زلزلوں کی زد پر…
زلزلے کے دوران ہی دو ایک قریبی لوگوں کی کالیں آئیں کہ ہم اس وقت عازم لاہور تھے
سوئے اتفاق کہ مہینہ اب بھی اکتوبر کا تھا، بنانے والوں نے مزید مشابہت پیدا کرنے کو 26 تاریخ کو بھی 2+6= 8 کہہ کر اسے مزید 8 اکتوبر 2010 ء کے زلزلے سے مماثل کہہ دیا، اپنی نوعیت کا ایک زلزلہ جس کی زیر زمین گہرائی نے قدرت کے ہاتھوں ہمیں بچا لیا ورنہ 8.1 جیسا کہ کہتے ہیں کہ اس زلزلے کی شدت تھی، اگر یہ زیر زمین اتنی گہرائی میں ہوتا جتنا کہ آٹھ اکتوبر 2010ء کو آنے والا زلزلہ تھا تو نہ اس کے بعد میں کالم لکھ سکتی اور نہ ہی آج آپ پڑھ رہے ہوتے۔
زلزلے کے دوران ہی دو ایک قریبی لوگوں کی کالیں آئیں کہ ہم اس وقت عازم لاہور تھے اور ہماری اچھی قسمت کہ موٹر وے کے سفر نے اس کا احساس بھی نہ ہونے دیا تھا، فوراً اپنے سب پیاروں کی فکر لاحق ہوئی اور پھر ہم تھے اور ہمارا فون، مگر کمال یہ ہوا کہ کسی سے رابطہ نہ ہو رہا تھا، سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ یہ کمال ہمارے فون کے نیٹ ورک کا تھا یا باقیوں کے۔ بصد فکر لاہور تک کا سفر طے کیا اور منزل پر پہنچتے ہی نہ صرف ٹیلی وژن بلکہ انٹر نیٹ بھی آن ہو گیا اور سب کی خیریت مختلف ذرائع سے چیک کی۔ فیس بک زلزلے کی خبروں اور فوٹیج سے بھری پڑی تھی اور دیار غیر سے اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کے محبت بھرے پیغامات بھی تھے... مواصلات کی دنیا میں پہنچے تو جانا کہ بہت سے فون ٹاور گر جانے کے باعث رابطے منقطع ہو گئے تھے۔
صبر سے ان رابطوں کی بحالی کا انتظار کرتے رہے۔ جب میں تمام کاموں سے فارغ ہوئی تو کافی کا مگ لے کر بیٹھ گئی، دیر سے اندر جمع غبار آنسوؤں کی صورت بہنے لگا، ٹیلی وژن پر ہر لمحے ایک، دو، چار لوگوں کی زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی اموات... تعداد بڑھتی جا رہی تھی، قدرت ہی ایسے حالات پید ا کرتی ہے کہ لمحوں میں درجنوں ، سیکڑوں یا ہزاروں افراد لقمہء اجل بن جاتے ہیں اور ہم...
وے بلھیا اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور!!! کے مصداق یہ سمجھتے ہیں کہ جو مرے ہیں صرف ان ہی کو مرنا تھا، ہم نے موت کا جام کبھی نہیں پینا ، اسی لیے تو بڑے سے بڑا سانحہ ہم کافی کا ایک مگ پی کر دل سے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے آرام اور سکھ چین کو ذرا سی ٹھیس بھی نہ پہنچے اور وہ جو پہلے ہی بارشوں اور برفباری سے ہماری دنیا سے کٹ رہے تھے انھیں زلزلے نے مزید مشکلات کا شکار کر دیا تھا، ہم اگر دکھی بھی ہوں تو اپنے آرام دہ بستروں پر لیٹ کر سوچتے ہیں کہ ہم ان کے لیے کر بھی کیا سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ مالی امداد!!
اہم شخصیات فوراً آفت زدہ علاقوں کا رخ کر لیتی ہیں اور ہر کوئی مصیبت کے ماروں کے دکھ میں '' شامل'' ہو کر ان کے مصائب میں مزید اضافہ ہی کرتا ہے کہ ان اہم شخصیات کے لیے روٹ لگتے ہیں اور اسپتالوں میں ایمر جنسی سے نمٹنے کی بجائے وی آئی پی شخصیات کے استقبال اور انھیں بریفنگ دینے کی فکر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کی بجائے ٹیلی وژن کے چینلوں پر ان کی نمائش زیادہ اہم بن جاتی ہے، کاش یہ لوگ سمجھیں کہ ان کے دورے لوگوں کے مصائب میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کرتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے ازالے یا پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے عوام لا محالہ حکومت کی طرف دیکھتے ہیں اور حکومت کسی اور کی طرف! اکتوبردو ہزار دس میں آنے والے زلزلے کے وقت میں کینیڈا میں تھی، میں نے وہاںپر فقط ٹیلی وژن چینلوں پر ہی پاکستان میں آنے والی تباہی دیکھی، بعد ازاں لگ بھگ دس ماہ کے بعد میں مظفر آباد گئی تو میں نے وہاں کا حال دیکھا، ابھی تک لوگ کھلے میدانوں میں خیموں میں رہ رہے تھے، اس قیامت خیز زلزلے کو دس برس بیت چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اب تک کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہاں پربحالی کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
اس دوران یہ تیسری حکومت ہے، مگر حالیہ حکومت کہے گی کہ یہ ان کے دور حکومت میں نہیں ہوا تھا اس لیے حکومت وقت کی ذمے داری تھی اور پچھلی حکومت کہے گی کہ ان سے پچھلی حکومت کی ذمے داری تھی۔ ہمارے ہاں تو کسی کی لاش کو اس وقت تک سڑک سے اٹھایا جاتا ہے نہ کسی تڑپتے ہوئے شخص کو طبی امداد دی جاتی ہے جب تک کہ اس کا تعین نہ ہو جائے کہ اس کا زندہ یا مردہ جسم کس تھانے کی حدود میں پڑا ہوا ہے!
کینیڈاکی حکومت، ڈاکٹروں اور عام لوگوں میں انسانیت کا جذبہ دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلی دستیاب پروازوں سے ڈاکٹروں کے گروہوں کے گروہ وہاں سے طبی امداد کا سامان لے کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے، ان میں کسی ملک کی تخصیص تھی نہ مذہب کی، ایک انسانیت کا سانجھا رشتہ تھا جس کی بنیاد پر وہ لوگ ان مصیبت زدہ علاقوں میں ان لوگوں کی مدد کرنے کے لیے پہنچے تھے جن سے ان کا کوئی تعلق تھا نہ رشتہ!! لوگ اپنے گھروں سے نکل کر بھیک کی طرح امداد مانگ رہے تھے، مختلف اہم مقامات اور سپر مارکیٹوں میںحکومت کی طرف سے بڑے بڑے ڈبے رکھے گئے تھے جن پر نوٹ لکھے تھے کہ جتنی رقم آپ اکٹھی کریں گے، حکومت اس سے دوگنا رقم اس میں شامل کر کے پاکستان میں زلزلہ زدہ علاقوں میں بھجوائے گی! اس insentive سے سب سے زیادہ جوش اور جذبہ ہماری پاکستانی کمیونٹی میں دیکھنے میں آیا، جنھوں نے اپنے اپنے خاندان کے ہر فرد کو مجبور کیا کہ وہ امداد کے ان بکسوں کو بھرنے میں ان کی مدد کریں۔
پھر سنا کہ لاکھوں ڈالروں کی یہ رقوم پاکستان بھجوائی گئیں، یہ ایک ملک کا امداد کا حصہ تھا، دنیا بھر سے عطیات اور امدادی سامان کی بھر مار ہوئی لیکن المیہ یہ ہے کہ اس میں سے کچھ متاثرہ علاقوں میں پہنچا اور کچھ... آپ یقین کریں کہ لوگوں نے بیچ کھایا، کچھ گوداموں میں چھپا لیا کہ معاملہ سرد پڑے گا تو بیچیں گے، حرام کھا کھا کر بھی لوگ کس طرح فخر سے سر تان کر چلتے ہیں، اس کی مثالیں آپ کو اس ملک میںلاکھوں مل جائیں گی۔ اب بھی میں، آپ اور ہم جیسے بہت سے لوگ عطیات دینے کو تیار ہیں، امدادی سامان بھی، دوائیں، خیمے اور کمبل بھی خرید کر دینے کو تیار ہیں مگر یہ یقین کون دلائے کہ ہماری امداد مستحق لوگوں تک پہنچے گی بھی؟
اصل ذمے داری حکومت کی ہے، اس کے محدود وسائل کو دیکھتے ہوئے کہ ان کے اپنے اللے تللے ہیں، ان کے '' اہم '' بیرونی دوروں کے خاندانوں سمیت اخراجات ہیں، انھیں وہ بھی پورے کرنا ہیں۔ ہم عام لوگ اپنے پیٹ کاٹ کر بھی ان مصیبت کے ماروں کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔
ہمارے پاس ظاہر ہے کہ ہیلی کاپٹر ہیں نہ اور ذرائع کہ ہم یہ سامان اور رقوم ان مستحقین تک پہنچائیں، اس کے لیے حکومت کے کسی ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات کی طرف مائل کریں اور اس یقین کے ساتھ کہ ان کی امداد بیچ کر بندر بانٹ نہیں کر لی جائے گی۔دکھ ہوتا ہے جب باہر بیٹھے لوگ پورے ثبوت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ہمارے وزراء اور مشیر کی سطح کے لوگ امدادی سامان کو خرد برد کرنے اور رقوم کی کرپشن میں ملوث ہیں، کیا ضمیر ہیں ہمارے، کیا کردار ہے ہمارا اور کیا تاثر ہے ہمارا دوسروں کی نظر میں!!! ہم نے اپنی لالچ کی انتہاؤں میں ایسے ایسے عملی مظاہرے کیے ہیں کہ ہم کسی سے تھوک بھی مانگیں تو وہ ہمیں نہ دے، مگر آفرین ہے۔
ان لوگوں کے جذبوں کی کہ جو پھر دامے، درمے ، سخنے اور قدمے مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہیں، مگر انھیں ضمانت چاہیے، انھیں کوئی ایماندار آدمی چاہیے جو ان کی امداد کو اس کی صحیح جگہ پر، صحیح طریقے سے پہنچائے، کیا بدقسمتی ہے ہماری کہ لوگ ہماری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح ہم اپنے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے بھکاری کے کوڑھی، اندھے، لولے یا لنگڑے ہونے کو شک سے دیکھتے ہیں اور یہی سوچتے ہیں کہ جانے وہ ہماری امداد کا مستحق ہے بھی کہ نہیں، واقعی ضرورت مند ہے بھی یا عادی بھکاری ہے اور ہر روز نئے نئے بھیس بدل کر ہم سے مانگتا ہے۔ہمارے حکمران اپنے ضمیر بیچ کر آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہیں اور وہ قرضے ایک حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل ہو جاتے ہیں مگر ان قرضوں کے بدلے میں ہماری کئی نسلیں گروی رکھی گئی ہیں۔
مسلسل مانگنے کی عادت میں مبتلا اس ملک میں حکمران طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے اور عوام غربت کی سطح سے بھی نیچے جاتے جا رہے ہیں۔ لوگ پھر بھی اپنے بہن بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہتے ہیں مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے فرائض سے پہلو تہی نہ کرے اور زلزلہ متاثرین کی امداد کو تیزی سے اور ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے، خواہ اس کے لیے انھیں ملک کے بڑے شہروں میں اپنے وہ منصوبے منسوخ یا ملتوی کرنا پڑیں جن کی ضرورت ہو نہ ہو، وہ اپنی واہ واہ کے لیے ان منصوبوں میں اربوں ڈالر کی رقوم جھونک دیتے ہیں! خدارا کچھ احساس کریں، آپ کے بے حس رویوں کے باعث آپ کے عوام کے احساسات مسلسل زلزلوں کی زد میں رہتے ہیں!