گیتا کی واپسی
گونگی بہری لڑکی گیتا کا اتنی جلدی اخباری کالموں اور ٹی وی نیٹ ورکس سے غائب ہو جانا حیرت کی بات نہیں
گونگی بہری لڑکی گیتا کا اتنی جلدی اخباری کالموں اور ٹی وی نیٹ ورکس سے غائب ہو جانا حیرت کی بات نہیں بس اس سے اس دشمنی کی گہرائی کا اظہار ہوتا ہے جس میں بھارت اور پاکستان مبتلا ہیں۔ اسلام آباد نے گیتا کو واپس کر کے ایک اچھا اشارہ دیا۔ بھارت کو زیادہ مثبت اور بہتر انداز میں جواب دینا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا۔
دونوں ملکوں کے میڈیا نے اس موضوع کو فی الفور نظر انداز کر دیا جیسے کہ یہ کوئی ایسی چیز تھی جس پر فوراً ہی پردہ ڈالنا ضروری تھا۔ کسی اور ملک میں اس قسم کے واقعے کا تجزیہ کیا جاتا اور دوبارہ اس پر غور کیا جاتا تا کہ اس کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جا سکے حتٰی کہ امریکا اور کیوبا میں دشمنی کی طویل داستان کے بعد جو ہلکا سا رابطہ پیدا ہوا ہے وہاں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا تو باہمی تنازعات کے خاتمے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا جاتا۔ لیکن بھارت اور پاکستان کی عداوت کا خول اسقدر سخت ہے کہ گیتا کے ایک عشرے سے زائد مدت کے بعد واپس لوٹنے کے باوجود ٹوٹ نہیں سکا۔ اصولاً تو اس واقعے کے بعد باہمی تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس قسم کی کسی بات کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
اصل مسئلہ بھارت کی ہندو آبادی کے رویے کا ہے جو ابھی تک اپنی بھارت ماتا کی تقسیم کو دل سے قبول نہیں کر سکے، حالانکہ پاکستان ایک حقیقت ہے جس کے قیام کو تقریباً 70 سال گزر چکے ہیں، کیونکہ مسلمان اپنے لیے ایک علیحدہ وطن چاہتے تھے۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ ہندو اکثریت کے غلبے میں آ جائیں گے۔ لیکن ان کی برادری نے ممتاز لیڈر مولانا ابو الکلام آزاد کے انتباہ پر کوئی توجہ نہ دی جن کا کہنا تھا کہ ان کی علیحدگی کے بعد ہندوؤں کی طاقت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مولانا ابو الکلام کی یہ خواہش کہ برصغیر تقسیم نہ ہو، ملک بھر میں پھیلی ہوئی نفرت اور تضحیک کی موجودگی میں اس خواہش کا پورا ہونا ممکن نہیں تھا۔
مجھے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور میں کی جانیوالی تقریر یاد آتی ہے جہاں وہ بس میں سوار ہو کے پہنچے تھے۔ تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان ایک علیحدہ وجود رکھتا ہے، جسے کسی کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے ان الفاظ نے پاکستانیوں کے لیے ایک سکون بخش مرہم کا کام کیا جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ جب واجپائی کو شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ واجپائی کے یہ الفاظ پاکستانیوں کو اتنے پسند آئے کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے درخواست کی کہ میں وزیر اعظم نواز شریف سے کہوں کہ وہ جواب میں کوئی تقریر نہ کریں کیونکہ ان کے الفاظ واجپائی کی جذبات انگیز تقریر کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
گیتا کی واپسی ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے جس سے بھارت اور پاکستان دونوں پھر اس مقام سے تعلقات جوڑ سکتے ہیں جہاں روس کے شہر اوفا میں منقطع ہوئے تھے۔
دونوں نے اتفاق کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کا مسئلہ مل جل کر حل کریں گے۔ بھارت کا اس بات پر اصرار کہ وہ صرف دہشت گردی کے معاملے پر بات کرے گا جس پر کہ تحریری معاہدہ بھی عمل میں آ گیا مگر اس معاہدے کی روح پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر کشمیر کا ذکر کر کے میرے خیال میں غلطی کی۔ پاکستان کو دہشت گردی کے موضوع پر بات چیت کے لیے رضا مند ہو جانا چاہیے تھا اور اس بات چیت کے دوران وہ کہہ سکتا تھا کہ دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کی جاتی۔
نیویارک میں دونوں وزرائے اعظم جو ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ان کا ایک دوسرے سے گریز کرنا میرے خیال میں ایک بچگانہ حرکت تھی۔ دونوں وہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ دونوں ممالک کے وفود یہی کوشش کرتے رہے کہ ان کا آپس میں سامنا نہ ہو سکے۔ پھر ایک ایسا موقعہ آیا جب دونوں ایک جگہ پر اکٹھے ہو گئے۔ تب وہ ایک دوسرے کے لیے ہاتھ ہلانے پر قابو نہ پا سکے حالانکہ وہ آپس میں اتنے قریب تھے کہ سرگوشیوں میں بھی بات کر سکتے تھے۔
بہرحال بالآخر انھوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ سابقہ وزیر اعظم واجپائی اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے دوست تو تبدیل کر سکتے ہو لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کر سکتے۔ واجپائی کی جماعت بی جے پی پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا سلسلہ جنباتی استوار کرنے کے شدید خلاف تھی۔ اس کے باوجود واجپائی نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی۔ انھوں نے آگرہ میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ واجپائی چاہتے تھے کہ دونوں ملک عداوت پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات کے لیے جو فارمولا طے کیا گیا تھا اس پر اعتراض کر دیا حالانکہ یہ فارمولا دونوں فریقین نے رات بھر غور و خوض کے بعد تیار کیا تھا۔ موجودہ صورت حال گمبھیر سے گمبھیر تر ہو رہی ہے۔ دونوں ملک آپس میں بات کرنے پر تو تیار نہیں لیکن دعویٰ یہ ہے کہ وہ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ''بیک چینل'' سے لازماً بات چیت جاری ہو گی لیکن اس بات کی کوئی علامت نہیں کہ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں اور دونوں فریق زیادہ سے زیادہ ہتھیار حاصل کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے نیو یارک میں بھارت پر زیادہ سے زیادہ اسلحہ حاصل کرنے کا الزام عاید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جواب میں ان کے ملک کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کو احساس کرنا چاہیے کہ وہ اپنے عوام کو اسکولوں سے اور حفظان صحت کے مراکز سے محروم کر کے ساری دولت دفاع کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ صرف ایک بم کے خریدنے سے ان کی اقتصادی پس ماندگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جس کا دونوں ملکوں کے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اگر گیتا کا معاملہ کوئی بہتری پیدا کر سکے تو یہ ایک کرشمہ ہی ہو گا بصورت دیگر دونوں ملک غریبی کی دلدل میں مسلسل دھنستے رہیں گے۔ یہ معاملہ ''لڑو یا مرو'' والا نہیں بلکہ ''برداشت اور بقا'' کا معاملہ ہے۔ دونوں ملک مسلسل اپنی روایتی دشمنی کے رہین منت ہیں۔ اب اس بات کا انحصار وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نواز شریف پر ہے کہ وہ دشمنی اور اسلحہ کے شیطانی چکر کو توڑیں، گو کہ اس کے امکانات بہت موہوم ہیں۔ اور یہ راستہ بھی کوئی آسان نہیں۔ لیکن گیتا کے معاملے نے خیر سگالی کی ایک فضا ضرور پیدا کی ہے جس کو بعض غیر ذمے دارانہ تبصروں کے ذریعے بآسانی خراب کیا جا سکتا ہے۔
ایک پاکستانی معروف شخصیت نے کہا ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ اس کی جیلوں میں جتنے پاکستانی قیدی موجود ہیں انھیں رہا کر کے پاکستان واپس بھیج دے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ گیتا کو واپس پاکستان بجھوایا جائے۔ لیکن ایسی باتیں کرنیوالے اس بات کا احساس نہیں کر رہے کہ گیتا کوئی قیدی نہیں تھی اور یہ کہ اس کو اس کے ملک میں واپس بجھوایا گیا ہے۔ اس قسم کی باتیں کر کے ہم نے 15 سال ضایع کر دیے ہیں جب کہ دونوں ملک 70 سال سے اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اس بات کا احساس کیا جائے کہ دونوں ملکوں کے عوام نے اس دشمنی کی اتنی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ کیا اب بھی دونوں کو پس ماندگی کا شکار رہنا چاہیے یا ان کو کوئی بہتر صلہ ملنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
دونوں ملکوں کے میڈیا نے اس موضوع کو فی الفور نظر انداز کر دیا جیسے کہ یہ کوئی ایسی چیز تھی جس پر فوراً ہی پردہ ڈالنا ضروری تھا۔ کسی اور ملک میں اس قسم کے واقعے کا تجزیہ کیا جاتا اور دوبارہ اس پر غور کیا جاتا تا کہ اس کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جا سکے حتٰی کہ امریکا اور کیوبا میں دشمنی کی طویل داستان کے بعد جو ہلکا سا رابطہ پیدا ہوا ہے وہاں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا تو باہمی تنازعات کے خاتمے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا جاتا۔ لیکن بھارت اور پاکستان کی عداوت کا خول اسقدر سخت ہے کہ گیتا کے ایک عشرے سے زائد مدت کے بعد واپس لوٹنے کے باوجود ٹوٹ نہیں سکا۔ اصولاً تو اس واقعے کے بعد باہمی تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس قسم کی کسی بات کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
اصل مسئلہ بھارت کی ہندو آبادی کے رویے کا ہے جو ابھی تک اپنی بھارت ماتا کی تقسیم کو دل سے قبول نہیں کر سکے، حالانکہ پاکستان ایک حقیقت ہے جس کے قیام کو تقریباً 70 سال گزر چکے ہیں، کیونکہ مسلمان اپنے لیے ایک علیحدہ وطن چاہتے تھے۔ انھیں محسوس ہوا کہ وہ ہندو اکثریت کے غلبے میں آ جائیں گے۔ لیکن ان کی برادری نے ممتاز لیڈر مولانا ابو الکلام آزاد کے انتباہ پر کوئی توجہ نہ دی جن کا کہنا تھا کہ ان کی علیحدگی کے بعد ہندوؤں کی طاقت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مولانا ابو الکلام کی یہ خواہش کہ برصغیر تقسیم نہ ہو، ملک بھر میں پھیلی ہوئی نفرت اور تضحیک کی موجودگی میں اس خواہش کا پورا ہونا ممکن نہیں تھا۔
مجھے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور میں کی جانیوالی تقریر یاد آتی ہے جہاں وہ بس میں سوار ہو کے پہنچے تھے۔ تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان ایک علیحدہ وجود رکھتا ہے، جسے کسی کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے ان الفاظ نے پاکستانیوں کے لیے ایک سکون بخش مرہم کا کام کیا جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ جب واجپائی کو شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ واجپائی کے یہ الفاظ پاکستانیوں کو اتنے پسند آئے کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے درخواست کی کہ میں وزیر اعظم نواز شریف سے کہوں کہ وہ جواب میں کوئی تقریر نہ کریں کیونکہ ان کے الفاظ واجپائی کی جذبات انگیز تقریر کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
گیتا کی واپسی ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے جس سے بھارت اور پاکستان دونوں پھر اس مقام سے تعلقات جوڑ سکتے ہیں جہاں روس کے شہر اوفا میں منقطع ہوئے تھے۔
دونوں نے اتفاق کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کا مسئلہ مل جل کر حل کریں گے۔ بھارت کا اس بات پر اصرار کہ وہ صرف دہشت گردی کے معاملے پر بات کرے گا جس پر کہ تحریری معاہدہ بھی عمل میں آ گیا مگر اس معاہدے کی روح پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر کشمیر کا ذکر کر کے میرے خیال میں غلطی کی۔ پاکستان کو دہشت گردی کے موضوع پر بات چیت کے لیے رضا مند ہو جانا چاہیے تھا اور اس بات چیت کے دوران وہ کہہ سکتا تھا کہ دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کی جاتی۔
نیویارک میں دونوں وزرائے اعظم جو ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ان کا ایک دوسرے سے گریز کرنا میرے خیال میں ایک بچگانہ حرکت تھی۔ دونوں وہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ دونوں ممالک کے وفود یہی کوشش کرتے رہے کہ ان کا آپس میں سامنا نہ ہو سکے۔ پھر ایک ایسا موقعہ آیا جب دونوں ایک جگہ پر اکٹھے ہو گئے۔ تب وہ ایک دوسرے کے لیے ہاتھ ہلانے پر قابو نہ پا سکے حالانکہ وہ آپس میں اتنے قریب تھے کہ سرگوشیوں میں بھی بات کر سکتے تھے۔
بہرحال بالآخر انھوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ سابقہ وزیر اعظم واجپائی اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے دوست تو تبدیل کر سکتے ہو لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کر سکتے۔ واجپائی کی جماعت بی جے پی پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا سلسلہ جنباتی استوار کرنے کے شدید خلاف تھی۔ اس کے باوجود واجپائی نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی۔ انھوں نے آگرہ میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ واجپائی چاہتے تھے کہ دونوں ملک عداوت پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات کے لیے جو فارمولا طے کیا گیا تھا اس پر اعتراض کر دیا حالانکہ یہ فارمولا دونوں فریقین نے رات بھر غور و خوض کے بعد تیار کیا تھا۔ موجودہ صورت حال گمبھیر سے گمبھیر تر ہو رہی ہے۔ دونوں ملک آپس میں بات کرنے پر تو تیار نہیں لیکن دعویٰ یہ ہے کہ وہ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ''بیک چینل'' سے لازماً بات چیت جاری ہو گی لیکن اس بات کی کوئی علامت نہیں کہ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں اور دونوں فریق زیادہ سے زیادہ ہتھیار حاصل کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے نیو یارک میں بھارت پر زیادہ سے زیادہ اسلحہ حاصل کرنے کا الزام عاید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جواب میں ان کے ملک کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کو احساس کرنا چاہیے کہ وہ اپنے عوام کو اسکولوں سے اور حفظان صحت کے مراکز سے محروم کر کے ساری دولت دفاع کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ صرف ایک بم کے خریدنے سے ان کی اقتصادی پس ماندگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جس کا دونوں ملکوں کے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اگر گیتا کا معاملہ کوئی بہتری پیدا کر سکے تو یہ ایک کرشمہ ہی ہو گا بصورت دیگر دونوں ملک غریبی کی دلدل میں مسلسل دھنستے رہیں گے۔ یہ معاملہ ''لڑو یا مرو'' والا نہیں بلکہ ''برداشت اور بقا'' کا معاملہ ہے۔ دونوں ملک مسلسل اپنی روایتی دشمنی کے رہین منت ہیں۔ اب اس بات کا انحصار وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نواز شریف پر ہے کہ وہ دشمنی اور اسلحہ کے شیطانی چکر کو توڑیں، گو کہ اس کے امکانات بہت موہوم ہیں۔ اور یہ راستہ بھی کوئی آسان نہیں۔ لیکن گیتا کے معاملے نے خیر سگالی کی ایک فضا ضرور پیدا کی ہے جس کو بعض غیر ذمے دارانہ تبصروں کے ذریعے بآسانی خراب کیا جا سکتا ہے۔
ایک پاکستانی معروف شخصیت نے کہا ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ اس کی جیلوں میں جتنے پاکستانی قیدی موجود ہیں انھیں رہا کر کے پاکستان واپس بھیج دے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ گیتا کو واپس پاکستان بجھوایا جائے۔ لیکن ایسی باتیں کرنیوالے اس بات کا احساس نہیں کر رہے کہ گیتا کوئی قیدی نہیں تھی اور یہ کہ اس کو اس کے ملک میں واپس بجھوایا گیا ہے۔ اس قسم کی باتیں کر کے ہم نے 15 سال ضایع کر دیے ہیں جب کہ دونوں ملک 70 سال سے اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اس بات کا احساس کیا جائے کہ دونوں ملکوں کے عوام نے اس دشمنی کی اتنی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ کیا اب بھی دونوں کو پس ماندگی کا شکار رہنا چاہیے یا ان کو کوئی بہتر صلہ ملنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)