پاک بھارت دو پڑوسی یا دو دشمن آخری حصہ
کوئی زمین ہڑپ کرنے کے لیے یا کوئی دشمنی نکالنے کے لیے مسجد سے اعلان کروا دیتا ہے
پچھلے کالم میں ہم نے سوال اٹھایا تھا کہ سول حکومتوں کی کوششوں کے باوجود، خطے میں امن قائم کیوں نہیں ہو رہا؟ جب کہ آج سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے پائیدار امن۔ دونوں ملکوں کو امن کی شدید ضرورت ہے کیونکہ غربت، پسماندگی اور دہشتگردی دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دونوں ممالک نے اس کی کوشش نہیں کی لیکن کوششوں کے نتیجے میں کبھی تاج ہوٹل کا واقعہ ہو گیا تو کبھی ''کارگل'' ہو گیا۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نواز شریف اور واجپائی کی پائیدار امن کی کوششوں کو پرویز مشرف نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر پروان نہیں چڑھنے دیا۔ سب جانتے ہیں کہ ''اصل طاقت کا سرچشمہ'' کون سی طاقتیں ہیں؟ دونوں طرف مذہبی انتہاپسندوں کا غلبہ ہے۔ دونوں ملک ایک ہی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ادھر بابری مسجد شہید کی جاتی ہے، ادھر مندروں کو آگ لگا دی جاتی ہے، بیگناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ادھر گائے کا گوشت کھانے پر انسانوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، ادھر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر لوگوں کو جلا دیا جاتا ہے۔ بالکل وہی کاربن کاپی والی صورت حال۔ کسی نے کہا کہ فلاں گھر کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہے۔ بس پلاننگ کے تحت اپنے گاڈ فادر کی ہدایت پر گھر پر دھاوا بول دیا گیا، بعد میں پتہ چلا کہ الزام غلط تھا۔
ادھر دیکھئے۔ کوئی زمین ہڑپ کرنے کے لیے یا کوئی دشمنی نکالنے کے لیے مسجد سے اعلان کروا دیتا ہے کہ فلاں نے قرآن پاک کے اوراق جلائے ہیں یا توہین رسالتؐ کا مرتکب ہوا ہے۔ ''دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی'' اور اس آگ کو ہوا دینے والے وہ طالع آزما اور لالچی لوگ ہیں، جن کا شجرۂ نسب میر جعفر و صادق سے ملتا ہے۔
جو چنگیز خان کے زندہ چوہے اور زندہ گلہریاں پکڑ کھانے کے واقعات پڑھ کر سرشار ہوتا ہے۔ یہ وہی مفاد پرست لوگ ہیں جو اپنی مدت ملازمت میں از خود توسیع کے کاغذات تیار کروا کر ''منتخب وزیر اعظم'' سے صرف انگوٹھا لگوا کر توثیق کرواتے ہیں اور جمہوریت کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ پہلے یہ سلطنت برطانیہ کے ملازم تھے اب طاقت کا مرکز سفید محل ہے، لہٰذا وہاں سے پروانے آتے ہیں اور یہ دولت و طاقت کے پجاری "Yes Sir!" کہہ کر ضرورت سے زیادہ جھک کر ان کا حکم بجا لاتے ہیں۔
ہم بہت دلیر اور باہمت قوم ہیں۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کا کیا کہنا؟ ان کا حسن کرشمہ ساز جو چاہے کرے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں، کیونکہ طاقت کا مرکز یہی ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی؟ ماشا اللہ کیا کہنا، ان کی دور اندیشی کے۔ جب روس نے بلایا تو ہم امریکا کی گود میں جا کر بیٹھ گئے اور جب چین نے دانہ ڈالا تو ہم ادھر دوڑ پڑے۔ ہماری زمین پر ایران و سعودی عرب کی جنگ بھی لڑی جائے گی، فرقہ وارانہ تصادم بھی ہو گا، لیکن ہم نہ سعودی عرب کی دوستی چھوڑنا چاہیں گے، نہ ایران سے تعلقات خراب کریں گے۔ پڑوسی ملک میں تو ''گائے'' کو مقدس درجہ حاصل ہے۔ اس لیے گؤ ماتا کی پوجا کی جاتی ہے۔
لیکن ادھر ہمارے وطن میں بھی ''مقدس گائے'' کا درجہ موجود ہے۔ کیا صدر، کیا وزیر اعظم اور کیا وزیر خزانہ اور کیا وزیر خارجہ۔ سب اس ''مقدس گائے'' کا احترام کرتے ہیں۔ بلکہ حکومتی کارندے اور ''شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار''۔ قصیدہ خوانی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں تا کہ پانچ سال پورے ہو جائیں۔ ذرا پھر تاریخ پہ نظر ڈالیے۔ سلطنتِ برطانیہ، امریکا، چین اور ہماری ''مقدس گائے''، جس کے دُم ہلانے، گردن گھمانے اور کان کھڑے کرنے کی ایک ایک حرکت پہ اقتدار کے ایوان میں بیٹھے لوگ چوکنا ہو جاتے ہیں اور ۔۔۔۔ اور پھر اچانک قصیدہ خوانی شروع ہو جاتی ہے۔ ناقابل تسخیر کے ریکارڈ بجنے لگتے ہیں۔
کرنل ٹی، ای، لارنس جسے عام طور پر ''لارنس آف عربیا' کے نام سے جانا جاتا ہے، "Seven Pillars of Wisdom" جس کی مشہور زمانہ تصنیف ہے اسے بطور خاص سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لارنس کو عربی زبان پہ عبور تھا۔ اس نے لوگوں میں نفاق پیدا کیا اور وہ سلطنت عثمانیہ جو یورپ تک پھیل گئی تھی، اس کے حصے بخرے کر دیے۔ اب اس عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کے شاندار لیکن سازشوں سے بھرے ماضی کی جھلکیاں صرف ترکی ڈراموں تک محدود رہ گئی ہیں، لیکن ایک سبق ضرور دیتی ہیں کہ کسی بھی ملک کو اپنے مضبوط دفاع کے لیے، سب سے پہلے خانہ جنگی کو روکنا ہوتا ہے۔
کرائے کے قاتلوں اور مختلف برادریوں میں نفاق ڈالنے والے عناصر کی بیخ کنی کرنی پڑتی ہے۔ سپہ سالار کسی مخصوص برادری یا مخصوص طبقے کا رکھوالا نہیں ہوتا، بلکہ اس نے مملکت سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ کسی بھی سپہ سالار کو زبان، مذہب، فرقہ اور برادری سے بالاتر ہو کر وہ اقدامات کرنے چاہئیں، جن سے ملک کی معیشت مضبوط ہو، عوام کو تحفظ کا احساس ہو اور سپہ سالار کی ٹیم کی کارکردگی سے ملک کے کسی بھی طبقے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بنگالیوں میں احساس محرومی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ کیا اب اس رہے سہے ٹکڑے میں اتنی سکت ہے کہ وہ یہاں ایک اور ''بنگلہ دیش'' بنتا دیکھ سکے؟
اسی طرح بھارت سرکار کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جب مسلمانوں سے وہاں امتیازی سلوک برتا جانے لگا، انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے تمام سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو صرف چپراسی تک محدود کر دیا گیا، ان سے ہر سطح پر ناروا سلوک کیا جانے لگا تو ''پاکستان'' وجود میں آیا۔ انھیں ناگوار بھی گزرا کہ ''بھارت ماتا'' کے ٹکڑے کر دیے۔ لیکن اس کی وجوہات سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ آج پھر وہی صورت حال ہے۔ انگریز کی پالیسی ''لڑاؤ اور حکومت کرو''۔ ہر طرف جلوہ گر ہے۔ لیکن کب تک؟ کیا مسلمانوں کے ساتھ انتہا پسندانہ سوچ اور رویے کسی ''نئے پاکستان'' کی طرف تو نہیں جا رہے؟
(ن) لیگ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سب کچھ اچھا تھا۔ نواز شریف نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن اچانک کچھ ''نادیدہ خطرناک'' قوتیں برسرِ پیکار ہو گئیں۔ وزیر اعظم بے چارے کیا کریں؟ ان کے ہاتھ تو بندھے ہوئے ہیں۔ ان کا چہرہ ضرور اس بات کا غماز نظر آتا ہے کہ وہ اس صورت حال سے سخت پریشان ہیں۔ لیکن ان کے بس میں کچھ بھی نہیں، سوائے اس درخواست کے کہ ''پانچ سال پورے کرنے ہیں''۔ آخر بدترین انتظامی امور اور کرپشن کے ایک ہزار فی صد کیسز کے باوجود پیپلز پارٹی نے بھی تو مدت ملازمت پوری کی؟ بعض صائب الرائے حضرات کا کہنا ہے کہ ''پاک چین اقتصادی راہداری'' کے منصوبے کی منظوری کے بعد بھارت سے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے ہیں۔
کیونکہ امریکا کو یہ منصوبہ منظور نہیں، جس کی اپنی وجوہات ہیں، لہٰذا اس نے بھارت کو پیچھے لگا دیا۔ دونوں ملکوں میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردی سے امریکا کیا بگڑ رہا ہے؟ برباد ہو رہے ہیں تو دونوں طرف کے عوام۔ خطے کے امن کے لیے امریکا یا چین ہمارے لیے کچھ نہیں سوچے گا، ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ لیکن ہم نہیں سوچ رہے کہ بربادی تو ہماری ہے۔ ہم اگر سوچ رہے ہیں تو یہ کہ کس طرح خلیجی ریاستوں کے شیوخ کو تلور، تیتر اور عقاب جیسے نادر پرندوں کے شکار کا اجازت نامہ سونے کی طشتری میں رکھ کر معذرت خواہانہ انداز میں پیش کیا جائے کہ حضور! دیر ہو گئی۔ اور بدلے میں ''بڑے لوگ'' سونے اور جواہرات سے نوازے جائیں۔ ماضی میں بھی حکمران ان شکاریوں کے لیے ''ریڈ کارپٹ'' خود بچھواتے تھے۔ اور فیض یاب ہوتے تھے۔
بہرحال ایک طرف دونوں ملکوں میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے لیکن دوسری جانب دونوں ملکوں کے اہل قلم ان غنڈہ عناصر کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے اعزازات واپس کر دیے ہیں۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ ثبوت دے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی ہے۔ مودی ووٹوں سے آئے ہیں، لیکن ضیا الحق ہم پر خود مسلط ہوئے تھے۔ ایجنڈا دونوں کا ایک۔ لیکن ہماری سب سے بری عادت یہ کہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ البتہ دوسروں کی آنکھوں کے تنکے گننے میں ہم ماہر ہیں۔ بہرحال خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کا عام آدمی محبت اور امن سے رہنا چاہتا ہے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم اس بات کو جانتے تو ہیں، لیکن کچھ ''مجبوریاں'' انھیں روکے رکھتی ہیں۔ کاش وہ کوئی فیصلہ خود اپنی مرضی اور خواہش سے بھی کر سکتے۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نواز شریف اور واجپائی کی پائیدار امن کی کوششوں کو پرویز مشرف نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر پروان نہیں چڑھنے دیا۔ سب جانتے ہیں کہ ''اصل طاقت کا سرچشمہ'' کون سی طاقتیں ہیں؟ دونوں طرف مذہبی انتہاپسندوں کا غلبہ ہے۔ دونوں ملک ایک ہی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ادھر بابری مسجد شہید کی جاتی ہے، ادھر مندروں کو آگ لگا دی جاتی ہے، بیگناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ادھر گائے کا گوشت کھانے پر انسانوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، ادھر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر لوگوں کو جلا دیا جاتا ہے۔ بالکل وہی کاربن کاپی والی صورت حال۔ کسی نے کہا کہ فلاں گھر کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہے۔ بس پلاننگ کے تحت اپنے گاڈ فادر کی ہدایت پر گھر پر دھاوا بول دیا گیا، بعد میں پتہ چلا کہ الزام غلط تھا۔
ادھر دیکھئے۔ کوئی زمین ہڑپ کرنے کے لیے یا کوئی دشمنی نکالنے کے لیے مسجد سے اعلان کروا دیتا ہے کہ فلاں نے قرآن پاک کے اوراق جلائے ہیں یا توہین رسالتؐ کا مرتکب ہوا ہے۔ ''دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی'' اور اس آگ کو ہوا دینے والے وہ طالع آزما اور لالچی لوگ ہیں، جن کا شجرۂ نسب میر جعفر و صادق سے ملتا ہے۔
جو چنگیز خان کے زندہ چوہے اور زندہ گلہریاں پکڑ کھانے کے واقعات پڑھ کر سرشار ہوتا ہے۔ یہ وہی مفاد پرست لوگ ہیں جو اپنی مدت ملازمت میں از خود توسیع کے کاغذات تیار کروا کر ''منتخب وزیر اعظم'' سے صرف انگوٹھا لگوا کر توثیق کرواتے ہیں اور جمہوریت کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ پہلے یہ سلطنت برطانیہ کے ملازم تھے اب طاقت کا مرکز سفید محل ہے، لہٰذا وہاں سے پروانے آتے ہیں اور یہ دولت و طاقت کے پجاری "Yes Sir!" کہہ کر ضرورت سے زیادہ جھک کر ان کا حکم بجا لاتے ہیں۔
ہم بہت دلیر اور باہمت قوم ہیں۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کا کیا کہنا؟ ان کا حسن کرشمہ ساز جو چاہے کرے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں، کیونکہ طاقت کا مرکز یہی ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی؟ ماشا اللہ کیا کہنا، ان کی دور اندیشی کے۔ جب روس نے بلایا تو ہم امریکا کی گود میں جا کر بیٹھ گئے اور جب چین نے دانہ ڈالا تو ہم ادھر دوڑ پڑے۔ ہماری زمین پر ایران و سعودی عرب کی جنگ بھی لڑی جائے گی، فرقہ وارانہ تصادم بھی ہو گا، لیکن ہم نہ سعودی عرب کی دوستی چھوڑنا چاہیں گے، نہ ایران سے تعلقات خراب کریں گے۔ پڑوسی ملک میں تو ''گائے'' کو مقدس درجہ حاصل ہے۔ اس لیے گؤ ماتا کی پوجا کی جاتی ہے۔
لیکن ادھر ہمارے وطن میں بھی ''مقدس گائے'' کا درجہ موجود ہے۔ کیا صدر، کیا وزیر اعظم اور کیا وزیر خزانہ اور کیا وزیر خارجہ۔ سب اس ''مقدس گائے'' کا احترام کرتے ہیں۔ بلکہ حکومتی کارندے اور ''شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار''۔ قصیدہ خوانی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں تا کہ پانچ سال پورے ہو جائیں۔ ذرا پھر تاریخ پہ نظر ڈالیے۔ سلطنتِ برطانیہ، امریکا، چین اور ہماری ''مقدس گائے''، جس کے دُم ہلانے، گردن گھمانے اور کان کھڑے کرنے کی ایک ایک حرکت پہ اقتدار کے ایوان میں بیٹھے لوگ چوکنا ہو جاتے ہیں اور ۔۔۔۔ اور پھر اچانک قصیدہ خوانی شروع ہو جاتی ہے۔ ناقابل تسخیر کے ریکارڈ بجنے لگتے ہیں۔
کرنل ٹی، ای، لارنس جسے عام طور پر ''لارنس آف عربیا' کے نام سے جانا جاتا ہے، "Seven Pillars of Wisdom" جس کی مشہور زمانہ تصنیف ہے اسے بطور خاص سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لارنس کو عربی زبان پہ عبور تھا۔ اس نے لوگوں میں نفاق پیدا کیا اور وہ سلطنت عثمانیہ جو یورپ تک پھیل گئی تھی، اس کے حصے بخرے کر دیے۔ اب اس عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کے شاندار لیکن سازشوں سے بھرے ماضی کی جھلکیاں صرف ترکی ڈراموں تک محدود رہ گئی ہیں، لیکن ایک سبق ضرور دیتی ہیں کہ کسی بھی ملک کو اپنے مضبوط دفاع کے لیے، سب سے پہلے خانہ جنگی کو روکنا ہوتا ہے۔
کرائے کے قاتلوں اور مختلف برادریوں میں نفاق ڈالنے والے عناصر کی بیخ کنی کرنی پڑتی ہے۔ سپہ سالار کسی مخصوص برادری یا مخصوص طبقے کا رکھوالا نہیں ہوتا، بلکہ اس نے مملکت سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ کسی بھی سپہ سالار کو زبان، مذہب، فرقہ اور برادری سے بالاتر ہو کر وہ اقدامات کرنے چاہئیں، جن سے ملک کی معیشت مضبوط ہو، عوام کو تحفظ کا احساس ہو اور سپہ سالار کی ٹیم کی کارکردگی سے ملک کے کسی بھی طبقے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بنگالیوں میں احساس محرومی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ کیا اب اس رہے سہے ٹکڑے میں اتنی سکت ہے کہ وہ یہاں ایک اور ''بنگلہ دیش'' بنتا دیکھ سکے؟
اسی طرح بھارت سرکار کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جب مسلمانوں سے وہاں امتیازی سلوک برتا جانے لگا، انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے تمام سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو صرف چپراسی تک محدود کر دیا گیا، ان سے ہر سطح پر ناروا سلوک کیا جانے لگا تو ''پاکستان'' وجود میں آیا۔ انھیں ناگوار بھی گزرا کہ ''بھارت ماتا'' کے ٹکڑے کر دیے۔ لیکن اس کی وجوہات سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ آج پھر وہی صورت حال ہے۔ انگریز کی پالیسی ''لڑاؤ اور حکومت کرو''۔ ہر طرف جلوہ گر ہے۔ لیکن کب تک؟ کیا مسلمانوں کے ساتھ انتہا پسندانہ سوچ اور رویے کسی ''نئے پاکستان'' کی طرف تو نہیں جا رہے؟
(ن) لیگ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سب کچھ اچھا تھا۔ نواز شریف نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن اچانک کچھ ''نادیدہ خطرناک'' قوتیں برسرِ پیکار ہو گئیں۔ وزیر اعظم بے چارے کیا کریں؟ ان کے ہاتھ تو بندھے ہوئے ہیں۔ ان کا چہرہ ضرور اس بات کا غماز نظر آتا ہے کہ وہ اس صورت حال سے سخت پریشان ہیں۔ لیکن ان کے بس میں کچھ بھی نہیں، سوائے اس درخواست کے کہ ''پانچ سال پورے کرنے ہیں''۔ آخر بدترین انتظامی امور اور کرپشن کے ایک ہزار فی صد کیسز کے باوجود پیپلز پارٹی نے بھی تو مدت ملازمت پوری کی؟ بعض صائب الرائے حضرات کا کہنا ہے کہ ''پاک چین اقتصادی راہداری'' کے منصوبے کی منظوری کے بعد بھارت سے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے ہیں۔
کیونکہ امریکا کو یہ منصوبہ منظور نہیں، جس کی اپنی وجوہات ہیں، لہٰذا اس نے بھارت کو پیچھے لگا دیا۔ دونوں ملکوں میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردی سے امریکا کیا بگڑ رہا ہے؟ برباد ہو رہے ہیں تو دونوں طرف کے عوام۔ خطے کے امن کے لیے امریکا یا چین ہمارے لیے کچھ نہیں سوچے گا، ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ لیکن ہم نہیں سوچ رہے کہ بربادی تو ہماری ہے۔ ہم اگر سوچ رہے ہیں تو یہ کہ کس طرح خلیجی ریاستوں کے شیوخ کو تلور، تیتر اور عقاب جیسے نادر پرندوں کے شکار کا اجازت نامہ سونے کی طشتری میں رکھ کر معذرت خواہانہ انداز میں پیش کیا جائے کہ حضور! دیر ہو گئی۔ اور بدلے میں ''بڑے لوگ'' سونے اور جواہرات سے نوازے جائیں۔ ماضی میں بھی حکمران ان شکاریوں کے لیے ''ریڈ کارپٹ'' خود بچھواتے تھے۔ اور فیض یاب ہوتے تھے۔
بہرحال ایک طرف دونوں ملکوں میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے لیکن دوسری جانب دونوں ملکوں کے اہل قلم ان غنڈہ عناصر کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے اعزازات واپس کر دیے ہیں۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ ثبوت دے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی ہے۔ مودی ووٹوں سے آئے ہیں، لیکن ضیا الحق ہم پر خود مسلط ہوئے تھے۔ ایجنڈا دونوں کا ایک۔ لیکن ہماری سب سے بری عادت یہ کہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ البتہ دوسروں کی آنکھوں کے تنکے گننے میں ہم ماہر ہیں۔ بہرحال خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کا عام آدمی محبت اور امن سے رہنا چاہتا ہے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم اس بات کو جانتے تو ہیں، لیکن کچھ ''مجبوریاں'' انھیں روکے رکھتی ہیں۔ کاش وہ کوئی فیصلہ خود اپنی مرضی اور خواہش سے بھی کر سکتے۔