لودھراں الیکشن تحریک انصاف کو نیا سیاسی معرکہ لڑنے کا موقع
الیکشن کمیشن چند روز میں اس حلقے کیلیے نیا انتخابی شیڈول جاری کردے گا
عدالت عظمیٰ کی جانب سے این اے 154 لودھراں میں ضمنی الیکشن کے فیصلے نے تحریک انصاف کی قیادت کواین اے 122 طرز کا نیا سیاسی معرکہ لڑنے کا موقع فراہم کردیا ہے مگر اس مرتبہ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو اپنی مرکزی و صوبائی قیادت اور وفاقی و صوبائی حکومت کی وہ ''غیبی امداد'' حاصل نہیں ہوگی جیسی سردار ایاز صادق کو حاصل تھی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آج لاہور میں ایک اہم پریس کانفرنس کے دوران انتخابی جنگ کا طبل بجائیں گے، وہ اس حلقے میں جہانگیر ترین کے ہمراہ بھرپور انتخابی مہم چلائیں گے اور امکان ہے کہ دو بڑے جلسوں سے بھی خطاب کریں گے۔ قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے طور پر صدیق خان بلوچ ہی الیکشن لڑیں گے، اس سے پہلے ان کے بیٹے عمیر بلوچ کو ٹکٹ دیا گیا تھا، حلقے میں جہانگیر ترین کے رفاہی اور زرعی تحقیق کے منصوبوں کی وجہ سے ان کی سیاسی اورسماجی گرفت مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی طرف سے کروڑوں روپے مالیت کا سماجی بہبود کا پروگرام بھی چلایا جارہا ہے ۔ اس تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو پریشانی کا سامنا ہے۔ با اثر سیاسی شخصیات بھی جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ ان میں مسلم لیگ(ن) کے سابق ایم این اے اختر کانجو، دیگر سابق ارکان قاسم خان، طاہر خان، ٹکٹ ہولڈرز چوہدری زوار وڑائچ، نواز جوئیہ، رانا اسلم اور حسن محمود شاہ جیسے سیاستدان شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن چند روز میں اس حلقے کیلیے نیا انتخابی شیڈول جاری کردے گا لیکن دونوں سیاسی جماعتیں گزشتہ دو ماہ سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔صدیق بلوچ نے 2008 میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ2013میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر مرزا محمد ناصر بیگ نے بھی صدیق بلوچ کے صاحبزادے کی انتخابی مہم کا حصہ بنتے ہوئے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ بادی النظر میں اس حلقے کیلیے مسلم لیگ(ن) میںاس طرز کی بے تابی اور بے قراری دکھائی نہیں دے رہی جو کہ این اے 122 میں دکھائی دی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ این اے 122 تخت لاہورکا حصہ ہے جبکہ این اے 154 جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ شہر میں واقع ہے۔تحریک انصاف بہت پر امید ہے کہ وہ این اے 154 کا الیکشن جیت لے گی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آج لاہور میں ایک اہم پریس کانفرنس کے دوران انتخابی جنگ کا طبل بجائیں گے، وہ اس حلقے میں جہانگیر ترین کے ہمراہ بھرپور انتخابی مہم چلائیں گے اور امکان ہے کہ دو بڑے جلسوں سے بھی خطاب کریں گے۔ قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے طور پر صدیق خان بلوچ ہی الیکشن لڑیں گے، اس سے پہلے ان کے بیٹے عمیر بلوچ کو ٹکٹ دیا گیا تھا، حلقے میں جہانگیر ترین کے رفاہی اور زرعی تحقیق کے منصوبوں کی وجہ سے ان کی سیاسی اورسماجی گرفت مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی طرف سے کروڑوں روپے مالیت کا سماجی بہبود کا پروگرام بھی چلایا جارہا ہے ۔ اس تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو پریشانی کا سامنا ہے۔ با اثر سیاسی شخصیات بھی جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ ان میں مسلم لیگ(ن) کے سابق ایم این اے اختر کانجو، دیگر سابق ارکان قاسم خان، طاہر خان، ٹکٹ ہولڈرز چوہدری زوار وڑائچ، نواز جوئیہ، رانا اسلم اور حسن محمود شاہ جیسے سیاستدان شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن چند روز میں اس حلقے کیلیے نیا انتخابی شیڈول جاری کردے گا لیکن دونوں سیاسی جماعتیں گزشتہ دو ماہ سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔صدیق بلوچ نے 2008 میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ2013میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر مرزا محمد ناصر بیگ نے بھی صدیق بلوچ کے صاحبزادے کی انتخابی مہم کا حصہ بنتے ہوئے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ بادی النظر میں اس حلقے کیلیے مسلم لیگ(ن) میںاس طرز کی بے تابی اور بے قراری دکھائی نہیں دے رہی جو کہ این اے 122 میں دکھائی دی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ این اے 122 تخت لاہورکا حصہ ہے جبکہ این اے 154 جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ شہر میں واقع ہے۔تحریک انصاف بہت پر امید ہے کہ وہ این اے 154 کا الیکشن جیت لے گی۔