منہ کس کا کالا ہوا
مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں۔ ہم خود اپنے کیے کی جو سزائیں بھگت رہے ہیں وہ اپنی جگہ
مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں۔ ہم خود اپنے کیے کی جو سزائیں بھگت رہے ہیں وہ اپنی جگہ۔ مگر ادھر قدرت بھی ہمیں سزا دینے پر تلی نظر آتی ہے۔ بارش ایک دم ایسے ہوئی کہ جل تھل ہو گئے۔ یہ واقعہ کیا کم تھا کہ اوپر سے زلزلہ نے ہمیں آ لیا۔ ملک کے کتنے بڑے علاقے میں کہاں کہاں کیا بربادی ہوئی۔ کھڑی عمارتیں دم کے دم میں ڈھیر ہو گئیں۔ ان ارضی و سماوی آفات سے قطع نظر کر بھی لیں تو پھر دہشت گردی سے کیسے اپنے کو بچائیں۔ اس پر مستزاد اہل سیاست کی دھما چوکڑی۔
بیچ ان آفات کے ایک اور فتنہ نے سر اٹھایا کل تک صورت ہندوستان اور پاکستان کے بیچ یہ تھی کہ ایک دوسرے پہ الزامات بھی دھرے جا رہے ہیں۔ ساتھ میں آنا جانا بھی جاری ہے۔ اس آنے جانے میں بھی عجب کھنڈت پڑی۔ اس طرح کہ سمجھوتہ ایکسپریس چلتے چلتے اس طرح رکی کہ ادھر سے آئے ہوئے مسافر الگ پریشان کہ واپس اپنے گھر کیسے جائیں۔ ادھر سے ادھر گئے ہوئے حیران و پریشان کہ دونوں ملکوں کے بیچ جو ایک سواری بری بھلی چل رہی تھی وہ بھی سکتہ میں آ گئی۔ گھر دور ہے۔ راستے مسدود ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں۔
اسی بیچ ایک نئے فتنہ نے سر اٹھایا۔ جو فنکار آرٹسٹ' گانے والے' اداکاری کرنے والے اس شوق میں ادھر جا رہے تھے کہ وہاں ان کے قدر داں بہت ہیں۔ اپنے فن پر داد لے کر اور کچھ کمائی کر کے لائیں گے وہاں انھوں نے دیکھا کہ شیو سینا والے گرج برس رہے ہیں کہ ادھر قدم رکھا تو خیر نہیں۔ جو ادھر گیا تھا ناکام و نامراد واپس ؎
بوئے گل' نالہ دل' دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلا
مگر سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری جو اپنی تازہ تصنیف بغل میں داب کر اس دیار میں پہنچے تھے وہ سرخرو واپس آئے۔ البتہ ان کے میزبان کے منہ پر کالک ملی گئی، مگر اس میزبان نے کمال کیا۔ کہا کہ میں اپنے چہرے پر ملی ہوئی کالک کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھوں گا۔ کتاب کی افتتاحی تقریب بہر حال ہو گی اور وہ ہوئی۔ اب یار یہ بحث کر رہے ہیں کہ کالک تو کلکرنی صاحب کے منہ پر ملی گئی۔ مگر منہ کس کا کالا ہوا۔
لیجیے اسی بیچ ایک نرالا شگوفہ پھوٹا۔ خبر آئی کہ گیتا واپس اپنے وطن جا رہی ہے۔ یار و اغیار چونکے کہ یہ گیتا کون ہے۔ وطن واپس جا رہی ہے۔ کونسا وطن۔ ہندوستان؟ تو پاکستان کب آئی' کیسے آئی۔ کب سے یہاں مقیم تھی۔ کس کی مہمان تھی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی۔ اچھا' واقعی' ایدھی فاؤنڈیشن میں کیا کر رہی تھی۔
پتہ چلا کہ اب سے تیرہ برس پہلے پاک ہند سرحد پر ایک بچی جانے کیسے بھٹک کر پاکستان میں آ نکلی تھی۔ حیران و پریشان کہ کدھر جائے۔ رینجرز نے اسے یوں بھٹکتا دیکھ کر اسے پکڑا۔ دستور تو یہی چلا آتا ہے کہ جو بھی بھٹک کر ادھر سے ادھر چلا جائے یا ادھر سے ادھر آ جائے پھر اسے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے مگر ان پاکستانی سپاہیوں نے کتنی انسانیت دکھائی کہ اسے جیل میں دھکیلنے کے بجائے ایدھی فاؤنڈیشن پہنچا دیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
اس بچی کے ماں باپ کون تھے۔ کہاں تھے۔ کچھ پتہ نہ چلا۔ بس پھر ایدھی فاؤنڈیشن نے اسے اپنی بیٹی بنا لیا۔ شروع میں گماں تھا کہ کسی مسلمان گھرانے کی بیٹی ہے۔ اسی حساب سے اس کا بھلا سا نام رکھ دیا۔ مگر انھوں نے دیکھا کہ کبھی اسے کوئی مورتی نظر آ جائے۔ ٹی وی کے کسی پروگرام میں پوجا پاٹ کا سین سامنے آ جائے تو وہ ہاتھ باندھ کر مودب کھڑی ہو جاتی ہے ارے یہ لڑکی مسلمان نہیں' ہندو ہے۔ جھٹ پٹ اس کا نام بدلا گیا۔
نیا نام تھا گیتا۔ گیتا کے لیے پوجا پاٹ کا انتظام کر دیا گیا۔ بلقیس ایدھی اس کی ماں بن گئیں۔ ٹھکانے سے اس کی پرورش کی۔ اب وہ خیر سے تئیس کے سن میں ہے۔ اچھی گزر رہی ہے۔ مگر چھٹے ہوئے گھر کی یاد تو آئے گی اور ماں باپ بھائی بہن بھی یاد آئیں گے۔ اور قسمت کی خرابی دیکھو کہ گونگی بھی ہے' بہری بھی ہے۔ ہندوستان کے ہائی کمیشن سے رابطہ کیا گیا کہ تمہاری بیٹی اپنی مٹی سے دور کب تک رہے گی۔ اس کے ماں باپ کا پتہ لگاؤ اور یہاں سے اسے لے جاؤ۔
پچھلے تھوڑے عرصے سے یہ ڈرامہ چل رہا تھا۔ ایک باپ نے دعوے بھی کر دیا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ مگر گیتا نے اسے باپ کے طور پر پہچاننے سے انکار کر دیا۔ خیر اب ہندوستان واپسی کی راہ تو نکل آئی تھی۔ سو بڑے اہتمام سے ادھر سے کچھ سرکاری لوگ اسے لینے کے لیے آئے۔ ادھر سے بلقیس ایدھی نے طے کیا کہ وہ اس کے ساتھ خود جائیں گی اور یہ اطمینان چاہئیں گی کہ جس گھرانے میں اسے آباد کیا جا رہا ہے وہ سچ مچ اسی کا گھرانا ہے۔
اب ذرا قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے۔ ہندوستان میں اچھا بھلا ایک نفرت کا ڈرامہ چل رہا تھا۔ شیوسینا اپنے مشن میں کامیاب جا رہی تھی۔ یہ بیٹھے بٹھائے گیتا کا شگوفہ پھوٹ پڑا۔ نفرت کے اتنے کامیاب شو میں کھنڈت پڑ گئی۔
خیر شیو سینا کا ڈرامہ تو چلتا رہے گا۔ لیکن بدشگنی تو ہو گئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں اس طرح کی خرابی شروع سے چلی آ رہی ہے۔ ہر دفعہ یہی لگتا ہے کہ بہت ہو گئی۔ اب باہمی محبت کا ڈرامہ چلانا چاہتے ہیں۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ یاری جیسی بھی تھی جھوٹی یا سچی' اصلی یا نقلی وہ اب نہیں چلے گی۔ مگر عجب ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ہی واقعہ ہو جاتا ہے اور یاروں کو یاد آ جاتا ہے کہ ع
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اور اسی کے ساتھ بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔
اب کے اس ڈرامے میں پہلے روڑا اٹکایا کلکرنی جی نے کہ سیاہی سے پتے ہوئے چہرے کے ساتھ تقریب میں رونق افروز رہے۔ دوسرا کھنڈت ڈالا گیتا نے۔ اب پتہ نہیں کہ اس کے ماں باپ کا پتہ چلے گا یا نہیں مگر شیو سینا کے پروگرام کے ساتھ تو بدشگنی ہو گئی۔
بیچ ان آفات کے ایک اور فتنہ نے سر اٹھایا کل تک صورت ہندوستان اور پاکستان کے بیچ یہ تھی کہ ایک دوسرے پہ الزامات بھی دھرے جا رہے ہیں۔ ساتھ میں آنا جانا بھی جاری ہے۔ اس آنے جانے میں بھی عجب کھنڈت پڑی۔ اس طرح کہ سمجھوتہ ایکسپریس چلتے چلتے اس طرح رکی کہ ادھر سے آئے ہوئے مسافر الگ پریشان کہ واپس اپنے گھر کیسے جائیں۔ ادھر سے ادھر گئے ہوئے حیران و پریشان کہ دونوں ملکوں کے بیچ جو ایک سواری بری بھلی چل رہی تھی وہ بھی سکتہ میں آ گئی۔ گھر دور ہے۔ راستے مسدود ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں۔
اسی بیچ ایک نئے فتنہ نے سر اٹھایا۔ جو فنکار آرٹسٹ' گانے والے' اداکاری کرنے والے اس شوق میں ادھر جا رہے تھے کہ وہاں ان کے قدر داں بہت ہیں۔ اپنے فن پر داد لے کر اور کچھ کمائی کر کے لائیں گے وہاں انھوں نے دیکھا کہ شیو سینا والے گرج برس رہے ہیں کہ ادھر قدم رکھا تو خیر نہیں۔ جو ادھر گیا تھا ناکام و نامراد واپس ؎
بوئے گل' نالہ دل' دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلا
مگر سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری جو اپنی تازہ تصنیف بغل میں داب کر اس دیار میں پہنچے تھے وہ سرخرو واپس آئے۔ البتہ ان کے میزبان کے منہ پر کالک ملی گئی، مگر اس میزبان نے کمال کیا۔ کہا کہ میں اپنے چہرے پر ملی ہوئی کالک کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھوں گا۔ کتاب کی افتتاحی تقریب بہر حال ہو گی اور وہ ہوئی۔ اب یار یہ بحث کر رہے ہیں کہ کالک تو کلکرنی صاحب کے منہ پر ملی گئی۔ مگر منہ کس کا کالا ہوا۔
لیجیے اسی بیچ ایک نرالا شگوفہ پھوٹا۔ خبر آئی کہ گیتا واپس اپنے وطن جا رہی ہے۔ یار و اغیار چونکے کہ یہ گیتا کون ہے۔ وطن واپس جا رہی ہے۔ کونسا وطن۔ ہندوستان؟ تو پاکستان کب آئی' کیسے آئی۔ کب سے یہاں مقیم تھی۔ کس کی مہمان تھی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی۔ اچھا' واقعی' ایدھی فاؤنڈیشن میں کیا کر رہی تھی۔
پتہ چلا کہ اب سے تیرہ برس پہلے پاک ہند سرحد پر ایک بچی جانے کیسے بھٹک کر پاکستان میں آ نکلی تھی۔ حیران و پریشان کہ کدھر جائے۔ رینجرز نے اسے یوں بھٹکتا دیکھ کر اسے پکڑا۔ دستور تو یہی چلا آتا ہے کہ جو بھی بھٹک کر ادھر سے ادھر چلا جائے یا ادھر سے ادھر آ جائے پھر اسے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے مگر ان پاکستانی سپاہیوں نے کتنی انسانیت دکھائی کہ اسے جیل میں دھکیلنے کے بجائے ایدھی فاؤنڈیشن پہنچا دیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
اس بچی کے ماں باپ کون تھے۔ کہاں تھے۔ کچھ پتہ نہ چلا۔ بس پھر ایدھی فاؤنڈیشن نے اسے اپنی بیٹی بنا لیا۔ شروع میں گماں تھا کہ کسی مسلمان گھرانے کی بیٹی ہے۔ اسی حساب سے اس کا بھلا سا نام رکھ دیا۔ مگر انھوں نے دیکھا کہ کبھی اسے کوئی مورتی نظر آ جائے۔ ٹی وی کے کسی پروگرام میں پوجا پاٹ کا سین سامنے آ جائے تو وہ ہاتھ باندھ کر مودب کھڑی ہو جاتی ہے ارے یہ لڑکی مسلمان نہیں' ہندو ہے۔ جھٹ پٹ اس کا نام بدلا گیا۔
نیا نام تھا گیتا۔ گیتا کے لیے پوجا پاٹ کا انتظام کر دیا گیا۔ بلقیس ایدھی اس کی ماں بن گئیں۔ ٹھکانے سے اس کی پرورش کی۔ اب وہ خیر سے تئیس کے سن میں ہے۔ اچھی گزر رہی ہے۔ مگر چھٹے ہوئے گھر کی یاد تو آئے گی اور ماں باپ بھائی بہن بھی یاد آئیں گے۔ اور قسمت کی خرابی دیکھو کہ گونگی بھی ہے' بہری بھی ہے۔ ہندوستان کے ہائی کمیشن سے رابطہ کیا گیا کہ تمہاری بیٹی اپنی مٹی سے دور کب تک رہے گی۔ اس کے ماں باپ کا پتہ لگاؤ اور یہاں سے اسے لے جاؤ۔
پچھلے تھوڑے عرصے سے یہ ڈرامہ چل رہا تھا۔ ایک باپ نے دعوے بھی کر دیا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ مگر گیتا نے اسے باپ کے طور پر پہچاننے سے انکار کر دیا۔ خیر اب ہندوستان واپسی کی راہ تو نکل آئی تھی۔ سو بڑے اہتمام سے ادھر سے کچھ سرکاری لوگ اسے لینے کے لیے آئے۔ ادھر سے بلقیس ایدھی نے طے کیا کہ وہ اس کے ساتھ خود جائیں گی اور یہ اطمینان چاہئیں گی کہ جس گھرانے میں اسے آباد کیا جا رہا ہے وہ سچ مچ اسی کا گھرانا ہے۔
اب ذرا قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے۔ ہندوستان میں اچھا بھلا ایک نفرت کا ڈرامہ چل رہا تھا۔ شیوسینا اپنے مشن میں کامیاب جا رہی تھی۔ یہ بیٹھے بٹھائے گیتا کا شگوفہ پھوٹ پڑا۔ نفرت کے اتنے کامیاب شو میں کھنڈت پڑ گئی۔
خیر شیو سینا کا ڈرامہ تو چلتا رہے گا۔ لیکن بدشگنی تو ہو گئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں اس طرح کی خرابی شروع سے چلی آ رہی ہے۔ ہر دفعہ یہی لگتا ہے کہ بہت ہو گئی۔ اب باہمی محبت کا ڈرامہ چلانا چاہتے ہیں۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ یاری جیسی بھی تھی جھوٹی یا سچی' اصلی یا نقلی وہ اب نہیں چلے گی۔ مگر عجب ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ہی واقعہ ہو جاتا ہے اور یاروں کو یاد آ جاتا ہے کہ ع
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اور اسی کے ساتھ بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔
اب کے اس ڈرامے میں پہلے روڑا اٹکایا کلکرنی جی نے کہ سیاہی سے پتے ہوئے چہرے کے ساتھ تقریب میں رونق افروز رہے۔ دوسرا کھنڈت ڈالا گیتا نے۔ اب پتہ نہیں کہ اس کے ماں باپ کا پتہ چلے گا یا نہیں مگر شیو سینا کے پروگرام کے ساتھ تو بدشگنی ہو گئی۔