جہالت کے شیطانی سائے
ہمارے ملک میں جہالت ہونے کے باعث جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،
KARACHI:
ہمارے ملک میں جہالت ہونے کے باعث جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، گاؤں، گوٹھوں اور شہروں میں دردناک واقعات جنم لے رہے ہیں اور اپنے ہی اپنوں کا گلا کاٹ رہے ہیں، کبھی جائیداد کی خاطر تو کبھی اپنی پسند کا رشتہ نہ ملنے کے باعث، تو کبھی گول روٹی نہ پکانے کی وجہ سے معصوم بچی کو تشدد کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے۔
حال ہی کا واقعہ ہے جب 12 سالہ زینب جوکہ سیکنڈری جماعت کی طالبہ تھی اس کے بھائی اور باپ نے محض گول روٹی نہ پکانے پر جان سے مار دیا۔ اس پر اس قدر ظلم کیا گیا، بے دردی سے مارا پیٹا گیا کہ بچی اپنی جان سے چلی گئی۔ درندہ صفت بھائی نے بھی اس کارِ خیر (بربریت) میں حصہ لیا اور اپنی معصوم بہن کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت کردیا۔ اس طرح کے سنگین واقعات آئے دن منظر عام پر آتے ہیں جب زمانہ جہالت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اسلام سے پہلے کے دور میں بچیوں کو زندہ دفن کردینے کے واقعات زیادہ ہیں یا پھر آپس کی دشمنیوں کے جو طویل عرصے تک قائم رہیں۔
زن، زر، زمین کے حوالے سے آئے دن لوگ اپنے والدین، بہن، بھائی اور عزیز و اقارب کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور ایک نہیں کئی جانوں کی جان لے کر دم لیتے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھتے ہیں اور قیامت خیز منظر ہر شخص کو رلا دیتا ہے۔
جہلا کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ ہر کام بنا سوچے سمجھے اور بغیر منصوبہ بندی کے انجام دیتے ہیں اس کی اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ اپنا مقصد حاصل کرپاتا ہے بلکہ دین و دنیا کے جہنم کی آگ اس کے تن من کو جھلسا دیتی ہے۔دنیا کے جہنم سے تو اسے بعض اوقات بہت جلد آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ رشوت، سفارش اور انصاف کی پستی ہے، جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک بار پھر وہ جرائم کی دنیا میں تندہی کے ساتھ اپنے منفی کاموں میں لگ جاتا ہے اور قتل و غارت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے اگر پکڑا گیا تو پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے، یا تو ساری عمر کے لیے وہ جیل کا مکین بن جاتا ہے یا پھر تختہ دار اس کی عبرتناک زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے۔
مرنے کے بعد اسے ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلنے کے لیے ڈال دیا جاتا ہے کہ قاتل کی کوئی معافی نہیں ہے، گویا مکافات عمل کا سامنا ہر اس شخص کو دونوں جہانوں میں کرنا پڑتا ہے، جس نے ساری زندگی لوگوں کے حقوق غصب کرنے اور انھیں ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچانے میں گزاردی۔ مجھے ایک معصوم بچے کی موت کا واقعہ اس وقت یاد آگیا، حال ہی میں میری نگاہ سے یہ تکلیف دہ قصہ گزرا تھا۔
خان پور صدیق اکبر کالونی کے رہائشی سمیع اللہ خان کے پانچ سالہ بیٹے احمد سمیع کو ملزمان محمد اکبر اور عبدالغفور نے کھیتوں میں لے جاکر پتھر کی ضرب سے جان سے ماردیا، یہ دونوں درندہ صفت انسان بھی اسی علاقے کے مکین تھے اسی لیے مدرسے سے واپس آتے ہوئے بچے کو اپنے ساتھ لے گئے، بچہ چونکہ محلے دار ہونے کے ناتے ان خبیث بڈھوں کے ساتھ چل دیا، یہ مکروہ چہرے والے لوگ پہلے ننھے طالب علم احمد سمیع کو اپنے گھر لے گئے اور پھر کھیتوں میں لے جاکر اپنے مقصد کے حصول کے لیے معصوم پھول جیسے بچے کو اذیت دے کر جنت کے خوشنما باغوں میں پہنچا دیا، بچے کے والدین اپنے گھر میں کھلنے والے پھول کو مرجھایا دیکھ کر جیتے جی مرگئے اور یہ دونوں پکڑے گئے۔
تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اس سانحے سے قبل بھی محمد اکبر ایک اور بچے کو قتل کرچکا ہے اور پانچ سال سزا بھی بھگتی ہے، قتل کرنے کی وجوہات مرکزی ملزم محمد اکبر نے یہ بتائیں کہ اسے گزرے سال اور موجودہ سال خواب دکھائی دیے کہ کسی نے اس سے کہا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر گناہوں میں مبتلا ہوجائے گا اسے قتل کردو لہٰذا اس نے ثواب کا کام کر ڈالا اور پہلا قتل اس کے کھاتے میں چلا گیا، دوسرا قتل اس نے احمد سمیع کا کیا کہ جیل سے چھوٹنے کے بعد پھر اس نے خواب دیکھا کہ اگر روحانیت کے خواہشمند ہو تو چھ بچوں کا قتل اور کرو۔ ملزم کے کہنے کے مطابق اس نے ایسا ہی کیا اور جیل سے آنے کے بعد 5 ننھی بے خطا جانوں کا وہ مزید قتل کرے گا، تب اس کی سوچ اور خواب کے مطابق وہ کوئی پہنچا ہوا بزرگ بن سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ٹھیک طرح سے سن نہ سکا۔ ورنہ روحانیت کے بجائے شیطانیت کہا ہوگا۔
اب اس سے زیادہ جہالت کی کوئی اور مثال ہوسکتی ہے کیا؟ روشنی کا دیا بجھانے کے بعد روشنی کی توقع؟ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے سالک کے مرتبے پر پہنچنے کی امید؟ یہ کس قدر شقی القلب اور پھٹکار زدہ لوگ ہیں، جنھیں عقل و شعور چھو کر نہیں گزری، ویسے اگر سوچا جائے تو یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے درندگی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ماضی کے لرزہ خیز واقعے کو بھی فراموش کرنا انسانی دماغ کے لیے ناممکن ہے اس واقعے کا تعلق بھی پنجاب سے ہے جب رانا عدنان نامی بدقماش، نافرمان، پتھر دل رکھنے والے نوجوان نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر اپنی ماں، بہن، بھائیوں کو جان سے مارنے کا منصوبہ بنایا، منصوبے کی بنیاد اس کے باپ نے رکھی تھی، پھر اپنے بیٹے کو بھی شریک کرلیا۔
جائیداد کی ہوس اور تمام مال و اسباب کو ہتھیانے کی طلب نے رانا عدنان کو جو رقص و موسیقی اور ام الخبائث کا دلدادہ تھا، دل دہلانے والی داستان کو اپنے ہاتھوں رقم کیا۔ سیاہی کی جگہ اپنوں کا لہو تھا، کلہاڑی کے وار نے خون کا دریا بہادیا تھا، لاشوں کو بھی ٹھکانے لگانے کے لیے سات قبریں پہلے ہی سے کھود دی گئی تھیں، ملزم کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بہن بھائیوں کو بڑے سکون سے موت کا زہر پلادیا، لیکن ماں کو جب مارنے کے لیے ہتھیار اٹھایا تو اس نے اچانک آنکھیں کھول دیں، وہ ایک لمحے کے لیے گڑبڑایا لیکن جلد ہی کلہاڑی پر گرفت مضبوط کرلی اور اس کا کام تمام کردیا۔ یہ وہی ماں تھی ۔
جس نے اس گوشت کے لوتھڑے کی جو اس کے بیٹے کی شکل میں تھا پرورش کی تھی، وہ ماں کا مان تھا، اس کا غرور تھا، وہ نرینہ اولاد تھا، روایت کے مطابق اس کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہوگا، راتوں کی نیندیں حرام کی ہوں گی، دن کا چین گنوایا ہوگا، اسے کیا معلوم تھا کہ یہی بیٹا اس کی سانسیں روکنے اور خون میں نہلانے کا سبب بنے گا۔ محض تعیشات زندگی کے لیے اپنی زیست کے ہر پل کو رنگین بنانے کے لیے اپنی جنت کو کھو دے گا۔ ماں پھر ماں ہوتی ہے، بہت بڑے دل کی مالک اولاد کے لیے جیتی ہے اور اولاد کے لیے مرتی ہے، ہر دکھ ہر غم برداشت کرلیتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پڑھنے پر معمور کریں، اچھی باتوں کی ترغیب دیں ہر لمحہ اس کی تعلیم و تربیت میں گزاریں اور ننھے بچوں کے ساتھ سائے کی طرح ساتھ رہیں، تب کوئی ان بچوں کو نہ ورغلا سکے گا اور نہ اسے موقع ملے گا کہ انسانیت کا جبہ پہن کر دھوکا دے سکے۔
ہمارے ملک میں جہالت ہونے کے باعث جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، گاؤں، گوٹھوں اور شہروں میں دردناک واقعات جنم لے رہے ہیں اور اپنے ہی اپنوں کا گلا کاٹ رہے ہیں، کبھی جائیداد کی خاطر تو کبھی اپنی پسند کا رشتہ نہ ملنے کے باعث، تو کبھی گول روٹی نہ پکانے کی وجہ سے معصوم بچی کو تشدد کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے۔
حال ہی کا واقعہ ہے جب 12 سالہ زینب جوکہ سیکنڈری جماعت کی طالبہ تھی اس کے بھائی اور باپ نے محض گول روٹی نہ پکانے پر جان سے مار دیا۔ اس پر اس قدر ظلم کیا گیا، بے دردی سے مارا پیٹا گیا کہ بچی اپنی جان سے چلی گئی۔ درندہ صفت بھائی نے بھی اس کارِ خیر (بربریت) میں حصہ لیا اور اپنی معصوم بہن کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت کردیا۔ اس طرح کے سنگین واقعات آئے دن منظر عام پر آتے ہیں جب زمانہ جہالت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اسلام سے پہلے کے دور میں بچیوں کو زندہ دفن کردینے کے واقعات زیادہ ہیں یا پھر آپس کی دشمنیوں کے جو طویل عرصے تک قائم رہیں۔
زن، زر، زمین کے حوالے سے آئے دن لوگ اپنے والدین، بہن، بھائی اور عزیز و اقارب کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور ایک نہیں کئی جانوں کی جان لے کر دم لیتے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھتے ہیں اور قیامت خیز منظر ہر شخص کو رلا دیتا ہے۔
جہلا کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ ہر کام بنا سوچے سمجھے اور بغیر منصوبہ بندی کے انجام دیتے ہیں اس کی اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ اپنا مقصد حاصل کرپاتا ہے بلکہ دین و دنیا کے جہنم کی آگ اس کے تن من کو جھلسا دیتی ہے۔دنیا کے جہنم سے تو اسے بعض اوقات بہت جلد آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ رشوت، سفارش اور انصاف کی پستی ہے، جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک بار پھر وہ جرائم کی دنیا میں تندہی کے ساتھ اپنے منفی کاموں میں لگ جاتا ہے اور قتل و غارت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے اگر پکڑا گیا تو پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے، یا تو ساری عمر کے لیے وہ جیل کا مکین بن جاتا ہے یا پھر تختہ دار اس کی عبرتناک زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے۔
مرنے کے بعد اسے ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلنے کے لیے ڈال دیا جاتا ہے کہ قاتل کی کوئی معافی نہیں ہے، گویا مکافات عمل کا سامنا ہر اس شخص کو دونوں جہانوں میں کرنا پڑتا ہے، جس نے ساری زندگی لوگوں کے حقوق غصب کرنے اور انھیں ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچانے میں گزاردی۔ مجھے ایک معصوم بچے کی موت کا واقعہ اس وقت یاد آگیا، حال ہی میں میری نگاہ سے یہ تکلیف دہ قصہ گزرا تھا۔
خان پور صدیق اکبر کالونی کے رہائشی سمیع اللہ خان کے پانچ سالہ بیٹے احمد سمیع کو ملزمان محمد اکبر اور عبدالغفور نے کھیتوں میں لے جاکر پتھر کی ضرب سے جان سے ماردیا، یہ دونوں درندہ صفت انسان بھی اسی علاقے کے مکین تھے اسی لیے مدرسے سے واپس آتے ہوئے بچے کو اپنے ساتھ لے گئے، بچہ چونکہ محلے دار ہونے کے ناتے ان خبیث بڈھوں کے ساتھ چل دیا، یہ مکروہ چہرے والے لوگ پہلے ننھے طالب علم احمد سمیع کو اپنے گھر لے گئے اور پھر کھیتوں میں لے جاکر اپنے مقصد کے حصول کے لیے معصوم پھول جیسے بچے کو اذیت دے کر جنت کے خوشنما باغوں میں پہنچا دیا، بچے کے والدین اپنے گھر میں کھلنے والے پھول کو مرجھایا دیکھ کر جیتے جی مرگئے اور یہ دونوں پکڑے گئے۔
تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اس سانحے سے قبل بھی محمد اکبر ایک اور بچے کو قتل کرچکا ہے اور پانچ سال سزا بھی بھگتی ہے، قتل کرنے کی وجوہات مرکزی ملزم محمد اکبر نے یہ بتائیں کہ اسے گزرے سال اور موجودہ سال خواب دکھائی دیے کہ کسی نے اس سے کہا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر گناہوں میں مبتلا ہوجائے گا اسے قتل کردو لہٰذا اس نے ثواب کا کام کر ڈالا اور پہلا قتل اس کے کھاتے میں چلا گیا، دوسرا قتل اس نے احمد سمیع کا کیا کہ جیل سے چھوٹنے کے بعد پھر اس نے خواب دیکھا کہ اگر روحانیت کے خواہشمند ہو تو چھ بچوں کا قتل اور کرو۔ ملزم کے کہنے کے مطابق اس نے ایسا ہی کیا اور جیل سے آنے کے بعد 5 ننھی بے خطا جانوں کا وہ مزید قتل کرے گا، تب اس کی سوچ اور خواب کے مطابق وہ کوئی پہنچا ہوا بزرگ بن سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ٹھیک طرح سے سن نہ سکا۔ ورنہ روحانیت کے بجائے شیطانیت کہا ہوگا۔
اب اس سے زیادہ جہالت کی کوئی اور مثال ہوسکتی ہے کیا؟ روشنی کا دیا بجھانے کے بعد روشنی کی توقع؟ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے سالک کے مرتبے پر پہنچنے کی امید؟ یہ کس قدر شقی القلب اور پھٹکار زدہ لوگ ہیں، جنھیں عقل و شعور چھو کر نہیں گزری، ویسے اگر سوچا جائے تو یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے درندگی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ماضی کے لرزہ خیز واقعے کو بھی فراموش کرنا انسانی دماغ کے لیے ناممکن ہے اس واقعے کا تعلق بھی پنجاب سے ہے جب رانا عدنان نامی بدقماش، نافرمان، پتھر دل رکھنے والے نوجوان نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر اپنی ماں، بہن، بھائیوں کو جان سے مارنے کا منصوبہ بنایا، منصوبے کی بنیاد اس کے باپ نے رکھی تھی، پھر اپنے بیٹے کو بھی شریک کرلیا۔
جائیداد کی ہوس اور تمام مال و اسباب کو ہتھیانے کی طلب نے رانا عدنان کو جو رقص و موسیقی اور ام الخبائث کا دلدادہ تھا، دل دہلانے والی داستان کو اپنے ہاتھوں رقم کیا۔ سیاہی کی جگہ اپنوں کا لہو تھا، کلہاڑی کے وار نے خون کا دریا بہادیا تھا، لاشوں کو بھی ٹھکانے لگانے کے لیے سات قبریں پہلے ہی سے کھود دی گئی تھیں، ملزم کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بہن بھائیوں کو بڑے سکون سے موت کا زہر پلادیا، لیکن ماں کو جب مارنے کے لیے ہتھیار اٹھایا تو اس نے اچانک آنکھیں کھول دیں، وہ ایک لمحے کے لیے گڑبڑایا لیکن جلد ہی کلہاڑی پر گرفت مضبوط کرلی اور اس کا کام تمام کردیا۔ یہ وہی ماں تھی ۔
جس نے اس گوشت کے لوتھڑے کی جو اس کے بیٹے کی شکل میں تھا پرورش کی تھی، وہ ماں کا مان تھا، اس کا غرور تھا، وہ نرینہ اولاد تھا، روایت کے مطابق اس کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہوگا، راتوں کی نیندیں حرام کی ہوں گی، دن کا چین گنوایا ہوگا، اسے کیا معلوم تھا کہ یہی بیٹا اس کی سانسیں روکنے اور خون میں نہلانے کا سبب بنے گا۔ محض تعیشات زندگی کے لیے اپنی زیست کے ہر پل کو رنگین بنانے کے لیے اپنی جنت کو کھو دے گا۔ ماں پھر ماں ہوتی ہے، بہت بڑے دل کی مالک اولاد کے لیے جیتی ہے اور اولاد کے لیے مرتی ہے، ہر دکھ ہر غم برداشت کرلیتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پڑھنے پر معمور کریں، اچھی باتوں کی ترغیب دیں ہر لمحہ اس کی تعلیم و تربیت میں گزاریں اور ننھے بچوں کے ساتھ سائے کی طرح ساتھ رہیں، تب کوئی ان بچوں کو نہ ورغلا سکے گا اور نہ اسے موقع ملے گا کہ انسانیت کا جبہ پہن کر دھوکا دے سکے۔