مری معاہدے کا بھوت

اقتدار خواہ تیسری دنیا کے کسی ملک کا ہو یا کسی ترقی یافتہ ریاست کا‘ بہ طور ذمے داری یہ کسی طور سہل نہیں ہوتا۔

khanabadosh81@gmail.com

اقتدار خواہ تیسری دنیا کے کسی ملک کا ہو یا کسی ترقی یافتہ ریاست کا' بہ طور ذمے داری یہ کسی طور سہل نہیں ہوتا۔ اسی لیے اسے 'کانٹوں کی سیج' کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ کانٹوں کی اس سیج پہ لیٹنے کو ہر سیاست دان، ہر جماعت ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، بلکہ تیسری دنیا میں تو اس کے لیے ہر قسم کی جوڑ توڑ کو بھی کھیل کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کے اولین وزیر اعظم اور کابینہ سمیت پہلی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ ہونے کی بجائے بانیانِ پاکستان کی جانب سے منتخب کی گئی تھی۔ اسے نوزائیدہ مملکت کی سیاسی ضروریات اور تقاضوں کا سبب کہا جا سکتا ہے، مگر یہ اس عمارت کی خشت ِ اول میں پائی جانے والی کجی ہی تھی جس نے عمارت کی بنیا د میں ٹیڑھا پن ڈال دیا۔ نتیجتاً پاکستان میں جمہوریت کا پودا پھلنے پھولنے سے قبل ہی غیر جمہوری کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن گیا۔ جلد ہی تشکیل پا جانے والی غیر جمہوری مقتدرہ نے حکومتوں کی نشست و برخاست کی زمام سنبھال لی۔ اس زمام پہ ان کی گرفت پہلی بار اُنیس سو ستر کے انتخاب میں ذرا کم پڑی تو ملک کے مشرقی سے لے کر مغربی کونے تک عوام اپنے نے اپنے نمایندوں کو خود ہی منتخب کر ڈالا۔ عوام کا یہ انتخاب اس قوت پہ اس قدر گراں گزرا کہ ملک کے ایک حصے کو گنوا کر دوسرے میں 'مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ' نافذ کر ڈالا۔ جس نے انھی غیر جمہوری قوتوں کے اشارے پر بلوچستان کی پہلی منتخب عوامی حکومت کو نو ماہ میں چلتا کر دیا۔

اس تجربے سے گویا نوخیز مقتدرہ نے سبق سیکھ لیا کہ زمامِ اقتدار پہ اپنی گرفت کسی صورت ڈھیلی نہیں کرنی۔ ماسوائے شدید عوامی و عالمی دباؤ کے ... نتیجہ یہ ہے کہ اس کے بعد پاکستان میں جب بھی حکومتیں بنیں' انھی غیر جمہوری قوتوں کی مرضی و منشا سے بنتی ٹوٹتی رہیں۔ جمہوریت کو کبھی جی بھر کے سانس لینے کا موقع ہی نہ دیا گیا کہ کہیں یہ طاقتور و تناور شجر بن کر عوام کو سکھ کی چھاؤں نہ دینے لگے۔ یہ شہید ِجمہوریت کا خطاب پانے والی بے نظیر کے خون کا نذرانہ تھا کہ ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی بار منتخب جمہوری حکومت اپنی مدتِ اقتدار مکمل کر پائی۔ مگر جمہوری عہد کے اس ایک دورانیے کی تکمیل نے ہی حاسدین کے پیٹ میں مروڑ ڈالنا شروع کر دیا اور دوسری جمہوری حکومت کا نصف دورانیہ مکمل ہوتے ہی اس مروڑ کی آوازیں اب سر عام سنائی دی جانے لگی ہیں۔

اس پس منظر میں بلوچستان کا معاملہ یہ رہا کہ نیپ کے بعد ان مقتدر قوتوں نے بلوچستان پہ اپنی گرفت کچھ ایسی مضبوط کر لی کہ ان کی منشا کے بغیر اقتدار کے ایوان تک کسی کی رسائی ممکن ہی نہ رہی۔ سن ستر کے بعد بلوچستان کے کسی انتخاب میں کوئی عام آدمی نہ تو انتخابی کامیابی حاصل کر سکا، نہ سیاسی جماعتوں میں کوئی باعزت مقام پا سکا۔ بلوچستان میں سیاست بااثر شخصیات کی لونڈی بنا دی گئی۔ بزنجو نے جس عوامی سیاست کی داغ بیل ڈالی تھی، اس کی جڑیں خود اس کی اپنی شکست کی صورت میں کاٹ دی گئیں۔ یوں بلوچستان کو جابر سرداروں کی شخصی آمریت کے حوالے کر دیا گیا۔ بلوچستان میں اب سیاست صرف سردار کے زیر سایہ ہو سکتی ہے یا پھر 'بڑی سرکار' کی پشت پناہی میں۔


اس غیر سیاسی عمل کے ردِ عمل میں جو دبی دبی چنگاریاں اکیسویں صدی کے اولین برسوں میں رہ رہ کے سلگ رہی تھیں، دو ہزار چھ میں جوالا مکھی بن گئیں۔ اکبر بگٹی کی شہادت نے بلوچستان کو مستقلاً آگ و خون کے حوالے کر دیا۔ سیاست ایک عرصے تک شجر ِ ممنوعہ رہی۔ پارلیمنٹ ایک ایسی گالی بن گئی کہ خود بلوچستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو وہاں سے نکلتے بنی۔ یہ فضا آیندہ انتخابات تک قائم رہی۔ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل سے کٹ کر رہ گئیں، جس کے نتیجے میں سیاسی یتیموں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا اور بلوچستان برسوں مکمل طور پر سیاسی لٹیروں کے رحم و کرم پہ رہا اور یہ سارا کھیل مقتدرہ کی آشیرباد سے جاری رہا۔

گزشتہ انتخابات غیر یقینی صورت حال میں منعقد ہوئے۔ سیاسی جماعتوں کی اسی غیر یقینی صور ت حال نے انھیں ایک ایسی اقلیت میں بدل ڈالا، جو اب اقتدار کو نہ اگل سکتی تھی نہ نگل سکتی تھی۔ انتخابات کے واضح نتائج کے باوجود بلوچستان میں حکومت کی تشکیل چھ ماہ لے گئی۔ تمام شراکت داروں کو مقتدر قوتوں نے یک جا کیا، اور بالآخر شراکت ِ اقتدار پر راضی کر لیا۔ ملک کے پُر فضا مقام پر ہونے والا یہ سارا کھیل 'مری معاہدہ' کے نام سے محض ایک برس بعد ہی سامنے آ گیا، جس کے تحت پنج سالہ اقتدار کو نصف دورانیے کی صورت تقسیم کر دیا گیا تھا، لیکن فریقین کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی صورت یہ تھی کہ محض ایک برس بعد ہی یہ خفیہ معاہدے پریس کے ذریعے عام کر دیا گیا۔ تب ظاہر ہے سیاسی داؤ پیچ کے تحت حکومت میں موجود فریقین نے اسے رد کیا، جب کہ مخالف فریقین اس کے برحق ہونے پر زور دیتے رہے۔ معاملے نے اس قدر طول پکڑا کہ محض چار ماہ کے اندر خود مرکزی حکومت کی اس معاہدے کی موجودگی اور حقانیت کا ببانگ ِ دھل اعتراف و اعلان کرنا پڑا۔

اب جب کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کا وقت آ پہنچا تو متحارب فریقین کے مابین رسہ کشی کا منظر سنسنی خیز اور ہیجان انگیز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت بہ ظاہر مدت ِ ملازمت مکمل ہونے پر گھر جانے کو آمادہ مگر درپردہ اقتدار کو طول دینے کے تمام سیاسی داؤ پیچ استعمال کر رہی ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کے آیندہ امیدوار کسی صورت اس نایاب موقعے کو ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے۔ سو' اپنے قبیل کے سبھی ناراض دوستوں کے در پہ چل کر جانے میں بھی قباحت محسوس نہیں کی۔ پریس کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

ایک خام خیال وسیع سطح پر پایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں حکومتی تبدیلی سے بتدریج بہتر ہوتے حالات میں بگاڑ کا خدشہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے حالات میں تبدیلی کا سبب سیاسی حکومت ہے یا اس میں اصل کردار عسکری قوتوں کا ہے؟ البتہ یہ خیال اپنی جگہ اہم ہے کہ ان عسکری قوتوں کے لیے کون سی سیاسی قوت زیادہ سازگار و مددگار ثابت ہوتی ہے اور دراصل یہی خیال حکومت کے تبدیل ہونے اور نہ ہونے کے مابین کشمکش کا سبب بنا ہوا ہے۔ مری میں تمام فریقین کی باہمی رضامندی سے تشکیل پانے والا معاہدہ اب تمام فریقین کے لیے ایک بھوت کا روپ دھار چکا ہے، جس پر عمل درآمد ہونے اور نہ ہونے ہر دو صورتوں میں دونوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام اس سارے عمل سے گویا لاتعلق سے نظر آتے ہیں۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی عمل عوام کی حقیقی شرکت کے بغیر بے معنی اور لاحاصل رہ جاتا ہے۔ مقتدر قوتوں کی بیساکھیوں پہ قائم حکومت' سیاست کی رہی سہی ساکھ کو بھی ڈبو دیتی ہے۔ یہ المیہ بلوچستان میں پارلیمانی جمہوری جدوجہد پہ یقین رکھنے والے مخلص سیاسی کارکن شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ میڈیا کی خوشگوار اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ اگلے روز اسٹیک ہولڈرز مین اتفاق ہوا کہ ڈاکٹر عبد المالک بدستور 2015ء کے بعد بھی وزیر اعلیٰ رہیں گے، اسٹیبلشمنت بلوچستان میں سیاسی استحکام کے لیے ان کے کردار کی معترف ہے۔
Load Next Story