متعلق پروگرام نہ صرف بہت کثرت سے ہوتے ہیں بلکہ ان کے سامعین کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آج تک وہاں کسی بڑے اور منضبط پیمانے پر میڈیا سے متعلق کوئی کانفرنس یا سیمینار نہیں ہوا (میری معلومات کے مطابق) یہ کانفرنس تین شہروں میں ہو رہی ہے لندن(30 اکتوبر) برمنگھم (یکم نومبر) اور مانچسٹر (3نومبر) اس کے علاوہ بھی دو پروگرام طے ہیں 5 نومبر کو بریڈ فورڈ میں غزل انصاری' اشتیاق میر اور نعیم حیدر نے پاکستانی قونصلیٹ میں میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا ہے جب کہ لندن میں آٹھ نومبر کو ایک مشاعرہ ہو گا جس میں مجھے اور وصی شاہ کو مہمان خصوصی بنایا گیا ہے اس کے بعد واپسی یعنی 12 نومبر تک ڈاکٹر جاوید شیخ کی میزبانی رہے گی اس اثنا میں برادر عزیز ساقی فاروقی کی عیادت اور مرحوم دوست اعجاز احمد اعجاز کے بیوی بچوں سے تعزیت کے ساتھ ساتھ احباب سے ملاقات بھی رہے گی، برمنگھم میں عزیز دوست مرحوم انور مغل کے بچوں سے اور گلاسگو میں پیارے بھتیجے سلمان شاہد' عزیزہ راحت زاہد' بھائی شفیع کوثر اور احمد ریاض سے ملوں گا جب کہ بہت سے احباب کے مطالبے بھی جمع ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزارا جائے، اب دیکھئے ان میں سے کتنے ارادے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
میڈیا کے پھیلاؤ میں جس تیزی سے دنیا سمٹتی جا رہی ہے یہ کانفرنس اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے خیال رکھنے والی بات بس اتنی ہے کہ ہم اپنے گھر کی لڑائی گھر تک محدود رکھیں اور دنیا کو اس کا تماشا نہ دکھائیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں اور میڈیا کے مسائل اور خرابیاں اپنی جگہ لیکن اس کانفرنس کا بنیادی مقصد آپس میں کھلے دل و دماغ سے بات چیت اور باقی دنیا سے عزت اور برابری کی سطح پر تعلق اور رابطوں کی مضبوطی ہونا چاہیے تاکہ اس سے پل کا کام لیا جا سکے۔
کچھ عرصہ قبل لندن سے ایک دعوت نامہ ملا جس کا لب لباب یہ تھا کہ 30 اکتوبر سے 3نومبر تک لندن' برمنگھم اور مانچسٹر میں تین میڈیا کانفرنسز کا اہتمام کیا جا رہا ہے جن میں پاکستان سے تیس کے قریب ٹی وی اینکرز' صحافی اور کالم نگار شرکت کریں گے اور یہ کہ نہ صرف آپ کو دعوت دی جاتی ہے بلکہ آپ کا نام ان پانچ منتخب افراد میں بھی ہے جن کو اس موقع پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیے جائیں گے نام اتنے بھاری بھر کم اور پروگرام اتنا بھرپور تھا کہ پہلی نظر میں یہ منصوبے سے زیادہ مبین رشید کی Wishfull thinking لگی جو اس پروگرام کے کنوینئر تھے ان سے فون پر بات ہوئی تو کئی پرانی یادیں بھی تازہ ہو گئیں، معلوم ہوا کہ مجلس انتظامیہ کے سب احباب اپنے وطن کے دیوانے اور ابلاغ کی شمع کے پروانے ہیں میڈیا سے متعلق بھی ہیں اور اس کی ترقی' بہتری اور فروغ کے خواہاں بھی کہ وہ اس قدر مشکل اور مہنگا پروگرام کسی بیرونی امداد کے بغیر محض اپنے وسائل اور قلبی اور ذہنی وابستگی کے بل پر کر رہے ہیں۔
ابتدائی فہرست میں دیے گئے ناموں میں سے تا دم تحریر مشتاق منہاس' رحمت علی رازی' غریدہ فاروقی اور انیق احمد لندن پہنچ چکے ہیں جب کہ لاہور سے ڈاکٹر امجد ثاقب' عطاء الحق قاسمی' سید وصی شاہ' مجیب الرحمن شامی اور میں آیندہ دو دنوں میں (انشاء اللہ) وہاں پہنچ جائیں گے جب کہ مبین رشید کی تازہ ترین ای میل کے مطابق جن احباب کی شمولیت مصدقہ ہے ان میں ریحام خان' آفتاب اقبال' سلیم صافی' عادل عباسی' ابصار عالم' جواد احمد (گلوکار) اور مجاہد بریلوی صاحبان کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
1984 سے لے کر اب تک انگلستان کا یہ غالباً بارہواں دورہ ہو گا مگر یہ پہلا موقع ہے کہ میں وہاں کے لیے شاعر اور ڈرامہ کے علاوہ کسی اور حوالے (کالم نگاری) سے سفر کروں گا اس سے میرا دھیان پاکستان سے باہر اور بالخصوص انگلستان کی اردو صحافت کی طرف مڑ گیا کہ تقریباً ڈیڑھ صدی تک برطانوی کالونی رہنے کی وجہ سے اردو بولنے والی دنیا کا سب سے زیادہ میل جول برطانیہ سے ہی رہا ہے لیکن اس تعلق میں آزادی کے بعد بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں جو صورت حال بنی اس کی کوئی نظیر نہ اس سے پہلے ملتی ہے اور نہ اس کے بعد کہ ان دنوں میں کئی لاکھ لوگ (جن میں زیادہ تعداد میر پوریوں اور لیبر کلاس کی تھی) برطانوی شہریت حاصل کر کے وہاں منتقل ہوئے تاکہ دوسری جنگ عظیم میں ہونے والے افرادی نقصان کا خلا پر کیا جا سکے آج کل وہاں ان لوگوں کی تیسری نسل چل رہی ہے جو اپنی دونوں بزرگ نسلوں کی نسبت اگرچہ انگریزی سے زیادہ قریب ہے لیکن اب بھی ان کے باہمی رابطے کی زبان (مادری بولیوں سے قطع نظر) اردو ہی ہے، سو اسی حوالے سے مختلف وقتوں میں وہاں سے اردوکے بہت سے اخبارات اور رسائل شایع ہوتے رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر بوجوہ کچھ عرصے کے بعد بند بھی ہوگئے مگر چند ایک نے نسبتاً لمبی عمر بھی پائی اور ان میں سے کچھ تو آج بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد اور تعداد اشاعت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح زیادہ پاکستانی آبادی والے علاقوں مثلاً لندن' برمنگھم' مانچسٹر' بریڈ فورڈ اور گلاسگو میں تو ادبی محفلیں اور مشاعرے بڑے تواتر اور تسلسل سے ہوتے رہتے ہیں۔
بہت سے مقامی ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اردو زبان و ادب سے متعلق پروگرام نہ صرف بہت کثرت سے ہوتے ہیں بلکہ ان کے سامعین کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آج تک وہاں کسی بڑے اور منضبط پیمانے پر میڈیا سے متعلق کوئی کانفرنس یا سیمینار نہیں ہوا (میری معلومات کے مطابق) یہ کانفرنس تین شہروں میں ہو رہی ہے لندن(30 اکتوبر) برمنگھم (یکم نومبر) اور مانچسٹر (3نومبر) اس کے علاوہ بھی دو پروگرام طے ہیں 5 نومبر کو بریڈ فورڈ میں غزل انصاری' اشتیاق میر اور نعیم حیدر نے پاکستانی قونصلیٹ میں میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا ہے جب کہ لندن میں آٹھ نومبر کو ایک مشاعرہ ہو گا جس میں مجھے اور وصی شاہ کو مہمان خصوصی بنایا گیا ہے اس کے بعد واپسی یعنی 12 نومبر تک ڈاکٹر جاوید شیخ کی میزبانی رہے گی اس اثنا میں برادر عزیز ساقی فاروقی کی عیادت اور مرحوم دوست اعجاز احمد اعجاز کے بیوی بچوں سے تعزیت کے ساتھ ساتھ احباب سے ملاقات بھی رہے گی، برمنگھم میں عزیز دوست مرحوم انور مغل کے بچوں سے اور گلاسگو میں پیارے بھتیجے سلمان شاہد' عزیزہ راحت زاہد' بھائی شفیع کوثر اور احمد ریاض سے ملوں گا جب کہ بہت سے احباب کے مطالبے بھی جمع ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزارا جائے، اب دیکھئے ان میں سے کتنے ارادے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
میڈیا کے پھیلاؤ میں جس تیزی سے دنیا سمٹتی جا رہی ہے یہ کانفرنس اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے خیال رکھنے والی بات بس اتنی ہے کہ ہم اپنے گھر کی لڑائی گھر تک محدود رکھیں اور دنیا کو اس کا تماشا نہ دکھائیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں اور میڈیا کے مسائل اور خرابیاں اپنی جگہ لیکن اس کانفرنس کا بنیادی مقصد آپس میں کھلے دل و دماغ سے بات چیت اور باقی دنیا سے عزت اور برابری کی سطح پر تعلق اور رابطوں کی مضبوطی ہونا چاہیے تاکہ اس سے پل کا کام لیا جا سکے۔