اولڈ ایج ہاؤس بے سہارگی کا دکھ
جگہ جگہ اولڈ ایج ہاؤس کھلے دکھائی دے رہے ہیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے
جگہ جگہ اولڈ ایج ہاؤس کھلے دکھائی دے رہے ہیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اسلامی ملک اور اسلامی معاشرے میں اولڈ ہاؤس کا بھلا کیا کام؟ ہمارے ہاں تو اولڈ ہاؤس کا تصور تک نہیں ہونا چاہیے مگر کیا کہیے کہ دن بہ دن ان کی تعداد میں اضافہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور یکایک اللہ کے وہ احکامات یاد آ جاتے ہیں جو والدین کے مقام اور ان کی قدر و منزلت کو اجاگر کرتے ہیں یہ احکامات ہمارے ہی لیے ہیں لیکن ہم ان احکامات سے نابلد رہنا اور نظریں چرانا ہی پسند کرتے ہیں اور اولڈ ہاؤس کے قیام اور ان کی تزئین و آرائش ہی میں نیکی کا تصور ڈھونڈتے ہیں، والدین کا احسان تو اولاد کبھی ادا ہی نہیں کر سکتی پھر والدین کے ساتھ ہی ظلم روا رکھا جائے یہ تو ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔
اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ ہی حقوق العباد کا تصور ہے اور حقوق العباد تین چوتھائی دین ہے اور حقوق العباد میں اہم ترین حق والدین کا ہے جس کے لیے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں اس حق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ والدین کا مرتبہ و مقام اللہ کی نظر میں کس قدر اہمیت کا حامل اور کتنا بڑا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ذکر کے فوراً بعد والدین کا ذکر فرمایا، ارشاد مبارکہ ہے کہ ''اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اُف تک نہ کہو اور نہ انھیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو۔'' (سورۃ بنی اسرائیل)۔ اسی طرح سورۃ البقرہ میں فرمایا ''اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے۔'' اس کے علاوہ سورۃ النساء میں مزید فرمایا ''اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔''
حقوق والدین کی شان یہ ہے کہ والدین کی اطاعت واجب ہے، ان کا حکم اولاد کے ذمے شرعاً فرض ہے شرط یہ کہ وہ حکم غیر شرعی نہ ہو تو اس حکم کو پورا کرنا ایسا ہی فرض ہے جیسا کہ نماز کا ادا کرنا فرض ہے۔ ورنہ والدین کی نافرمانی کا وبال یہ ہوتا ہے کہ مرتے وقت کلمہ تک نصیب نہیں ہوتا۔
بہیقی نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا ''سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، قیامت تک موخر کر دیتا ہے، سوائے والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کرنے والے کے، اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں دی جاتی ہے۔'' امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے، جیسا کہ سورۃ لقمان میں اللہ نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے ''میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی۔'' لہٰذا اللہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت و خدمت اور اللہ کے شکر کی طرح والدین کی شکر گزاری واجب ہے۔ اسلامی تعلیمات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی خصوصی تاکید ملتی ہے۔ والدین کا ادب و احترام ان کے ساتھ حسن و خوبی کا برتاؤ اخلاقیات کا اہم تقاضا ہے۔
چونکہ اسلام میں اخلاقیات کی اہمیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اس لیے اولاد کے لیے اپنے والدین کی خدمت، فرمانبرداری اور نیک سلوک کو اسلامی اخلاق میں اہم ضابطے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جس نے لوگوں کا شکر ادا نہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا۔ والدین کے اپنی اولاد پر اس قدر احسان ہوتے ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ عام ضابطہ اخلاق کے تحت اولاد کے لیے لازم ہے کہ وہ ہوش مندی کی عمر کو تو پہنچ کر اپنے والدین کے احسانات کا بدلہ چکائے۔ والدین کی پوری خدمت و اطاعت کرے اور اس بات کو کبھی فراموش نہ کرے کہ انھوں نے بڑی تکالیف اٹھا کر، دکھ سہہ کر اور مال خرچ کر کے ان کی پرورش کی ہے چونکہ والدین نے اولاد کی پرورش کے دوران دکھ اور تکالیف اٹھائیں اپنی جان تک نچھاور کرتے رہے۔ اب احتیاج کے وقت وہ ان کی نگہداشت کریں اور سہولیات پہنچانے کی حتی الامکان و حتیٰ المقدور کوشش کریں اس پر بھی حق یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا۔
ایک صحابیؓ نے اپنی بوڑھی ماں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر حج کرایا اس کے بعد وہ حضور اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا ''یا رسول اللہؐ! کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا؟'' نبی کریمؐ نے فرمایا ''جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اس دوران تمہاری ماں کے پیٹ میں زچگی کا جو بھی درد اٹھا اس ایک درد کا بھی تم نے حق ادا نہیں کیا۔''
آج جب ناخلف اولاد جوان ہو کر اپنے من پسند مشاغل میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو جاتی ہے اور بوڑھے والدین کو بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں تو ماں باپ کا ان پر ناراض ہونا قدرتی و فطری امر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا ہے اور اللہ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے ایک اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں کہ جب کوئی اپنے ماں باپ کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں تنگی کر دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ والدین کے حق میں دعا مانگنا بھی ادائے حقوق کے لیے لازم ہے نیز والدین کے حق میں دعا کے الفاظ بھی خود قرآن پاک میں بتائے گئے ہیں فرمایا ''اے میرے پروردگار! ان دونوں (میرے ماں باپ) پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے مجھے بچپن میں پالا۔''
ایک شخص نے آپؐ سے دریافت کیا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا ''دونوں ہی تیری جنت ہیں یا دوزخ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کی بے ادبی اور ناراضی دوزخ میں۔''
روایت میں آتا ہے کہ حضورؐ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے ان کے ساتھ ایک بڑے میاں بھی تھے، حضورؐ نے ان سے دریافت فرمایا ''یہ کون ہیں؟'' انھوں نے عرض کیا، یہ میرے والد ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ''ان سے آگے نہ چلنا، ان سے پہلے نہ بیٹھنا، ان کا نام لے کر نہ پکارنا، انھیں برا نہ کہنا۔''
بہیقی نے بہ روایت حضرت ابن عباسؓ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ''جو خدمت گزار اولاد اپنے والدین پر رحمت و شفقت سے نظر ڈالتی ہے تو ہر نظر کے بدلے ایک حج مقبول کا ثواب پاتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر ڈالے؟ آپؐ نے فرمایا ''ہاں سو مرتبہ بھی ہر نظر پر یہی ثواب ملتا رہے گا۔'' ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے رسول اللہؐ سے جہاد میں شامل ہونے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے دریافت فرمایا ''کیا تمہاری ماں ہے'' انھوں نے عرض کیا ''جی ہاں'' آپؐ نے فرمایا ''پھر ان ہی کے پاس ان کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے۔''
نبی رحمتؐ نے فرمایا ''ماں باپ کی نافرمانی اور انھیں ایذا رسانی پر جہنم کی وعید ہے، خواہ ماں باپ نے اولاد پر ظلم کیا ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں۔'' بڑے بڑے بنگلوں میں کھلے یہ اولڈ ہوم اگرچہ بظاہر بہت خوبصورت اور سہولیات زندگی سے مزین و آراستہ ہیں لیکن جب دل کی دنیا ہی ویران ہو تو سب کچھ بیابان لگتا ہے اور پھر گھر تو اپنوں سے بنتے ہیں۔ اپنوں کے بغیر تو خوبصورت سے خوبصورت عمارت بھی صرف ایک مکان کا درجہ تو رکھ سکتی ہے لیکن شاد آباد گھر کا ہرگز نہیں، کیونکہ گھر تو اپنوں سے بنتے ہیں۔ پرائے تو صرف ایک سائبان، ایک مکان دے سکتے ہیں، صرف ایک اولڈ ہوم جس کا ہمارے مذہب، تہذیب اور روایات سے کوئی تعلق نہیں، قطعی کوئی تعلق نہیں، حسین سے حسین عمارت اپنے پیاروں کے بغیر ان کی جدائی پر تنہائی کا زہر اگلتے نوحہ خواں نظر آتی ہے، بستی بستے بستے بستی ہے اور مکان کو گھر بنتے برسوں لگ جاتے ہیں جب کہ گھر کو مکان میں بدلتے صرف چند لمحات۔ ہم کس تہذیب، کس معاشرے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں؟ اور یہ ہمارے معاشرے کا کوئی آخری المیہ بھی تو نہیں۔ المیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔