اقتصادی راہداری منصوبہ گیم چینجر ہے

امید کی جانی چاہیے کہ ملکی سیاسی قیادتیں گوادر پورٹ سے منسلک اس عظیم الشان منصوبہ کو روبہ عمل لاتے ہوئے دیکھیں گی


Editorial November 01, 2015
یہ سرمایہ کاری چین نجی شعبہ کر رہا ہے جو غیر معمولی معاشی پیش رفت ہے۔ فوٹو: فائل

NEW YORK: وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کا مستقبل ہے، اس میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے گزشتہ روز یہاں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کا جائزہ لینے سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہفتہ وار بنیادوں پر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کی رفتار کا جائزہ لیں گے جب کہ ذاتی طور پر جلد منصوبے کے مغربی روٹ کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کریں گے۔

وزیراعظم نے 46 ارب ڈالر کے مجوزہ میگا منصوبہ کو ملک کے مستقبل سے وابستہ کرتے ہوئے جن ترجیحات کا ذکر کیا ہے اگرچہ اس کے معاشی ثمرات اور سماجی اثرات و نتائج کے مثبت پہلوؤں سے کسی کو انکار نہیں ہے تاہم بلوچستان سمیت بعض ایسے سیاسی اور فنی حلقوں نے راہداری منصوبہ پر بلاجواز خدشات اور تحفظات ظاہر کیے جو منصوبہ کی اصل تفصیل سے کماحقہ واقف نہ تھے مگر حکومت مخالف مہم کے باعث تنقید برائے تنقید کا فرض نبھاتے رہے۔

کبھی تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سیاست دانوں کے ہاتھ کوئی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ آگیا ہے جس کو متنازع بنانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 12 مئی2015 ء کو اسلام آباد میں ایک کل جماعتی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا اور ان کے خدشات اور تحفظات دور کرنے کا کلی یقین دلایا۔اس ضمن میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جو راہداری منصوبہ کی نگرانی کریگی ، چین نے اس عظیم اقتصادی پیش رفت کو ''بیلٹ اینڈ روڈ'' کا نام دیا ہے جو پاکستان کے حساس صوبہ بلوچستان کی معاشی کایا پلٹ کرتے ہوئے پاکستان کی مجموعی معاشی ہیئت کی خوشگوار تبدیلی کا سنگ بنیاد رکھے گی ، جب کہ سینٹرل اور ساؤتھ ایشیا میں مواصلاتی و تجارتی وسعتوں اور توسیعی تجارت کے نئے در کھلیں گے ۔

اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بریفنگ دی جب کہ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کا مستقبل ہے، بنیادی ٹیم کے ذریعے منصوبہ جات پر پیشرفت اور عملدرآمد کی رفتار کا ذاتی طور پر جائزہ لیں گے۔ انھوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ منصوبہ کے اہداف کو ماہانہ اور سہ ماہی بنیاد پر اپ ڈیٹ کریں جس کا وزیراعظم ہفتہ وار بنیاد پر جائزہ لیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان منصوبہ جات سے ملک بھر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور اس طرح تجارت میں اضافہ ہوگا اور غربت میں کمی آئے گی۔

انھوں نے کہا کہ متعلقہ افسران اور اہلکار جو منصوبہ جات کی بروقت تکمیل کے لحاظ سے کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے، وہ ہماری ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔ بلوچستان کے بعض سینئر سیاست دانوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اس منصوبہ سے بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں بدلنا اور روٹ میں تبدیلی کر کے پنجاب کو فائدہ پہنچانا ہے، اس غلط تاثر کو مٹانے کے لیے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات احسن اقبال نے بروقت وضاحت کی کہ کوئی روٹ چینج نہیں ہوگا اور نہ ایک انچ کی اس منصوبہ میں تبدیلی ہوگی۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ سیاسی مین اسٹریم نے حکومتی یقین دہانیوں پر صاد کیا اور منصوبہ کی بلاتاخیر تکمیل کے لیے وزیراعظم نے واضح ہدایات جاری کردی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان سمیت ملکی معاشی صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکمراں غیر مکی سرمایہ کاری کے فروغ اور مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں کے لیے ملک گیر امن اور سیاسی استحکام کو یقینی بنائیں۔ ملکی ترقی کا روڈ میپ ، امن، عالمی و علاقائی اقتصادی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کو راہداری منصوبہ پسند نہیں آیا، نریندر مودی چین کے دورے میں بھی چپ نہیں رہ سکے اور انھوں نے چینی صدر جن پنگ سے شکایت کی کہ مقبوضہ کشمیر سے گزرنے والی راہداری بھارت کو قبول نہیں تاہم چین پاکستان دوستی کی استقامت، دوطرفہ اعتماد اور خطے کی اقتصادی ضروریات پر بھارت کا اعتراض بلاجواز اور قبل از مرگ واویلا ہے۔

سیفران کے وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے بھی ان خدشات کو رد کیا، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی رہنما اس حقیقت کا ادراک کریں کہ گوادر پورٹ چین ، روس اور وسط ایشیا کے ممالک سے تجارتی روابط اور معاشی ترقی کا ہب بن جائے گا ، بلوچستان کو روزگار، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے پھیلاؤ کے معاشی ثمرات ملیں گے۔عوام کا احساس محرومی کم جب کہ غربت کی شرح گھٹ جائے گی۔ یہ منصوبہ قومی ترجیحات اور عوام کی معاشی حالت بدلنے کا اہم منصوبہ ہے جس کی تکمیل تمام صوبوں کے لیے بالعموم اور بلوچستان کے لیے بالخصوص گیم چینجر ثابت ہو گی۔

امید کی جانی چاہیے کہ ملکی سیاسی قیادتیں گوادر پورٹ سے منسلک اس عظیم الشان منصوبہ کو روبہ عمل لاتے ہوئے دیکھیں گی ، اس سے خطے میں مواصلات اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی، ماضی کے گریٹ گیم کے اہم کرداروں سمیت روس ، چین رقابتوں سے نکل کر تجارتی اشتراک کے نئے بندھن میں بندھ جائیں گے، اس کثیر جہتی معاشی روٹ سے منسلک علاقوں کو نئی حیات ملے گی، عوام کو ریلیف اور مستقل روزگار کے کئی مواقع دستیاب ہونگے۔ یہ سرمایہ کاری چین نجی شعبہ کر رہا ہے جو غیر معمولی معاشی پیش رفت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔