انتہا پسند ہندوؤں کی کارستانیاں آخری حصہ
اگست 2015ء کو بھارت کےعلاقےمنگورمیں ہندوخاتون کےساتھ گفتگو کرنے پر مسلمان نوجوان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ISLAMABAD:
دوسرا واقعہ مئی 2015ء کو دہلی سے 37 کلومیٹر دور واقع فرید آباد کے گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کی تعمیر جاری تھی، جس کو ہندو انتہا پسندوں جن میں اکثریت جاٹ برادری کی تھی نے پہلے مسجد کو نذرآتش کیا، بعد ازاں مسلمانوں کی رہائشی آبادی پر حملہ کر دیا۔ اٹالی میں 5 سال قبل مسجد اور مندر ایک ساتھ تعمیر کیے جا رہے تھے مگر اراضی کے تنازع کے باعث مسجد کا کام روک دیا گیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی تھی، 5 سال بعد مسجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔
اگست 2015ء کو بھارت کے علاقے منگور میں ہندو خاتون کے ساتھ گفتگو کرنے پر مسلمان نوجوان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ضلع کے ایک اسٹور پر ساتھ کام کرنے والی خاتون نے مسلمان ساتھی سے رقم ادھار مانگی، نوجوان اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے جا رہا تھا کہ راستے میں انتہا پسند ہندو جماعت بجرنگ دل کے کارکنوں نے اسے دھر لیا اور ہندو خاتون سے بات کرنے کے جرم میں بجلی کے پول سے باندھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اس دوران خاتون نے نوجوان کو بچانے کی کوشش کی، تو اسے بھی انتہا پسند ہندوؤں کی مار سہنا پڑی۔ پولیس کے مطابق 14 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ قبل ازیں مئی 2015ء کے دوران بھارت کے شہر لکھنو کے ایک اسکول میں حجاب پہننے پر طالبہ فرحین کو کلاس سے نکال دیا گیا تھا۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں مسلمان لڑکے نعمان کو گائے اسمگل کرنے کے الزام میں بجرنگ دل کے دہشت گردوں نے تشدد کے بعد موت کی نیند سلا دیا تھا، اب بجرنگ دل کے دہشت گردوں نے نعمان پر گائے چوری کرنے کا الزام لگا کر پولیس میں رپورٹ بھی درج کروائی۔ بھارتی پولیس نے انصاف کی بجائے مقتول نعمان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔ ادھر کراچی میں بھارت میں پاکستانی خاندان سے بدسلوکی پر گودھرا برادری شدید برہم ہو گئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کی ٹیم ممبئی میں بھارتی تعصب کا نشانہ بننے والے خاندان کے گھر پہنچ گئی۔ صدر ٹاؤن کا عنایت درگاہ حاجی علی پر اپنے معذور بیٹے کی منت اتارنے حاضری کے لیے اپنے خاندان کے 5 افراد کے ساتھ 15 روز پہلے انڈیا گیا لیکن اسے ممبئی کے ہوٹلوں میں محض پاکستانی ہونے کی وجہ سے کمرہ نہ ملا۔ عنایت کے بہنوئی نے شکوہ کیا کہ ہم بھارتی مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ برا سلوک ہوا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا اصل چہرہ ہے کہ ایک طرف تو سیکولر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ایک پاکستانی فیملی جن میں ایک معذور بچہ بھی شامل ہے اسے سر چھپانے کے لیے کرائے پر کمرہ بھی نہیں دیا گیا اور انھیں دو روز فٹ پاتھوں پر فیملی سمیت رات بسر کرنا پڑی حالانکہ ان کے پاس تمام قانونی دستاویزات بھی پوری تھیں۔
پاکستانی خاندان کو کمرہ نہ دینے پر بھارتی میڈیا بھی ممبئی کے ہوٹل مالکان پر برس پڑا۔ کئی بھارتی چینلز نے پاکستانی خاندان سے ہونے والے سلوک پر آواز بلند کی۔ میڈیا کی شدید تنقید کے بعد ہوٹل مالکان نے موقف اختیار کیا کہ غیر ملکیوں کو رہائش دینے پر انھیں معلومات پولیس اسٹیشن جمع کرانی پڑتی ہیں۔ اس زحمت سے بچنے کے لیے پاکستانیوں کو ہوٹل میں جگہ نہیں دی۔
بھارت میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں بھی غیر محفوظ ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی پنجاب کے علاقوں فرید کوٹ اور ضلع موگا میں سکھ برادری سراپا احتجاج ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب برگاری گاؤں کے ایک گوردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے 100 مسخ شدہ صفحے ملے۔ مقدس کتاب کو گوردوارے سے جون میں چوری کیا گیا تھا۔ احتجاج کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور کچھ زخمی ہو گئے ہیں۔ پولیس نے سکھ برادری کے 75 رہنماؤں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کر لیا ہے۔ اس طرح بھارت میں گرجا گھر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اب تک متعدد گرجا گھروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، مارچ 2015ء کے دوران بھی دو ایسے واقعات بھارتی ریاست ہریانہ اور ممبئی میں انتہا پسندوں نے زیر تعمیر گرجا گھر اور سینٹ جارج کیتھولک چرچ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انھیں نقصان پہنچا ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے جلال پور میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کو آپس میں نہیں لڑنا چاہیے، میں کہتی ہوں کہ وہ خود نہیں لڑتے بلکہ انھیں لڑوایا جاتا ہے۔ اپنے بارہ منٹ کے خطاب میں انھوں نے فرقہ واریت کی سیاست کرنے پر اپنے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جب فرقہ واریت کی سیاست ختم ہو گی تو بعض لوگوں کو اپنا کاروبار بند کرنا ہو گا۔
سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ٹوئیٹ کے باعث تنقید کی زد میں آئے بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ نے کہا ہے کہ مجھے کسی کو اپنی حب الوطنی کا جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میرا نام نصیر الدین شاہ ہے اور مجھے یقین ہے اسی وجہ سے مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اگر میں کوئی اور ہوتا تو میرے بارے میں اتنی خبریں نہ بنتیں، بدقسمتی سے نفرت کے بیج بونے والوں کا اثر و رسوخ ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ ان کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی اگر پاکستان کی تعریف کر دی جائے تو قوم مخالف ہو جاتی ہے حالانکہ میں جب بھی پاکستان گیا مجھے وہاں عزت اور محبت ہی ملی ہے۔ بھارت میں بڑھتے ہوئے نسلی امتیاز اور فرقہ واریت کے خلاف بھارتی ادیبوں اور شاعروں کی جانب سے سرکاری ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں کی تعداد 46 ہو گئی ہے۔ بھارت کے دانشوروں اور ادیبوں نے مودی سرکار کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
بھارت میں رونما ہونے والے سانحہ دادری اور دیگر افسوسناک واقعات کی گونج امریکا تک جا پہنچی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور دیگر افسوس ناک واقعات پر امریکا نے مودی سرکار کو کھری کھری سنا دیں۔ امریکا نے مودی حکومت سے ملک بھر میں رواداری اور انکساری کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیا ہے۔ بھارت میں مذہب کے نام پر قتل، گرفتاریاں، فسادات اور زبردستی تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور بھارتی پولیس فرقہ وارانہ تشدد سے موثر طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسرا واقعہ مئی 2015ء کو دہلی سے 37 کلومیٹر دور واقع فرید آباد کے گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کی تعمیر جاری تھی، جس کو ہندو انتہا پسندوں جن میں اکثریت جاٹ برادری کی تھی نے پہلے مسجد کو نذرآتش کیا، بعد ازاں مسلمانوں کی رہائشی آبادی پر حملہ کر دیا۔ اٹالی میں 5 سال قبل مسجد اور مندر ایک ساتھ تعمیر کیے جا رہے تھے مگر اراضی کے تنازع کے باعث مسجد کا کام روک دیا گیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی تھی، 5 سال بعد مسجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔
اگست 2015ء کو بھارت کے علاقے منگور میں ہندو خاتون کے ساتھ گفتگو کرنے پر مسلمان نوجوان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ضلع کے ایک اسٹور پر ساتھ کام کرنے والی خاتون نے مسلمان ساتھی سے رقم ادھار مانگی، نوجوان اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے جا رہا تھا کہ راستے میں انتہا پسند ہندو جماعت بجرنگ دل کے کارکنوں نے اسے دھر لیا اور ہندو خاتون سے بات کرنے کے جرم میں بجلی کے پول سے باندھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اس دوران خاتون نے نوجوان کو بچانے کی کوشش کی، تو اسے بھی انتہا پسند ہندوؤں کی مار سہنا پڑی۔ پولیس کے مطابق 14 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ قبل ازیں مئی 2015ء کے دوران بھارت کے شہر لکھنو کے ایک اسکول میں حجاب پہننے پر طالبہ فرحین کو کلاس سے نکال دیا گیا تھا۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں مسلمان لڑکے نعمان کو گائے اسمگل کرنے کے الزام میں بجرنگ دل کے دہشت گردوں نے تشدد کے بعد موت کی نیند سلا دیا تھا، اب بجرنگ دل کے دہشت گردوں نے نعمان پر گائے چوری کرنے کا الزام لگا کر پولیس میں رپورٹ بھی درج کروائی۔ بھارتی پولیس نے انصاف کی بجائے مقتول نعمان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔ ادھر کراچی میں بھارت میں پاکستانی خاندان سے بدسلوکی پر گودھرا برادری شدید برہم ہو گئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کی ٹیم ممبئی میں بھارتی تعصب کا نشانہ بننے والے خاندان کے گھر پہنچ گئی۔ صدر ٹاؤن کا عنایت درگاہ حاجی علی پر اپنے معذور بیٹے کی منت اتارنے حاضری کے لیے اپنے خاندان کے 5 افراد کے ساتھ 15 روز پہلے انڈیا گیا لیکن اسے ممبئی کے ہوٹلوں میں محض پاکستانی ہونے کی وجہ سے کمرہ نہ ملا۔ عنایت کے بہنوئی نے شکوہ کیا کہ ہم بھارتی مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ برا سلوک ہوا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا اصل چہرہ ہے کہ ایک طرف تو سیکولر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ایک پاکستانی فیملی جن میں ایک معذور بچہ بھی شامل ہے اسے سر چھپانے کے لیے کرائے پر کمرہ بھی نہیں دیا گیا اور انھیں دو روز فٹ پاتھوں پر فیملی سمیت رات بسر کرنا پڑی حالانکہ ان کے پاس تمام قانونی دستاویزات بھی پوری تھیں۔
پاکستانی خاندان کو کمرہ نہ دینے پر بھارتی میڈیا بھی ممبئی کے ہوٹل مالکان پر برس پڑا۔ کئی بھارتی چینلز نے پاکستانی خاندان سے ہونے والے سلوک پر آواز بلند کی۔ میڈیا کی شدید تنقید کے بعد ہوٹل مالکان نے موقف اختیار کیا کہ غیر ملکیوں کو رہائش دینے پر انھیں معلومات پولیس اسٹیشن جمع کرانی پڑتی ہیں۔ اس زحمت سے بچنے کے لیے پاکستانیوں کو ہوٹل میں جگہ نہیں دی۔
بھارت میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں بھی غیر محفوظ ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی پنجاب کے علاقوں فرید کوٹ اور ضلع موگا میں سکھ برادری سراپا احتجاج ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب برگاری گاؤں کے ایک گوردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے 100 مسخ شدہ صفحے ملے۔ مقدس کتاب کو گوردوارے سے جون میں چوری کیا گیا تھا۔ احتجاج کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور کچھ زخمی ہو گئے ہیں۔ پولیس نے سکھ برادری کے 75 رہنماؤں کو سڑکوں کو بلاک کرنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتار کر لیا ہے۔ اس طرح بھارت میں گرجا گھر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اب تک متعدد گرجا گھروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، مارچ 2015ء کے دوران بھی دو ایسے واقعات بھارتی ریاست ہریانہ اور ممبئی میں انتہا پسندوں نے زیر تعمیر گرجا گھر اور سینٹ جارج کیتھولک چرچ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انھیں نقصان پہنچا ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے جلال پور میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کو آپس میں نہیں لڑنا چاہیے، میں کہتی ہوں کہ وہ خود نہیں لڑتے بلکہ انھیں لڑوایا جاتا ہے۔ اپنے بارہ منٹ کے خطاب میں انھوں نے فرقہ واریت کی سیاست کرنے پر اپنے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جب فرقہ واریت کی سیاست ختم ہو گی تو بعض لوگوں کو اپنا کاروبار بند کرنا ہو گا۔
سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ٹوئیٹ کے باعث تنقید کی زد میں آئے بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ نے کہا ہے کہ مجھے کسی کو اپنی حب الوطنی کا جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میرا نام نصیر الدین شاہ ہے اور مجھے یقین ہے اسی وجہ سے مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اگر میں کوئی اور ہوتا تو میرے بارے میں اتنی خبریں نہ بنتیں، بدقسمتی سے نفرت کے بیج بونے والوں کا اثر و رسوخ ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ ان کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی اگر پاکستان کی تعریف کر دی جائے تو قوم مخالف ہو جاتی ہے حالانکہ میں جب بھی پاکستان گیا مجھے وہاں عزت اور محبت ہی ملی ہے۔ بھارت میں بڑھتے ہوئے نسلی امتیاز اور فرقہ واریت کے خلاف بھارتی ادیبوں اور شاعروں کی جانب سے سرکاری ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں کی تعداد 46 ہو گئی ہے۔ بھارت کے دانشوروں اور ادیبوں نے مودی سرکار کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
بھارت میں رونما ہونے والے سانحہ دادری اور دیگر افسوسناک واقعات کی گونج امریکا تک جا پہنچی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور دیگر افسوس ناک واقعات پر امریکا نے مودی سرکار کو کھری کھری سنا دیں۔ امریکا نے مودی حکومت سے ملک بھر میں رواداری اور انکساری کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیا ہے۔ بھارت میں مذہب کے نام پر قتل، گرفتاریاں، فسادات اور زبردستی تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور بھارتی پولیس فرقہ وارانہ تشدد سے موثر طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔