جب شیوسینا کی بنیاد رکھی گئی

عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر بھارت کے ایک انتہا پسند لیڈر نے اپنی سیاست کیسے چمکائی…چشم کشا انکشافات

عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر بھارت کے ایک انتہا پسند لیڈر نے اپنی سیاست کیسے چمکائی…چشم کشا انکشافات ۔ فوٹو : فائل

DUBAI:
''نفرت کی چاہے کوئی بھی شکل ہو، اس کی بنیادیں جہالت، غربت اور غصّے پر رکھی جاتی ہیں۔'' (ابراہام لنکن)
٭٭
پچھلے دنوں ہندو انتہا پسند تنظیم، شیوسینا نے بڑھ چڑھ کر پاکستان اور پاکستانیوں پر حملے کیے۔ کبھی گلوکار غلام علی کو ممبئی میں شو نہیں کرنے دیا۔ کبھی بی سی سی آئی کے دفتر پر دھاوا بولا جہاں پاکستانی مہمان آئے ہوئے تھے۔ شیوسینا کی پاکستان اور مسلم دشمن سرگرمیاں بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی کی آئینہ دار ہیں۔ جب سے نریندر مودی کی قیادت میں انتہا پسند برسراقتدار آئے ہیں، وہ بھارت کو ہندو مملکت بنانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔

مودی دور حکومت میں ہندو راج کے قیام کی مہم مسلمانوںکو ہندو بنانے کے عمل(شدھی) سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں گائے ذبح کرنے پر سخت پابندی عائد کردی گئی۔ اخبارات میں اشتہار دے کر ہندو عوام کو ابھارا گیا کہ وہ گائے کا ذبیح روکنے کے لیے ''اپنا کردار'' ادا کریں۔ اس قسم کے اشتعال انگیز اشتہارات ہی کا نتیجہ ہے کہ ہندو عوام گائے کاٹنے یا بڑا گوشت کھانے کی محض افواہوں پر مسلمانوں پر حملے کرنے لگے۔

اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف حیلے بہانوں سے عام ہندوؤں میں نفرت پھیلانا ہندو انتہا پسند جماعتوں کا بنیادی ہتھیار ہے۔ درحقیقت نفرت و دشمنی کی سیاست کرکے ہی ہندو انتہا پسند لیڈروں نے شہرت پائی۔ یہ سلسلہ انیسویں صدی کے وسط سے بنگال میں شروع ہوا اور رفتہ رفتہ پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ اب نفرت کا یہ عالم ہے کہ بھارت میں صرف وہی مسلمان بھارتی معاشرے میں ترقی کرپاتے ہیں جو ہندوؤں کے آگے سر جھکا کر ان کی اجارہ داری قبول کرلیں...دوسری صورت میں انھیں قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔



ہندو انتہا پسندی کے فروغ و پھیلاؤ میں شیوسینا کے بانی، بال کیشو ٹھاکرے( 1926ء۔2012ء) کا خاص کردار رہا ہے۔ یہ ہندو مراٹھوں کی ریاست، مہاراشٹر میں پیدا ہوا۔ اس کا برہمن باپ متعصّب سیاست داں تھا۔ ٹھاکرے نوجوان ہوا تو بہ حیثیت کارٹونسٹ صحافی بمبئی کے اخبارات میں کام کرنے لگا۔ وہ بھی سخت معتصب تھا اور مراٹھہ کو اعلیٰ نسل کا حامل قرار دیتا۔ مراٹھیوں کے اعلیٰ ہونے کا اسے بڑا غرور تھا۔

اس وقت بمبئی کے مالکان اخبار کی اکثریت جنوبی بھارت (کیرالہ، تامل ناڈو، کرناٹک) سے تعلق رکھتی تھی۔ انہیں یہ مغرور نوجوان پسند نہیں آیا۔ اسی لیے جلد یا بدیر بال ٹھاکرے کو اخبار سے نکال دیا جاتا یا وہ خود لڑ جھگڑ کر الگ ہوجاتا۔ رفتہ رفتہ بال ٹھاکرے جنوبی ہند کے باسیوں کا دشمن بن گیا۔

1960ء میں ٹھاکرے نے اپنا ہفتہ وار رسالہ،مارمک نکالا اور اس کے ذریعے ساکنان جنوبی ہند کے خلاف انتقامی مہم چلادی۔ ٹھاکرے نے دعویٰ کیا کہ جنوبی ہند سے آنے والے مقامی آبادی کو روزگار سے محروم کرتے اور ریاستی وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ لہٰذا انہیں مہاراشٹر آنے سے روکا جائے۔ اس تحریک کو خاصی کامیابی ملی اور مراٹھوں میں وہ جانی پہچانی ہستی بن گیا۔ یوں نفرت کی سیاست کے بل پر ٹھاکرے کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔ وہ پہلا بھارتی لیڈر ہے جس نے بھارت میں نسلی تعصب و منافرت کو فروغ دیا اور بھارتی عوام کے مابین اختلافات پیدا کردیئے۔

منفی سیاست نے بہرحال اسے شہرت، دولت اور عزت بخشی لہٰذا بال ٹھاکرے پر پھیلانے لگا۔ اس نے پھر گجراتیوں اور آخر کار مسلمانوں کے خلاف بھی تحریک چلائی۔ یہ مسلم مخالف تحریک ہی ہے جس نے اسے عالمی سطح پر مشہور کردیا۔ 1966ء میں اس نے ''شیوسینا'' (شیو کی فوج) نامی سیاسی و سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اپنا دائرہ کار وسیع کرنے لگا۔ (شیوا مہاراج سترہویں صدی میں مراٹھوں کا بادشاہ گزرا ہے۔ اس نے مسلم سپاہ کو شکست دے کر مراٹھہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی)۔

تاہم 1970ء تک مراٹھوں میں مہاجرین کے خلاف جذبہ سرد پڑگیا۔ چناں چہ بال ٹھاکرے ایسا طریقہ سوچنے لگا جو اس کی سیاست چمکائے رکھے اور یوں روزی روٹی کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ آخر مسلم دشمنی کی صورت اسے اپنی بقا کا راستہ مل گیا۔

یہ بال ٹھاکرے ہی ہے جس نے مئی 1970ء میں بمبئی کی مضافاتی بستی، بھیونڈی میں خوفناک ہندو مسلم فساد کرایا۔ یہ بمبئی کی تاریخ کا پہلا ہندو مسلم فساد تھا جس نے شیوسینا کو پورے بھارت میں مشہور کردیا۔ اس فساد کی داستان انتہا پسند ہندوؤں کے طریق واردات اور نفرت کی سیاست کے اندازکار کو بخوبی نمایاں کرتی ہے۔

بھیونڈی کا فساد
بیسویں صدی کے اوائل میں بھیونڈی چھوٹی سی بستی تھی۔ وہاں مسلمان اور مراٹھی ہندو آباد تھے جو مچھلیاں پکڑتے یا کھڈیوں پر کپڑا بن کر گزر اوقات کرتے ۔مغل دور میں یہ بستی ''اسلام آباد'' کہلاتی تھی۔1930ء کے بعد علاقے میں بجلی سے چلنے والی کھڈیاں لگنے لگیں، حتیٰ کہ 1970ء تک ان کی تعداد ''چالیس ہزار'' تک پہنچ گئی۔ یوں تعلقہ (تحصیل) بھیونڈی بھارت میں پاور لوم (برقی کھڈی) سیکٹر کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔ کھڈیوں کی تعداد بڑھنے سے جولاہوں کی مانگ بھی بڑھی۔ چناں چہ مختلف ریاستوں سے ہزارہا مسلمان جولاہے بھیونڈی چلے آئے۔

1970ء میں تعلقہ بھیونڈی میں تقریباً بارہ لاکھ افراد آباد تھے۔ ان میں سے 65 فیصد مسلمان تھے اور 35 فیصد ہندو۔ چالیس ہزار کھڈیوں میں سے چھبیس ہزار کے مالکان مسلمان تھے بقیہ چودہ ہزار ہندو مالکوں کی ملکیت تھیں۔ گویا بھیونڈی میں مسلمان ہر لحاظ سے قوت رکھتے تھے۔ گو وہ ایک لحاظ سے گجراتی اور ماڑواڑی ہندوؤں کے رحم و کرم پر بھی تھے کیونکہ یہی ہندو انہیں خام مال (کپڑا وغیرہ) فراہم کرتے اور تیار شدہ مال منڈیوں تک پہنچاتے تھے۔


کھڈیوں کے مسلمان مالک عموماً مسلم کاریگروں کو ہی ملازمت دیتے جو ایک لحاظ سے فطری بات ہے۔ تاہم ہندو لیڈروں کو یہ بات چبھنے لگی۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ بھارت میں ہندو زیادہ ہیں لہٰذا مسلمانوں کو ہر طرح سے محکوم بن کر رہنا چاہیے۔ چناں چہ وہ کھڈیوں کے کاروبار میں مسلمانوں کا اثرورسوخ ختم کرنے کے طریقے سوچنے لگے۔ مسلمانوں کا کاروبار تباہ کرنے کے لیے انھوں نے مذہب کا سہارا لیا،وہ یوں کہ عام ہندوؤں اور مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا کرا دیا جائے۔

مراٹھے ہندو شیومہاراج کے یوم پیدائش کو مقدس دن کی حیثیت سے مناتے ہیں۔ یہ دن ''شیوجینتی'' کہلاتا ہے۔ اس روز ہندو شیو مہاراج کا بت ایک رتھ پر رکھ کر جلوس بنائے چلتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ڈھول باجے بتاشے بجتے ہیں۔چلتے ہوئے کبھی ناچ ہوتا ہے تو کبھی گانے گائے جاتے ہیں۔ اس دوران ا یک دوسرے پر گلال (سرخ رنگ) بھی خوب پھینکا جاتا ہے۔

بھیونڈی کے ہندو 1964ء سے شیوجینتی کا جلوس نکال رہے تھے۔ تاہم مسجد کے سامنے وہ احتراماً گانے بجانے سے پرہیز کرتے، اسی لیے اکا دکا ناخوشگوار واقعات کے علاوہ کوئی نمایاں ہندو مسلم فساد جنم نہیں لے سکا۔ مگر 1970ء میں بال ٹھاکرے اوردیگر انتہا پسند ہندو لیڈروں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی خاطر شیوجینتی جلوس کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔بال ٹھاکرے نے یہ پلان بنایا کہ اس بار جلوس کے شرکا مساجد کے سامنے دانستہ رک کر خوب ڈھول باجا بجائیں، گانے گائیں، حتیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگائیں۔ ٹھاکرے کو یقین تھا کہ مسلمان اشتعال میں آکر ہندوؤں پر حملہ کردیں گے... اور وہ یہی چاہتا تھا۔

اس کا منصوبہ یہ تھا کہ شیوسینا اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کارکن پھر مسلمانوں پر خوفناک حملے کریں تاکہ انہیں سبق سکھایا جاسکے،یہی کہ وہ اقلیت میں ہیں اور انہیں ہندو کو بطور حاکم تسلیم کرنا پڑے گا! جوابی حملوں میں مسلمانوںکی سبھی کھڈیاں تباہ کرنے کا پروگرام تھا۔ یوں اس تباہی کے بعد کھڈیوں کا کاروبار مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جاتا۔ بال ٹھاکرے کے اس منصوبے کو سبھی انتہا پسند لیڈروں نے پسند کیا، چناں چہ اس پر عملدرآمد کا فیصلہ ہوگیا۔

7 مئی 1970ء کو شیوجینتی کا جلوس نکلنا تھا۔ چناں چہ شیوسینا اور دیگر انتہا پسند پارٹیاں تعلقہ بھیونڈی اور اردگرد کی تحصیلوں میں یہ پروپیگنڈا کرنے لگیں کہ ہندو دھرم کو مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے ہندو عوام سے اپیل کی کہ وہ جلوس میں جوق در جوق شرکت کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ یوں دشمن (مسلمان) دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوجائے گا۔



جلوس نکلنے سے ایک ماہ قبل شیوسینا کے رہنما اور کارکن تعلقوں کی مختلف آبادیوں میں پھیل گئے اور مسلمانوں کے خلاف دھواں دار تقریریں کیں۔ غرض انہوں نے عام ہندوؤں کے جذبات بھڑکا دیئے اور یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوا تاکہ فساد جنم لے اور انہیں معاشی طور پر مسلمانوں کی کمر توڑنے کا موقع مل جائے۔شیوسینا وغیرہ کی کوششوں کے باعث 7 مئی کی صبح بھیونڈی شہر میں چھ ہزار ہندو جمع ہوگئے۔ ان میں سے اکثر انتہا پسند تنظیموں کے کارکن تھے۔ پلان کی رو سے جلوس میں جھنڈے بکثرت تھے تاکہ بعدازاں ان کے ڈنڈوںکو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔ کئی کارکنوں نے اپنے لباس میں مٹی کے تیل کی بوتلیں چھپا رکھی تھیں۔ اسی تیل کے ذریعے مسلمانوں کی کھڈیوں کوجلانا مقصود تھا۔

منصوبے کے مطابق جلوس جیسے ہی کسی مسجد یا مسلمانوں کے محلے تک پہنچتا، نہایت بلند آواز میں ڈھول باجے بجنے لگتے۔ نوجوان ہندو دیوانہ وار ناچتے اور اس انداز میں ایک دوسرے پر گلال پھینکتے کہ وہ مسجد کی دیواروں اور اردگرد کھڑے تماشا دیکھنے والے چند مسلمانوں کے کپڑوں پر بھی گرجاتا۔ اس دوران اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے جاتے مثلاً:

٭... گلی گلی میں شور ہے، سب مسلمان چور ہے
٭... شیوسینا زندہ باد
٭... بال ٹھاکرے زندہ باد
٭... جو ہم سے ٹکرائے گا،مٹی میں مل جائے گا
٭... اعلیٰ رے اعلی، ہندو اعلیٰ، گیلارے گیلا (...فحش لفظ) گیلا
٭... مسلمان مردہ باد
٭... سڑک پر ہندو ،گلی میں ہندو، اِدھر سے ہندو، اُدھر سے ہندو
٭... ہندو دھرم کی جے

بعض نعرے اتنے فحش تھے کہ قلم انہیں لکھ نہیں پاتا۔ جلوس کی راہ میں آنے والے تمام مسلم محلوں میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کے لیڈروں نے اپنے نوجوانوں کو اشتعال میں نہیں آنے دیا۔ مساجد کے مولوی صاحبان بھی مسلمانوں کو صبر و برداشت کی تلقین کرتے رہے۔ تاہم جلوس مچھلی منڈی پہنچا تو صورت حال بدل گئی۔ وہاں آباد مسلمانوں کی اکثریت ناخواندہ تھی۔ وہ ہندوؤں کی اشتعال انگیز حرکتیں دیکھ کر غصّے میں بھرگئے۔ انہوں نے ہندوؤں کو روکنا چاہا، تو لڑائی شروع ہوگئی۔ بال ٹھاکرے اور دیگر انتہا پسند ہندو لیڈر یہی تو چاہتے تھے۔ چناںچہ آن کی آن میں معمولی جھگڑا فساد کی شکل اختیار کرگیا۔شیوسینا وغیرہ کے کارکن تو انتظار میں تھے، وہ فوراً مسلمانوں کی کھڈیوں کو آگ لگانے لگے۔ کھڈیوں میں جلد آگ پکڑنے والا کپڑا پڑا تھا۔ لہٰذا ایک دوسرے سے آگ پکڑ کر سیکڑوں کھڈیاں جلنے لگیں۔ اُدھر شیوسینا کے دہشت گرد میدان میں اترآئے۔ اگلے دو دن تک انہوں نے بھیونڈی اور متصل تحصیلوں میں ڈھائی سو سے زائد مسلمان شہید کر ڈالے جبکہ ہزارہا زخمی ہوئے۔ یہ 1969ء میں احمد آباد (گجرات) میں ہونے والے فساد کے بعد بدترین ہندو مسلم فساد تھا۔یوں شیوسینا نے بھیونڈی کے مسلمانوں کی کھڈیاں جلا کر انہیں تباہ و برباد کردیا۔ آج بھیونڈی کے ہر کاروبار پر ہندو چھائے ہوئے ہیں جبکہ مسلمان معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔1970ء کے بھیونڈی فسادات یوں اہم ہیں کہ ہندو عوام کو اپنی جانب راغب کرنے اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی خاطر دیگر انتہا پسند تنظیمیں بھی شیوسینا کی طرح اپنے مذہب کو بطور آلہ کار استعمال کرنے لگیں۔

نریندر مودی حکومت آنے کے بعد تو مسلمانوں کو محکوم اور پس ماندہ بنائے رکھنا ہندوؤں کا سرکاری ایجنڈا بن چکا ۔ قائداعظم کے دو قومی نظریے کی نفی کرنے والے پاکستانیوں کو اب تو یقین ہوجانا چاہیے کہ خدانخواستہ پاکستان وجود میں نہ آتا ،تو ممکن ہے،آج وہ ہندو اکثریت کے سائے تلے غلاموں جیسی زندگی گذار رہے ہوتے۔آزادی بہت بڑی نعمت ہے،خدارا اُس کی قدر کیجیے۔
Load Next Story