کون جانباز کیسا غازی
یہ کراچی میں1994-95 ء کا دورانیہ ہے۔ صبح کا وقت تھا۔
یہ کراچی میں1994-95 ء کا دورانیہ ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ ایک روزنامہ کے بیورو آفس میں ایک شخص داخل ہوا جس پر ہالی ووڈ ایکٹر برٹ لنکاسٹر کا گمان ہوتا تھا، وہی قد کاٹھ ، سفید چٹا رنگ ، ڈھلتی عمراور جسمانی ساخت کے آثار بتا رہے تھے کہ کبھی آتش جواں تھا۔ بیگ ہاتھ میں لیے، مسکراتے ہوئے آئے ، سارے ساتھی سوچ رہے تھے کہ خاصا پراسرار سا آدمی ہے ، کبھی بلموریا سٹریٹ سے گزرتے اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ اسے خندہ پیشانی کے ساتھ کرسی پیش کی گئی ، بیٹھتے ہی کہنے لگے ،
''میں آپ کے کام میں مخل تو نہیں ہوا۔''
''جی نہیں ، فرمائیے کیسے زحمت کی۔''
یہ اس اجنبی ، شرمیلے اور محتاط سید سلیم عباس کی پہلی انٹری تھی جو بعد میں دو تہلکہ خیزناولوں ''جانباز'' اور ''غازی'' کی شہرت کے رتھ پر سوار ہوا ، ''جانباز'' کی پزیرائی کائنات کے سید سجاد حسین شاہ صاحب نے کی جب کہ ''غازی'' کا علم امت کے مدیر رفیق افغان نے بلند کیا۔ سلیم عباس نے رفتہ رفتہ غربت و بے چارگی کو حقارت سے ٹھوکر ماری اور دو روزناموں نے ایک وقفہ سے اس کی قسط وار کہانیوں کی مقبولیت کے باعث اسی نام سے ایک روزنامہ اور ہفت روزہ جاری کیا۔
وہ کراچی کی جامعہ کلاتھ مارکیٹ سے متصل اور اپنے وقت کے پرشباب مگر اب ویران پارک ہوٹل میں عارضی سکونت پزیر تھے، اس سے نکل کر اخباری دنیا میں پاک فوج کے ایک خفیہ ایجنٹ (جاسوس) کی پاکستانی سرفروش کے کردار میں تہلکہ خیزداستان لکھی ۔ سلیم عباس نے اپنا تعارف کرایا اور بیگ سے ایک مضمون نکال کر میرے سامنے رکھ دیا ، کہنے لگے آج آپ کے اخبار میں ایک کالم چھپا ہے ،اس پر میرا یہ حقیر سا تبصرہ ہے ، گر قبول افتد زہے عزو شرف ۔ مضمون شستہ اور سلیس زبان میں تھا ، اسلوب کے آئینہ میں متاثر کن نقطہ نظر پیش کیا تھا۔
ان سے کہا کہ ابھی فیکس پر لاہور بھیج دیتے ہیں، وہاں سے جواب جلد مل جائے گا کہ کب چھپے گا، ہوسکتا ہے کہ مراسلات کے کالم میں چھپ جائے، وہ چلے گئے۔ اس مختصر سی ملاقات میں ہی وہ اپنا سحر ہم سب پر طاری کر کے گئے۔ ان کی گفتگو اور مزید کچھ لکھنے کی امنگ اور بے چینی سے اندازہ ہوا کہ سلیم عباس گردش حالات کا شکار ایک زلزلہ خیز اور آتش بجاں فوجی آدمی ہے جس کے وجود کے ساتھ وطن دشمنوں سے خطرناک جنگ اور ان کی سراغ رسانی پر مبنی حیرت ناک واقعات اور رازوں کا ایک لاوا ہے جو پھٹنے کے قریب ہے۔
سلیم عباس کی خوش نصیبی کہ ان کا مضمون دوسرے دن ادارتی صفحہ پرشایع ہوا۔ پلٹ کر آئے تو بے حد خوش مگر کچھ حیرت زدہ بھی تھے کہ اتنی جلدی ایک اجنبی رائٹر کی اس قدر عزت افزائی کیوں؟ کچھ پھل خرید کر لائے تھے ، اس دن نشست کافی طویل رہی ،آزرو مند تھے کہ ان کی سرفروشی کی سچی داستان قسط وار چھپ جائے، مگر رفقا نے سوچا کہ کسی بڑے روزنامہ میں ان کی داستان کا شایع ہونا ممکن نہ ہو کیونکہ ان کی حیثیت ایک جاسوس اور 'کوورٹ آپریشن' سے جڑے ایک خفیہ ایجنٹ کی تھی اور سیاق و سباق عسکری سٹبلشمنٹ تھا، کون تصدیق کرے کہ کیا سچ اور کتنی مبالغہ آرائی ہے۔البتہ نیٹ پر موجود پاکستان ڈیفنس کے ویب سائٹ پر جانباز اور غازی کے ناولوں کو سچائی پر مبنی کہا گیا ہے۔
بہر حال ان کو مشورہ دیا کہ وہ کوشش کریں کہ شام کے اخبار یا کراچی میں شایع ہونے والے کسی اچھے روزنامہ سے رابطہ کریں ، شاید وہ رضامند ہوں ۔ یوں کائنات کے سید سجاد حسین شاہ صاحب بازی لے گئے، ان کے یہاں ''جانباز'' کے نام سے قسطیں چھپنا شروع ہوئیں ، اور قارئین کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے جانباز اخبار جاری ہوا جس کے ایڈیٹر سینئر صحافی علی اختر رضوی ہیں۔ ایک دن ایک نئے ماہنامہ کے دفتر چلے آئے جو ہاکی اسٹیدیم سے متصل تھا۔ فیچر لکھ کر آئے تھے ۔
موضوع منشیات کی اسمگلنگ اور اس میں ملوث ملک کے بدنام ترین نارکو کنگز تھے، تاہم موضوع سے جذباتی اور پیشہ ورانہ وابستگی و دلچسپی کے باوجود میں اسے چھاپنے کی ہمت نہ کرسکا کیونکہ دشت صحافت میں ایسے چند اخبارات کی ٹیم میں ہم ضرور شامل رہے جو اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے۔
انھیں اس گرم فیچر پر مبارکباد دیتے ہوئے زریں مشورہ دیا کہ اسے لے کر ماہنامہ ''دستک'' میں فوزیہ شاہین کو دیں وہ جی دار صحافی اسے چھاپنے کا ایڈونچر کرسکتی ہیں ِ۔ وجہ فیچر میں شامل اس کالے دھندے کے بین الاقوامی سرغناؤں کی تھی جو منشیات کی دنیا کے اناکونڈا تھے۔ ادھر فوزیہ کو شاید مرن دا شوق وی سی یا مہم جوئی کا انتظار تھا ، سلگتا فیچر ملتے ہی چھاپ دیا۔ اسی فیچر کو سلیم عباس نے اپنے دونوں بیٹوں شجاع اور وقار کے قلمی نام سے سجا دیا اور پھر ابو شجاع ابو وقار کے نام سے قسطوں اور مضامین کے تلاطم خیز دریا بہا دیے۔ وہ وقار اور شجاع کو دفتر بھی لائے ۔
ایک دن پریشان سے تھے ، جانباز کی مقبول ترین کہانی کے خاتمہ پر ملول تھے ، خواہش ظاہر کی کہ کوئی اور اخبار مل جائے جو مزید کہانی کے دہشتناک اور تحیر خیز سلسلے کو آگے بڑھائے۔ ِ اس بار قرعہ فال عزیزی رفیق افغان کا ''امت'' بنا۔ وہاں غازی کے نام سے دھواں دھار قسطیں بھی جاری ہوئیں اور ویکلی غازی بھی چھپتا رہا ۔
بعد میں ان اقساط پر دو ناول ظہور پزیر ہوئے۔ سلیم عباس کو رائلٹی اور دیگر ذرایع سے کچھ پیسے ملتے رہے، مگر ان کا گزارہ مشکل تھا۔ تنگ دستی کے ان ہی دنوں میں ماہنامہ ''بنیاد'' کے دفتر آئے ، انتہائی سادگی سے پوچھا ، آپکی جیب کی حالت کیا ہے، اس وقت پرنس واحد بیٹھے تھے ، اس سے قبل معروف کالم نویس ہارون الرشید تکبیر کے وقایع نگار ناصر محمود کے ہمراہ ملنے کے لیے آئے اور کچھ دیر انتظار کر کے میجر صولت رضا سے ملنے چلے گئے۔
پرنس واحد نے دو ہزار روپے نکال کر دیے ، سلیم عباس نے وہ اس شرط پر لیے کہ جلد واپس کردیں گے ۔ایک ہفتے بعد دفتر پہنچے تو سوٹ میں ملبوس اور بریف کیس تھامے ہوئے تھے، لگ رہا تھا گاڈ فادر کے مارلن برانڈو آگئے ، چہرہ ہشاش بشاش تھا، محسوس یہ ہوا کہ ایک بڑی واردات کر کے آئے ہیں۔لیکن انکشاف کیا کہ امریکن ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کا پاکستان میں نمایندہ ہوں اور بدنام زمانہ انٹرنیشنل منشیات فروشوں کی کامیاب مخبری پر یہ انعام ملا ہے ، اور یہ کہہ کر نوٹوں سے بھرا بریف کیس کھول دیا ۔
لے لو جو کچھ لینا ہے، اس کے منہ سے پھول برس رہے تھے ، اسے اس قدر خوش کبھی نہیں دیکھا۔ پرنس واحد نے اپنے دو ہزار لیے اور پھر چائے پی کر سلیم عباس کافی عرصہ غائب رہے ۔ ان کے دونوں بیٹے بیرون ملک بجھوائے گئے، اپنی اہلیہ کے حوالہ سے انھوں نے غازی کی آخری قسط میں بعض درد انگیز حقائق بیان کیے ہیں۔ شجاع اور وقار کی اہلیہ نے پرورش کی، والدہ کے انتقال کا حوالہ بھی ان کی قسط میں موجود ہے۔ سلیم عباس کی گمشدگی ہم سب کے لیے باعث تشویش تھی ۔
پھر ایک دن ان کا فون آیا کہ شرمندہ ہوں آپ دوستوں سے ، آپ لوگوں کو اپنی شادی میں مدعو نہ کر سکا۔ میں نے ایک بزرگ معاشی تجزیہ کار کی معروف گائناکولوجسٹ بیٹی سے جو میری ہم عمر ہے شادی کرلی ہے، ہوٹل جبیس میں آپ کا منتظر ہوں۔ جبیس سیاسی تقاریب، میوزیکل نائٹ ، فلم اسٹارز کلب ، ادبی انجمنوں ، ٹرید یونینز کی تقاریب اور پریس کانفرنسوں کے لیے اکثر بک رہتا تھا۔
کوشش بہت کی کہ صدر جانے کا کوئی وقت ملے تو سلیم بھائی کو شادی کی مبارکباد دیں مگر زیادہ وقت نہیں گزرا کہ بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور نے فون پر بتایا کہ سلیم عباس کیماڑی کے ایک تنگ و تاریک گھر میں رہائش پزیر ہیں، دوسری بیوی سے بھی علیحدگی ہوگئی ہے، اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ سنا ہے بڑی مشکل میں ہیں۔ ہائے ہائے! سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے ، کیسی ہے تنہائی۔
دو ہفتے گزرے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، دوسرے اینڈ پر اجل رسیدہ سلیم عباس عرف جانباز اور غازی شہرت اور گمنامی کی دو طرفہ چادر لپیٹ کر ہمیشہ کے لیے سو جانے کی اجازت طلب کررہا تھا ۔ اس کے آخری الفاط ضمیر پر ہتھوڑے کی طرح برسے ،''شاہ جی ، میں مر رہا ہوں ، آپ نہیں آئے۔'' مرنے والے بدنصیب جانباز اور غازی کے نام خالد علیگ کا منسوب شعر ملاحظہ ہو۔
دشت پیما ہے نفس لاکھ بگولوں کی طرح
دل میں یادیں تری محفوظ ہیں پھولوں کی طرح