زلزلے کی تباہ کاریاں اور حسن انتظام
ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا اس بات پر کامل ایمان و یقین ہے کہ ہر چیز منجانب اللہ ہوتی ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا اس بات پر کامل ایمان و یقین ہے کہ ہر چیز منجانب اللہ ہوتی ہے۔ عزت، دولت، شہرت، ذلت، بیماری، مایوسی، کامیابی، ناکامی، رزق، اولادی بے اولادی۔ بالکل اسی طرح قدرتی آفات بھی اللہ کی طرف سے ہوا کرتی ہیں جن سے تحفظ بھی صرف رب کائنات ہی مہیا کرسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے آنے والا شدید زلزلہ ایک بار پھر شدید مالی و جانی نقصان کا باعث بنا لیکن خاکی انسان کے بس میں اگر کچھ ہوتا تو وہ کرتا، یوں انسانی ذات کی بے ثباتی ایک بار پھر کھل کر عیاں ہوگئی۔
جاپان اور امریکا میں آنے والے زلزلے اور طوفان کی شدت کو جانچا جائے اور ان ممالک کی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی پڑتال کی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ قدرتی آفات کو ٹالنا کبھی بھی حضرت انسان کے بس کی بات نہ تھی اور نہ کبھی ہوسکے گی۔
ہمارا ملک سنگین موسمیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ شدید سردی، شدید گرمی اور بعض علاقوں میں شدید بارشیں اور برف باری، لیکن ان سے بچاؤ، اس کے تدارک کا قومی یا حکومتی سطح پر کوئی انتظام و اہتمام دور دور تک کبھی دیکھنے میں نہیں آتا، امدادی اپیلیں، این جی اوز سے تعاون، اسلامی برادر ملکوں سے مدد کی درخواستیں وغیرہ یہی سب کچھ ہم عرصہ دراز سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
جب سے ہمارے ملک میں طویل القامت اور گھنے درختوں کی کٹائی اور کثیر المنزلہ عمارتوں کا جال بچھانے کا کام شروع ہوا ہے ہر موسم تباہی و بربادی یا جانی و مالی نقصان کا موجب بنا ہے لیکن مفاد پرست عناصر یا اس کے ذمے دار ادارے ہوس زر کی دوڑ میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور یہ دوڑ انسانی جانوں پر لگائی جا رہی ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے لیکن ہماری کم مائیگی یہ ہے کہ پاکستان میں ''بلڈنگ کوڈ'' پر عمل درآمد کروانے کا کسی کو خیال نہیں آرہا، ہمارے پاس عمارتوں کی مضبوطی اور معیار جانچنے کا نظام ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔ زلزلوں اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کوئی موثر حکمت عملی یا پلاننگ ہمارے ارباب اختیار کے پاس نہیں ہے اور یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ملک میں ''کرائسز اور ڈیزاسٹر کمیونیکیشن'' کو بھی ابھی تک نہیں سمجھا جا سکا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اداروں کی تنظیم نو کی جاتی ہے اور ان سے وابستہ اہلکاروں اور ٹیکنیشنز کی تربیت کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں ان چیزوں کو کسی کھیت کی مولی نہیں سمجھا جاتا۔
اس بات سے بھی کوئی ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا کہ انسانوں کو زلزلہ نہیں عمارتیں مارتی ہیں، جاپان میں جب 9 شدت کا زلزلہ آیا تو وہاں اونچی اونچی عمارتوں کی بہتات کے باوجود حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد اس حساب سے زیادہ نہ تھی۔ ہمارے ملک میں اول تو عمارتیں کسی نظام کے تحت نہیں بنتیں، متعلقہ حکام یا ادارے کی مٹھی گرم کرکے سب کچھ اپنی مرضی کے تحت کیا جاسکتا ہے یا کیا جاتا رہا ہے۔ بلڈنگ کوڈ اگر کہیں ہے تو اس پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز عمارتوں کی محفوظ تعمیر کے لیے اپنا کام احسن طریقے سے نہیں کر رہی، بلڈنگ کوڈ کا اطلاق نئی عمارتوں پر ہوتا ہے ہمارے پاس پرانی عمارتوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
جہاں تک ہمارے ہاں آنے والے تازہ ترین زلزلے کی بات ہے تو اس کی شدت 2005 میں آنے والے زلزلے سے کہیں زیادہ تھی لیکن مقام شکر ہے کہ نقصانات اس کے مقابل کم سے کم ہوئے، تاہم وفاقی اور صوبائی حکام کو خدشہ ہے کہ زلزلے کی وجہ سے جانی نقصان بڑھ سکتا ہے کیونکہ سب سے متاثرہ علاقوں شانگلہ، چترال اور باجوڑ تک رسائی آسان نہیں ہے، خراب موسم کی وجہ سے ان علاقوں کا فضائی جائزہ بھی بروقت نہیں کرایا جاسکا۔ مواصلاتی نظام کو ہونے والے شدید نقصان کی وجہ سے متعلقہ ضلع یا ایجنسی کی انتظامیہ کو اندازہ نہیں ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں ان علاقوں کی آبادی کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس حوالے سے ''نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ''(این ڈی ایم اے) نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ محتاط رہیں اور انھیں اپنے اپنے علاقوں میں ہونے والے نقصان سے آگاہ کریں تاکہ امدادی کام موثر طریقے سے کیا جاسکے۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بڑے پیمانے پر تباہی گنجان آباد علاقوں میں زلزلے آنے سے ہوتی ہے۔ جہاں عمارتیں جدید خطوط پر زلزلہ پروف نہیں بنائی جاتیں کیونکہ جدید عمارتیں اینٹوں سے بنے مکانات کے مقابلے میں زلزلے سہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ دوسرے اگر زلزلے کا مرکز متاثرہ علاقے سے زیادہ دور نہ ہو تو نقصان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی شاید کچھ اور بھی تکنیکی وجوہات ہوں، ایسی کئی مثالیں غیر ممالک کی موجود ہیں کہ جہاں شدید ترین زلزلے بھی ہلاکت خیز ثابت نہیں ہوئے۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں آئندہ چند سال میں شدید نوعیت کا زلزلہ آسکتا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے ارضیاتی محل و قوع کے پیش نظر ملک میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے عمارتی ڈھانچے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ تحفظ کے لیے موثر پالیسی مرتب کرے جس کے تحت عمارات 9 سے 10 شدت کے زلزلے کے جھٹکے برداشت کرسکیں۔
جیساکہ بالائی سطور میں ہم نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اور اس حوالے سے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بطور انسان ہم زلزلوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، زلزلہ آنے کی اہم وجہ گلوبل وارمنگ ہے، ٹریفک اور صنعتوں کے دھوئیں کی وجہ سے دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ بڑھتی جا رہی ہے، ہمالیہ کے عظیم گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے زمین پر ٹھوس مادے اور پانی کا توازن خراب ہو رہا ہے جس کی وجہ سے خطے میں شدید زلزلے آرہے ہیں۔ اور اگر گلوبل وارمنگ پر جلد قابو نہ پایا گیا تو دنیا میں شدید تباہی آسکتی ہے۔
ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف دنیا فضائی آلودگی میں اضافے کے خلاف لڑ رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان میں فضائی آلودگی جانچنے کے لیے جاپان کی طرف سے لگائی گئی جدید لیبارٹری حکومت کی لاپرواہی کے باعث خراب ہوچکی ہے، گیارہ ملین ڈالر سے لگنے والی یہ لیبارٹری ناکارہ ہونے کے باعث کراچی میں فضائی آلودگی کے اعداد و شمار بھی خاموش ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کراچی میں پچھلے تین برسوں میں فضائی آلودگی میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
اور کون نہیں جانتا کہ پاکستان بحیثیت ملک اپنے موسمی حالات کی بنا پر قائم ہے، پاکستان کی معیشت کا دار و مدار ماحولیاتی نظام پر ہے، اگر پاکستان میں مون سون سسٹم تھوڑا سا آگے پیچھے ہوجائیں تو ہماری زراعت درہم برہم ہوجاتی ہے، ماحولیاتی نظام ڈسٹرب ہونے سے پاکستان پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر توجہ دے اور اس کا حل نکالے، پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں پر فکرمند ہے لیکن ہمارا ملک خاموش بیٹھا ہے۔
گزشتہ ہفتے آنے والا شدید زلزلہ ایک بار پھر شدید مالی و جانی نقصان کا باعث بنا لیکن خاکی انسان کے بس میں اگر کچھ ہوتا تو وہ کرتا، یوں انسانی ذات کی بے ثباتی ایک بار پھر کھل کر عیاں ہوگئی۔
جاپان اور امریکا میں آنے والے زلزلے اور طوفان کی شدت کو جانچا جائے اور ان ممالک کی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی پڑتال کی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ قدرتی آفات کو ٹالنا کبھی بھی حضرت انسان کے بس کی بات نہ تھی اور نہ کبھی ہوسکے گی۔
ہمارا ملک سنگین موسمیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ شدید سردی، شدید گرمی اور بعض علاقوں میں شدید بارشیں اور برف باری، لیکن ان سے بچاؤ، اس کے تدارک کا قومی یا حکومتی سطح پر کوئی انتظام و اہتمام دور دور تک کبھی دیکھنے میں نہیں آتا، امدادی اپیلیں، این جی اوز سے تعاون، اسلامی برادر ملکوں سے مدد کی درخواستیں وغیرہ یہی سب کچھ ہم عرصہ دراز سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
جب سے ہمارے ملک میں طویل القامت اور گھنے درختوں کی کٹائی اور کثیر المنزلہ عمارتوں کا جال بچھانے کا کام شروع ہوا ہے ہر موسم تباہی و بربادی یا جانی و مالی نقصان کا موجب بنا ہے لیکن مفاد پرست عناصر یا اس کے ذمے دار ادارے ہوس زر کی دوڑ میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور یہ دوڑ انسانی جانوں پر لگائی جا رہی ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے لیکن ہماری کم مائیگی یہ ہے کہ پاکستان میں ''بلڈنگ کوڈ'' پر عمل درآمد کروانے کا کسی کو خیال نہیں آرہا، ہمارے پاس عمارتوں کی مضبوطی اور معیار جانچنے کا نظام ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔ زلزلوں اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کوئی موثر حکمت عملی یا پلاننگ ہمارے ارباب اختیار کے پاس نہیں ہے اور یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ملک میں ''کرائسز اور ڈیزاسٹر کمیونیکیشن'' کو بھی ابھی تک نہیں سمجھا جا سکا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اداروں کی تنظیم نو کی جاتی ہے اور ان سے وابستہ اہلکاروں اور ٹیکنیشنز کی تربیت کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں ان چیزوں کو کسی کھیت کی مولی نہیں سمجھا جاتا۔
اس بات سے بھی کوئی ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا کہ انسانوں کو زلزلہ نہیں عمارتیں مارتی ہیں، جاپان میں جب 9 شدت کا زلزلہ آیا تو وہاں اونچی اونچی عمارتوں کی بہتات کے باوجود حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد اس حساب سے زیادہ نہ تھی۔ ہمارے ملک میں اول تو عمارتیں کسی نظام کے تحت نہیں بنتیں، متعلقہ حکام یا ادارے کی مٹھی گرم کرکے سب کچھ اپنی مرضی کے تحت کیا جاسکتا ہے یا کیا جاتا رہا ہے۔ بلڈنگ کوڈ اگر کہیں ہے تو اس پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز عمارتوں کی محفوظ تعمیر کے لیے اپنا کام احسن طریقے سے نہیں کر رہی، بلڈنگ کوڈ کا اطلاق نئی عمارتوں پر ہوتا ہے ہمارے پاس پرانی عمارتوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
جہاں تک ہمارے ہاں آنے والے تازہ ترین زلزلے کی بات ہے تو اس کی شدت 2005 میں آنے والے زلزلے سے کہیں زیادہ تھی لیکن مقام شکر ہے کہ نقصانات اس کے مقابل کم سے کم ہوئے، تاہم وفاقی اور صوبائی حکام کو خدشہ ہے کہ زلزلے کی وجہ سے جانی نقصان بڑھ سکتا ہے کیونکہ سب سے متاثرہ علاقوں شانگلہ، چترال اور باجوڑ تک رسائی آسان نہیں ہے، خراب موسم کی وجہ سے ان علاقوں کا فضائی جائزہ بھی بروقت نہیں کرایا جاسکا۔ مواصلاتی نظام کو ہونے والے شدید نقصان کی وجہ سے متعلقہ ضلع یا ایجنسی کی انتظامیہ کو اندازہ نہیں ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں ان علاقوں کی آبادی کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس حوالے سے ''نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ''(این ڈی ایم اے) نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ محتاط رہیں اور انھیں اپنے اپنے علاقوں میں ہونے والے نقصان سے آگاہ کریں تاکہ امدادی کام موثر طریقے سے کیا جاسکے۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بڑے پیمانے پر تباہی گنجان آباد علاقوں میں زلزلے آنے سے ہوتی ہے۔ جہاں عمارتیں جدید خطوط پر زلزلہ پروف نہیں بنائی جاتیں کیونکہ جدید عمارتیں اینٹوں سے بنے مکانات کے مقابلے میں زلزلے سہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ دوسرے اگر زلزلے کا مرکز متاثرہ علاقے سے زیادہ دور نہ ہو تو نقصان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی شاید کچھ اور بھی تکنیکی وجوہات ہوں، ایسی کئی مثالیں غیر ممالک کی موجود ہیں کہ جہاں شدید ترین زلزلے بھی ہلاکت خیز ثابت نہیں ہوئے۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں آئندہ چند سال میں شدید نوعیت کا زلزلہ آسکتا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے ارضیاتی محل و قوع کے پیش نظر ملک میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے عمارتی ڈھانچے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ تحفظ کے لیے موثر پالیسی مرتب کرے جس کے تحت عمارات 9 سے 10 شدت کے زلزلے کے جھٹکے برداشت کرسکیں۔
جیساکہ بالائی سطور میں ہم نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اور اس حوالے سے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بطور انسان ہم زلزلوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، زلزلہ آنے کی اہم وجہ گلوبل وارمنگ ہے، ٹریفک اور صنعتوں کے دھوئیں کی وجہ سے دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ بڑھتی جا رہی ہے، ہمالیہ کے عظیم گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے زمین پر ٹھوس مادے اور پانی کا توازن خراب ہو رہا ہے جس کی وجہ سے خطے میں شدید زلزلے آرہے ہیں۔ اور اگر گلوبل وارمنگ پر جلد قابو نہ پایا گیا تو دنیا میں شدید تباہی آسکتی ہے۔
ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف دنیا فضائی آلودگی میں اضافے کے خلاف لڑ رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان میں فضائی آلودگی جانچنے کے لیے جاپان کی طرف سے لگائی گئی جدید لیبارٹری حکومت کی لاپرواہی کے باعث خراب ہوچکی ہے، گیارہ ملین ڈالر سے لگنے والی یہ لیبارٹری ناکارہ ہونے کے باعث کراچی میں فضائی آلودگی کے اعداد و شمار بھی خاموش ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کراچی میں پچھلے تین برسوں میں فضائی آلودگی میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
اور کون نہیں جانتا کہ پاکستان بحیثیت ملک اپنے موسمی حالات کی بنا پر قائم ہے، پاکستان کی معیشت کا دار و مدار ماحولیاتی نظام پر ہے، اگر پاکستان میں مون سون سسٹم تھوڑا سا آگے پیچھے ہوجائیں تو ہماری زراعت درہم برہم ہوجاتی ہے، ماحولیاتی نظام ڈسٹرب ہونے سے پاکستان پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر توجہ دے اور اس کا حل نکالے، پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں پر فکرمند ہے لیکن ہمارا ملک خاموش بیٹھا ہے۔