خواجہ خورشید انور
وہ منفرد موسیقار ، برصغیر کی فلمی موسیقی جس کی احسان مند رہے گی
کیسے کیسے لوگ تھے جن کو زمین نے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ برصغیر کی فلم کی تاریخ میں سنہری لفظوں میں لکھے بابا جی اے چشتی،ماسٹر غلام حیدر،ماسٹر عنائیت حسین، فیروز نظامی، رشید عطرے،صفدر حسین، نثار بزمی اور خواجہ خورشید انور وہ غیر معمولی صاحب فن تھے جن کی وجہ سے برصغیر کی موسیقی کو نئی آوازیں، نئے آہنگ، نئی دھنیں نصیب ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک کے ثقافتی اظہار کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آئی تو انہوں نے اسے ایسے شاندار اور جاندار طریقے سے نبھایا کہ بھارت کی انڈسٹری بھی واہ واہ کر اٹھی۔ اِ ن میں نمایاں خدمات کے حامل خواجہ خورشید انور اپنی منفرد خدمات رکھتے ہیں ۔
خواجہ خورشید انور 1912ء میں سرائیکی وسیب میں شعرو نغمہ کی رسیا سر زمین میانوالی کے محلہ بلو خیل میں پیدا ہوئے ۔ والد خواجہ فیروز الدین میانوالی میں وکیل تھے جو بیرسٹر ہونے کے بعد لاہور منتقل ہو گئے ۔ ان کے نانا شیخ عطاء محمد میانوالی میں سرجن تعینات تھے ۔ خان بہادر شیخ عطاء محمد علامہ اقبال ؒ کے سسر بھی تھے ۔ خواجہ صاحب نے 1928ء میں سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1929ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ سائنس میں داخل ہو گئے۔ تھرڈ ایئر میں پہنچے تو ان کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہو گئی جو ان دنوں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کر کے کالج میں داخل ہوئے تھے ۔
خواجہ صاحب سائنس اور فیض صاحب آرٹس کے شعبے میں تھے۔ اُن دنوں ہندوستان میں سیاسی ہیجان کا دور تھا ملکی سیاست میں تشدد داخل ہو چکا تھا ،جلیاں والہ باغ کے قتلِ عام اور خلافت تحریک کے بعد بھگت سنگھ کی تحریک زور پکڑ رہی تھی اور نوجوان طبقہ اس تحریک سے بے حد متاثر تھا اور تحریک میں صفِ اول کا کردار ادا کر رہا تھا۔ خواجہ خورشید انور بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے اور ان کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ خواجہ صاحب اس قدر آگے بڑھ گئے کہ کالج کی لیبارٹری میں دیسی ساخت کے بم بناتے ہوئے دیکھ لیے گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ والدین کے تعلقات اور خاندانی اثرو رسوخ کے سبب جلد ہی رہا کر دیے گئے ( بحوالہ فیض نامہ ص۔41)
اس واقعہ کے بعد سیاست سے اس قدر دل اکتا گیا کہ پھر آنکھ اٹھا کر بھی اس طرف نہ دیکھا ۔ والد صاحب خواجہ فیروز الدین موسیقی سے رغبت رکھتے تھے۔ ان کی بیٹھک میں انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے ریکارڈ موجود رہتے تھے جن سے خواجہ خورشید انور اپنے ذوق کو تسکین پہنچاتے۔
ان کی بیٹھک کو موسیقی کدہ بھی کہہ سکتے ہیں جہاں موسیقی کے بڑے بڑے اساتذہ تشریف لاتے اورمحفل کی جان بنا کرتے۔ وہاں پر اکثر موسیقی کی نشستیں ہوا کرتیں جن میں استاد توکل حسین خان، استاد عبدالوحید خان، استاد عاشق علی خان اور چھوٹے غلام علی خان آتے۔ فیض احمد فیض اور خواجہ خورشید انور اس بیٹھک کے مستقل سامع اور میزبان ہوا کرتے ۔ اسی دوران والد سے موسیقی سیکھنے کی درخواست کی تو انہوں نے بیٹے کو استاد توکل حسین خان کی شاگردی میں دے دیا ۔ موسیقی سیکھنے کے ساتھ ساتھ خواجہ خورشید انور نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور 1935ء میں ایم اے فلسفہ کے امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے ۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے ساتھ انڈین سول سروس کا امتحا ن بھی دیا جس میں بھگت سنگھ تحریک میں بم بنانے کے الزام کی وجہ سے فیل کر دیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں جب ان کو فلسفہ کے امتحان کی پہلی پوزیشن کے گولڈ میڈل کے لیے بلایا گیا تو وہ تقریب میں شریک ہی نہ ہوئے۔ بعد ازاں وہ دہلی چلے گئے جہاں انہوں نے ریڈیو سے بطور میوزک پروڈیوسر وابستگی اختیار کر لی۔ لیکن جلد ہی یہاں سے بھی دل بھر گیا اور نوکری چھوڑ دی ۔
ان دنوں بمبئی کی فلمی صنعت میں فلمساز اور ہدایت کار اے آر کاردار کا طوطی بول رہا تھا۔ انہوں نے فلم کی دعوت دی تو خواجہ صاحب نے قبول کرتے ہوئے پنجابی فلم''کڑمائی ''(1941ء )کی موسیقی دی جس کے نغمے نامور گلوکارہ راج کماری نے گائے۔ اس فلم کے گانے ''ماہی وے راتاں '' نے برِصغیر میں دھوم مچادی ،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلم اشارہ (1942ء)، پرکھ (1943ء)، یتیم(1944ء)،آج اور کل (1945ء)، پگڈنڈی(1946ء)، پروانہ (1946ء)، سنگھار(1949ء)، نشانہ (1950ء)، اور نیلم پری(1952ء) کی موسیقی دی۔ ان فلموں کے گیتوں نے شائقین کے دلوں پر راج کیا۔ بھارت میں خواجہ صاحب نے سہگل۔آشا بھوسلے ،گوہر سلطانہ،گیتا رائے ، زینت بیگم، سریندر کور، جی ایم درانی، منور سلطانہ اور راج کماری جیسے نامور سنگرز سے اپنی موسیقی میں گیت گوائے۔
1946ء میں بننے والی فلم پروانہ اور 1949ء میں بننے والی فلم سنگھار کی عمدہ موسیقی دینے پر دو بار ٹائمز آف انڈیا ایوارڈ دیاگیا۔
1953ء میں خواجہ خورشید انور پاکستان لوٹ آئے۔ یہاں آئے تو اس وقت بابا جی اے چشتی اردو اور پنجابی فلموں کی موسیقی کے لیے ضرورت بنے ہوئے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر مرحوم کی فلم گلنار کے گانوں کی دھوم مچی ہوئی تھی، ماسٹر عنائیت حسین کی فلم گمنام اور قاتل باکس آفس پر چھائی ہوئی تھیں، رشید عطرے ، فیروز نظامی اور صفدر حسین کے کام کا بھی طوطی بول رہا تھا ۔ لیکن ان سب میں آکر خواجہ خورشید انور نے اپنی محنت کے سبب اپنا منفرد مقام بنایا ۔
خواجہ خورشید انور کو ئی بھی ساز نہیں بجا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ماچس کی ڈبی پہ دھنیں بنایا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب نے پاکستان آکر فلم انتظار کی موسیقی ترتیب دی جس کے نغموںنے ہر سو دھوم مچادی ''ہو جانے والے رے ''نے شہرت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ خواجہ صاحب اس فلم کے موسیقار ،کہانی کار اور فلمساز بھی تھے۔
اس وقت کے صدرِ پاکستان سکندر مرزا جب ایران کے دورے پر گئے تو فلم انتظار کو بھی ساتھ لے گئے۔ شہنشاہِ ایران نے فلم دیکھی تو اس کی موسیقی کی تعریف کرتے ہوئے خواجہ خورشید انور کو ''کنگ آف میلوڈی'' کا خطاب دیا ۔ انڈیا کے دورے میں بھی جب یہ فلم ایوانِ صدر میں دیکھی گئی تو اس بھارتی صدر ڈاکٹر رادھا کشن نے اسے بے حد پسند کیا اور وہاں کے موسیقاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو اس فلم کی موسیقی سے سبق سیکھنا چاہیے ۔
اس فلم کو نغمہ بار بھی کہا جاتا ہے ۔ قتیل شفائی کے لکھے نغموں نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی جس سے فلم کو انٹر نیشنل سطح پر پذیرائی ملی، اس فلم کے تمام نغمے فلم کی ہیروئن نورجہاں نے ہی گائے نغمہ بار فلم کی وجہ سے انہیں بھی ''ملکہ ترنم ''کا خطاب ملا جو پھر ان کی زندگی کا حصہ بن گیا ۔ اس فلم کو تین صدارتی ایوارڈ ملے۔
اس فلم کی ریلیز کے ایک ہفتہ بعد ان کی نئی فلم ''مرزا صاحباں'' ریلیز ہوئی جو فلاپ ہو گئی ۔ 1958ء میں معرکۃ الآراء فلم ''زہرِ عشق '' ریلیز ہوئی یہ بھی ایک مکمل میوزیکل فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے میانوالی کی خوبصورت آواز ناہید نیازی جو کہ نامور میوزک ڈائریکٹر و ریڈیو اسٹیشن ڈائریکٹر سرورنیازی کی بیٹی تھیں کو بطور گلوکارہ متعارف کرایا جن کی جادو بھری آواز نے شائقین کے دلوں کو مسخر کرلیا۔ اس فلم پر بھی خواجہ صاحب کو نگار ایوارڈ دیا گیا ۔
1959ء کا سال ان کے لیے کامیابیوں کا سال تھا۔ مزید کامیابیاںان کے قدم چوم رہی تھیں ۔ اس سال ان کی دو فلمیں ''جھومر '' اور ''کوئل ''ریلیز ہوئیں، جھومر نے ایک بار پھر خواجہ صاحب کی موسیقی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس فلم میں ناہید نیازی کی آواز میں گائے گئے گیتوں''چلی رے چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے '' ''اِک البیلا پر دیسی دل میں سما گیا '' پیا پیا نہ کوک ''نہ کوئی سیاں میرا'' جب یاد کسی کی تڑپائے'' ونجلی بجائے دور سے کوئی '' نے شائقین کے دل موہ لیے۔
1960ء میں فلم ''ایاز'' ریلیز ہوئی اس فلم کے گیت'رقص میں ہے سارا جہاں '' اور ناہید نیازی ، زبیدہ خانم ، اور کوثر پروین کی آواز میں ریکارڈ کی گئی نعت نے بے مثال شہرت پائی ۔ 1962ء میں خواجہ صاحب کی ذاتی فلم ''گھونگھٹ '' ریلیز ہوئی جس کے نغمے '' کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا'' نے بے پناہ شہرت حاصل کی، اسی فلم میں خواجہ صاحب نامور گائیک مہدی حسن کو لے کر آئے اور ان کی آواز میں گانے ریکارڈ کیے۔ 1964ء میں فلم حویلی ''فلم ''چنگاری'' ریلیز ہوئیں جن کے گیتوں ''شکوہ نہیں کسی سے گلہ نہیں '' ''اے روشنیوں کے شہر بتا'' ''اِ ک دل نے کہی اِک دل نے سنی '' نے شائقین کو مسحور کیا۔
1968ء میں فلم ''سر حد '' اور 1969ء میں فلم ''ہمراز'' ریلیز ہوئیں اس کے بعد 1970ء میں ان کی دو پنجابی فلمیں ''گُڈو'' اور ''ہیر رانجھا '' ریلیز ہوئیں ''گڈو '' فلاپ ہو گئی لیکن ''ہیر رانجھا'' نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ اس فلم میں احمد راہی کے لکھے نغموں ''سُن ونجلی دی مِٹھڑی تان وے '' ''ونجلی والڑیا '' اور دیگر نغمے آج بھی روز ِ اول کی طرح لوگوں کی پسند ہیں، اس فلم میں استاد سلامت حسین نے بانسری کے کمال جوہر دکھائے ۔ یہ فلم اپنے گیتوں اور کہانی کی وجہ سے سحر انگیز کہلائی ۔1971ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''سلام ِ محبت '' اور '' پرائی آگ '' کے نغموں ''کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جانِ تمنا ''بھیگے ہوئے موسم کا مزہ کیوں نہیں لیتے''سُن پگلی پون سُن اُڑتی گھٹا ''نے خواجہ صاحب کی شہرت کے ریکارڈ کو برقرار رکھا ۔اس فلم میں انہوں نے احمد رُشدی کو پہلی بار متعارف کرایا ۔
1975ء''شیریں فرہاد'' 1978ء میں ''حیدر علی '' اور 1982ء میں فلم '' مرزا جٹ ''ریلیز ہوئیں۔ انہوں نے انڈیا میں 14سال اور پاکستان میں 26 سال موسیقی کو دیے۔ اس40 سالہ دور میں انہوں نے انڈیا کی 11اور پاکستان کی 20 فلموں کی موسیقی دی ۔ انہوں نے 250گیتوں کی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ جن میں سے اکثریت گیتوں کو میڈم نورجہاں نے گایا۔ انہوں نے ذاتی فلمیں ''گھونگھٹ '' ''چنگاری'' اور''ہمراز '' بنائیں جن کی کہانی خود لکھی ، ان کی ہدایات اورموسیقی بھی خود دی ۔ انہوں نے موسیقی میں تجربات کیے۔ ان کے سازوں کی ترتیب منفرد ہوتی تھی۔ مختلف سازوں کا غالب حیثیت میں استعمال ان کا خاص ہنر تھا ۔ مثال کے طور پر ہیر رانجھا فلم میں انہوں نے صرف بانسری اور ڈھولک کے ساتھ گیت ریکارڈ کیے۔
فلم گھونگھٹ میں گیت ''کوئی نہ جانے کب آئے ''میں پہلی بار مندر کی گھنٹیوں کو ساز کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ انہوں نے فلم میں کورس کو رواج دیا ۔ فلم'' کوئل ''کے گیت ''ساگر روئے، لہریں شور مچائیں '' میں وائلن سے سمندر کا شور نکالا ، فلم'' زہرِ عشق '' میں بین کی آوازکا تجربہ کیا ۔ فلم انتظار میں گیت '' آگئے آگئے سجن پر دیسی '' میں پہاڑ کی گونج لڑکیوں کی آواز میں پیدا کی ۔ ان کے نمایاں کاموں میں ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون کی تخلیق اور راگ مالا اور آہنگِ خسروی ہے جس کے ذریعے موسیقی کے نامور گھرانوں کے 90 راگ محفوظ کیے گئے۔
1980ء میں انہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز دیا گیا۔ 1982 ء میں انڈین فلم انڈسٹری کی طرف سے انہیں ''فانی انسان لافانی گیت ایوارڈ '' سے نوازا گیا ۔ خواجہ صاحب کو اپنی جنم بھومی سے بے حد پیار تھا جب بھی فرصت ملتی تو میانوالی آجاتے، بابائے تھل فاروق روکھڑی (شاعر۔ ہم تم ہوں گے بادل ہو گا ) سے ان کے بے حد اچھے مراسم تھے ۔ وہ ان کے گھر کندیاں ٹھہرتے ۔ فاروق روکھڑی صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کے سرائیکی گیتوں ''ساڈے نال نہ اوکھڑا بول کل اساں ٹُر ونجنڑاں '' اساں گھٹ پیتی ہے '' اور دیگر کی دھنیں انہوں نے تخلیق کی تھیں۔
تنہائی پسند ،کم گو ،باوقار شخصیت کے مالک خواجہ خورشید انور طویل علالت کے بعد 30 اکتوبر 1984ء کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ۔ میانی صاحب قبرستان میں مدفون اس موسیقار کے نغمے آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔
خواجہ خورشید انور 1912ء میں سرائیکی وسیب میں شعرو نغمہ کی رسیا سر زمین میانوالی کے محلہ بلو خیل میں پیدا ہوئے ۔ والد خواجہ فیروز الدین میانوالی میں وکیل تھے جو بیرسٹر ہونے کے بعد لاہور منتقل ہو گئے ۔ ان کے نانا شیخ عطاء محمد میانوالی میں سرجن تعینات تھے ۔ خان بہادر شیخ عطاء محمد علامہ اقبال ؒ کے سسر بھی تھے ۔ خواجہ صاحب نے 1928ء میں سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1929ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ سائنس میں داخل ہو گئے۔ تھرڈ ایئر میں پہنچے تو ان کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہو گئی جو ان دنوں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کر کے کالج میں داخل ہوئے تھے ۔
خواجہ صاحب سائنس اور فیض صاحب آرٹس کے شعبے میں تھے۔ اُن دنوں ہندوستان میں سیاسی ہیجان کا دور تھا ملکی سیاست میں تشدد داخل ہو چکا تھا ،جلیاں والہ باغ کے قتلِ عام اور خلافت تحریک کے بعد بھگت سنگھ کی تحریک زور پکڑ رہی تھی اور نوجوان طبقہ اس تحریک سے بے حد متاثر تھا اور تحریک میں صفِ اول کا کردار ادا کر رہا تھا۔ خواجہ خورشید انور بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے اور ان کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ خواجہ صاحب اس قدر آگے بڑھ گئے کہ کالج کی لیبارٹری میں دیسی ساخت کے بم بناتے ہوئے دیکھ لیے گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ والدین کے تعلقات اور خاندانی اثرو رسوخ کے سبب جلد ہی رہا کر دیے گئے ( بحوالہ فیض نامہ ص۔41)
اس واقعہ کے بعد سیاست سے اس قدر دل اکتا گیا کہ پھر آنکھ اٹھا کر بھی اس طرف نہ دیکھا ۔ والد صاحب خواجہ فیروز الدین موسیقی سے رغبت رکھتے تھے۔ ان کی بیٹھک میں انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے ریکارڈ موجود رہتے تھے جن سے خواجہ خورشید انور اپنے ذوق کو تسکین پہنچاتے۔
ان کی بیٹھک کو موسیقی کدہ بھی کہہ سکتے ہیں جہاں موسیقی کے بڑے بڑے اساتذہ تشریف لاتے اورمحفل کی جان بنا کرتے۔ وہاں پر اکثر موسیقی کی نشستیں ہوا کرتیں جن میں استاد توکل حسین خان، استاد عبدالوحید خان، استاد عاشق علی خان اور چھوٹے غلام علی خان آتے۔ فیض احمد فیض اور خواجہ خورشید انور اس بیٹھک کے مستقل سامع اور میزبان ہوا کرتے ۔ اسی دوران والد سے موسیقی سیکھنے کی درخواست کی تو انہوں نے بیٹے کو استاد توکل حسین خان کی شاگردی میں دے دیا ۔ موسیقی سیکھنے کے ساتھ ساتھ خواجہ خورشید انور نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور 1935ء میں ایم اے فلسفہ کے امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے ۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے ساتھ انڈین سول سروس کا امتحا ن بھی دیا جس میں بھگت سنگھ تحریک میں بم بنانے کے الزام کی وجہ سے فیل کر دیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں جب ان کو فلسفہ کے امتحان کی پہلی پوزیشن کے گولڈ میڈل کے لیے بلایا گیا تو وہ تقریب میں شریک ہی نہ ہوئے۔ بعد ازاں وہ دہلی چلے گئے جہاں انہوں نے ریڈیو سے بطور میوزک پروڈیوسر وابستگی اختیار کر لی۔ لیکن جلد ہی یہاں سے بھی دل بھر گیا اور نوکری چھوڑ دی ۔
ان دنوں بمبئی کی فلمی صنعت میں فلمساز اور ہدایت کار اے آر کاردار کا طوطی بول رہا تھا۔ انہوں نے فلم کی دعوت دی تو خواجہ صاحب نے قبول کرتے ہوئے پنجابی فلم''کڑمائی ''(1941ء )کی موسیقی دی جس کے نغمے نامور گلوکارہ راج کماری نے گائے۔ اس فلم کے گانے ''ماہی وے راتاں '' نے برِصغیر میں دھوم مچادی ،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلم اشارہ (1942ء)، پرکھ (1943ء)، یتیم(1944ء)،آج اور کل (1945ء)، پگڈنڈی(1946ء)، پروانہ (1946ء)، سنگھار(1949ء)، نشانہ (1950ء)، اور نیلم پری(1952ء) کی موسیقی دی۔ ان فلموں کے گیتوں نے شائقین کے دلوں پر راج کیا۔ بھارت میں خواجہ صاحب نے سہگل۔آشا بھوسلے ،گوہر سلطانہ،گیتا رائے ، زینت بیگم، سریندر کور، جی ایم درانی، منور سلطانہ اور راج کماری جیسے نامور سنگرز سے اپنی موسیقی میں گیت گوائے۔
1946ء میں بننے والی فلم پروانہ اور 1949ء میں بننے والی فلم سنگھار کی عمدہ موسیقی دینے پر دو بار ٹائمز آف انڈیا ایوارڈ دیاگیا۔
1953ء میں خواجہ خورشید انور پاکستان لوٹ آئے۔ یہاں آئے تو اس وقت بابا جی اے چشتی اردو اور پنجابی فلموں کی موسیقی کے لیے ضرورت بنے ہوئے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر مرحوم کی فلم گلنار کے گانوں کی دھوم مچی ہوئی تھی، ماسٹر عنائیت حسین کی فلم گمنام اور قاتل باکس آفس پر چھائی ہوئی تھیں، رشید عطرے ، فیروز نظامی اور صفدر حسین کے کام کا بھی طوطی بول رہا تھا ۔ لیکن ان سب میں آکر خواجہ خورشید انور نے اپنی محنت کے سبب اپنا منفرد مقام بنایا ۔
خواجہ خورشید انور کو ئی بھی ساز نہیں بجا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ماچس کی ڈبی پہ دھنیں بنایا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب نے پاکستان آکر فلم انتظار کی موسیقی ترتیب دی جس کے نغموںنے ہر سو دھوم مچادی ''ہو جانے والے رے ''نے شہرت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ خواجہ صاحب اس فلم کے موسیقار ،کہانی کار اور فلمساز بھی تھے۔
اس وقت کے صدرِ پاکستان سکندر مرزا جب ایران کے دورے پر گئے تو فلم انتظار کو بھی ساتھ لے گئے۔ شہنشاہِ ایران نے فلم دیکھی تو اس کی موسیقی کی تعریف کرتے ہوئے خواجہ خورشید انور کو ''کنگ آف میلوڈی'' کا خطاب دیا ۔ انڈیا کے دورے میں بھی جب یہ فلم ایوانِ صدر میں دیکھی گئی تو اس بھارتی صدر ڈاکٹر رادھا کشن نے اسے بے حد پسند کیا اور وہاں کے موسیقاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو اس فلم کی موسیقی سے سبق سیکھنا چاہیے ۔
اس فلم کو نغمہ بار بھی کہا جاتا ہے ۔ قتیل شفائی کے لکھے نغموں نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی جس سے فلم کو انٹر نیشنل سطح پر پذیرائی ملی، اس فلم کے تمام نغمے فلم کی ہیروئن نورجہاں نے ہی گائے نغمہ بار فلم کی وجہ سے انہیں بھی ''ملکہ ترنم ''کا خطاب ملا جو پھر ان کی زندگی کا حصہ بن گیا ۔ اس فلم کو تین صدارتی ایوارڈ ملے۔
اس فلم کی ریلیز کے ایک ہفتہ بعد ان کی نئی فلم ''مرزا صاحباں'' ریلیز ہوئی جو فلاپ ہو گئی ۔ 1958ء میں معرکۃ الآراء فلم ''زہرِ عشق '' ریلیز ہوئی یہ بھی ایک مکمل میوزیکل فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے میانوالی کی خوبصورت آواز ناہید نیازی جو کہ نامور میوزک ڈائریکٹر و ریڈیو اسٹیشن ڈائریکٹر سرورنیازی کی بیٹی تھیں کو بطور گلوکارہ متعارف کرایا جن کی جادو بھری آواز نے شائقین کے دلوں کو مسخر کرلیا۔ اس فلم پر بھی خواجہ صاحب کو نگار ایوارڈ دیا گیا ۔
1959ء کا سال ان کے لیے کامیابیوں کا سال تھا۔ مزید کامیابیاںان کے قدم چوم رہی تھیں ۔ اس سال ان کی دو فلمیں ''جھومر '' اور ''کوئل ''ریلیز ہوئیں، جھومر نے ایک بار پھر خواجہ صاحب کی موسیقی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس فلم میں ناہید نیازی کی آواز میں گائے گئے گیتوں''چلی رے چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے '' ''اِک البیلا پر دیسی دل میں سما گیا '' پیا پیا نہ کوک ''نہ کوئی سیاں میرا'' جب یاد کسی کی تڑپائے'' ونجلی بجائے دور سے کوئی '' نے شائقین کے دل موہ لیے۔
1960ء میں فلم ''ایاز'' ریلیز ہوئی اس فلم کے گیت'رقص میں ہے سارا جہاں '' اور ناہید نیازی ، زبیدہ خانم ، اور کوثر پروین کی آواز میں ریکارڈ کی گئی نعت نے بے مثال شہرت پائی ۔ 1962ء میں خواجہ صاحب کی ذاتی فلم ''گھونگھٹ '' ریلیز ہوئی جس کے نغمے '' کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا'' نے بے پناہ شہرت حاصل کی، اسی فلم میں خواجہ صاحب نامور گائیک مہدی حسن کو لے کر آئے اور ان کی آواز میں گانے ریکارڈ کیے۔ 1964ء میں فلم حویلی ''فلم ''چنگاری'' ریلیز ہوئیں جن کے گیتوں ''شکوہ نہیں کسی سے گلہ نہیں '' ''اے روشنیوں کے شہر بتا'' ''اِ ک دل نے کہی اِک دل نے سنی '' نے شائقین کو مسحور کیا۔
1968ء میں فلم ''سر حد '' اور 1969ء میں فلم ''ہمراز'' ریلیز ہوئیں اس کے بعد 1970ء میں ان کی دو پنجابی فلمیں ''گُڈو'' اور ''ہیر رانجھا '' ریلیز ہوئیں ''گڈو '' فلاپ ہو گئی لیکن ''ہیر رانجھا'' نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ اس فلم میں احمد راہی کے لکھے نغموں ''سُن ونجلی دی مِٹھڑی تان وے '' ''ونجلی والڑیا '' اور دیگر نغمے آج بھی روز ِ اول کی طرح لوگوں کی پسند ہیں، اس فلم میں استاد سلامت حسین نے بانسری کے کمال جوہر دکھائے ۔ یہ فلم اپنے گیتوں اور کہانی کی وجہ سے سحر انگیز کہلائی ۔1971ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''سلام ِ محبت '' اور '' پرائی آگ '' کے نغموں ''کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جانِ تمنا ''بھیگے ہوئے موسم کا مزہ کیوں نہیں لیتے''سُن پگلی پون سُن اُڑتی گھٹا ''نے خواجہ صاحب کی شہرت کے ریکارڈ کو برقرار رکھا ۔اس فلم میں انہوں نے احمد رُشدی کو پہلی بار متعارف کرایا ۔
1975ء''شیریں فرہاد'' 1978ء میں ''حیدر علی '' اور 1982ء میں فلم '' مرزا جٹ ''ریلیز ہوئیں۔ انہوں نے انڈیا میں 14سال اور پاکستان میں 26 سال موسیقی کو دیے۔ اس40 سالہ دور میں انہوں نے انڈیا کی 11اور پاکستان کی 20 فلموں کی موسیقی دی ۔ انہوں نے 250گیتوں کی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ جن میں سے اکثریت گیتوں کو میڈم نورجہاں نے گایا۔ انہوں نے ذاتی فلمیں ''گھونگھٹ '' ''چنگاری'' اور''ہمراز '' بنائیں جن کی کہانی خود لکھی ، ان کی ہدایات اورموسیقی بھی خود دی ۔ انہوں نے موسیقی میں تجربات کیے۔ ان کے سازوں کی ترتیب منفرد ہوتی تھی۔ مختلف سازوں کا غالب حیثیت میں استعمال ان کا خاص ہنر تھا ۔ مثال کے طور پر ہیر رانجھا فلم میں انہوں نے صرف بانسری اور ڈھولک کے ساتھ گیت ریکارڈ کیے۔
فلم گھونگھٹ میں گیت ''کوئی نہ جانے کب آئے ''میں پہلی بار مندر کی گھنٹیوں کو ساز کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ انہوں نے فلم میں کورس کو رواج دیا ۔ فلم'' کوئل ''کے گیت ''ساگر روئے، لہریں شور مچائیں '' میں وائلن سے سمندر کا شور نکالا ، فلم'' زہرِ عشق '' میں بین کی آوازکا تجربہ کیا ۔ فلم انتظار میں گیت '' آگئے آگئے سجن پر دیسی '' میں پہاڑ کی گونج لڑکیوں کی آواز میں پیدا کی ۔ ان کے نمایاں کاموں میں ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون کی تخلیق اور راگ مالا اور آہنگِ خسروی ہے جس کے ذریعے موسیقی کے نامور گھرانوں کے 90 راگ محفوظ کیے گئے۔
1980ء میں انہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز دیا گیا۔ 1982 ء میں انڈین فلم انڈسٹری کی طرف سے انہیں ''فانی انسان لافانی گیت ایوارڈ '' سے نوازا گیا ۔ خواجہ صاحب کو اپنی جنم بھومی سے بے حد پیار تھا جب بھی فرصت ملتی تو میانوالی آجاتے، بابائے تھل فاروق روکھڑی (شاعر۔ ہم تم ہوں گے بادل ہو گا ) سے ان کے بے حد اچھے مراسم تھے ۔ وہ ان کے گھر کندیاں ٹھہرتے ۔ فاروق روکھڑی صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کے سرائیکی گیتوں ''ساڈے نال نہ اوکھڑا بول کل اساں ٹُر ونجنڑاں '' اساں گھٹ پیتی ہے '' اور دیگر کی دھنیں انہوں نے تخلیق کی تھیں۔
تنہائی پسند ،کم گو ،باوقار شخصیت کے مالک خواجہ خورشید انور طویل علالت کے بعد 30 اکتوبر 1984ء کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ۔ میانی صاحب قبرستان میں مدفون اس موسیقار کے نغمے آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔