گدھے کون دو کروڑ یا بارہ سو
یوں کسٹم حکام نے تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی گدھوں کی کھالوں کو ضبط کر لیا ہے۔
ایک مشہور لطیفہ ہے کہ کسی چڑیا گھر میں تمام جانور ہنس رہے تھے اور گدھا خاموش تھا۔ ایک صاحب نے جب یہ منظر دیکھا تو انھیں بڑا عجیب لگا۔ اگلے روز وہ صاحب اتفاق سے پھر چڑیا گھر چلے گئے، اس مرتبہ انھوں نے دیکھا کہ تمام جانور تو خاموش ہیں مگر گدھا زور زور سے ہنس رہا ہے۔ ان صاحب نے قریب ہی پنجرے میں قید بن مانس سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ بن مانس بولا، کچھ نہیں جناب! بس کل میں نے ایک لطیفہ سنایا تھا جس پر تمام جانور ہنس پڑے تھے اس بے چارے گدھے کی سمجھ میں آج وہ لطیفہ آیا ہے اس لیے یہ آج ہنس رہا ہے۔ ڈھینچوں ڈھینچوں کیے جا رہا ہے۔
گدھا بھی بڑی عجیب قسمت رکھتا ہے ہم ہر معاملے میں مغرب (امریکا وغیرہ) کی نقالی کرتے ہیں مگر گدھے کے معاملے میں نہیں، یعنی ہم گدھے کو گدھا ہی سمجھتے ہیں اور کسی پر حقارت سے طنز کرنا ہو تو بھی اسے ''گدھے'' کے لقب سے نواز دیتے ہیں جب کہ امریکا جیسے روشن خیال ملک میں گدھے کو سیاسی پارٹی کا نشان بنا کر عزت و تکریم دی جاتی ہے۔
سنا ہے بنگلہ دیش میں کوئی گدھا نہیں ہے، البتہ دنیا کے تمام ممالک میں گدھے موجود ہیں خواہ وہ صرف چڑیا گھر ہی میں کیوں نہ موجود ہوں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں تو گدھے کو اتنی عزت دی گئی کہ عورت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ اس کو بچوں کی تدریسی کتاب میں مضمون کی شکل میں جگہ دے کر سمجھایا گیا کہ بچوں ایک ''گدھا'' کسی بھارتی عورت سے زیادہ محنتی اور کام کرنے والا ہوتا ہے۔
بہرحال ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ گدھے کو عزت نہ دینے کے باوجود اس سے پیسہ کمانے کا فن خوب استعمال کیا جاتا ہے، حال ہی میں روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر میں بتایا گیا کہ جناب! 1200 گدھوں کی کھالیں اتار کر ملک سے باہر فروخت کر کے سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی اور کسٹم حکام نے یہ کھالیں ضبط کر لیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان گدھوں کی ہمارے ملک کی طرح دیگر ممالک میں بے قدری نہیں، صرف ایک گدھے کی کھال کی قیمت تقریباً ایک لاکھ روپے ہوتی ہے یوں کسٹم حکام نے تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی گدھوں کی کھالوں کو ضبط کر لیا ہے۔
ابھی ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ان گدھوں کی کھالوں سے تو خوب کمائی ہو رہی ہو گی کہ یکایک ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ چلو کھالیں تو باہر ممالک کو ''برآمد'' کر دی جاتی ہیں لیکن ان گدھوں کی ''باقیات'' یعنی گوشت وغیرہ کا کیا ''مصرف'' ہوتا ہو گا؟ ہمارے ایک دوست نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جناب! لاہور شہر میں گدھوں کا گوشت فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے! ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ بھئی! لاہوری تو ''زندہ دلانِ لاہور'' کہلاتے ہیں بھلا وہ کیوں گدھے کا حرام گوشت کھانے لگے؟ ہمارے دوست کا جواب تھا کہ کالم نگار صاحب! آپ بھی بڑے سادہ ہیں، جب لاہوریوں کو پتہ چلنے ہی نہیں دیا جائے گا کہ فروخت کیا جانے والا گوشت کسی ''بچھیا'' کا ہے یا کسی ''گدھے'' کا تو پھر۔۔۔۔؟
ہم اپنے اس دوست کے جواب پر چونکے (کیونکہ ہم کراچی شہر کے رہنے والے ہیں اور ہفتے میں دو دن تو گوشت لازمی کھاتے ہیں، گھر میں نہ پکے تو کسی تقریب میں کھانے کو مل جاتا ہے) اب ہم اس خبر کی یہ سطر پڑھ کر عجیب کیفیت میں مبتلا تھے کہ گدھوں کی کھالیں تو کراچی کسٹم نے ضبط کی ہیں، کیا ان گدھوں کو ''کاٹا'' (ذبیحہ تو حلال جانور کا ہوتا ہے) بھی کراچی شہر میں گیا تھا؟ اگر واقعتاً ایسا ہی ہوا ہے تو پھر ان 12 سو گدھوں کا گوشت کن شہریوں کے حصے میں آیا اور کون خوش نصیب ان گدھوں کے گوشت سے محظوظ رہا ہو گا؟
کیا کراچی کے کروڑوں شہریوں کو بھی ''گدھا'' سمجھ لیا گیا ہے، کیا ان کی کوئی عزت نہیں! کیا ان کو کھلانے کے لیے گدھے ہی رہ گئے تھے؟ کیا ان گدھوں کے گوشت کو کھانے والے (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) دو کروڑ شہری گدھے تھے؟ یا ان کو کھلانے والے گدھے تھے؟ یا پھر ان شہری اداروں اور ان کے ذمے دار گدھے تھے کہ جن کی ذمے داری ان سب معاملات پر نظر رکھنا ہوتی ہے؟ ویسے تو کراچی میں ایک سویکس آپریشن بھی چل رہا ہے جس کے تحت منگل اور بدھ کو گوشت کے ناغے پر سختی سے عمل کرایا جا رہا ہے۔ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون کون اس قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے لیکن ہمارا سوال تو یہی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر ادارے و ذمے دار صرف اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ بازاروں میں صرف منگل و بدھ کو گوشت فروخت نہ ہو بلکہ اس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ منگل اور بدھ کے علاوہ دیگر پانچ دنوں میں کون سا گوشت فروخت ہو رہا ہے؟
ہماری ان گدھوں کی کھالیں اور گوشت فروخت کرنے والوں سے گزارش ہے کہ بھئی! جب آپ گدھوں کی کھالوں کو ''برآمد'' کر کے پیسہ کما رہے ہیں تو ازراہ کرم! ان گدھوں کا گوشت بھی باہر فروخت کے لیے لے جائیے کیونکہ امریکا جیسے ممالک میں تو انھیں اس قدر عزت و احترام دیا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کا نشان بنا کر عوام سے ووٹ طلب کیے جا رہے ہیں مگر خدارا! ہم پاکستانیوں خاص کر کراچی کے دو کروڑ شہریوں کو یوں ''گدھا'' سمجھ کر گدھے کا گوشت نہ کھلائیے! ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے کہ گدھے یہ بارہ سو ہی کراچی کے دو کروڑ شہری نہیں؟
گدھا بھی بڑی عجیب قسمت رکھتا ہے ہم ہر معاملے میں مغرب (امریکا وغیرہ) کی نقالی کرتے ہیں مگر گدھے کے معاملے میں نہیں، یعنی ہم گدھے کو گدھا ہی سمجھتے ہیں اور کسی پر حقارت سے طنز کرنا ہو تو بھی اسے ''گدھے'' کے لقب سے نواز دیتے ہیں جب کہ امریکا جیسے روشن خیال ملک میں گدھے کو سیاسی پارٹی کا نشان بنا کر عزت و تکریم دی جاتی ہے۔
سنا ہے بنگلہ دیش میں کوئی گدھا نہیں ہے، البتہ دنیا کے تمام ممالک میں گدھے موجود ہیں خواہ وہ صرف چڑیا گھر ہی میں کیوں نہ موجود ہوں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں تو گدھے کو اتنی عزت دی گئی کہ عورت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ اس کو بچوں کی تدریسی کتاب میں مضمون کی شکل میں جگہ دے کر سمجھایا گیا کہ بچوں ایک ''گدھا'' کسی بھارتی عورت سے زیادہ محنتی اور کام کرنے والا ہوتا ہے۔
بہرحال ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ گدھے کو عزت نہ دینے کے باوجود اس سے پیسہ کمانے کا فن خوب استعمال کیا جاتا ہے، حال ہی میں روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر میں بتایا گیا کہ جناب! 1200 گدھوں کی کھالیں اتار کر ملک سے باہر فروخت کر کے سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی اور کسٹم حکام نے یہ کھالیں ضبط کر لیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان گدھوں کی ہمارے ملک کی طرح دیگر ممالک میں بے قدری نہیں، صرف ایک گدھے کی کھال کی قیمت تقریباً ایک لاکھ روپے ہوتی ہے یوں کسٹم حکام نے تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی گدھوں کی کھالوں کو ضبط کر لیا ہے۔
ابھی ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ان گدھوں کی کھالوں سے تو خوب کمائی ہو رہی ہو گی کہ یکایک ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ چلو کھالیں تو باہر ممالک کو ''برآمد'' کر دی جاتی ہیں لیکن ان گدھوں کی ''باقیات'' یعنی گوشت وغیرہ کا کیا ''مصرف'' ہوتا ہو گا؟ ہمارے ایک دوست نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جناب! لاہور شہر میں گدھوں کا گوشت فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے! ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ بھئی! لاہوری تو ''زندہ دلانِ لاہور'' کہلاتے ہیں بھلا وہ کیوں گدھے کا حرام گوشت کھانے لگے؟ ہمارے دوست کا جواب تھا کہ کالم نگار صاحب! آپ بھی بڑے سادہ ہیں، جب لاہوریوں کو پتہ چلنے ہی نہیں دیا جائے گا کہ فروخت کیا جانے والا گوشت کسی ''بچھیا'' کا ہے یا کسی ''گدھے'' کا تو پھر۔۔۔۔؟
ہم اپنے اس دوست کے جواب پر چونکے (کیونکہ ہم کراچی شہر کے رہنے والے ہیں اور ہفتے میں دو دن تو گوشت لازمی کھاتے ہیں، گھر میں نہ پکے تو کسی تقریب میں کھانے کو مل جاتا ہے) اب ہم اس خبر کی یہ سطر پڑھ کر عجیب کیفیت میں مبتلا تھے کہ گدھوں کی کھالیں تو کراچی کسٹم نے ضبط کی ہیں، کیا ان گدھوں کو ''کاٹا'' (ذبیحہ تو حلال جانور کا ہوتا ہے) بھی کراچی شہر میں گیا تھا؟ اگر واقعتاً ایسا ہی ہوا ہے تو پھر ان 12 سو گدھوں کا گوشت کن شہریوں کے حصے میں آیا اور کون خوش نصیب ان گدھوں کے گوشت سے محظوظ رہا ہو گا؟
کیا کراچی کے کروڑوں شہریوں کو بھی ''گدھا'' سمجھ لیا گیا ہے، کیا ان کی کوئی عزت نہیں! کیا ان کو کھلانے کے لیے گدھے ہی رہ گئے تھے؟ کیا ان گدھوں کے گوشت کو کھانے والے (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) دو کروڑ شہری گدھے تھے؟ یا ان کو کھلانے والے گدھے تھے؟ یا پھر ان شہری اداروں اور ان کے ذمے دار گدھے تھے کہ جن کی ذمے داری ان سب معاملات پر نظر رکھنا ہوتی ہے؟ ویسے تو کراچی میں ایک سویکس آپریشن بھی چل رہا ہے جس کے تحت منگل اور بدھ کو گوشت کے ناغے پر سختی سے عمل کرایا جا رہا ہے۔ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون کون اس قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے لیکن ہمارا سوال تو یہی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر ادارے و ذمے دار صرف اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ بازاروں میں صرف منگل و بدھ کو گوشت فروخت نہ ہو بلکہ اس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ منگل اور بدھ کے علاوہ دیگر پانچ دنوں میں کون سا گوشت فروخت ہو رہا ہے؟
ہماری ان گدھوں کی کھالیں اور گوشت فروخت کرنے والوں سے گزارش ہے کہ بھئی! جب آپ گدھوں کی کھالوں کو ''برآمد'' کر کے پیسہ کما رہے ہیں تو ازراہ کرم! ان گدھوں کا گوشت بھی باہر فروخت کے لیے لے جائیے کیونکہ امریکا جیسے ممالک میں تو انھیں اس قدر عزت و احترام دیا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کا نشان بنا کر عوام سے ووٹ طلب کیے جا رہے ہیں مگر خدارا! ہم پاکستانیوں خاص کر کراچی کے دو کروڑ شہریوں کو یوں ''گدھا'' سمجھ کر گدھے کا گوشت نہ کھلائیے! ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے کہ گدھے یہ بارہ سو ہی کراچی کے دو کروڑ شہری نہیں؟