دنیا کی 100 اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں ایک بھی اسلامی ملک کی یونیورسٹی شامل نہیں رپورٹ
اوآئی سی سے وابستہ 57 اسلامی ممالک میں سے 20 ملکوں نے 90 فیصد سائنسی مقالہ جات تحریر کیے، رپورٹ
KARACHI:
دنیا کی آبادی کا 25 فیصد حصہ ہونے کے باوجود تمام اسلامی ممالک پوری دنیا میں شائع ہونے والے تحقیق اور سائنسی مقالوں کی صرف 6 فیصد تعداد ہی پیدا کرتے ہیں جب کہ دنیا میں سائنسی تحقیق کے بجٹ میں تمام مسلم ممالک کا حصہ صرف 2.4 فیصد ہے اور دنیا کی 100 اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں ایک بھی اسلامی ملک کی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔
اسلامی دنیا کے تھنک ٹینک کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بالخصوص تمام اسلامی ممالک کی جامعات میں سائنسی تحقیق اور تدریس کا جائزہ لیا گیا اور اس کی تیاری میں پاکستان اورملائیشیا سمیت درجن بھر اسکالرز، سائنسدانوں، سائنسی مشیر، جامعات کے وائس چانسلرز اور فروغِ سائنس کے ماہرین نے 2 سال تک محنت کی ہے ۔ مسلم ورلڈ سائنس نامی تنظیم کی کاوشوں سے یہ ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جب کہ اس کی 112 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے کہ اسلامی ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی 100 اعلیٰ ترین جامعات میں شامل نہیں تاہم چند ممالک کی جامعات دنیا کی 400 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں سائنس کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مسائل کا گہرائی میں جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں تحریر کیے جانے والے ریسرچ پیپرز کا حوالہ بہت کم دیا جاتا ہے جس کی وجہ ان کا معیار کم ہونا بھی شامل ہے اوردوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برطانیہ سے شائع ہونے والے بنیادی سائنسی تحقیق کے ممتاز سائنسی ہفت روزہ ''نیچر'' میں سال 1900 سے اب تک شائع ہونے والے 100 مقبول ترین مقالوں میں سے ایک کا بھی مرکزی مصنف مسلمان نہیں جب کہ تاریخ میں مسلمانوں نے 4 صدیوں تک سائنس اور جدید علوم کا پرچم تھامے رکھا تھا۔
رپورٹ میں اسلامی دنیا میں سائنسی تحقیق کے مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے جامعات کے منتظمین ، حکومتوں اور متعلقہ وزارتوں کے لیے ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک میں سائنسدان وزارتوں اور بیوروکریسی کے سرخ فیتے میں جکڑے ہوئے ہیں جب کہ علمی سوچ آزادی اورمداخلت سے پاک ماحول میں ہی پروان چڑھتی ہے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ او آئی سی سے وابستہ 57 اسلامی ممالک میں سے 20 ملکوں نے 90 فیصد سائنسی مقالہ جات (ریسرچ پیپرز) تحریر کیے ہیں، 1996 سے 2005 میں سب سے زیادہ مقالے بالترتیب ترکی، ایران، مصر، سعودی عرب ، ملائیشیا میں تحریر کیے گئے ہیں جب کہ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ٹاسک فورس میں بارآور تحقیق کرنے والے اسکالروں کو انعامات دینے، بنیادی نصاب میں تبدیلی اوراساتذہ کی تقرری کو سائنسی بنیادوں پر جانچنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں شامل ماہرین نے اکثر مسلم ممالک میں سائنس اور آرٹس (ہیومینیٹیز) کو اسکول اور کالج سے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی ہے اس لیے جامعات میں خالص سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخِ سائنس، فلسفہ سائنس، اور سائنسی تحقیق کے اخلاقیات ضرور پڑھائے جائیں کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مکمل ادراک کے لیے یہ علوم کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔
اسلامی ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج کےلیے سیاسی عزم کی شدید کمی ہے اور جامعات کو جائز اختیارات اور آزادی ملنی چاہیے تاکہ وہ اختیارات اور دریافتوں کا سفر جاری رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ میرٹ، شفافیت، اور معیار کو بلند رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ سائنس کے نام پر نیم سائنسی تحقیقی مقالہ جات شائع کرنے سے بچا جاسکے۔
دنیا کی آبادی کا 25 فیصد حصہ ہونے کے باوجود تمام اسلامی ممالک پوری دنیا میں شائع ہونے والے تحقیق اور سائنسی مقالوں کی صرف 6 فیصد تعداد ہی پیدا کرتے ہیں جب کہ دنیا میں سائنسی تحقیق کے بجٹ میں تمام مسلم ممالک کا حصہ صرف 2.4 فیصد ہے اور دنیا کی 100 اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں ایک بھی اسلامی ملک کی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔
اسلامی دنیا کے تھنک ٹینک کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بالخصوص تمام اسلامی ممالک کی جامعات میں سائنسی تحقیق اور تدریس کا جائزہ لیا گیا اور اس کی تیاری میں پاکستان اورملائیشیا سمیت درجن بھر اسکالرز، سائنسدانوں، سائنسی مشیر، جامعات کے وائس چانسلرز اور فروغِ سائنس کے ماہرین نے 2 سال تک محنت کی ہے ۔ مسلم ورلڈ سائنس نامی تنظیم کی کاوشوں سے یہ ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جب کہ اس کی 112 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے کہ اسلامی ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی 100 اعلیٰ ترین جامعات میں شامل نہیں تاہم چند ممالک کی جامعات دنیا کی 400 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں سائنس کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مسائل کا گہرائی میں جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں تحریر کیے جانے والے ریسرچ پیپرز کا حوالہ بہت کم دیا جاتا ہے جس کی وجہ ان کا معیار کم ہونا بھی شامل ہے اوردوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برطانیہ سے شائع ہونے والے بنیادی سائنسی تحقیق کے ممتاز سائنسی ہفت روزہ ''نیچر'' میں سال 1900 سے اب تک شائع ہونے والے 100 مقبول ترین مقالوں میں سے ایک کا بھی مرکزی مصنف مسلمان نہیں جب کہ تاریخ میں مسلمانوں نے 4 صدیوں تک سائنس اور جدید علوم کا پرچم تھامے رکھا تھا۔
رپورٹ میں اسلامی دنیا میں سائنسی تحقیق کے مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے جامعات کے منتظمین ، حکومتوں اور متعلقہ وزارتوں کے لیے ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک میں سائنسدان وزارتوں اور بیوروکریسی کے سرخ فیتے میں جکڑے ہوئے ہیں جب کہ علمی سوچ آزادی اورمداخلت سے پاک ماحول میں ہی پروان چڑھتی ہے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ او آئی سی سے وابستہ 57 اسلامی ممالک میں سے 20 ملکوں نے 90 فیصد سائنسی مقالہ جات (ریسرچ پیپرز) تحریر کیے ہیں، 1996 سے 2005 میں سب سے زیادہ مقالے بالترتیب ترکی، ایران، مصر، سعودی عرب ، ملائیشیا میں تحریر کیے گئے ہیں جب کہ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ٹاسک فورس میں بارآور تحقیق کرنے والے اسکالروں کو انعامات دینے، بنیادی نصاب میں تبدیلی اوراساتذہ کی تقرری کو سائنسی بنیادوں پر جانچنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں شامل ماہرین نے اکثر مسلم ممالک میں سائنس اور آرٹس (ہیومینیٹیز) کو اسکول اور کالج سے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی ہے اس لیے جامعات میں خالص سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخِ سائنس، فلسفہ سائنس، اور سائنسی تحقیق کے اخلاقیات ضرور پڑھائے جائیں کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مکمل ادراک کے لیے یہ علوم کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔
اسلامی ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج کےلیے سیاسی عزم کی شدید کمی ہے اور جامعات کو جائز اختیارات اور آزادی ملنی چاہیے تاکہ وہ اختیارات اور دریافتوں کا سفر جاری رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ میرٹ، شفافیت، اور معیار کو بلند رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ سائنس کے نام پر نیم سائنسی تحقیقی مقالہ جات شائع کرنے سے بچا جاسکے۔