شامی مہاجرین اور تریموں کا پتن
شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے باعث مہاجرین کی بڑی تعداد نے دوسرے ممالک کا رخ کیا ہے۔
LONDON:
شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے باعث مہاجرین کی بڑی تعداد نے دوسرے ممالک کا رخ کیا ہے۔ لٹے پٹے، غمگین، پریشان حال مہاجرین خدا کی اس زمین پر اپنا ٹھکانا ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ ان کے اپنے ملک کی سرزمین، منافقت، رقابت، حسد اور دغا بازی و دشمنی کے شعلوں سے دہک رہی ہے۔
انسان اتنا خود غرض ہے۔ ذہن سوچتے ہیں اور سوال کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انسان واقعی خود غرض ہی ہے۔ 2015 میں بھی جب دنیا کمپیوٹرکے تیز رفتار دور سے بھی ایک قدم آگے نکل چکی ہے، روٹی، پانی اور حفاظت کا احساس اسی طرح وجود سے چپکا ہے جیسے صدیوں پہلے تھا کیونکہ انسان کا ازل سے اس سے رشتہ ہے یہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ اسی احساس کے تحت تقریباً تین لاکھ کے قریب مہاجرین نے سمندر عبورکرکے مغربی ممالک میں پناہ کے منصوبے بنائے تھے لیکن بھوک، پیاس، سرکش طوفانی لہروں اور چٹانوں سے اپنا آپ نہ بچا سکے اور ڈھائی ہزار کے قریب انسان سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔
اخبارات ورسائل، انٹرنیٹ اور چینلز پر ہم سب دیکھتے رہتے ہیں، جو ظلم کر رہے ہیںوہ کیے جا رہے ہیں جو آگ کو مزید دہکا رہے ہیں وہ اپنے کام میں تندہی سے لگے ہیں۔
امن کے بڑے بڑے علم بردار صرف بیانات داغ رہے ہیں لیکن میں آپ اور ہم جیسے نجانے کتنے انسان اس بڑی انسانی ہجرت اور تباہی پر آنسو بہا رہے ہیں۔ ہمیں تصویر دکھانے والے اپنا کام کر رہے ہیں اور ان کے اس کام کا انھیں معاوضہ بھی ملتا ہے، اگر دیکھا جائے تو اس تیز رفتار دور میں میڈیا ایک صنعت کا کردار ادا کر رہا ہے وہ دکھا رہا ہے دنیا کوکہ اس زمین پر کیا کچھ ہو رہا ہے ، گو بہت سی باتیں، حادثات و واقعات کی حقیقت کو چھپانے کے لیے اب بھی منظر عام سے غائب کردیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی حقائق تو جھلک دکھلا ہی جاتے ہیں۔
مہاجرین شام کے سمندر برد کی باتیں پڑھیں اور سنیں تو تریموں کے پتن کے خون میں تحریر صفحے سرسرائے۔ کچھ عرصہ پہلے تریموں کے پتن کے بارے میں اسی اخبار میں پڑھا تھا۔ تجسس بار بار تنگ کرتا رہا اور پھر تجسس کی کہانی کے اوراق پلٹتے گئے سچی حقیقت کے تلخ رنگوں سے لکھی۔۔۔۔گورداس پور کا علاقہ پاکستان کے حصے میں آنا تھا پر ایسا نہ ہوا۔ نصیر پورگورداس پور کا موضع تھا جس کے نزدیک دس بارہ میل تک سکھ بستیاں تھیں، جوشیلے مسلمان افسروں نے اپنے دفاتر پر پاکستانی جھنڈے لہرا دیے تھے سب خوش تھے کہ وہ پاکستانی کہلائیں گے۔
انتیسواں یا تیسواں روزہ تھا جب نصیرپور والے عیدکا چاند دیکھ رہے تھے کہ سکھوں کی بستیوں کی جانب سے شور ابھرا۔ نصیر پور پر سکھوں کی جانب سے حملہ شروع ہونے والا تھا کیونکہ یہ علاقہ اب پاکستان کا حصہ نہیں بننا تھا، نصیر پور والوں کے پاس برچھیاں، کلہاڑیاں اور ڈنڈے تھے، لاہور سے گورداس پور کے لوگوں کے لیے مسلم لیگ کے لیڈروں نے اسلحہ مفت بھجوایا تھا جس کی وجہ صرف اپنی حفاظت تھی لیکن یہ اسلحہ پہنچا تو منافق اور لالچی لوگوں نے اس اسلحے کو ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں فروخت کردیا حالانکہ یہ اسلحہ لاہور میں چندہ کرکے خریدا گیا تھا، گو جماعت ایک ہی تھی لیکن خودغرضی نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔
سننے میں آیا تھا کہ بٹالہ کے ایک سکھ زمیندار نے کسی مسلم لیگی سے رائفل خریدی اور اس کی قیمت ادا کرنے کے بہانے ایک ویران جگہ لے جاکر اپنی کرپان سے اس کا پیٹ چیر دیا، کتنی عجیب بات تھی کہ پاکستان میں رہنے والے اپنوں کے لیے تڑپ رہے تھے اور دشمن ملک میں اپنے ہی اپنوں کے لیے تباہی کے راستے ہموار کر رہے تھے۔ سکھ منتظر تھے خوفزدہ بھی تھے انھیں یہی اطلاع تھی کہ نصیر پور والوں کے پاس اسلحہ آیا ہوا ہے جب کہ اندر کی کہانی مختلف تھی، دونوں ایک دوسرے کے مقابل تھے کہ ایک اللہ والا جو قبرستان میں رہتا تھا اللہ کا نام لے کر تلوار سونت کر آن کھڑا ہوا اور مخالفین کو للکارا، اور نصیر پور والوں میں بجلی سی کوندی، گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے دھول اڑی اور جب یہ ٹھہری تو گھوڑے پلٹ چکے تھے اور دو تین حملہ آور خون میں لت پت پڑے تھے لیکن جانے والے آئے تو اپنے ساتھ ریاست پٹیالہ کی ملٹری لائے۔
ہرنام سنگھ نصیر پورکا ہی رہنے والا تھا، اس نے تمام مسلمانوں کو چھپنے کا کہا۔ اندھیرے میں فوجی جیپیں پورے سازوسامان کے ساتھ آئیں وہ ان کے خون کے پیاسے تھے تب ہرنام سنگھ نے فوجی کمانڈر کے آگے ہاتھ جوڑے منت کی کہ سب مُسلے چلے گئے انھوں نے ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑا۔اس کی وفاداری کام آئی لیکن اوپر کھلا آسمان نیچے کھیتوں کی نرم مٹی اور اس کے ارد گرد سکھوں کے دوبارہ حملہ کرنے کا خطرہ لہٰذا جیسے اپنے اپنے گھروں سے نکلے تھے ویسے ہی رات میں یہ قافلہ بڑھا اور تریموں کے پتن پر یہ قافلہ رکا۔ بیچ میں راوی بہہ رہا تھا اور اس کے پار پاکستان کی سرحد ان کی منتظر تھی۔
اگست 1947 راوی کے اس پار۔ اور درمیان میں چند کشتیاں۔ ملاح زیادہ پیسہ کمانا چاہتے تھے وہ جانتے تھے کہ جان کے عوض کا سودا خوب رہے گا۔ ملاح مسلمان۔ بیچ میں راوی۔ پتن پر لٹے پٹے مسلمانوں کے قافلے جمع ہو رہے تھے اس میں امرتسر سے آئے مسلمان بھی شامل تھے۔ سننے میں آیا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کشتیاں اور اسٹیمر بھیجے ہیں جو ان ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین کو دریا پار کرا دیں گے۔ پر نہ کشتیاں آئیں نہ اسٹیمر۔ بارش تھی کہ تھمتی اور پھر برسنے لگتی۔
ملاحوں کا دل نہ پگھلا۔ کرائے کے لیے بیچ دریا میں بھی جھگڑا کرتے اور کشتی کھڑی کردیتے یوں تین ڈوب گئیں جن میں 196 مسافر تھے جس میں سے صرف چودہ بچے۔ بارش تھی تو لوگوں نے اوپر آسمان پر جہاز گزرتے دیکھے۔ کسی نے کہا کہ یہ وزیروں کے جہاز ہیں یہ ان جہازوں پر سوار مہاجرین کا معائنہ کرنے آئے ہیں۔ معائنے ہوئے۔ پر سرکاری کشتیاں اور اسٹیمر نہ آئے۔آسمان صاف نیلا تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا سخت گرمی تھی دوپہر کا وقت تھا اچانک گھوڑوں کی ہنہناہٹ کی آوازیں ابھریں۔ غول کے غول اردگرد کی بستیوں کے سکھ حملہ آوروں کی صورت میں بپا تھے ایک شور مچ گیا کیا بچہ کیا بوڑھا، کیا جوان یا عورت سب خون میں رنگ گئے جو بچ گئے انھوں نے کھیتوں میں پناہ لی۔
تریموں کا پتن خون سے رنگ گیا۔ بچنے والے کہانیاں سناتے رہے پر افسوس اس وقت نہ انٹرنیٹ تھا نہ چینلز کا شور۔ نہ اخبارات کی رسائی تھی نہ میڈیا کا زور۔ راوی کا پانی گواہ ہے۔ اس کی موجوں میں آج بھی کہیں کسی معصوم دوشیزہ کی سسکی چھپی ہے کسی شیرخوار کی دھیمی سی چیخ دبی ہے۔ آج بھی راوی کا پانی اپنی بانہوں میں نجانے کتنے پیار کرنیوالے بے قرار پاکستانیوں کی کہانیاں سمیٹے ہے۔ اگست 1947 ہزاروں لاکھوں اپنے ملک میں آنے کے لیے بے قرار تھے اور تریموں کے پتن پر رُل گئے۔ 2015 لاکھوں کی تعداد میں شامی مہاجرین اپنے ملک سے فرار کے لیے بے قرار ہیں کہ سکون چاہتا ہے آدمی۔ امن چاہتا ہے آدمی۔ یہ میرے رب کی زمین ہے ۔قرار چاہتا ہے آدمی۔
شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے باعث مہاجرین کی بڑی تعداد نے دوسرے ممالک کا رخ کیا ہے۔ لٹے پٹے، غمگین، پریشان حال مہاجرین خدا کی اس زمین پر اپنا ٹھکانا ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ ان کے اپنے ملک کی سرزمین، منافقت، رقابت، حسد اور دغا بازی و دشمنی کے شعلوں سے دہک رہی ہے۔
انسان اتنا خود غرض ہے۔ ذہن سوچتے ہیں اور سوال کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انسان واقعی خود غرض ہی ہے۔ 2015 میں بھی جب دنیا کمپیوٹرکے تیز رفتار دور سے بھی ایک قدم آگے نکل چکی ہے، روٹی، پانی اور حفاظت کا احساس اسی طرح وجود سے چپکا ہے جیسے صدیوں پہلے تھا کیونکہ انسان کا ازل سے اس سے رشتہ ہے یہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ اسی احساس کے تحت تقریباً تین لاکھ کے قریب مہاجرین نے سمندر عبورکرکے مغربی ممالک میں پناہ کے منصوبے بنائے تھے لیکن بھوک، پیاس، سرکش طوفانی لہروں اور چٹانوں سے اپنا آپ نہ بچا سکے اور ڈھائی ہزار کے قریب انسان سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔
اخبارات ورسائل، انٹرنیٹ اور چینلز پر ہم سب دیکھتے رہتے ہیں، جو ظلم کر رہے ہیںوہ کیے جا رہے ہیں جو آگ کو مزید دہکا رہے ہیں وہ اپنے کام میں تندہی سے لگے ہیں۔
امن کے بڑے بڑے علم بردار صرف بیانات داغ رہے ہیں لیکن میں آپ اور ہم جیسے نجانے کتنے انسان اس بڑی انسانی ہجرت اور تباہی پر آنسو بہا رہے ہیں۔ ہمیں تصویر دکھانے والے اپنا کام کر رہے ہیں اور ان کے اس کام کا انھیں معاوضہ بھی ملتا ہے، اگر دیکھا جائے تو اس تیز رفتار دور میں میڈیا ایک صنعت کا کردار ادا کر رہا ہے وہ دکھا رہا ہے دنیا کوکہ اس زمین پر کیا کچھ ہو رہا ہے ، گو بہت سی باتیں، حادثات و واقعات کی حقیقت کو چھپانے کے لیے اب بھی منظر عام سے غائب کردیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی حقائق تو جھلک دکھلا ہی جاتے ہیں۔
مہاجرین شام کے سمندر برد کی باتیں پڑھیں اور سنیں تو تریموں کے پتن کے خون میں تحریر صفحے سرسرائے۔ کچھ عرصہ پہلے تریموں کے پتن کے بارے میں اسی اخبار میں پڑھا تھا۔ تجسس بار بار تنگ کرتا رہا اور پھر تجسس کی کہانی کے اوراق پلٹتے گئے سچی حقیقت کے تلخ رنگوں سے لکھی۔۔۔۔گورداس پور کا علاقہ پاکستان کے حصے میں آنا تھا پر ایسا نہ ہوا۔ نصیر پورگورداس پور کا موضع تھا جس کے نزدیک دس بارہ میل تک سکھ بستیاں تھیں، جوشیلے مسلمان افسروں نے اپنے دفاتر پر پاکستانی جھنڈے لہرا دیے تھے سب خوش تھے کہ وہ پاکستانی کہلائیں گے۔
انتیسواں یا تیسواں روزہ تھا جب نصیرپور والے عیدکا چاند دیکھ رہے تھے کہ سکھوں کی بستیوں کی جانب سے شور ابھرا۔ نصیر پور پر سکھوں کی جانب سے حملہ شروع ہونے والا تھا کیونکہ یہ علاقہ اب پاکستان کا حصہ نہیں بننا تھا، نصیر پور والوں کے پاس برچھیاں، کلہاڑیاں اور ڈنڈے تھے، لاہور سے گورداس پور کے لوگوں کے لیے مسلم لیگ کے لیڈروں نے اسلحہ مفت بھجوایا تھا جس کی وجہ صرف اپنی حفاظت تھی لیکن یہ اسلحہ پہنچا تو منافق اور لالچی لوگوں نے اس اسلحے کو ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں فروخت کردیا حالانکہ یہ اسلحہ لاہور میں چندہ کرکے خریدا گیا تھا، گو جماعت ایک ہی تھی لیکن خودغرضی نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔
سننے میں آیا تھا کہ بٹالہ کے ایک سکھ زمیندار نے کسی مسلم لیگی سے رائفل خریدی اور اس کی قیمت ادا کرنے کے بہانے ایک ویران جگہ لے جاکر اپنی کرپان سے اس کا پیٹ چیر دیا، کتنی عجیب بات تھی کہ پاکستان میں رہنے والے اپنوں کے لیے تڑپ رہے تھے اور دشمن ملک میں اپنے ہی اپنوں کے لیے تباہی کے راستے ہموار کر رہے تھے۔ سکھ منتظر تھے خوفزدہ بھی تھے انھیں یہی اطلاع تھی کہ نصیر پور والوں کے پاس اسلحہ آیا ہوا ہے جب کہ اندر کی کہانی مختلف تھی، دونوں ایک دوسرے کے مقابل تھے کہ ایک اللہ والا جو قبرستان میں رہتا تھا اللہ کا نام لے کر تلوار سونت کر آن کھڑا ہوا اور مخالفین کو للکارا، اور نصیر پور والوں میں بجلی سی کوندی، گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے دھول اڑی اور جب یہ ٹھہری تو گھوڑے پلٹ چکے تھے اور دو تین حملہ آور خون میں لت پت پڑے تھے لیکن جانے والے آئے تو اپنے ساتھ ریاست پٹیالہ کی ملٹری لائے۔
ہرنام سنگھ نصیر پورکا ہی رہنے والا تھا، اس نے تمام مسلمانوں کو چھپنے کا کہا۔ اندھیرے میں فوجی جیپیں پورے سازوسامان کے ساتھ آئیں وہ ان کے خون کے پیاسے تھے تب ہرنام سنگھ نے فوجی کمانڈر کے آگے ہاتھ جوڑے منت کی کہ سب مُسلے چلے گئے انھوں نے ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑا۔اس کی وفاداری کام آئی لیکن اوپر کھلا آسمان نیچے کھیتوں کی نرم مٹی اور اس کے ارد گرد سکھوں کے دوبارہ حملہ کرنے کا خطرہ لہٰذا جیسے اپنے اپنے گھروں سے نکلے تھے ویسے ہی رات میں یہ قافلہ بڑھا اور تریموں کے پتن پر یہ قافلہ رکا۔ بیچ میں راوی بہہ رہا تھا اور اس کے پار پاکستان کی سرحد ان کی منتظر تھی۔
اگست 1947 راوی کے اس پار۔ اور درمیان میں چند کشتیاں۔ ملاح زیادہ پیسہ کمانا چاہتے تھے وہ جانتے تھے کہ جان کے عوض کا سودا خوب رہے گا۔ ملاح مسلمان۔ بیچ میں راوی۔ پتن پر لٹے پٹے مسلمانوں کے قافلے جمع ہو رہے تھے اس میں امرتسر سے آئے مسلمان بھی شامل تھے۔ سننے میں آیا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کشتیاں اور اسٹیمر بھیجے ہیں جو ان ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین کو دریا پار کرا دیں گے۔ پر نہ کشتیاں آئیں نہ اسٹیمر۔ بارش تھی کہ تھمتی اور پھر برسنے لگتی۔
ملاحوں کا دل نہ پگھلا۔ کرائے کے لیے بیچ دریا میں بھی جھگڑا کرتے اور کشتی کھڑی کردیتے یوں تین ڈوب گئیں جن میں 196 مسافر تھے جس میں سے صرف چودہ بچے۔ بارش تھی تو لوگوں نے اوپر آسمان پر جہاز گزرتے دیکھے۔ کسی نے کہا کہ یہ وزیروں کے جہاز ہیں یہ ان جہازوں پر سوار مہاجرین کا معائنہ کرنے آئے ہیں۔ معائنے ہوئے۔ پر سرکاری کشتیاں اور اسٹیمر نہ آئے۔آسمان صاف نیلا تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا سخت گرمی تھی دوپہر کا وقت تھا اچانک گھوڑوں کی ہنہناہٹ کی آوازیں ابھریں۔ غول کے غول اردگرد کی بستیوں کے سکھ حملہ آوروں کی صورت میں بپا تھے ایک شور مچ گیا کیا بچہ کیا بوڑھا، کیا جوان یا عورت سب خون میں رنگ گئے جو بچ گئے انھوں نے کھیتوں میں پناہ لی۔
تریموں کا پتن خون سے رنگ گیا۔ بچنے والے کہانیاں سناتے رہے پر افسوس اس وقت نہ انٹرنیٹ تھا نہ چینلز کا شور۔ نہ اخبارات کی رسائی تھی نہ میڈیا کا زور۔ راوی کا پانی گواہ ہے۔ اس کی موجوں میں آج بھی کہیں کسی معصوم دوشیزہ کی سسکی چھپی ہے کسی شیرخوار کی دھیمی سی چیخ دبی ہے۔ آج بھی راوی کا پانی اپنی بانہوں میں نجانے کتنے پیار کرنیوالے بے قرار پاکستانیوں کی کہانیاں سمیٹے ہے۔ اگست 1947 ہزاروں لاکھوں اپنے ملک میں آنے کے لیے بے قرار تھے اور تریموں کے پتن پر رُل گئے۔ 2015 لاکھوں کی تعداد میں شامی مہاجرین اپنے ملک سے فرار کے لیے بے قرار ہیں کہ سکون چاہتا ہے آدمی۔ امن چاہتا ہے آدمی۔ یہ میرے رب کی زمین ہے ۔قرار چاہتا ہے آدمی۔