کیا دن تھے
م لیگ نے پاکستان کا نعرہ لگا کر مسلمان امیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا کیا تھا۔
NEW DEHLI:
1964 کے تاریخ ساز الیکشن میں یوپی کے ایک انتخابی حلقے سے کانگریس نے مسلم لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں ایک مقامی کانگریسی مسلمان لیڈر قاضی عدیل عباسی کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ ان کے چھوٹے بھائی قاضی جلیل عباسی ان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ایک جلسے میں انھوں نے قائداعظم کی تصویر دکھا کر مسلمانوں کو سمجھانا چاہا کہ جناح صاحب کے داڑھی نہیں ہے، وہ بالکل انگریز کی طرح رہتے ہیں، ان کو نماز روزے سے کوئی سروکار نہیں، ان کی بیوی پارسی ہے۔ اس کے برعکس انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ ایک عالم دین ہیں، ہندوستان کے علما میں ان کا بلند مقام ہے، کلکتہ میں عید کی نماز کھلے میدان میں جہاں لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے مولانا ہی پڑھاتے ہیں۔
قاضی جلیل جب یہ کہہ رہے تھے تو مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور بولا ''صاحب! جھوٹ کیوں بولتے ہو، توبہ توبہ۔ مولانا جناح صاحب کے بارے میں ایسی بات کہتے ہو۔ ان کے پیچھے تو میں نے خود نماز پڑھی ہے اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر وہ ہے جو آپ جناح صاحب کی بتا رہے ہو، آخر دھوکا کیوں دیتے ہو؟'' جلیل عباسی اس کا منہ تکتے رہ گئے اور مجمع نے اس کی خوب واہ واہ کی کہ کیا صحیح جواب دیا۔
قاضی جلیل عباسی نے اپنی خودنوشت سوانح عمری ''کیا دن تھے'' میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے مسلم لیگ نے پاکستان کا نعرہ لگا کر مسلمان امیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا کیا تھا۔ کانگریس کے زیادہ تر امیدوار ہار گئے اور مسلم لیگ بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ اس سے پاکستان کے مطالبے کو بڑی تقویت حاصل ہوئی اور ملک تقسیم ہوگیا۔
ان کو اپنی سوانح حیات لکھنے کا مشورہ ان کے بھائی نے یہ کہہ کر دیا تھا، ''جلیل! تمہاری زندگی ہنگاموں سے بھری ہوئی ہے اس کی داستان لکھ ڈالو۔''
جلیل عباسی کا یوپی کے مشہور ضلع بستی سے تعلق تھا۔ لکھتے ہیں ''میرے گھر کا ماحول خالص دینی تھا مگر جب میں سات آٹھ برس کا ہوا تو گھر میں سیاسی رنگ بھی نظر آنے لگا۔ تحریک خلافت چل رہی تھی، گھر میں ایک بہن چرخہ چلاتی تھیں۔ دین و مذہب کی باتوں کے ساتھ ساتھ انگریز کی مخالفت کے تذکرے بھی کانوں میں پڑ رہے تھے۔''
جلیل کے والد درویش صفت انسان تھے۔ جو زمین پاس تھی وہ ضرورت کے لیے کافی تھی۔ گھر میں فارغ البالی تھی۔ جلیل چھ بھائی اور تین بہنیں تھے اور یہ سب سے چھوٹے تھے۔
ان کی ہنگامہ آرا زندگی کا آغاز آٹھویں جماعت سے ہوا جب انھوں نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسکول کے ہوسٹل میں اذان دے کر نماز پڑھنی چاہی۔ ہیڈ ماسٹر نے اجازت نہیں دی۔ انھوں نے اسکول میں اسٹرائیک کرادی۔ اجازت مل گئی۔ نویں میں آئے تو اسپورٹس کے بارے میں طلبا میں خفگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ انھوں نے اسکول میں ہڑتال کرادی۔ وہ بتاتے ہیں ان کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا جب انھوں نے طلبا کے کسی ایجی ٹیشن کی قیادت کی۔ ان کے انگریزی کے ٹیچر نے کہا ''جلیل! تم اسکول میں تاریخ بنا رہے ہو'' مگر ساتھ ساتھ انھوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ تعلیم ضروری ہے اس کا خیال رکھنا۔ لکھتے ہیں ''مجھے افسوس ہے میں نے ان کی ہدایت پر توجہ نہیں دی۔ میری طالب علمی کی زندگی ہنگاموں کا شکار ہوتی رہی اور اعلیٰ تعلیم کا تسلسل ٹوٹتا رہا۔''
میٹرک پاس کرنے کے بعد جلیل علی گڑھ پڑھنے چلے گئے۔ پروفیسر حبیب کی مدد سے ان کا فوراً داخلہ ہوگیا اور نصراللہ ہوسٹل میں کمرہ مل گیا۔ اختر انصاری ان کے روم میٹ تھے۔ دوسرے سال یہ نصراللہ ہوسٹل سے ممتاز ہاؤس منتقل ہوگئے۔ یہاں آنے کے بعد انھیں تعلیم سے زیادہ سیاست کا شوق ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں ایک نئے موڑ پر آگئی تھیں، طلبا میں بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی۔ جلیل کا رجحان آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف تھا جو کانگریس سے ہم آہنگ تھی۔ یہاں انھیں بہت جلد ایک میدان عمل مل گیا۔
یونیورسٹی یونین کے الیکشن میں جس میں ملکی سیاست کا دخل نہیں ہوتا تھا، نعمان زبیری سیکریٹری کے عہدے کے لیے کھڑے ہوئے۔ وہ ہر طرح اس عہدے کے لیے موزوں تھے مگر اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے طلبا نے ان کے خلاف ایک اور طالب علم کو کھڑا کیا اور وہ جیت گیا۔ اس میں جلیل کا بڑا کردار تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ الیکشن میری زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔'' بالآخر انھیں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے نکال دیا گیا۔
فوری وجہ یہ ہوئی کہ انھوں نے شہر میں کانگریس کی حمایت سے کھڑے ہونے والے ایک امیدوار کے حق میں الیکشن کے دوران ہنگامہ آرائی کی، وہ اپنے ساتھیوں کو جن میں خلیل الرب، صدیق، قاضی یونس اور حامد زبیری شامل تھے لے کر بالائے قلعہ مسجد میں پہنچے، اور جب وہاں تقریر نہیں کرنے دی گئی تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر دھواں دھار تقریر کر ڈالی، پھر جب وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین آئے تو ان کو گالیاں دے ڈالیں۔ ہذیانی کیفیت میں بے ہوش ہوگئے، ڈاکٹر صاحب ان کو اپنی موٹر میں ڈال کر یونیورسٹی کے اسپتال لے گئے۔
علی گڑھ چھوڑنے کے بعد جلیل عباسی کا جو حال تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''کم سے کم تین چار سال تک میں اسی طرح مجنوں بنا گھومتا رہا۔ نہ کھانے کی فکر تھی اور نہ پہننے کی۔ جیب ہمیشہ خالی رہا کرتی تھی مگر یہ احساس ہی نہیں تھا کہ انسان کو پیسہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں جو کچھ ملا کھا لیا، جہاں جگہ ملی دراز ہوگیا۔ اکثر دوستوں کے ڈرائنگ روم میں زمین پر پڑے قالین پر سویا ہوں، اس طرح دن گزرتے چلے گئے اور میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا۔ بالآخر لکھنو آکر جم گیا۔''
علی سردار جعفری دہلی میں تھے۔ وہ ان کو لے آئے عربک کالج میں داخلے کے لیے تاکہ یہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں۔ یہ ان ہی کے ساتھ ان کے کمرے میں رہے مگر تعلیم یہاں بھی مکمل نہ کرسکے۔ اسی دوران ان کی شادی بھی ہوگئی اگرچہ یہ تمام گھریلو ذمے داریوں سے آزاد رہے۔ 1940 میں انفرادی ستیہ گرہ کی مہم شروع ہوئی اور کانگریسیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ چلا۔ جلیل بھی گرفتار ہوئے اور جیل گئے۔ جیل میں ایک بار چند دن کے لیے قید تنہائی کی سزا بھی بھگتی۔ جیل سے نکلے تو یہ اور سردار جعفری لکھنو میں پھر اکٹھے ہوگئے، جعفری نے لکھنو یونیورسٹی میں ایم اے میں اور جلیل نے ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا۔
کیفی اعظمی سے جلیل عباسی کی ملاقات کانپور میں 1943 میں ہوئی اس وقت تک جلیل کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوچکے تھے جس کی تحریک جیل میں علی سردار جعفری کے ساتھ رہنے کے دوران ہوئی تھی۔ لکھتے ہیں ''اس وقت کیفی کا حلیہ یہ تھا کہ جسم پر میلا کھدر کا کرتا پاجامہ، پاؤں میں کثیف چپل، سر پر بڑے بڑے بال اور جیب میں بیڑی اور دیا سلائی۔''
جلیل کیفی کو لکھنو لے آئے۔ وہاں کیفی کی ملاقات جلیل کے کمیونسٹ ساتھیوں سے ہوئی، جنھوں نے انھیں بمبئی بھیج دیا۔ بمبئی میں کیفی خوب چمکے۔ جلیل کے ساتھ پھر یہ ہوا کہ ان کے دل میں کمیونسٹوں کے خلاف بدگمانی پیدا ہوگئی اور 1946 میں جب کمیونسٹوں نے کانگریس کے خلاف مسلم لیگ کے موقف کی حمایت شروع کی تو جلیل عباسی نے کمیونسٹ پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ اب وہ خالصتاً کانگریسی تھے اور اس کے سرگرم کارکن۔ اسی سال وہ صوبہ کانگریس کمیٹی کے ممبر بن گئے۔ باقاعدہ کانگریسی لیڈر بن گئے۔
1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ایسا ہنگامہ برپا ہوا جیسے کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہو۔ فرقہ واریت اپنے شباب پر تھی۔ ٹرینیں روک کر اور مسلمانوں کو تلاش کرکے بے رحمی سے مارا جا رہا تھا۔ یہ سارا ظلم ہندو کر رہے تھے، کانگریسی اور غیر کانگریسی کی کوئی تشخیص نہیں تھی۔ جلیل عباسی پہلے مسلمان تھے اور پھر کانگریسی۔ انھیں اس صورتحال پر دکھ تو بہت تھا لیکن اس کا ذمے دار وہ مسلم لیگ کو قرار دیتے ہیں۔جلیل بعد میں یوپی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، صوبائی وزارت میں شامل ہوئے۔ راجیو گاندھی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے۔
1964 کے تاریخ ساز الیکشن میں یوپی کے ایک انتخابی حلقے سے کانگریس نے مسلم لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں ایک مقامی کانگریسی مسلمان لیڈر قاضی عدیل عباسی کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ ان کے چھوٹے بھائی قاضی جلیل عباسی ان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ایک جلسے میں انھوں نے قائداعظم کی تصویر دکھا کر مسلمانوں کو سمجھانا چاہا کہ جناح صاحب کے داڑھی نہیں ہے، وہ بالکل انگریز کی طرح رہتے ہیں، ان کو نماز روزے سے کوئی سروکار نہیں، ان کی بیوی پارسی ہے۔ اس کے برعکس انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ ایک عالم دین ہیں، ہندوستان کے علما میں ان کا بلند مقام ہے، کلکتہ میں عید کی نماز کھلے میدان میں جہاں لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے مولانا ہی پڑھاتے ہیں۔
قاضی جلیل جب یہ کہہ رہے تھے تو مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور بولا ''صاحب! جھوٹ کیوں بولتے ہو، توبہ توبہ۔ مولانا جناح صاحب کے بارے میں ایسی بات کہتے ہو۔ ان کے پیچھے تو میں نے خود نماز پڑھی ہے اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر وہ ہے جو آپ جناح صاحب کی بتا رہے ہو، آخر دھوکا کیوں دیتے ہو؟'' جلیل عباسی اس کا منہ تکتے رہ گئے اور مجمع نے اس کی خوب واہ واہ کی کہ کیا صحیح جواب دیا۔
قاضی جلیل عباسی نے اپنی خودنوشت سوانح عمری ''کیا دن تھے'' میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے مسلم لیگ نے پاکستان کا نعرہ لگا کر مسلمان امیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا کیا تھا۔ کانگریس کے زیادہ تر امیدوار ہار گئے اور مسلم لیگ بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ اس سے پاکستان کے مطالبے کو بڑی تقویت حاصل ہوئی اور ملک تقسیم ہوگیا۔
ان کو اپنی سوانح حیات لکھنے کا مشورہ ان کے بھائی نے یہ کہہ کر دیا تھا، ''جلیل! تمہاری زندگی ہنگاموں سے بھری ہوئی ہے اس کی داستان لکھ ڈالو۔''
جلیل عباسی کا یوپی کے مشہور ضلع بستی سے تعلق تھا۔ لکھتے ہیں ''میرے گھر کا ماحول خالص دینی تھا مگر جب میں سات آٹھ برس کا ہوا تو گھر میں سیاسی رنگ بھی نظر آنے لگا۔ تحریک خلافت چل رہی تھی، گھر میں ایک بہن چرخہ چلاتی تھیں۔ دین و مذہب کی باتوں کے ساتھ ساتھ انگریز کی مخالفت کے تذکرے بھی کانوں میں پڑ رہے تھے۔''
جلیل کے والد درویش صفت انسان تھے۔ جو زمین پاس تھی وہ ضرورت کے لیے کافی تھی۔ گھر میں فارغ البالی تھی۔ جلیل چھ بھائی اور تین بہنیں تھے اور یہ سب سے چھوٹے تھے۔
ان کی ہنگامہ آرا زندگی کا آغاز آٹھویں جماعت سے ہوا جب انھوں نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسکول کے ہوسٹل میں اذان دے کر نماز پڑھنی چاہی۔ ہیڈ ماسٹر نے اجازت نہیں دی۔ انھوں نے اسکول میں اسٹرائیک کرادی۔ اجازت مل گئی۔ نویں میں آئے تو اسپورٹس کے بارے میں طلبا میں خفگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ انھوں نے اسکول میں ہڑتال کرادی۔ وہ بتاتے ہیں ان کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا جب انھوں نے طلبا کے کسی ایجی ٹیشن کی قیادت کی۔ ان کے انگریزی کے ٹیچر نے کہا ''جلیل! تم اسکول میں تاریخ بنا رہے ہو'' مگر ساتھ ساتھ انھوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ تعلیم ضروری ہے اس کا خیال رکھنا۔ لکھتے ہیں ''مجھے افسوس ہے میں نے ان کی ہدایت پر توجہ نہیں دی۔ میری طالب علمی کی زندگی ہنگاموں کا شکار ہوتی رہی اور اعلیٰ تعلیم کا تسلسل ٹوٹتا رہا۔''
میٹرک پاس کرنے کے بعد جلیل علی گڑھ پڑھنے چلے گئے۔ پروفیسر حبیب کی مدد سے ان کا فوراً داخلہ ہوگیا اور نصراللہ ہوسٹل میں کمرہ مل گیا۔ اختر انصاری ان کے روم میٹ تھے۔ دوسرے سال یہ نصراللہ ہوسٹل سے ممتاز ہاؤس منتقل ہوگئے۔ یہاں آنے کے بعد انھیں تعلیم سے زیادہ سیاست کا شوق ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں ایک نئے موڑ پر آگئی تھیں، طلبا میں بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی۔ جلیل کا رجحان آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف تھا جو کانگریس سے ہم آہنگ تھی۔ یہاں انھیں بہت جلد ایک میدان عمل مل گیا۔
یونیورسٹی یونین کے الیکشن میں جس میں ملکی سیاست کا دخل نہیں ہوتا تھا، نعمان زبیری سیکریٹری کے عہدے کے لیے کھڑے ہوئے۔ وہ ہر طرح اس عہدے کے لیے موزوں تھے مگر اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے طلبا نے ان کے خلاف ایک اور طالب علم کو کھڑا کیا اور وہ جیت گیا۔ اس میں جلیل کا بڑا کردار تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ الیکشن میری زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔'' بالآخر انھیں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے نکال دیا گیا۔
فوری وجہ یہ ہوئی کہ انھوں نے شہر میں کانگریس کی حمایت سے کھڑے ہونے والے ایک امیدوار کے حق میں الیکشن کے دوران ہنگامہ آرائی کی، وہ اپنے ساتھیوں کو جن میں خلیل الرب، صدیق، قاضی یونس اور حامد زبیری شامل تھے لے کر بالائے قلعہ مسجد میں پہنچے، اور جب وہاں تقریر نہیں کرنے دی گئی تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر دھواں دھار تقریر کر ڈالی، پھر جب وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین آئے تو ان کو گالیاں دے ڈالیں۔ ہذیانی کیفیت میں بے ہوش ہوگئے، ڈاکٹر صاحب ان کو اپنی موٹر میں ڈال کر یونیورسٹی کے اسپتال لے گئے۔
علی گڑھ چھوڑنے کے بعد جلیل عباسی کا جو حال تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''کم سے کم تین چار سال تک میں اسی طرح مجنوں بنا گھومتا رہا۔ نہ کھانے کی فکر تھی اور نہ پہننے کی۔ جیب ہمیشہ خالی رہا کرتی تھی مگر یہ احساس ہی نہیں تھا کہ انسان کو پیسہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں جو کچھ ملا کھا لیا، جہاں جگہ ملی دراز ہوگیا۔ اکثر دوستوں کے ڈرائنگ روم میں زمین پر پڑے قالین پر سویا ہوں، اس طرح دن گزرتے چلے گئے اور میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا۔ بالآخر لکھنو آکر جم گیا۔''
علی سردار جعفری دہلی میں تھے۔ وہ ان کو لے آئے عربک کالج میں داخلے کے لیے تاکہ یہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں۔ یہ ان ہی کے ساتھ ان کے کمرے میں رہے مگر تعلیم یہاں بھی مکمل نہ کرسکے۔ اسی دوران ان کی شادی بھی ہوگئی اگرچہ یہ تمام گھریلو ذمے داریوں سے آزاد رہے۔ 1940 میں انفرادی ستیہ گرہ کی مہم شروع ہوئی اور کانگریسیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ چلا۔ جلیل بھی گرفتار ہوئے اور جیل گئے۔ جیل میں ایک بار چند دن کے لیے قید تنہائی کی سزا بھی بھگتی۔ جیل سے نکلے تو یہ اور سردار جعفری لکھنو میں پھر اکٹھے ہوگئے، جعفری نے لکھنو یونیورسٹی میں ایم اے میں اور جلیل نے ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا۔
کیفی اعظمی سے جلیل عباسی کی ملاقات کانپور میں 1943 میں ہوئی اس وقت تک جلیل کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوچکے تھے جس کی تحریک جیل میں علی سردار جعفری کے ساتھ رہنے کے دوران ہوئی تھی۔ لکھتے ہیں ''اس وقت کیفی کا حلیہ یہ تھا کہ جسم پر میلا کھدر کا کرتا پاجامہ، پاؤں میں کثیف چپل، سر پر بڑے بڑے بال اور جیب میں بیڑی اور دیا سلائی۔''
جلیل کیفی کو لکھنو لے آئے۔ وہاں کیفی کی ملاقات جلیل کے کمیونسٹ ساتھیوں سے ہوئی، جنھوں نے انھیں بمبئی بھیج دیا۔ بمبئی میں کیفی خوب چمکے۔ جلیل کے ساتھ پھر یہ ہوا کہ ان کے دل میں کمیونسٹوں کے خلاف بدگمانی پیدا ہوگئی اور 1946 میں جب کمیونسٹوں نے کانگریس کے خلاف مسلم لیگ کے موقف کی حمایت شروع کی تو جلیل عباسی نے کمیونسٹ پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ اب وہ خالصتاً کانگریسی تھے اور اس کے سرگرم کارکن۔ اسی سال وہ صوبہ کانگریس کمیٹی کے ممبر بن گئے۔ باقاعدہ کانگریسی لیڈر بن گئے۔
1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ایسا ہنگامہ برپا ہوا جیسے کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہو۔ فرقہ واریت اپنے شباب پر تھی۔ ٹرینیں روک کر اور مسلمانوں کو تلاش کرکے بے رحمی سے مارا جا رہا تھا۔ یہ سارا ظلم ہندو کر رہے تھے، کانگریسی اور غیر کانگریسی کی کوئی تشخیص نہیں تھی۔ جلیل عباسی پہلے مسلمان تھے اور پھر کانگریسی۔ انھیں اس صورتحال پر دکھ تو بہت تھا لیکن اس کا ذمے دار وہ مسلم لیگ کو قرار دیتے ہیں۔جلیل بعد میں یوپی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، صوبائی وزارت میں شامل ہوئے۔ راجیو گاندھی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے۔