قومی زبان اُردو
اُردوکسی ایک خطے کسی قوم یا کسی مذہب کی زبان نہیں ہے، نئی تحقیق سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے
KARACHI:
اُردوکسی ایک خطے کسی قوم یا کسی مذہب کی زبان نہیں ہے، نئی تحقیق سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اُردو بہت پہلے مہاراجہ اشوک کے دور سے مختلف چولے بدل کر ہم تک پہنچی ہے اور اس کے بارے میں یہ گمان درست نہیں ہے کہ یہ ایک نوخیز اورنوپختہ زبان ہے، برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی عربی زبان اوراس کے بعد فارسی اور ترکی زبانوں نے اپنا دائرہ اثر وسیع کرنا شروع کیا تو اُردو نے ان زبانوں کو بھی اپنے اندر جذب کرتے ہوئے، فارسی رسم الخط میں ایک مکمل زبان کے طور پر اپنا وجود منوایا اور برصغیر کے وسیع حلقوں کو اپنی زلف کا اسیر بنالیا۔
انگریزوں نے جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد پورے اعتماد سے اپنی نوآبادیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا کا م شروع کیا اورکلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام انھی پالیسیوں کی ایک کڑی تھی، اس کالج کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر میں ایک طرف اُردوکے فروغ کا پانسہ پھینکا اوردوسری طرف بنگال کے ہندو دانشوروں اور سرکاری ملازمین میں ہندو مذہب کے احیا اور بنگالی زبان کو فارسی رسم الخط میں لکھنے کے بجائے قدیم سنسکرت رسم الخط میں لکھنے کی سازش کوکامیاب بنایا اور یہیںسے اُردو رسم الخط کو ایک متنازع مسئلہ بنا کر سامنے لایا گیا۔
اس کے بعد لارڈ میکالے نے انگریزی زبان کو سرکاری اور تعلیمی زبان کا درجہ دے کرصرف ایک فرمان کے ذریعے مسلمانوں کو ناخواندہ بنادیا۔نوآبادیاتی نظام اور استمعاریت پسند یورپی قوموں کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی کہ مظلوم اقوام کو محکوم بنانے کے لیے سب سے پہلے ان کی زبان پر وارکیا جائے۔ اس حوالے سے تاریخ گواہ ہے کہ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپی فوجوں نے جہاں جہاں اپنی نوآبادیات قائم کی تھیں وہ مظلوم اقوام آج بھی اپنی زبان اپنی ثقافت،اپنی سیاست اور اپنی معیشت کی زبوں حالی پر ماتم کناں ہیں۔
تاریخ کا شاعرانہ انصاف ملاحظہ کیجیے کہ وہ یورپی قوتیںجو ماضی میں کمزور اقوام پر اپنا سیاسی، عسکری اور معاشی تسلط قائم کرتی رہی تھیں وہ قوتیں آج اس صدی میں ایک طرف امریکا کی بڑھتی ہوئی عسکری اور سیاسی قوت سے خائف نظر آتی ہیں تو دوسری طرف انگریزی کی بڑھتی ہوئی حاکمیت اور اجارہ داری پر فکرمند دکھائی دیتی ہیں اوراس عمل کو اپنی زبانوں،ثقافتی ورثوں اور تعلیمی ڈھانچوں کے لیے خطرہ تصورکر رہی ہیں۔اس حوالے سے معروف برطانوی ماہرلسانیات پروفیسر پری ویٹ اپنی کتاب Loom of Languages میںلکھتا ہے کہ'' امریکا کی عالمی سیاست پر بڑھتی ہوئی گرفت اور انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے دائرہ اثرکو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین تمام یورپی زبانوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان تشکیل دینے کے لیے کوشاں ہے کہ انگریزی کی حاکمیت اور عصبیت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے ۔''
لیکن یورپی یونین کے اس اقدام کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ امریکا کے خلاف اس کی گلوبلائزیشن کی معاشی مسابقت میں امریکا کے حریف بننے پرکمر بستہ ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تمام ترقی پذیر ممالک جس میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔
ان ممالک کے قدرتی وسائل، خام مال، افرادی قوت اورمنڈیوں کے استحصال کی جاری دوڑ میں امریکا اور یورپی یونین ہم خیال اور ہم رکاب ہیں جب کہ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس جاری عالمی صورتحال میں ہم من حیث القوم کہاں کھڑے ہیں، کیونکہ سچائی یہ ہے کہ آج بھی پاکستان،سیاسی، تعلیمی، معاشی، سماجی اور لسانی طور پر ایک طرح سے وہیں کھڑا ہے جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا، نہ ہم نے اداروں کو مضبوط بنایا نہ ہم نے قومی روایات کو مستحکم کیا اور نہ عوامی خواہشات کا احترام کیا ۔
ایسے میں اس موضوع پر نظر ڈالتے ہیں کہ اکیسویںصدی میں اُردوکا مستقبل کیا ہوگا تو ذہن میں یہ سوال از خود سر اُٹھاتا ہے کہ جاری صدی کے معرکے اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف اُردو بلکہ ہماری معیشت ، تعلیم ،سماجیات، ثقافت اور تہذیبی اقدارکا مستقبل کیا ہوگا جب کہ ہمارا معاشرہ تعلیمی، تحقیقی ترقی،جمہوری اقداراور بنیادی حقوق کے استحکام ، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو عام کرنے سے کہیں زیادہ بلکہ اس کے برعکس ابتری،انحطاط، تذبذب،کرپشن، فکری، علمی، پسماندگی اورمذہبی فرقہ واریت کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔
حالانکہ روشن سچائی یہ ہے کہ جاری اکیسویں صدی دریافت تاریخ کی سب سے حیران کن اور ہوش ُربا صدی ثابت ہونے جارہی ہے جس میں جاری خلائی تحقیق،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ، بائیو انجینئرنگ میں بامعنی پیش قدمی، نینوٹیکنالوجی اورکلوننگ میں حاصل کامیابیوں سے اس کرہ ارض پر نمایاں اور ناقابل یقین تبدیلیاں رونما ہونے جارہی ہیں جس سے انسانی طرزحیات، ثقافت، سماجی رویوں اورتعلیمی شعبوں پر گہرے اثرات مرتب ہونگے متوقع ایجادات اور ترقی سے ہر شعبے ہائے زندگی متاثر ہوگا اور بیشتر قدیم مفروضات، نظریات اور تصورات معدوم ہو جائیں گے ۔
اس لیے مستقبل قریب میں درپیش معرکوں اور جاری عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف اُردوکے مستقبل کی فکرکرنا عبث ہے بلکہ تمام قومی ڈھانچوں کے مستقبل اور ان کی کارکردگی کی فکرکی ضرورت ہے جہاں تک پاکستان میں اُردو کے مستقبل کا تعلق ہے یہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی، دستورکی حکمرانی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کی ترقی سے وابستہ ہے اس لیے کہ پاکستان مختلف زبانوں، ثقافتوں اور قومیتوں کے اتحاد اور اشتراک پر مشتمل ایک مملکت ہے جس میں اُردو زبان کا کردار آپس کے رابطے اور قومی ترجمانی کا ہے جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔
اس حوالے سے ایک سوال یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مادری زبان جیسے سندھی، بلوچی، پشتوسیکھنے اور اس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُردو سیکھنے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ یہی محنت اور وقت انگریزی پر صرف کیاجائے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں جہاں ایک سے زائد زبانوں کا چلن عام ہے عمومی طور پر تین زبانوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے پہلی مادری زبان اور اس میں ابتدائی تعلیم ، دوسری قومی اور رابطے کی زبان جس میں مزید آگے کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم اس کے بعد تیسری بین الاقوامی زبان جو انگریزی ہے جس طرح پاکستان میں تین زبانوں میں پڑھنا اور زبانیں سیکھنا غیرمناسب اور غیر ضروری نہیں ہے ویسے بھی اُردو کی ضرورت اور اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی اُردوکسی بھی علاقے کی زبان سے متصادم نہیں ہے اس کا دائرہ اثر قومی مفادات اور قومی ترجمانی کی ذمے داریوں کو نبھاتا ہے اور اُردو زبان اپنی اس ذمے داری کوعوام کے بیچ رہتے ہوئے صدیوں سے نبھا رہی ہے۔
اس پس منظر میں اور جاری صدی کے پیش منظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر ہمارے ملک کا طبقہ اشرافیہ اپنے گروہی مفادات سے بلند تر ہوکر قومی تناظر پر نظر ڈالے تو اُردو زبان میں اپنی جو بھی کمی کوتاہیاں ہیں اس کے باوجود ملکی ترقی میں اپنا بھر پورکردارادا کرسکتی ہے خاص طور پر تعلیم کے پھیلاؤ،سماجی ،ثقافتی، مذہبی اورصنعتی شعبوں کی ترقی اور ترجمانی کے حوالے سے مفید ثابت ہوسکتی ہے مگر بنیادی بات یہ ہے کہ ملکی اور قومی بگاڑ کو درست کرنے قومی معاملات میں بہتری لانے کے لیے بالائی طبقے سے امید کرنا صحرا میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور ان کے پینل نے اُردو زبان کے حوالے سے جو تاریخی فیصلہ دیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے محنت کش، متوسط طبقات، اہل قلم اور محب وطن درد مند افراد کوآگے آنا اور قومی وعصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا، یہ کام آسان ہرگز نہیںاگر ارادہ مضبوط، عزم پختہ اور نیت میں خلوص ہو تو ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے بصورت دیگر چند عشروں بعد سوچنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے کیونکہ بقول علامہ اقبال ؒ،
آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اُردوکسی ایک خطے کسی قوم یا کسی مذہب کی زبان نہیں ہے، نئی تحقیق سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اُردو بہت پہلے مہاراجہ اشوک کے دور سے مختلف چولے بدل کر ہم تک پہنچی ہے اور اس کے بارے میں یہ گمان درست نہیں ہے کہ یہ ایک نوخیز اورنوپختہ زبان ہے، برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی عربی زبان اوراس کے بعد فارسی اور ترکی زبانوں نے اپنا دائرہ اثر وسیع کرنا شروع کیا تو اُردو نے ان زبانوں کو بھی اپنے اندر جذب کرتے ہوئے، فارسی رسم الخط میں ایک مکمل زبان کے طور پر اپنا وجود منوایا اور برصغیر کے وسیع حلقوں کو اپنی زلف کا اسیر بنالیا۔
انگریزوں نے جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد پورے اعتماد سے اپنی نوآبادیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا کا م شروع کیا اورکلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام انھی پالیسیوں کی ایک کڑی تھی، اس کالج کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر میں ایک طرف اُردوکے فروغ کا پانسہ پھینکا اوردوسری طرف بنگال کے ہندو دانشوروں اور سرکاری ملازمین میں ہندو مذہب کے احیا اور بنگالی زبان کو فارسی رسم الخط میں لکھنے کے بجائے قدیم سنسکرت رسم الخط میں لکھنے کی سازش کوکامیاب بنایا اور یہیںسے اُردو رسم الخط کو ایک متنازع مسئلہ بنا کر سامنے لایا گیا۔
اس کے بعد لارڈ میکالے نے انگریزی زبان کو سرکاری اور تعلیمی زبان کا درجہ دے کرصرف ایک فرمان کے ذریعے مسلمانوں کو ناخواندہ بنادیا۔نوآبادیاتی نظام اور استمعاریت پسند یورپی قوموں کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی کہ مظلوم اقوام کو محکوم بنانے کے لیے سب سے پہلے ان کی زبان پر وارکیا جائے۔ اس حوالے سے تاریخ گواہ ہے کہ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپی فوجوں نے جہاں جہاں اپنی نوآبادیات قائم کی تھیں وہ مظلوم اقوام آج بھی اپنی زبان اپنی ثقافت،اپنی سیاست اور اپنی معیشت کی زبوں حالی پر ماتم کناں ہیں۔
تاریخ کا شاعرانہ انصاف ملاحظہ کیجیے کہ وہ یورپی قوتیںجو ماضی میں کمزور اقوام پر اپنا سیاسی، عسکری اور معاشی تسلط قائم کرتی رہی تھیں وہ قوتیں آج اس صدی میں ایک طرف امریکا کی بڑھتی ہوئی عسکری اور سیاسی قوت سے خائف نظر آتی ہیں تو دوسری طرف انگریزی کی بڑھتی ہوئی حاکمیت اور اجارہ داری پر فکرمند دکھائی دیتی ہیں اوراس عمل کو اپنی زبانوں،ثقافتی ورثوں اور تعلیمی ڈھانچوں کے لیے خطرہ تصورکر رہی ہیں۔اس حوالے سے معروف برطانوی ماہرلسانیات پروفیسر پری ویٹ اپنی کتاب Loom of Languages میںلکھتا ہے کہ'' امریکا کی عالمی سیاست پر بڑھتی ہوئی گرفت اور انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے دائرہ اثرکو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین تمام یورپی زبانوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان تشکیل دینے کے لیے کوشاں ہے کہ انگریزی کی حاکمیت اور عصبیت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے ۔''
لیکن یورپی یونین کے اس اقدام کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ امریکا کے خلاف اس کی گلوبلائزیشن کی معاشی مسابقت میں امریکا کے حریف بننے پرکمر بستہ ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تمام ترقی پذیر ممالک جس میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔
ان ممالک کے قدرتی وسائل، خام مال، افرادی قوت اورمنڈیوں کے استحصال کی جاری دوڑ میں امریکا اور یورپی یونین ہم خیال اور ہم رکاب ہیں جب کہ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس جاری عالمی صورتحال میں ہم من حیث القوم کہاں کھڑے ہیں، کیونکہ سچائی یہ ہے کہ آج بھی پاکستان،سیاسی، تعلیمی، معاشی، سماجی اور لسانی طور پر ایک طرح سے وہیں کھڑا ہے جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا، نہ ہم نے اداروں کو مضبوط بنایا نہ ہم نے قومی روایات کو مستحکم کیا اور نہ عوامی خواہشات کا احترام کیا ۔
ایسے میں اس موضوع پر نظر ڈالتے ہیں کہ اکیسویںصدی میں اُردوکا مستقبل کیا ہوگا تو ذہن میں یہ سوال از خود سر اُٹھاتا ہے کہ جاری صدی کے معرکے اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف اُردو بلکہ ہماری معیشت ، تعلیم ،سماجیات، ثقافت اور تہذیبی اقدارکا مستقبل کیا ہوگا جب کہ ہمارا معاشرہ تعلیمی، تحقیقی ترقی،جمہوری اقداراور بنیادی حقوق کے استحکام ، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو عام کرنے سے کہیں زیادہ بلکہ اس کے برعکس ابتری،انحطاط، تذبذب،کرپشن، فکری، علمی، پسماندگی اورمذہبی فرقہ واریت کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔
حالانکہ روشن سچائی یہ ہے کہ جاری اکیسویں صدی دریافت تاریخ کی سب سے حیران کن اور ہوش ُربا صدی ثابت ہونے جارہی ہے جس میں جاری خلائی تحقیق،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ، بائیو انجینئرنگ میں بامعنی پیش قدمی، نینوٹیکنالوجی اورکلوننگ میں حاصل کامیابیوں سے اس کرہ ارض پر نمایاں اور ناقابل یقین تبدیلیاں رونما ہونے جارہی ہیں جس سے انسانی طرزحیات، ثقافت، سماجی رویوں اورتعلیمی شعبوں پر گہرے اثرات مرتب ہونگے متوقع ایجادات اور ترقی سے ہر شعبے ہائے زندگی متاثر ہوگا اور بیشتر قدیم مفروضات، نظریات اور تصورات معدوم ہو جائیں گے ۔
اس لیے مستقبل قریب میں درپیش معرکوں اور جاری عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف اُردوکے مستقبل کی فکرکرنا عبث ہے بلکہ تمام قومی ڈھانچوں کے مستقبل اور ان کی کارکردگی کی فکرکی ضرورت ہے جہاں تک پاکستان میں اُردو کے مستقبل کا تعلق ہے یہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی، دستورکی حکمرانی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کی ترقی سے وابستہ ہے اس لیے کہ پاکستان مختلف زبانوں، ثقافتوں اور قومیتوں کے اتحاد اور اشتراک پر مشتمل ایک مملکت ہے جس میں اُردو زبان کا کردار آپس کے رابطے اور قومی ترجمانی کا ہے جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔
اس حوالے سے ایک سوال یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مادری زبان جیسے سندھی، بلوچی، پشتوسیکھنے اور اس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُردو سیکھنے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ یہی محنت اور وقت انگریزی پر صرف کیاجائے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں جہاں ایک سے زائد زبانوں کا چلن عام ہے عمومی طور پر تین زبانوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے پہلی مادری زبان اور اس میں ابتدائی تعلیم ، دوسری قومی اور رابطے کی زبان جس میں مزید آگے کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم اس کے بعد تیسری بین الاقوامی زبان جو انگریزی ہے جس طرح پاکستان میں تین زبانوں میں پڑھنا اور زبانیں سیکھنا غیرمناسب اور غیر ضروری نہیں ہے ویسے بھی اُردو کی ضرورت اور اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی اُردوکسی بھی علاقے کی زبان سے متصادم نہیں ہے اس کا دائرہ اثر قومی مفادات اور قومی ترجمانی کی ذمے داریوں کو نبھاتا ہے اور اُردو زبان اپنی اس ذمے داری کوعوام کے بیچ رہتے ہوئے صدیوں سے نبھا رہی ہے۔
اس پس منظر میں اور جاری صدی کے پیش منظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر ہمارے ملک کا طبقہ اشرافیہ اپنے گروہی مفادات سے بلند تر ہوکر قومی تناظر پر نظر ڈالے تو اُردو زبان میں اپنی جو بھی کمی کوتاہیاں ہیں اس کے باوجود ملکی ترقی میں اپنا بھر پورکردارادا کرسکتی ہے خاص طور پر تعلیم کے پھیلاؤ،سماجی ،ثقافتی، مذہبی اورصنعتی شعبوں کی ترقی اور ترجمانی کے حوالے سے مفید ثابت ہوسکتی ہے مگر بنیادی بات یہ ہے کہ ملکی اور قومی بگاڑ کو درست کرنے قومی معاملات میں بہتری لانے کے لیے بالائی طبقے سے امید کرنا صحرا میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور ان کے پینل نے اُردو زبان کے حوالے سے جو تاریخی فیصلہ دیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے محنت کش، متوسط طبقات، اہل قلم اور محب وطن درد مند افراد کوآگے آنا اور قومی وعصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا، یہ کام آسان ہرگز نہیںاگر ارادہ مضبوط، عزم پختہ اور نیت میں خلوص ہو تو ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے بصورت دیگر چند عشروں بعد سوچنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے کیونکہ بقول علامہ اقبال ؒ،
آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی