سنہرے لوگ بیدل اور بیکس سندھ کے عظیم صوفی شاعرجو باپ بیٹے تھے
افسوس اس امر کا ہے کہ ہم ان تعلیمات کے قریب توکیا ان کی طرف دیکھنے کے بھی روا دار نہیں رہے ہیں
KARACHI:
سرزمین سندھ ہمیشہ سے اولیاء اﷲ کی تعلیمات سے منور وشاداب رہی ہے۔ اِن بزرگ صوفیہ وشعرا نے اپنی تعلیم کے ذریعے انسانیت کی پذیرائی اور دین کی خدمت میں پیش پیش رہ کر ایسے نقوش چھوڑے ہیں، جو آج ہماری وراثت کا حصّہ ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہم ان تعلیمات کے قریب توکیا ان کی طرف دیکھنے کے بھی روا دار نہیں رہے ہیں۔ بزرگوں کے حوالے دے دے کر بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں مگر عمل ندارد۔
روہڑی کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں دو بزرگ شاعر عبدالقادر بخش بیدلؒ اور اُن کے فرزند محمدمحسن بیکسؒ دفن ہیں۔ علم وعرفان میں جو کارنامے آپ حضرات نے اس سرزمین پر کیے ہیں، وہ قابلِ تحسین اور قابلِ فکر ہیں، جہاں آپ کی فکر انسانی رویوں کو زندگی کے سلیقے سکھاتی ہے، وہیں دین اور دنیا میں توازن برقرار رکھنے کا ہُنر بھی بتاتی ہے۔ برصغیر کے ان دونوں نام ور صوفیا کا کچھ احوال ملاحظہ فرمائیں۔
برصغیر کے عظیم المرتبت صوفی شاعر، سرتاج الشعرا، شہنشاہ عشق، صاحبِ علم وعرفان، شاعر ہفت زباں عبدالقادر بخش بیدل کی ولادت 1230ھ میں ہوئی اور آپ نے 1289ھ (1873ء) میں وفات پائی۔ آپ صوفی شاعر اور عالم تھے۔ آپ کا قیام روہڑی میں رہا۔ اپنے وقت کے ولی اور کامل بزرگ تھے۔
آپ جب بڑے ہوئے تو پیرانِ پیر دستگیر غوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادرجیلانیؒ کے ساتھ روحانی وابستگی کے سبب اپنے آپ کو قادر بخش بیدل کہلوانے لگے۔ مولاناعبدالقادر بخش بیدلؒ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی محمدمحسن تھا۔ وہ ریشم کی تجارت کرتے تھے۔ آپ کے والد محمدمحسن بلوچستان کے مشہور بزرگ سیدمولاناعبدالوہابؒ ساکن بھاگ ناڑی کے مرید تھے۔ میرجان اﷲ شاہؒ جھولک والے مشہور صوفی شاہ عنایت اﷲ شاہؒ شہید کے خلفا میں سے ایک تھے۔ آپ کے والد نے میرجان اﷲشاہ ثانیؒ سے بھی بیعت کی۔ بیدل اپنے والد بزرگوار کے مرشد کے پاس حاضر ہوئے، جنھوں نے آپ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
پانچ برس کی عمر میں بیدل کے والد نے آپ کو مکتب میں داخل کرادیا، مگر آپ کو علوم ظاہریہ کے مقابلے میں علومِ باطنیہ سے رغبت تھی، لیکن والد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ برس تک تعلیم جاری رکھی۔ پھر سیدجان اﷲشاہ ثانیؒ سے بیعت ہوکر علوم باطنیہ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بیدل ؒفرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے خواب میں حضرت خواجہ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ کی درگاہ پر حاضری کا اشارہ ملا۔ آپ اکیلے سیہون شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔
حضرت لعل شہبار کی درگاہ سے واپسی پر آپ نے باقاعدہ غزل کہنا شروع کردی اور اصلاح کے لیے جب اشعار اپنے استاد کو دکھائے تو انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اشعار بیدلؒ کہہ سکتے ہیں۔ بیدل ؒکی طبیعت میں تصوف کا گہرا اثر تھا، آپ بلند پایہ مفکر، دانش ور اور قابل فخرشخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا کلام آفاقی والہامی تھا، جو سات زبانوں، عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہندی زبانوں میں موجود ہے۔ آپ کی مشہور تصانیف میں ''ریاض الفقر''، ''نہرالبحر'' (مثنوی)، ''مصباح الطریقت''، ''مصباح الحقیقت'' (فارسی نظم)، ''نسخۂ دلکشا'' (فارسی نظم)، ''سندالموحدین'' (فارسی نظم)، ''کرسی نامہ'' (فارسی نظم)، ''رموزِ العارفین'' (فارسی اشعار)، ''پنج گنج'' وغیرہ شامل ہیں۔
سکھر سے روہڑی شہر میں داخل ہوتے ہوئے ایک گیٹ ہے، جس پر بیدل بیکس لکھا ہوا ہے اور ساتھ ہی چند اشعار درج ہیں۔ اس سے متصل تھوڑے فاصلے پر آپ کا مزار موجود ہے۔
مزار میں داخل ہوں تو تین قبور ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔ دائیں ہاتھ کی پہلی قبر پر ''حضرت فقیر محمدمحسن قدس سرۂ العزیز عرف 'بیکس'' کندہ ہے۔ درمیان والی قبر پر ''حضرت فقیر قادر بخش قدس سرۂ العزیز عرف 'بیدل'' درج ہے، جب کہ بائیں طرف ''حضرت فقیرعبداﷲقدس سرۂ العزیز'' جو کہ محمدمحسن بیکس کے کزن ہیں، اُن کی قبر ہے۔ مزار مبارک میں موجود ایک الماری، جس میں قرآنِ کریم کے نسخے رکھے ہیں، پر دو بورڈ لگ ہوئے ہیں جن پر بیدل سائیں اور محسن بیکس کی تاریخِ وصال شعر کی صورت میں درج ہیں:
''تاريخ وصال بيدل ''
سال ٻارنهن سؤا ٺانوي ۾ سوزِ گداز هو
سورهينَٔ ذُوالقعد جي هادئَ سندو پرواز هو (بيکس)
مزار کے سامنے جنگلے پر درج ہے:
مرد نة مرن ڪڏهن ڪو پاهن قائم (بيدل)
هم مر ي ته گرو مر ي دولهة مارن دم (بيدل)
ديهي ري ئَ دائم حاضرين هرجائِ تي (بيدل)
مزار کے دوسری طرف جنگلے پر درج ہے:
هوو پچارن وا هرو يتيهن يارو (بيدل)
ترت رسن تڪ تار۾دانا دلاور (بيدل)
اهڙا اڪابر ماندن لائِ مولا مُڪا (بيدل)
حضرت قادربخش بیدلؒ کے فرزند محمدمحسن بیکس بھی ہفت زبان شاعر تھے۔ والد محترم کی تربیت نے آپ کو بھی صوفی اور کامل بنا دیا تھا۔ آپ کی طبیعت میں بھی بیدلؒ سائیں کا ذوق در آیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے بیدلؒ سائیں کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی تعلیم و تربیت کا محور بھی علوم ظاہریہ کے بہ جائے علومِ باطنیہ کو بنا لیا تھا۔ یہ سلسلہ یقینا نسل درنسل منتقلی کا ہی ہے جو آپ کے اسلاف سے آپ کے رگ وپے میں بھی پھیل گیا۔
محمدمحسن بیکسؒ 28جمادی الثانی 1285ھ کو پیدا ہوئے اور 5رمضان 1248ھ مطابق کو آپ کی وفات ہوئی۔ سندھی زبان کے پانچ بڑے شعرا میں آپ کا بھی نام آتا ہے۔ فارسی اور اردو میں بھی آپ کا کچھ کلام ملتا ہے۔ محسن بیکسؒ کے کلام میں سوزوگداز کی تصویریں ملتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں فراق کا ذکر ملتا ہے:
''تاريخ وصال بيکس ''
سال ٻارنهن سؤا ٺانوي ۾ طلب ڏي تيار هو
رمضان جي پنجين پرينَٔ جو دوست سان ديدار هو
(نواب شاه مکايل)
نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
دیکھے گی جب فراق دل اسی دروازہ دل بر
کرے گی سجدہ اور بولیں گی میں ہوں زخمی پیا تیرا
اگر چاہے سمن میرا کہ انٹھ بیٹھے یہ مردہ عاشق
ہزاروں شکر کر اوٹھوں، دیکھوں بیت اﷲ دیوں پھیرا
روپ گجری انداز میں محسن بیکسؒ کے اشعار ملاحظہ ہوں:
پاشاہ بیدل بیکس بہ مرتا
اس شوخ خود رائی سے ویچارا ڈرتا
سارا دن ساری رین پکارے بچارا
اُسی کیتے کوچے میں دن رین کھڑتا
یک دم وہ مرتا یک دم وہ جیتا
کبھی وہ بے رہا نظر نہیں کرتا
کرنا عرض یہ غرض میں کوں تم سے
وہ بے غرض بولے اپنوین ھُن نہ مرتا
جو دم جو میں جیتا کنہ سے رہ آئے
بیکس کا نھیں وس وہ آپ ہے کرتا
(روپ گجری)
شہنشاہ قلندر تو ہے ہادی میرا
سوا تیرے صاحب نہیں اور کوئی میرا
کرسی عرش افلاک میں جو نقارہ
بدھر جاھر ملک نظارہ ہے تیرا
مقبول کرنا یہ عرض ہے ہمارا
عشق سے آباد اب کردے دل کا دیرا
ولایت وحدت کا تو ہے ویر والی
تو واقف دلوں کا ہے سو الی ہوں میں تیرا
ملا یار میرا مجھ کو جو ہے خود خیالی
یہ ہردل ہے جاری تھا حکم تیرا
پکارتی میری دل یہ فریاد کرتی
ملا یار بیکس کُوں فضل کا کرو پھیرا
سوا یار میرے کوئی ساعت نہیں سہرتی
کیا ہے میری دل کو جس نے بسیرا بسیرا
(روپ گجری)
آیا بیکس ہو یا بلبل
دیکھو گلشن حسن سارا
تماشا عجب گل پُھل کا
سرخ سوسن ہے زنگارا
ارے ملاں نہ کر بک بک
نہ اتنا مار تو جک جک
وہم کا ورق دھو یک یک
پچھے ھن نینھن کا نعرہ
نہ کر قاضی کوڑے مسئلے
لوکاں دے کیوں تکیں وَصلے
رندی ہک رمز تو رَسلے
کیوں کر پندائیں کاغذان کارا
طبیبا چھوڑ اُٹھ جاؤ
اَتھی ھی عشق جو پھاہو
دوایاں دے نہ کر کایو
محبت کا مرض بے چارا
طب۔ میزاں کھول کے ناؤس
میں ہوں بیخود تے بیوس
کیتا میں نوں برھہ بیکس
دوا ہے درد دیدارا
(روپ آسا)
سرزمین سندھ ہمیشہ سے اولیاء اﷲ کی تعلیمات سے منور وشاداب رہی ہے۔ اِن بزرگ صوفیہ وشعرا نے اپنی تعلیم کے ذریعے انسانیت کی پذیرائی اور دین کی خدمت میں پیش پیش رہ کر ایسے نقوش چھوڑے ہیں، جو آج ہماری وراثت کا حصّہ ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہم ان تعلیمات کے قریب توکیا ان کی طرف دیکھنے کے بھی روا دار نہیں رہے ہیں۔ بزرگوں کے حوالے دے دے کر بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں مگر عمل ندارد۔
روہڑی کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں دو بزرگ شاعر عبدالقادر بخش بیدلؒ اور اُن کے فرزند محمدمحسن بیکسؒ دفن ہیں۔ علم وعرفان میں جو کارنامے آپ حضرات نے اس سرزمین پر کیے ہیں، وہ قابلِ تحسین اور قابلِ فکر ہیں، جہاں آپ کی فکر انسانی رویوں کو زندگی کے سلیقے سکھاتی ہے، وہیں دین اور دنیا میں توازن برقرار رکھنے کا ہُنر بھی بتاتی ہے۔ برصغیر کے ان دونوں نام ور صوفیا کا کچھ احوال ملاحظہ فرمائیں۔
برصغیر کے عظیم المرتبت صوفی شاعر، سرتاج الشعرا، شہنشاہ عشق، صاحبِ علم وعرفان، شاعر ہفت زباں عبدالقادر بخش بیدل کی ولادت 1230ھ میں ہوئی اور آپ نے 1289ھ (1873ء) میں وفات پائی۔ آپ صوفی شاعر اور عالم تھے۔ آپ کا قیام روہڑی میں رہا۔ اپنے وقت کے ولی اور کامل بزرگ تھے۔
آپ جب بڑے ہوئے تو پیرانِ پیر دستگیر غوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادرجیلانیؒ کے ساتھ روحانی وابستگی کے سبب اپنے آپ کو قادر بخش بیدل کہلوانے لگے۔ مولاناعبدالقادر بخش بیدلؒ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی محمدمحسن تھا۔ وہ ریشم کی تجارت کرتے تھے۔ آپ کے والد محمدمحسن بلوچستان کے مشہور بزرگ سیدمولاناعبدالوہابؒ ساکن بھاگ ناڑی کے مرید تھے۔ میرجان اﷲ شاہؒ جھولک والے مشہور صوفی شاہ عنایت اﷲ شاہؒ شہید کے خلفا میں سے ایک تھے۔ آپ کے والد نے میرجان اﷲشاہ ثانیؒ سے بھی بیعت کی۔ بیدل اپنے والد بزرگوار کے مرشد کے پاس حاضر ہوئے، جنھوں نے آپ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
پانچ برس کی عمر میں بیدل کے والد نے آپ کو مکتب میں داخل کرادیا، مگر آپ کو علوم ظاہریہ کے مقابلے میں علومِ باطنیہ سے رغبت تھی، لیکن والد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ برس تک تعلیم جاری رکھی۔ پھر سیدجان اﷲشاہ ثانیؒ سے بیعت ہوکر علوم باطنیہ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بیدل ؒفرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے خواب میں حضرت خواجہ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ کی درگاہ پر حاضری کا اشارہ ملا۔ آپ اکیلے سیہون شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔
حضرت لعل شہبار کی درگاہ سے واپسی پر آپ نے باقاعدہ غزل کہنا شروع کردی اور اصلاح کے لیے جب اشعار اپنے استاد کو دکھائے تو انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اشعار بیدلؒ کہہ سکتے ہیں۔ بیدل ؒکی طبیعت میں تصوف کا گہرا اثر تھا، آپ بلند پایہ مفکر، دانش ور اور قابل فخرشخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا کلام آفاقی والہامی تھا، جو سات زبانوں، عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہندی زبانوں میں موجود ہے۔ آپ کی مشہور تصانیف میں ''ریاض الفقر''، ''نہرالبحر'' (مثنوی)، ''مصباح الطریقت''، ''مصباح الحقیقت'' (فارسی نظم)، ''نسخۂ دلکشا'' (فارسی نظم)، ''سندالموحدین'' (فارسی نظم)، ''کرسی نامہ'' (فارسی نظم)، ''رموزِ العارفین'' (فارسی اشعار)، ''پنج گنج'' وغیرہ شامل ہیں۔
سکھر سے روہڑی شہر میں داخل ہوتے ہوئے ایک گیٹ ہے، جس پر بیدل بیکس لکھا ہوا ہے اور ساتھ ہی چند اشعار درج ہیں۔ اس سے متصل تھوڑے فاصلے پر آپ کا مزار موجود ہے۔
مزار میں داخل ہوں تو تین قبور ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔ دائیں ہاتھ کی پہلی قبر پر ''حضرت فقیر محمدمحسن قدس سرۂ العزیز عرف 'بیکس'' کندہ ہے۔ درمیان والی قبر پر ''حضرت فقیر قادر بخش قدس سرۂ العزیز عرف 'بیدل'' درج ہے، جب کہ بائیں طرف ''حضرت فقیرعبداﷲقدس سرۂ العزیز'' جو کہ محمدمحسن بیکس کے کزن ہیں، اُن کی قبر ہے۔ مزار مبارک میں موجود ایک الماری، جس میں قرآنِ کریم کے نسخے رکھے ہیں، پر دو بورڈ لگ ہوئے ہیں جن پر بیدل سائیں اور محسن بیکس کی تاریخِ وصال شعر کی صورت میں درج ہیں:
''تاريخ وصال بيدل ''
سال ٻارنهن سؤا ٺانوي ۾ سوزِ گداز هو
سورهينَٔ ذُوالقعد جي هادئَ سندو پرواز هو (بيکس)
مزار کے سامنے جنگلے پر درج ہے:
مرد نة مرن ڪڏهن ڪو پاهن قائم (بيدل)
هم مر ي ته گرو مر ي دولهة مارن دم (بيدل)
ديهي ري ئَ دائم حاضرين هرجائِ تي (بيدل)
مزار کے دوسری طرف جنگلے پر درج ہے:
هوو پچارن وا هرو يتيهن يارو (بيدل)
ترت رسن تڪ تار۾دانا دلاور (بيدل)
اهڙا اڪابر ماندن لائِ مولا مُڪا (بيدل)
حضرت قادربخش بیدلؒ کے فرزند محمدمحسن بیکس بھی ہفت زبان شاعر تھے۔ والد محترم کی تربیت نے آپ کو بھی صوفی اور کامل بنا دیا تھا۔ آپ کی طبیعت میں بھی بیدلؒ سائیں کا ذوق در آیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے بیدلؒ سائیں کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی تعلیم و تربیت کا محور بھی علوم ظاہریہ کے بہ جائے علومِ باطنیہ کو بنا لیا تھا۔ یہ سلسلہ یقینا نسل درنسل منتقلی کا ہی ہے جو آپ کے اسلاف سے آپ کے رگ وپے میں بھی پھیل گیا۔
محمدمحسن بیکسؒ 28جمادی الثانی 1285ھ کو پیدا ہوئے اور 5رمضان 1248ھ مطابق کو آپ کی وفات ہوئی۔ سندھی زبان کے پانچ بڑے شعرا میں آپ کا بھی نام آتا ہے۔ فارسی اور اردو میں بھی آپ کا کچھ کلام ملتا ہے۔ محسن بیکسؒ کے کلام میں سوزوگداز کی تصویریں ملتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں فراق کا ذکر ملتا ہے:
''تاريخ وصال بيکس ''
سال ٻارنهن سؤا ٺانوي ۾ طلب ڏي تيار هو
رمضان جي پنجين پرينَٔ جو دوست سان ديدار هو
(نواب شاه مکايل)
نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
دیکھے گی جب فراق دل اسی دروازہ دل بر
کرے گی سجدہ اور بولیں گی میں ہوں زخمی پیا تیرا
اگر چاہے سمن میرا کہ انٹھ بیٹھے یہ مردہ عاشق
ہزاروں شکر کر اوٹھوں، دیکھوں بیت اﷲ دیوں پھیرا
روپ گجری انداز میں محسن بیکسؒ کے اشعار ملاحظہ ہوں:
پاشاہ بیدل بیکس بہ مرتا
اس شوخ خود رائی سے ویچارا ڈرتا
سارا دن ساری رین پکارے بچارا
اُسی کیتے کوچے میں دن رین کھڑتا
یک دم وہ مرتا یک دم وہ جیتا
کبھی وہ بے رہا نظر نہیں کرتا
کرنا عرض یہ غرض میں کوں تم سے
وہ بے غرض بولے اپنوین ھُن نہ مرتا
جو دم جو میں جیتا کنہ سے رہ آئے
بیکس کا نھیں وس وہ آپ ہے کرتا
(روپ گجری)
شہنشاہ قلندر تو ہے ہادی میرا
سوا تیرے صاحب نہیں اور کوئی میرا
کرسی عرش افلاک میں جو نقارہ
بدھر جاھر ملک نظارہ ہے تیرا
مقبول کرنا یہ عرض ہے ہمارا
عشق سے آباد اب کردے دل کا دیرا
ولایت وحدت کا تو ہے ویر والی
تو واقف دلوں کا ہے سو الی ہوں میں تیرا
ملا یار میرا مجھ کو جو ہے خود خیالی
یہ ہردل ہے جاری تھا حکم تیرا
پکارتی میری دل یہ فریاد کرتی
ملا یار بیکس کُوں فضل کا کرو پھیرا
سوا یار میرے کوئی ساعت نہیں سہرتی
کیا ہے میری دل کو جس نے بسیرا بسیرا
(روپ گجری)
آیا بیکس ہو یا بلبل
دیکھو گلشن حسن سارا
تماشا عجب گل پُھل کا
سرخ سوسن ہے زنگارا
ارے ملاں نہ کر بک بک
نہ اتنا مار تو جک جک
وہم کا ورق دھو یک یک
پچھے ھن نینھن کا نعرہ
نہ کر قاضی کوڑے مسئلے
لوکاں دے کیوں تکیں وَصلے
رندی ہک رمز تو رَسلے
کیوں کر پندائیں کاغذان کارا
طبیبا چھوڑ اُٹھ جاؤ
اَتھی ھی عشق جو پھاہو
دوایاں دے نہ کر کایو
محبت کا مرض بے چارا
طب۔ میزاں کھول کے ناؤس
میں ہوں بیخود تے بیوس
کیتا میں نوں برھہ بیکس
دوا ہے درد دیدارا
(روپ آسا)