کوشش نہ کرنا جرم ہے
ایڈون سی بلس نے کہا ہے ’’کامیابی کا مطلب ناکامیوں کی عدم موجودگی نہیں ہے اس کا مطلب تو ہے
ایڈون سی بلس نے کہا ہے ''کامیابی کا مطلب ناکامیوں کی عدم موجودگی نہیں ہے اس کا مطلب تو ہے حتمی مقاصد کا حصول، اس کا مطلب جنگ میں فتح پانا ہے لیکن ہر جنگ میں نہیں''۔ کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتی ہے، یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارے اپنے انتخاب ہوتے ہیں، لہٰذا کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں۔ ایک پنڈت کہیں جارہا تھا راستے میں اس نے ایک کھیت دیکھا، وہ کھیت کے سرے پر رک کر فصل دیکھنے لگا، کسان اپنے ٹریکٹر میں وہاں سے گزرا تو اس کی نظر پنڈت پر پڑی، وہ پنڈت کے پاس چلا گیا، پنڈت نے کہا بھگوان نے تمہارے کھیت پر بڑ ا کرم کیا ہے، تمہیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کسان نے اس کے جواب میں کہا بے شک یہ کھیت مجھے بھگوان نے دیا ہے اور اس پر میں اس کا شکر گزار ہوں، لیکن آپ کو یہ کھیت اس وقت دیکھنا چاہیے تھا، جب یہ بھگوان کے پاس تھا۔
اول نائٹ انکیل نے کہا تھا ''کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وار حصول کا نام ہے۔'' مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے، منزل نہیں۔ ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچتے لیکن سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے، جب ہم ایک ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف، مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے، عظیم مقصد ہمارے نظام اقدار کے عکاس ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشہور ترین کامیاب لوگوں کو کامیابی سے پہلے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بقول بی سی فوربس ''وہ اس وجہ سے جیت جاتے ہیں کہ وہ اپنی ناکامیوں کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتے''۔ کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی کہانیاں بھی ہیں۔
سر ایڈمنڈ ہیلری فاتح ماؤنٹ ایورسٹ جب پہلی مرتبہ ناکام مہم سے واپس آیا تو لندن کے امرا نے اس کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا، استقبالیہ میں سلطنت برطانیہ کے معززین اور ان کی بیگمات کے علاوہ بہت سے اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی موجود تھے، اسٹیج کے عقب میں ماؤنٹ ایورسٹ کی ایک بڑی تصویر لگائی گئی تھی، جب ہیلری تقریر کرنے کے لیے اٹھا تو حاضرین نے تالیاں بجا کر اس کو داد دی۔
ایڈمنڈ ہیلری نے اپنا چہرہ ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر کی طرف کیا اور کہا ''اے ماؤنٹ ایورسٹ تم نے مجھے شکست دی ہے لیکن میں پھر تم پر چڑھائی کروں گا اور تمہیں شکست دوں گا، کیونکہ تو اب جتنا ہے اس سے بڑا نہیں ہوگا لیکن میں تو بڑا ہوسکتا ہوں۔'' جیسٹر ہیرسٹن امریکا کا سرمایہ افتخار ہے، امریکا میں کوئی اسکول ایسا نہیں جس میں ایسے ترانے، نغمے، گیت نہ گائے جاتے ہوں جن کی موسیقی کو جیسٹر نے ترتیب نہ دیا ہو، یہ ہی نہیں بلکہ اس نے کالے لوگوں کے لیے روحانی موسیقی بھی تخلیق کی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم کبھی نسلی تعصب کا شکار بھی ہوئے ہو؟
''کبھی'' اس نے حیرانی سے سوالیہ انداز میں کہا، ''میں تو ہمیشہ ہی اس تعصب کا شکار رہا ہوں لیکن میں نے اس نفرت کو سر پر سوار نہیں کیا، میں اس کے مقابلے میں زندہ ہوں، گو میں اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا لیکن اس سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، میں گورے متعصب لوگوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں پالتا۔'' جیسٹر نے نسلی تعصب کو ذہن سے جھٹک کر باہر نکلنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، وہ تعصب کو شکست دے کر زندہ ہے، اس کے لوک گیت بلا امتیاز رنگ و نسل پوری دنیا میں گائے جاتے ہیں۔
پیرو نے کہا ''اکثر لوگ اس وقت کوشش ترک کردیتے ہیں جب کامیابی کا حصول نزدیک تر ہوتا ہے، وہ دوڑ کے آخری مرحلے میں اختتامی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دستبردار ہوجاتے ہیں، وہ کھیل کے آخری منٹ میں میدان چھوڑ دیتے ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک فٹ دور۔ عظیم ترین کمپنی آئی بی ایم کے ٹام واٹسن سینئر کا کہنا ہے ''اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنی ناکامیوں کی شرح کو دگنا کردو''۔
نیویارک ٹائمز کے 10 دسمبر 1903 کے اداریے میں رائٹ برادرز کو بے وقوف قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ ہوا سے ہلکی ایسی مشین ایجاد کرنے کی کوشش کررہے تھے جو اڑ سکے۔ اس کے ہفتے بعد ہی رائٹ برادرز اپنی تیار کردہ مشین کو اڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہو کہ ان کی ایجاد کے بغیر ہم کہاں ہوتے، اگر رائٹ برادرز اپنی شکست تسلیم کرلیتے۔ کامیاب لوگ عظیم کام نہیں کرتے وہ تو صرف چھوٹے کاموں کو عظیم طریقے سے کرتے ہیں۔
ایک دن ایک چار سالہ بچہ جو اونچا سنتا تھا، اسکول سے گھر آیا تو اس کی جیب میں ایک پرچہ تھا جس پر لکھا تھا آپ کا بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ کچھ نہیں پڑھ سکتا، اسے اسکول سے نکال لیں۔ اس کی ماں نے جواب دیا میرا بچہ اتنا احمق نہیں ہے کہ پڑھ نہ سکے، میں خود اسے پڑھاؤں گی۔ اور وہ بے وقوف اور احمق بچہ عظیم تھامس ایڈیسن بنا، جس نے صرف تین ماہ اسکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ کیا آپ ان لوگوں کو ناکام تصور کرتے ہو۔ انھوں نے مسائل کی عدم موجودگی میں نہیں بلکہ لاتعداد مسائل کے موجود ہوتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
ہارنا جرم نہیں لیکن کوشش نہ کرنا جرم ہے۔ فطرت نے انسان کو سوچنے اور جدوجہد کرنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے، کامیابی حاصل کرنے کا نہیں بلکہ حاصل کرنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، دہشت گردی، انتہاپسندی، انتشار، مہنگائی، کرپشن، یہ وہ بدترین بلائیں ہیں جنھوں نے قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم ان بلاؤں سے نجات پانے کی اپنی سی جدوجہد بھی نہیں کررہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دوسری قوموں پر ہم سے زیادہ مشکل اور بدترین دور آئے، اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ متحد ہو کر جدوجہد اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مسائل اور بحرانوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلی۔
آج خوشحالی، ترقی، استحکام ان کا مقدر ہے جب کہ ہم کوشش کیے بغیر، جدوجہد کیے بغیر شکست تسلیم کرنے کو تیار ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دستبردار ہورہے ہیں۔ ہمیں اپنی کامیابی اور جیت کا یقین ہوجانا چاہیے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھو اور آگے بڑھتے رہو، کوشش کرتے رہو، کامیابی اور جیت تمہارا مقدر ہے، بس تمہیں اس بات پر یقین ہوناچاہیے۔
اول نائٹ انکیل نے کہا تھا ''کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وار حصول کا نام ہے۔'' مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے، منزل نہیں۔ ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچتے لیکن سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے، جب ہم ایک ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف، مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے، عظیم مقصد ہمارے نظام اقدار کے عکاس ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشہور ترین کامیاب لوگوں کو کامیابی سے پہلے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بقول بی سی فوربس ''وہ اس وجہ سے جیت جاتے ہیں کہ وہ اپنی ناکامیوں کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتے''۔ کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی کہانیاں بھی ہیں۔
سر ایڈمنڈ ہیلری فاتح ماؤنٹ ایورسٹ جب پہلی مرتبہ ناکام مہم سے واپس آیا تو لندن کے امرا نے اس کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا، استقبالیہ میں سلطنت برطانیہ کے معززین اور ان کی بیگمات کے علاوہ بہت سے اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی موجود تھے، اسٹیج کے عقب میں ماؤنٹ ایورسٹ کی ایک بڑی تصویر لگائی گئی تھی، جب ہیلری تقریر کرنے کے لیے اٹھا تو حاضرین نے تالیاں بجا کر اس کو داد دی۔
ایڈمنڈ ہیلری نے اپنا چہرہ ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر کی طرف کیا اور کہا ''اے ماؤنٹ ایورسٹ تم نے مجھے شکست دی ہے لیکن میں پھر تم پر چڑھائی کروں گا اور تمہیں شکست دوں گا، کیونکہ تو اب جتنا ہے اس سے بڑا نہیں ہوگا لیکن میں تو بڑا ہوسکتا ہوں۔'' جیسٹر ہیرسٹن امریکا کا سرمایہ افتخار ہے، امریکا میں کوئی اسکول ایسا نہیں جس میں ایسے ترانے، نغمے، گیت نہ گائے جاتے ہوں جن کی موسیقی کو جیسٹر نے ترتیب نہ دیا ہو، یہ ہی نہیں بلکہ اس نے کالے لوگوں کے لیے روحانی موسیقی بھی تخلیق کی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم کبھی نسلی تعصب کا شکار بھی ہوئے ہو؟
''کبھی'' اس نے حیرانی سے سوالیہ انداز میں کہا، ''میں تو ہمیشہ ہی اس تعصب کا شکار رہا ہوں لیکن میں نے اس نفرت کو سر پر سوار نہیں کیا، میں اس کے مقابلے میں زندہ ہوں، گو میں اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا لیکن اس سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، میں گورے متعصب لوگوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں پالتا۔'' جیسٹر نے نسلی تعصب کو ذہن سے جھٹک کر باہر نکلنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، وہ تعصب کو شکست دے کر زندہ ہے، اس کے لوک گیت بلا امتیاز رنگ و نسل پوری دنیا میں گائے جاتے ہیں۔
پیرو نے کہا ''اکثر لوگ اس وقت کوشش ترک کردیتے ہیں جب کامیابی کا حصول نزدیک تر ہوتا ہے، وہ دوڑ کے آخری مرحلے میں اختتامی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دستبردار ہوجاتے ہیں، وہ کھیل کے آخری منٹ میں میدان چھوڑ دیتے ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک فٹ دور۔ عظیم ترین کمپنی آئی بی ایم کے ٹام واٹسن سینئر کا کہنا ہے ''اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنی ناکامیوں کی شرح کو دگنا کردو''۔
نیویارک ٹائمز کے 10 دسمبر 1903 کے اداریے میں رائٹ برادرز کو بے وقوف قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ ہوا سے ہلکی ایسی مشین ایجاد کرنے کی کوشش کررہے تھے جو اڑ سکے۔ اس کے ہفتے بعد ہی رائٹ برادرز اپنی تیار کردہ مشین کو اڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہو کہ ان کی ایجاد کے بغیر ہم کہاں ہوتے، اگر رائٹ برادرز اپنی شکست تسلیم کرلیتے۔ کامیاب لوگ عظیم کام نہیں کرتے وہ تو صرف چھوٹے کاموں کو عظیم طریقے سے کرتے ہیں۔
ایک دن ایک چار سالہ بچہ جو اونچا سنتا تھا، اسکول سے گھر آیا تو اس کی جیب میں ایک پرچہ تھا جس پر لکھا تھا آپ کا بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ کچھ نہیں پڑھ سکتا، اسے اسکول سے نکال لیں۔ اس کی ماں نے جواب دیا میرا بچہ اتنا احمق نہیں ہے کہ پڑھ نہ سکے، میں خود اسے پڑھاؤں گی۔ اور وہ بے وقوف اور احمق بچہ عظیم تھامس ایڈیسن بنا، جس نے صرف تین ماہ اسکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ کیا آپ ان لوگوں کو ناکام تصور کرتے ہو۔ انھوں نے مسائل کی عدم موجودگی میں نہیں بلکہ لاتعداد مسائل کے موجود ہوتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
ہارنا جرم نہیں لیکن کوشش نہ کرنا جرم ہے۔ فطرت نے انسان کو سوچنے اور جدوجہد کرنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے، کامیابی حاصل کرنے کا نہیں بلکہ حاصل کرنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، دہشت گردی، انتہاپسندی، انتشار، مہنگائی، کرپشن، یہ وہ بدترین بلائیں ہیں جنھوں نے قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم ان بلاؤں سے نجات پانے کی اپنی سی جدوجہد بھی نہیں کررہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دوسری قوموں پر ہم سے زیادہ مشکل اور بدترین دور آئے، اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ متحد ہو کر جدوجہد اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مسائل اور بحرانوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلی۔
آج خوشحالی، ترقی، استحکام ان کا مقدر ہے جب کہ ہم کوشش کیے بغیر، جدوجہد کیے بغیر شکست تسلیم کرنے کو تیار ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دستبردار ہورہے ہیں۔ ہمیں اپنی کامیابی اور جیت کا یقین ہوجانا چاہیے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھو اور آگے بڑھتے رہو، کوشش کرتے رہو، کامیابی اور جیت تمہارا مقدر ہے، بس تمہیں اس بات پر یقین ہوناچاہیے۔