ڈاکٹر جمبو
ان کا نام جمبو کیوں تھا، ٹھہریے میں اس کی وجہ تسمیہ آپ کو بتاتا ہوں۔
KARACHI:
ان کا نام جمبو کیوں تھا، ٹھہریے میں اس کی وجہ تسمیہ آپ کو بتاتا ہوں۔ جمبو ان معنوں میں کہ ان کی ہر چیز بڑی اور عالیشان تھی۔ قد، سراپا، دماغ، اسٹھیتو اسکوپ سفید کوٹ اور میز۔ میز تو اتنی بڑی تھی کہ اس پر فٹبال یا کرکٹ بھی کھیلی جاسکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اسی میز پر مریض کو لٹا کر اس کا طبی معائنہ بھی کرلیا کرتے تھے۔
میں نے آپ کو ڈاکٹر جمبو کے بارے میں تو بتا دیا لیکن ان کے پس منظر سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ وہ کہاں سے آئے تھے اور قصبہ جنجال پورہ میں ان کا ارادہ کب تک کے قیام کا تھا وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا تھا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شہروں میں جو آپ نے ڈاکٹر دیکھے ہوں گے یہ ان سے مختلف اور ''اچھوتی چیز'' تھی۔ جنجال پورہ ایک غیر متمدن اور مفلوک الحال افراد کی بستی تھی، جہاں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان رہتے تھے۔
علاج معالجہ کون کراتا؟ جو کچھ سفید کوٹ والے ڈاکٹر نے بتا دیا اور جو کچھ دے دیا وہ کھالیا۔ کسی کو ان کی دوا سے فائدہ ہوجاتا تھا اور جن کو نہیں ہوتا تھا وہ اس امید پر دوا کھاتے رہتے تھے کہ کبھی نہ کبھی تو ہوجائے گا۔ مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال وہ ایک دھانسو شخصیت تھے، اس لیے ان کے سامنے کسی کو دم مارنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے وہاں براجمان تھے۔ کلینک سے کچھ فاصلے پر ان کا مکان تھا۔ بیوی بچے کراچی میں رہتے تھے، جہاں وہ ماہ بہ ماہ چلے جایا کرتے تھے۔ سفید کوٹ ان کا محبوب لباس تھا۔
میرا خیال تھا کہ وہ سوتے بھی اسی میں تھے۔ڈاکٹر صاحب کی دھانسو شخصیت میں ان کے اسٹھیتو اسکوپ کا بڑا دخل تھا۔ اس کی نلکیاں لان میں پانی دینے والی پلاسٹک کی موٹی ٹیوب سے بنی ہوئی تھیں۔ ایک سرخ اور دوسری سفید۔ معلوم نہیں دونوں ایک رنگ کی نہیں ملیں یا اس میں کوئی مصلحت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا آلہ انھوں نے خود بنایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس سے مریض کے پورے جسم کا معائنہ کر ڈالتے تھے۔ اگر مریض کو نزلہ ہے تو دوسری چیزیں نہ رہ جائیں۔اوہ! میں نے اپنا تعارف تو کرایا نہیں۔ ہم لوگ جنجال پورہ میں تب سے ہیں جب سے یہ آباد ہوا ہے۔ جب میں آٹھویں میں آٹھ بار فیل ہوگیا تو میرے ابّا نے مجھے مشورہ دیا کہ اب مجھے گوشت بیچنا چاہیے، اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس لیے کہ اب جنجال پورہ میں کتے، بلے، بلیاں، خچر اور گدھے بہت ہوگئے ہیں۔ اگر ان میں تھوڑا سا گائے یا بچھڑے کا گوشت ملادیا جائے تو دکان خوب چل سکتی ہے۔
مگر نہ جانے کیوں مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق ہوگیا۔ صاف ستھرا کوٹ اور گلے میں لٹکتا ہوا اسٹھیتواسکوپ اور مریضوں پر رعب ڈالتے رہو۔ جب اس کی دکان کے سامنے سے گزرو تو اس بات کا خاص خیال رکھو کہ وہ کوئی چیز پیش تو نہیں کررہا ہے۔ اگر وہ شخصیت سے متاثر ہو کر کچھ دے رہا ہو تو اس کا دل نہ توڑو اور فوراً اسے قبول کرلو۔ کیا پتا، دو منٹ بعد اس کا ارادہ تبدیل ہوجائے۔
میرے دادا مرحوم جنجال پورہ کے بڑے حکیم تھے اور ان کے دواخانے کا نام بوعلی سینا دواخانہ تھا۔ میں بچپن میں اس دواخانے پر کام کیا کرتا تھا، مثلاً پڑیاں بناتا، ہاون دستے میں دوائیں کوٹتا، پیستا اور چھانتا تھا۔ اس سے مجھے دوا شناسی ہوگئی تھی۔ دادا کے قدموں میں بیٹھا رہتا تھا، اس لیے معلوم تھا کہ دل، پھیپھڑے اور جگر کہاں پر ہوتا ہے، ان کے کام کیا ہیں۔ میں نے جب ڈاکٹر جمبو سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے اس کی شفقت کے ساتھ اجازت دے دی۔ ڈاکٹر کا نائب کوئی حکیم ہی ہوسکتا تھا۔ میں نے اپنے نام میں ڈاکٹر لگایا اور اسے کلینک کے دروازے پر چسپاں کردیا اور کلینک میں بیٹھنے لگا۔ایک روز نتھو موچی پیٹ تھامے کراہتا ہوا آیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ درد میں مبتلا ہے۔
اسے تشنج دور کرنے کی دوا دینا چاہیے یا پھر دست کرانا چاہئیں تاکہ جس وجہ سے وہ کراہ رہا ہے، وہ باہر آجائے۔ میں نے سرگوشی میں ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا، مگر انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ پھر انھوں نے اسٹھیتو اسکوپ سے نتھو کے ہاتھ، پاؤں، سینے اور پیٹ کا تفصیلی معائنہ کیا۔ ''شہر کے ڈاکٹر سینے کا معائنہ کر کے ایک رائے قائم کرلیتے ہیں جو قطعی درست نہیں ہے، اگر دل، پھیپڑے، جگر اور مثانے کا معائنہ نہ کیا جائے تو اصل بیماری کا کیسے پتا چلے گا، ہائیں؟'' انھوں نے نتھو سے پوچھا۔''اوجی، دل، جگر کی آپ پروا نہ کریں، پیٹ کے درد کی دوا دے دیں۔'' وہ کراہتا ہوا بولا۔
''تمہارے چاروں گردوں نے بیک وقت کام کرنا چھوڑ دیا ہے، اسی لیے یہ گڑبڑ پیدا ہورہی ہے۔''
میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ انسانی جسم میں صرف دو گردے ہوتے ہیں، مگر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ کیا پتا اب چار ہوتے ہوں۔ جدید دور میں جو کچھ ہوجائے کم ہے۔ ڈاکٹر صاحب شہر جاتے تھے تو بہت سی گولیاں خرید لاتے تھے۔ جب وہ ختم ہوجاتی تھیں تو میری بنائی ہوئی پڑیوں سے کام چلا لیتے تھے۔
میں نے جو پڑیاں نکال کر دی تھیں، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ نتھو ان سے صحت یاب ہوگیا۔ اس روز تو اس نے پیسے دیے دوسرے روز آکر ہمارے جوتوں پر پالش بھی کرگیا۔فقیرا مرغی فروش جو زیادہ تر مری ہوئی مرغیاں فروخت کیا کرتا تھا، کلینک پر آیا۔ ڈاکٹر جمبو نے اپنے محیرالعقل اسٹھیتھو اسکوپ سے اس کا معائنہ کیا اور کہنے لگے کہ اس کا خون بہت روانی سے بہہ رہا ہے۔ کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ پھر فقیرا سے پوچھنے لگے۔ ''تمہارے دو دل تو نہیں ہیں؟''
''میں نے کبھی سینہ چیر کر نہیں دیکھا۔'' وہ معذرت سے بولا۔
''کبھی خاندان میں تو کسی کو یہ مرض نہیں ہوا؟''
''اگر کسی کو ہوا ہے تو اس کا پتا نہیں۔'' اس کا جواب تھا۔
''ٹھیک ہے میں دوا دیتا ہوں۔ ایک دل کام کرنا چھوڑ دے گا۔ روانی درست ہوجائے گی۔''
میں نے فقیرا کی نبض پر ہاتھ رکھا تو اس کا فشار خون (بلڈ پریشر) بلند تھا۔ میں نے اس کے لیے جو دوا تجویز کی، وہی ڈاکٹر صاحب نے دے دی، غالباً ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فقیرا کے دوسرے دل کی حرکت کیسے روکیں؟
فقیرا کو فائدہ ہوگیا۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے، اس لیے وہ دوسرے دن دو مرغیاں دے گیا، زندہ اور کڑکڑاتی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اندیشہ ظاہر کیا کہ بیمار نہ ہوں مگر شام تک ان کی بیماری کا پتا نہ چلا تو ہم نے انھیں ذبح کردیا اور ان کے گاڑھے شوربے سے معدے کو شاد کام کیا۔
ڈاکٹر صاحب اپنے ان مریضوں کو اچھی طرح سے یاد رکھتے تھے جن کا علاج وہ کرچکے ہوں۔ اس کے لیے وہ مجھے قبرستان لے گئے۔ ایک قبر کی طرف اشارہ کرکے بولے۔ ''یہاں فیضو مٹھائی والا دفن ہے۔ نزلہ بخار میں مبتلا تھا، میں نے علاج کردیا مگر وہ فالج سے ہلاک ہوگیا۔ یہاں رامو ہے۔'' انھوں نے دوسری قبر کی طرف اشارہ کیا۔ ''تپ دق کا مریض تھا۔ میں نے علاج کیا تو تندرست ہوگیا، لیکن بعد میں لاپروائی سے ہلاک ہوگیا۔'' وہاں سے چلتے وقت اپنی خدا ترسی کی بنا پر کہنے لگے۔ ''عزیزم! جہاں رہو، خوش رہو۔''
اگلے دن صبح وہ کچھ ہوا کہ جس کا مجھے گمان ہی نہیں تھا۔ کلینک کے قریب آکر پولیس کی موٹر سائیکل رکی اور اس میں سے انسپکٹر رشید اترا اور دھمکتا ہوا کلینک میں آگیا۔ اس وقت وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ''ایک ہفتہ پہلے تونے میرے بیٹے شارق کا علاج کیا تھا، معمولی سا نزلہ بخار تھا۔ مگر تونے معلوم نہیں کیا کچھ دے دیا کہ وہ مرگیا۔'' ڈاکٹر جمبو ہچکیاں لے کر رونے لگے۔ ''اب تجھے میرے ساتھ تھانے چلنا ہوگا۔ میں نے تیری دوا لیبارٹری کے معائنے کے لیے رکھ لی ہے۔
ممکن ہے لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جائے۔ میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔'' ڈاکٹر جمبو کا چہرہ دھلے کپڑے کی طرح سفید ہوگیا۔ وہ انسپکٹر کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے۔ میں نے کلینک بند کیا اور گھر چلا گیا کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ انھیں سزا ہوگئی، اس لیے کہ انھوں نے شارق کو میرے کہنے پر غلط دوا دے دی تھی۔
کلینک بند نہیں ہوا۔ میں نے جمبو کلینک کی جگہ ابوسینا دواخانے کا بورڈ لگادیا۔ اب میں حکیم بن کر اس جگہ بیٹھتا ہوں۔ البتہ انسپکٹر رشید کو کاروبار میں سے چوتھائی حصہ دینا پڑتا ہے۔ دراصل ترقی ایک تنگ زینہ ہے جس پر چڑھتے ہوئے اگر سائیڈ میں چلنے والوں کو کہنی مار دی جائے تو آگے جانے کا موقع مل جاتا ہے۔
ان کا نام جمبو کیوں تھا، ٹھہریے میں اس کی وجہ تسمیہ آپ کو بتاتا ہوں۔ جمبو ان معنوں میں کہ ان کی ہر چیز بڑی اور عالیشان تھی۔ قد، سراپا، دماغ، اسٹھیتو اسکوپ سفید کوٹ اور میز۔ میز تو اتنی بڑی تھی کہ اس پر فٹبال یا کرکٹ بھی کھیلی جاسکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اسی میز پر مریض کو لٹا کر اس کا طبی معائنہ بھی کرلیا کرتے تھے۔
میں نے آپ کو ڈاکٹر جمبو کے بارے میں تو بتا دیا لیکن ان کے پس منظر سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ وہ کہاں سے آئے تھے اور قصبہ جنجال پورہ میں ان کا ارادہ کب تک کے قیام کا تھا وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا تھا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شہروں میں جو آپ نے ڈاکٹر دیکھے ہوں گے یہ ان سے مختلف اور ''اچھوتی چیز'' تھی۔ جنجال پورہ ایک غیر متمدن اور مفلوک الحال افراد کی بستی تھی، جہاں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان رہتے تھے۔
علاج معالجہ کون کراتا؟ جو کچھ سفید کوٹ والے ڈاکٹر نے بتا دیا اور جو کچھ دے دیا وہ کھالیا۔ کسی کو ان کی دوا سے فائدہ ہوجاتا تھا اور جن کو نہیں ہوتا تھا وہ اس امید پر دوا کھاتے رہتے تھے کہ کبھی نہ کبھی تو ہوجائے گا۔ مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال وہ ایک دھانسو شخصیت تھے، اس لیے ان کے سامنے کسی کو دم مارنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے وہاں براجمان تھے۔ کلینک سے کچھ فاصلے پر ان کا مکان تھا۔ بیوی بچے کراچی میں رہتے تھے، جہاں وہ ماہ بہ ماہ چلے جایا کرتے تھے۔ سفید کوٹ ان کا محبوب لباس تھا۔
میرا خیال تھا کہ وہ سوتے بھی اسی میں تھے۔ڈاکٹر صاحب کی دھانسو شخصیت میں ان کے اسٹھیتو اسکوپ کا بڑا دخل تھا۔ اس کی نلکیاں لان میں پانی دینے والی پلاسٹک کی موٹی ٹیوب سے بنی ہوئی تھیں۔ ایک سرخ اور دوسری سفید۔ معلوم نہیں دونوں ایک رنگ کی نہیں ملیں یا اس میں کوئی مصلحت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا آلہ انھوں نے خود بنایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس سے مریض کے پورے جسم کا معائنہ کر ڈالتے تھے۔ اگر مریض کو نزلہ ہے تو دوسری چیزیں نہ رہ جائیں۔اوہ! میں نے اپنا تعارف تو کرایا نہیں۔ ہم لوگ جنجال پورہ میں تب سے ہیں جب سے یہ آباد ہوا ہے۔ جب میں آٹھویں میں آٹھ بار فیل ہوگیا تو میرے ابّا نے مجھے مشورہ دیا کہ اب مجھے گوشت بیچنا چاہیے، اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس لیے کہ اب جنجال پورہ میں کتے، بلے، بلیاں، خچر اور گدھے بہت ہوگئے ہیں۔ اگر ان میں تھوڑا سا گائے یا بچھڑے کا گوشت ملادیا جائے تو دکان خوب چل سکتی ہے۔
مگر نہ جانے کیوں مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق ہوگیا۔ صاف ستھرا کوٹ اور گلے میں لٹکتا ہوا اسٹھیتواسکوپ اور مریضوں پر رعب ڈالتے رہو۔ جب اس کی دکان کے سامنے سے گزرو تو اس بات کا خاص خیال رکھو کہ وہ کوئی چیز پیش تو نہیں کررہا ہے۔ اگر وہ شخصیت سے متاثر ہو کر کچھ دے رہا ہو تو اس کا دل نہ توڑو اور فوراً اسے قبول کرلو۔ کیا پتا، دو منٹ بعد اس کا ارادہ تبدیل ہوجائے۔
میرے دادا مرحوم جنجال پورہ کے بڑے حکیم تھے اور ان کے دواخانے کا نام بوعلی سینا دواخانہ تھا۔ میں بچپن میں اس دواخانے پر کام کیا کرتا تھا، مثلاً پڑیاں بناتا، ہاون دستے میں دوائیں کوٹتا، پیستا اور چھانتا تھا۔ اس سے مجھے دوا شناسی ہوگئی تھی۔ دادا کے قدموں میں بیٹھا رہتا تھا، اس لیے معلوم تھا کہ دل، پھیپھڑے اور جگر کہاں پر ہوتا ہے، ان کے کام کیا ہیں۔ میں نے جب ڈاکٹر جمبو سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے اس کی شفقت کے ساتھ اجازت دے دی۔ ڈاکٹر کا نائب کوئی حکیم ہی ہوسکتا تھا۔ میں نے اپنے نام میں ڈاکٹر لگایا اور اسے کلینک کے دروازے پر چسپاں کردیا اور کلینک میں بیٹھنے لگا۔ایک روز نتھو موچی پیٹ تھامے کراہتا ہوا آیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ درد میں مبتلا ہے۔
اسے تشنج دور کرنے کی دوا دینا چاہیے یا پھر دست کرانا چاہئیں تاکہ جس وجہ سے وہ کراہ رہا ہے، وہ باہر آجائے۔ میں نے سرگوشی میں ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا، مگر انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ پھر انھوں نے اسٹھیتو اسکوپ سے نتھو کے ہاتھ، پاؤں، سینے اور پیٹ کا تفصیلی معائنہ کیا۔ ''شہر کے ڈاکٹر سینے کا معائنہ کر کے ایک رائے قائم کرلیتے ہیں جو قطعی درست نہیں ہے، اگر دل، پھیپڑے، جگر اور مثانے کا معائنہ نہ کیا جائے تو اصل بیماری کا کیسے پتا چلے گا، ہائیں؟'' انھوں نے نتھو سے پوچھا۔''اوجی، دل، جگر کی آپ پروا نہ کریں، پیٹ کے درد کی دوا دے دیں۔'' وہ کراہتا ہوا بولا۔
''تمہارے چاروں گردوں نے بیک وقت کام کرنا چھوڑ دیا ہے، اسی لیے یہ گڑبڑ پیدا ہورہی ہے۔''
میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ انسانی جسم میں صرف دو گردے ہوتے ہیں، مگر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ کیا پتا اب چار ہوتے ہوں۔ جدید دور میں جو کچھ ہوجائے کم ہے۔ ڈاکٹر صاحب شہر جاتے تھے تو بہت سی گولیاں خرید لاتے تھے۔ جب وہ ختم ہوجاتی تھیں تو میری بنائی ہوئی پڑیوں سے کام چلا لیتے تھے۔
میں نے جو پڑیاں نکال کر دی تھیں، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ نتھو ان سے صحت یاب ہوگیا۔ اس روز تو اس نے پیسے دیے دوسرے روز آکر ہمارے جوتوں پر پالش بھی کرگیا۔فقیرا مرغی فروش جو زیادہ تر مری ہوئی مرغیاں فروخت کیا کرتا تھا، کلینک پر آیا۔ ڈاکٹر جمبو نے اپنے محیرالعقل اسٹھیتھو اسکوپ سے اس کا معائنہ کیا اور کہنے لگے کہ اس کا خون بہت روانی سے بہہ رہا ہے۔ کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ پھر فقیرا سے پوچھنے لگے۔ ''تمہارے دو دل تو نہیں ہیں؟''
''میں نے کبھی سینہ چیر کر نہیں دیکھا۔'' وہ معذرت سے بولا۔
''کبھی خاندان میں تو کسی کو یہ مرض نہیں ہوا؟''
''اگر کسی کو ہوا ہے تو اس کا پتا نہیں۔'' اس کا جواب تھا۔
''ٹھیک ہے میں دوا دیتا ہوں۔ ایک دل کام کرنا چھوڑ دے گا۔ روانی درست ہوجائے گی۔''
میں نے فقیرا کی نبض پر ہاتھ رکھا تو اس کا فشار خون (بلڈ پریشر) بلند تھا۔ میں نے اس کے لیے جو دوا تجویز کی، وہی ڈاکٹر صاحب نے دے دی، غالباً ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فقیرا کے دوسرے دل کی حرکت کیسے روکیں؟
فقیرا کو فائدہ ہوگیا۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے، اس لیے وہ دوسرے دن دو مرغیاں دے گیا، زندہ اور کڑکڑاتی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اندیشہ ظاہر کیا کہ بیمار نہ ہوں مگر شام تک ان کی بیماری کا پتا نہ چلا تو ہم نے انھیں ذبح کردیا اور ان کے گاڑھے شوربے سے معدے کو شاد کام کیا۔
ڈاکٹر صاحب اپنے ان مریضوں کو اچھی طرح سے یاد رکھتے تھے جن کا علاج وہ کرچکے ہوں۔ اس کے لیے وہ مجھے قبرستان لے گئے۔ ایک قبر کی طرف اشارہ کرکے بولے۔ ''یہاں فیضو مٹھائی والا دفن ہے۔ نزلہ بخار میں مبتلا تھا، میں نے علاج کردیا مگر وہ فالج سے ہلاک ہوگیا۔ یہاں رامو ہے۔'' انھوں نے دوسری قبر کی طرف اشارہ کیا۔ ''تپ دق کا مریض تھا۔ میں نے علاج کیا تو تندرست ہوگیا، لیکن بعد میں لاپروائی سے ہلاک ہوگیا۔'' وہاں سے چلتے وقت اپنی خدا ترسی کی بنا پر کہنے لگے۔ ''عزیزم! جہاں رہو، خوش رہو۔''
اگلے دن صبح وہ کچھ ہوا کہ جس کا مجھے گمان ہی نہیں تھا۔ کلینک کے قریب آکر پولیس کی موٹر سائیکل رکی اور اس میں سے انسپکٹر رشید اترا اور دھمکتا ہوا کلینک میں آگیا۔ اس وقت وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ''ایک ہفتہ پہلے تونے میرے بیٹے شارق کا علاج کیا تھا، معمولی سا نزلہ بخار تھا۔ مگر تونے معلوم نہیں کیا کچھ دے دیا کہ وہ مرگیا۔'' ڈاکٹر جمبو ہچکیاں لے کر رونے لگے۔ ''اب تجھے میرے ساتھ تھانے چلنا ہوگا۔ میں نے تیری دوا لیبارٹری کے معائنے کے لیے رکھ لی ہے۔
ممکن ہے لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جائے۔ میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔'' ڈاکٹر جمبو کا چہرہ دھلے کپڑے کی طرح سفید ہوگیا۔ وہ انسپکٹر کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے۔ میں نے کلینک بند کیا اور گھر چلا گیا کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ انھیں سزا ہوگئی، اس لیے کہ انھوں نے شارق کو میرے کہنے پر غلط دوا دے دی تھی۔
کلینک بند نہیں ہوا۔ میں نے جمبو کلینک کی جگہ ابوسینا دواخانے کا بورڈ لگادیا۔ اب میں حکیم بن کر اس جگہ بیٹھتا ہوں۔ البتہ انسپکٹر رشید کو کاروبار میں سے چوتھائی حصہ دینا پڑتا ہے۔ دراصل ترقی ایک تنگ زینہ ہے جس پر چڑھتے ہوئے اگر سائیڈ میں چلنے والوں کو کہنی مار دی جائے تو آگے جانے کا موقع مل جاتا ہے۔