دکھ اس بات کا ہے کہ
کچھ عرصے سے دنیا قدرتی آفات کے گھیرے میں ہے۔
کچھ عرصے سے دنیا قدرتی آفات کے گھیرے میں ہے۔ سائنسدان مستقل اہل زمین کو شمسی طوفان، سمندروں کی طغیانی، شدید گرمی، برفباری، بارشوں، سیلاب و زلزلوں سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ وہ ممالک جہاں جدید مشینری، تربیت یافتہ عملہ، منصوبہ بندی و دور اندیشی کا فقدان ہو، وہاں قدرتی آفات سے نمٹنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اچانک ناگہانی مصائب سے مقابلہ کرنے کے لیے، طے شدہ حکمت عملی کا فقدان لوگوں کو بروقت طبی امداد پہنچانے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔ ٹھوس اقدامات کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے۔
کئی سال پہلے آٹھ اکتوبر 2005ء میں ملک میں خوفناک زلزلہ آیا تھا۔ جو 7.6 ریکٹر اسکیل پر تھا۔ اس زلزلے میں تین لاکھ سے پانچ لاکھ کے قریب گھر تباہ ہوئے تھے۔ بالا کوٹ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ اس سانحے میں اس شہر میں 73 ہزار لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اکثر ملک کے شمالی علاقہ جات کی طرف سفر کرنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ یہ علاقے فطری خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف بے اختیار کھینچتے ہیں۔ مگر دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے سیاحت کی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لہٰذا غیر ملکی سیاح کم ہی ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔بہت سال پہلے کی بات ہے جب بالاکوٹ خوبصورت مناظر سے مالا مال ایک خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا، تو ایک دن اس شہر میں گزارا تھا۔ ہوٹل کے سامنے بہتا ہوا دریا اور لہروں کی موسیقی حد درجہ خوبصورت تھے۔ چمکتا ہوا سورج لہروں پر چھوٹے دیوں کی صورت جھلملا رہا تھا۔ہواؤں میں زندگی و تازگی کا احساس تھا۔ سورج ڈوبنے کا منظر، سورج مکھی کے پھولوں کی طرح، شہر کے راستوں پر اتر آیا۔ وہ شام اس قدر حسین تھی اور دریا کا نہ ختم ہونے والا کنارہ تھا۔
رات کو چاندنی کا الگ سحر تھا۔ ایسا لگتا تھا بہت سی پریاں جادو کی چھڑی لے کر دریا پہ اتری ہیں۔ لہروں پر ہر طرف ان کے لباس کے ستارے بکھرے تھے۔
سال بعد ہی خوفناک زلزلہ آیا اور شمالی علاقہ جات کے کئی شہر ویران کر گیا۔ جب کہ بالا کوٹ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ بالا کوٹ کی تباہی کا دکھ عجیب کسک لیے ہوئے تھا۔
وہ ہوٹل، دریا، سورج کے دیے اور چاند کا عکس سب بکھر کے رہ گئے۔ جتنے لوگ وہاں ملے تھے وہ بھی شاید نہ رہے ہوں گے۔
وہ تمام شہر جن میں گھومتے رہے۔ مانسہرہ، بٹگرام، ایبٹ آباد اور بشام وغیرہ اس زلزلے میں بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ بقول ایک تجزیہ نگار کے کہ 2005ء کے زلزلے کے بعد تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ قدرتی آفت اپنی جگہ مگر زیادہ تباہی انسانی کوتاہیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ زیادہ تر عمارتیں ناقص تھیں۔ ان کی بناوٹ غیر معمولی تھی۔ وہ علاقے جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں وہاں عمارتوں میں ایسا میٹریل یا لکڑی وغیرہ استعمال کرنی چاہیے جو زلزلے میں کسی بڑے نقصان سے بچا سکے۔ اس زلزلے میں مارگلا ٹاور بھی زمین بوس ہو گیا تھا۔گھر انسان اپنی سہولت اور رہنے کے لیے بناتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں گھر دکھاوے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا ناقص میٹریل بارش، طوفان، زلزلے یا سیلابی ریلوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
گھر کتنی مشکل سے بنتے ہیں۔ لہٰذا ان کا بکھرنا بھی ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جلاوطنی کا عجیب عذاب۔۔۔۔
لیکن دنیا کی بہت سی قومیں ایسی ہیں جو گھر سکھ و سہولت کے اعتبار سے بناتی ہیں۔ سری لنکا میں گھروں کا اسٹرکچر با سہولت اور پائیدار تھا۔ ان گھروں کو اچھی طرح سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ کہیں بھی کوئی گھر ٹوٹا پھوٹا یا بد رنگ نہ تھا۔ چھتیں لکڑی یا ہلکے میٹریل کی تھیں۔ یہی حال تھائی لینڈ کا تھا۔ چین، جاپان میں بھی گھروں کا آرکیٹیکٹ ہوا و روشنی کے رخ پر ہوتا ہے۔ 2005ء کے اس زلزلے میں نوے فیصد گھر دیہی علاقوں میں تباہ ہو گئے تھے۔
اسی سال 15 اپریل میں نیپال میں شدید زلزلہ آیا۔ اس سانحے میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور لاکھوں گھر تباہ ہوئے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس زلزلے میں دس لاکھ بچے متاثر ہوئے۔ نیپال بھی دنیا کے ان گیارہ ممالک میں شامل ہے جہاں قدرتی آفات خوشحالی کا راستہ روک دیتی ہیں۔ کئی تاریخی مندر بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کھٹمنڈو کے مرکزی علاقے میں کہا جاتا ہے کہ 175 رہائشی عمارتیں تباہ ہو کے رہ گئیں۔ یہ عمارتیں غیر قانونی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے ناقص تھیں۔ہمارے ملک میں بھی ہر طرف بلڈرز کا جال بچھا ہوا ہے۔ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی غیر فعال ہے۔ لوگوں کو جھانسے دے کر ان کی زندگیوں سے کھیلنا یہاں نفع بخش کاروبار ہے۔ غیر معیاری غذا، دوائیں، روز مرہ استعمال ہونے والی کیمیائی اشیا، آرائش حسن کی اشیا، اسپتالوں میں استعمال ہونے والے آلات جراحی وغیرہ انسانی صحت کے لیے شدید خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں، کارخانوں اور اسپتالوں سے اخراج شدہ خطرناک مواد، گند، کچرا انسانی بستیوں یا دریاؤں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی صحت مستقل زوال پذیر ہے۔ فقط خوبصورت باتوں اور دعوؤں کے خیالی مینار بنائے جاتے ہیں۔ یہ خوش کن خواب جو قوم کو دکھائے جاتے ہیں اب یہ خوشنما وعدے زہر بن کے ان کی رگوں میں دوڑ رہے ہیں اور وہ سلو پوائزن اپنے وجود میں محسوس کرتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
عوام کی بے خبری کی بھی داد دینی چاہیے۔ ذات سے بیشتر ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھتے ہیں۔ خودشناسی اور خود احتسابی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بقول شاعر:
''ہم کو اپنی خبر نہیں' تم زمانے کی بات کرتے ہو'' انسان اگر خود فریبی سے نکل کر حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
حادثے چاہے ظاہری دنیا میں رونما ہوں یا جذباتی سانحے ہوں ہم اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد جب دوبارہ گھر بنے تو وہ طرز تعمیر جدید تھا۔ دیہات کے گھروں میں بھی اب پرانے اور روایتی میٹریل کے بجائے جدید آر سی سی طرز تعمیر پسند کیا جاتا ہے۔ جو ایسے علاقوں میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، جہاں کسی وقت بھی زلزلہ آ سکتا ہے۔گھر سے بچے اور خواتین جذباتی طور پر وابستہ ہوتی ہیں۔ گھر دوبارہ بن جاتے ہیں مگر جذباتی ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک ہونے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، لیکن ذہنی صحت کی نئے سرے سے بحالی کے لیے اب تک کوئی ادارہ تشکیل نہیں دیا گیا، جو قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کی ذہنی طور پر دیکھ بھال کر سکے۔
بہت سال بیت گئے۔ مگر بالاکوٹ میں گزارے ایک دن کا سحر آج بھی اکثر ذہن پر دستک دیتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم فطرت کی حفاظت نہیں کر پائے۔ جنگلات کا صفایا ہوتے دیکھ کر بھی خاموش رہے۔ یہ سبزہ اور ہریالی جو ماحولیاتی آلودگی سے لڑنے کا ہنر رکھتے ہیں، ہم دن بہ دن اس فطری ہتھیار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
کئی سال پہلے آٹھ اکتوبر 2005ء میں ملک میں خوفناک زلزلہ آیا تھا۔ جو 7.6 ریکٹر اسکیل پر تھا۔ اس زلزلے میں تین لاکھ سے پانچ لاکھ کے قریب گھر تباہ ہوئے تھے۔ بالا کوٹ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ اس سانحے میں اس شہر میں 73 ہزار لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اکثر ملک کے شمالی علاقہ جات کی طرف سفر کرنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ یہ علاقے فطری خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف بے اختیار کھینچتے ہیں۔ مگر دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے سیاحت کی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لہٰذا غیر ملکی سیاح کم ہی ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔بہت سال پہلے کی بات ہے جب بالاکوٹ خوبصورت مناظر سے مالا مال ایک خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا، تو ایک دن اس شہر میں گزارا تھا۔ ہوٹل کے سامنے بہتا ہوا دریا اور لہروں کی موسیقی حد درجہ خوبصورت تھے۔ چمکتا ہوا سورج لہروں پر چھوٹے دیوں کی صورت جھلملا رہا تھا۔ہواؤں میں زندگی و تازگی کا احساس تھا۔ سورج ڈوبنے کا منظر، سورج مکھی کے پھولوں کی طرح، شہر کے راستوں پر اتر آیا۔ وہ شام اس قدر حسین تھی اور دریا کا نہ ختم ہونے والا کنارہ تھا۔
رات کو چاندنی کا الگ سحر تھا۔ ایسا لگتا تھا بہت سی پریاں جادو کی چھڑی لے کر دریا پہ اتری ہیں۔ لہروں پر ہر طرف ان کے لباس کے ستارے بکھرے تھے۔
سال بعد ہی خوفناک زلزلہ آیا اور شمالی علاقہ جات کے کئی شہر ویران کر گیا۔ جب کہ بالا کوٹ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ بالا کوٹ کی تباہی کا دکھ عجیب کسک لیے ہوئے تھا۔
وہ ہوٹل، دریا، سورج کے دیے اور چاند کا عکس سب بکھر کے رہ گئے۔ جتنے لوگ وہاں ملے تھے وہ بھی شاید نہ رہے ہوں گے۔
وہ تمام شہر جن میں گھومتے رہے۔ مانسہرہ، بٹگرام، ایبٹ آباد اور بشام وغیرہ اس زلزلے میں بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ بقول ایک تجزیہ نگار کے کہ 2005ء کے زلزلے کے بعد تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ قدرتی آفت اپنی جگہ مگر زیادہ تباہی انسانی کوتاہیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ زیادہ تر عمارتیں ناقص تھیں۔ ان کی بناوٹ غیر معمولی تھی۔ وہ علاقے جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں وہاں عمارتوں میں ایسا میٹریل یا لکڑی وغیرہ استعمال کرنی چاہیے جو زلزلے میں کسی بڑے نقصان سے بچا سکے۔ اس زلزلے میں مارگلا ٹاور بھی زمین بوس ہو گیا تھا۔گھر انسان اپنی سہولت اور رہنے کے لیے بناتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں گھر دکھاوے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا ناقص میٹریل بارش، طوفان، زلزلے یا سیلابی ریلوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
گھر کتنی مشکل سے بنتے ہیں۔ لہٰذا ان کا بکھرنا بھی ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جلاوطنی کا عجیب عذاب۔۔۔۔
لیکن دنیا کی بہت سی قومیں ایسی ہیں جو گھر سکھ و سہولت کے اعتبار سے بناتی ہیں۔ سری لنکا میں گھروں کا اسٹرکچر با سہولت اور پائیدار تھا۔ ان گھروں کو اچھی طرح سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ کہیں بھی کوئی گھر ٹوٹا پھوٹا یا بد رنگ نہ تھا۔ چھتیں لکڑی یا ہلکے میٹریل کی تھیں۔ یہی حال تھائی لینڈ کا تھا۔ چین، جاپان میں بھی گھروں کا آرکیٹیکٹ ہوا و روشنی کے رخ پر ہوتا ہے۔ 2005ء کے اس زلزلے میں نوے فیصد گھر دیہی علاقوں میں تباہ ہو گئے تھے۔
اسی سال 15 اپریل میں نیپال میں شدید زلزلہ آیا۔ اس سانحے میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور لاکھوں گھر تباہ ہوئے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس زلزلے میں دس لاکھ بچے متاثر ہوئے۔ نیپال بھی دنیا کے ان گیارہ ممالک میں شامل ہے جہاں قدرتی آفات خوشحالی کا راستہ روک دیتی ہیں۔ کئی تاریخی مندر بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کھٹمنڈو کے مرکزی علاقے میں کہا جاتا ہے کہ 175 رہائشی عمارتیں تباہ ہو کے رہ گئیں۔ یہ عمارتیں غیر قانونی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے ناقص تھیں۔ہمارے ملک میں بھی ہر طرف بلڈرز کا جال بچھا ہوا ہے۔ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی غیر فعال ہے۔ لوگوں کو جھانسے دے کر ان کی زندگیوں سے کھیلنا یہاں نفع بخش کاروبار ہے۔ غیر معیاری غذا، دوائیں، روز مرہ استعمال ہونے والی کیمیائی اشیا، آرائش حسن کی اشیا، اسپتالوں میں استعمال ہونے والے آلات جراحی وغیرہ انسانی صحت کے لیے شدید خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں، کارخانوں اور اسپتالوں سے اخراج شدہ خطرناک مواد، گند، کچرا انسانی بستیوں یا دریاؤں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی صحت مستقل زوال پذیر ہے۔ فقط خوبصورت باتوں اور دعوؤں کے خیالی مینار بنائے جاتے ہیں۔ یہ خوش کن خواب جو قوم کو دکھائے جاتے ہیں اب یہ خوشنما وعدے زہر بن کے ان کی رگوں میں دوڑ رہے ہیں اور وہ سلو پوائزن اپنے وجود میں محسوس کرتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
عوام کی بے خبری کی بھی داد دینی چاہیے۔ ذات سے بیشتر ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھتے ہیں۔ خودشناسی اور خود احتسابی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بقول شاعر:
''ہم کو اپنی خبر نہیں' تم زمانے کی بات کرتے ہو'' انسان اگر خود فریبی سے نکل کر حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
حادثے چاہے ظاہری دنیا میں رونما ہوں یا جذباتی سانحے ہوں ہم اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد جب دوبارہ گھر بنے تو وہ طرز تعمیر جدید تھا۔ دیہات کے گھروں میں بھی اب پرانے اور روایتی میٹریل کے بجائے جدید آر سی سی طرز تعمیر پسند کیا جاتا ہے۔ جو ایسے علاقوں میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، جہاں کسی وقت بھی زلزلہ آ سکتا ہے۔گھر سے بچے اور خواتین جذباتی طور پر وابستہ ہوتی ہیں۔ گھر دوبارہ بن جاتے ہیں مگر جذباتی ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک ہونے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، لیکن ذہنی صحت کی نئے سرے سے بحالی کے لیے اب تک کوئی ادارہ تشکیل نہیں دیا گیا، جو قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کی ذہنی طور پر دیکھ بھال کر سکے۔
بہت سال بیت گئے۔ مگر بالاکوٹ میں گزارے ایک دن کا سحر آج بھی اکثر ذہن پر دستک دیتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم فطرت کی حفاظت نہیں کر پائے۔ جنگلات کا صفایا ہوتے دیکھ کر بھی خاموش رہے۔ یہ سبزہ اور ہریالی جو ماحولیاتی آلودگی سے لڑنے کا ہنر رکھتے ہیں، ہم دن بہ دن اس فطری ہتھیار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔