دنیائے کرکٹ کے جینٹل مین کا اعلان
سب سے زیادہ رنز بنانے والے پاکستانی کرکٹر کی دلچسپ اور سبق آموز داستان
ابو ظہبی کے شیخ زاید سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ جاری ہے۔ برطانوی بالر، معین علی نے یونس خان کو گیند کرائی۔پاکستانی بلے باز نے پلک جھپکنے میں اسے باؤنڈری کے پار پہنچا دیا۔
یہ کوئی معمولی شاٹ نہیں تھا... اس کے ذریعے یونس خان کو ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے پاکستانی بلے باز کا اعزاز حاصل ہوگیا۔کہتے ہیں، انسان محنت، دیانتداری اور شرافت کی مدد سے جو چاہے پا لیتا ہے۔اس قول کا ثبوت دیکھنا ہو تو یونس خان کی جدوجہد زندگی دیکھ لیجیے۔ یہ سخت محنت، سچائی اور خلوص کی خصوصیات ہی ہیں جن کے ذریعے انہیں عزت، شہرت اور دولت کی برکات حاصل ہوئیں۔ ان کی داستان حیات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ انسان مسلسل محنت سے عظیم کامیابیاں پاسکتا ہے۔
٭٭
پاکستان کے عظیم کرکٹ کھلاڑیوں میں سے ایک محمد یونس خان 10 دسمبر 1977ء کو مردان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، اقبال خان کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ یہ گھرانا شریفانہ اطوار اور سادگی کے باعث علاقے میں معزز حیثیت رکھتا تھا۔کچھ عرصے بعد اچھے روزگار کی تلاش اقبال خان کو کراچی لے گئی۔ وہاں انہیں سٹیل ملز میں ملازمت مل گئی۔ عام سی تنخواہ تھی، مگر اس سادگی پسند گھرانے کے خرچے بھی زیادہ نہ تھے۔
اس زمانے میں بھی کرکٹ پاکستان کا مقبول کھیل تھا۔ اقبال خان کے سبھی بیٹے یہی کھیل کھیلنے لگے۔ ان میں سے یونس کو جنون کی حد تک کرکٹ سے لگاؤ تھا۔ وہ سکول سے آتے تو گھر میں بلے سے کھیلنے کی مشق کرتے۔ شام کو گلی یا پارک میں محلے کے لڑکوں کی معیت میں کھیلتے۔ شروع میں تو زیادہ کھیلنے کے باعث یونس کو والد سے ڈانٹ پڑی۔ تاہم لڑکے کے بڑے بھائی، محمد شریف خان درمیان میں آگئے۔ انہوں نے والد کو یقین دلایا کہ اگر یونس کو کھیلنے کا موقع دیا جائے تو وہ عمدہ کرکٹر بن کر قومی ٹیم میں شامل ہوسکتا ہے۔
بڑے بیٹے کی یقین دہانی پر اقبال خان نے یونس کو نکھارنے و سنوارنے کی ذمہ داری انہی کو سونپ دی۔بڑے بھائی نے یہ ذمے داری بخوبی نبھائی۔یونس خان کی خوش قسمتی کہ اس زمانے کا مشہور پاک سٹار کرکٹ کلب اسٹیل ملز کے قریب ہی علاقہ ملیر میں واقع تھا۔ ممتاز پاکستانی کھلاڑیوں مثلاً سعید انور، تسلیم عارف، راشد لطیف اور عاصم کمال نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز اسی کلب سے کیا۔یہ مئی 1992ء کی بات ہے، ایک دوست کے ساتھ یونس پاک سٹار کرکٹ کلب پہنچے۔ وہ اس کا حصّہ بننا چاہتے تھے۔ کلب کے سیکرٹری اور کوچ امجد علی نے اگلے دن یونس کو آزمائشی طور پر ایک میچ میں کھلایا۔ انہوں نے 60 رن بنائے۔ عمدہ کارکردگی کی بنا پر یونس کو کلب کی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔
امجد علی نے پھر پندرہ سالہ لڑکے کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ اسے کرکٹ کھیلنے کے اسرار و رموز سکھائے اور تربیت دی۔ یونس خان اس زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ''امجدبھائی نے مجھے رہنمائی دی اور میری بہت مدد کی۔ میں ان کے احسانات کا بدلہ کبھی نہیں اتار سکتا۔''اُدھر یونس کے کوچ، امجد علی عاجزی و انکسار سے بتاتے ہیں ''میں یونس کا پہلا کوچ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سخت محنت، ثابت قدمی اور انتہائی ڈسپلن کی مدد سے آج اپنے مقام پر پہنچے۔''
1992ء میں کراچی بدقسمتی سے لسانی و نسلی فسادات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اپنی سرخ و سفید رنگت کے باعث یونس اپنی نسل کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ اُدھر ملیر میں مخالف نسل کے افراد کی اکثریت تھی۔ یہ خطرہ موجود تھا کہ یونس نسلی تصادم کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں مگر جان کی پروا کیے بغیر وہ ملیر آتے جاتے رہے۔اسٹیل ملز سے ملیر پہنچنے کے لیے یونس کو مختلف بسیں بدلنا پڑتیں۔ یوں آنے جانے پر خاصا خرچ اٹھ جاتا۔ مگر والد بیٹے کی خوشنودی اور ترقی کے لیے اخراجات برداشت کرتے رہے۔ بیٹے نے اعلیٰ تعلیم تو نہ پائی، مگر کرکٹ کو بطور ہنر اپنالیا۔ یہی ہنر سیکھ کر یونس نے دنیا بھر میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے رقم کرالیا۔
نوجوانی میں بھی یونس خان بہت خوددار اور شریف تھے۔ امجد علی بتاتے ہیں ''بسوں میں سفر کرنے کی وجہ سے یونس خاصے تھک جاتے، مگر انہوں نے کبھی اپنے حالات کو کوسنے نہ دیئے۔ نہ ہی وہ کسی سے پیسے مانگتے یا مراعات چاہتے۔ ان کی بس یہی تمنا ہوتی کہ وہ کرکٹ کھیلتے رہیں۔''امجد علی کا مذید کہنا ہے ''وہ بہت فرماں بردار،مذہبی اور بھلے نوجوان تھے۔ میں جو کچھ بتاتا، بڑے دھیان سے سنتے اور اسی پر عمل کرنے کی سعی کرتے۔ کرکٹ سے بہت لگاؤ رکھتے اور نہایت انہماک و خلوص سے اسے سیکھتے۔ خود کو چاق و چوبند رکھنا ان کی پہلی ترجیح تھی۔ یہی وجہ ہے، آج بھی یونس چست و متحرک ہیں۔''
1992ء میں کرکٹ کلب کی گراؤنڈ غیر ہموار اور سخت تھی۔ وہاں چھلانگ مار کر گیند روکنے کا مطلب خود کو زخمی کرنا تھا۔ اسی لیے سبھی لڑکے ''ڈائیو'' مارنے سے گریز کرتے۔ مگر یونس تو کرکٹ کے ہر شعبے پر حاوی ہونے کی تمنا رکھتے تھے۔ چناں چہ وہ ڈائیو مار کر گیند روکنے سے نہ گھبراتے۔ گو اس عمل سے عموماً ان کے بازوؤں یا ٹانگوں کے چھل جانے کے باعث خون رسنے لگتا۔ گڑھوں سے پُر میدان میں فیلڈنگ کرنے کا یہ تجربہ آگے چل کر کام آیا اور یونس سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے پاکستانی کھلاڑی بن گئے۔
یونس خان نے اپنے کلب کی طرف سے کئی میچ کھیلے اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یوں وہ علاقے میں جانے پہچانے کرکٹر بن گئے۔ آخر 1995ء میں اسٹیل ملز کرکٹ ٹیم کے کوچ، محمد علی نے انہیں اپنی صفوں میں شامل کرلیا۔ یونس کی ماہوار تنخواہ 2500 روپے مقرر ہوئی۔نوجوان یونس مسلسل محنت سے اپنا کھیل بہتر بنانے اور سنوارنے میں لگے رہے۔ بعض کھلاڑی کھیل کی خداداد صلاحیتیں لیے پیدا ہوتے ہیں جیسے وسیم اکرم یا سچن ٹنڈولکر! بعض کھلاڑی سخت محنت اور جدوجہد سے کھیل میں مہارت پاتے ہیں۔ یونس خان کا شمار آخر الذکر کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت کراچی میں نسلی و لسانی اختلافات کا چرچا تھا۔ اسی لیے ساتھیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود نوجوان یونس کراچی کرکٹ ٹیم میں شامل نہ ہوسکے ۔مگر نیت نیک ہو' تو اللہ تعالیٰ بھی حیران کن طریقے سے مہربانی فرماتے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں یونس کی شمولیت کا واقعہ دلچسپ ہے۔ہوا یہ کہ 1998ء کے رمضان میںپشاور کی کرکٹ ٹیم قومی چیمپئن شپ میں حصہ لینے کراچی آئی۔ ایک افطار پارٹی میں یونس کے قدر دانوں امجد علی' راشد لطیف اور باسط علی کی ملاقات پشاوری مہمانوں ارشد خان'شاہد حسین وغیرہ سے ہوئی جو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہ چکے تھے۔ انہوں نے ارشد خان پر زور ڈالا کہ یونس کو پشاور ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔ انہوں نے نوجوان کھلاڑی کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔
ارشد خان نے کراچی کے دوستوں سے وعدہ کیا کہ وہ یونس کو پشاور ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے وعدہ ایفا کیا اور تین ماہ بعد یونس کو پشاور آنے کا کہا۔ نوجوان نے پہلی ٹرین پکڑی ' پشاور پہنچے ' وہاں کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے اور 23 جنوری 1999ء کو حیدر آباد کرکٹ ٹیم کے خلاف اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیلا۔ انہوں نے 43رن بنائے۔اس سال یونس نے فرسٹ کلاس میچ کھیلتے ہوئے اٹھارہ سو سے زائد رن بنا ڈالے۔
یہ شاندار کارکردگی انہیں قومی سلیکٹروں کی نگاہوں میں لے آئی۔ چناں چہ اوائل 2000ء میں سری لنکن پاکستان آئے' تو یونس کو ان کے خلاف کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ یونس نے 13 فروری کو اپنا پہلا ون ڈے میچ کھیلا اور46رنز کی عمدہ اننگ کھیلی۔ 26فروری کو سری لنکا کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھلا اور اسی میں سنچری بنا کر زور دار انداز میںاپنی آمد کا اعلان کر دیا۔یونس خان نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور نت نئی کامیابیوں کی کلغیاں ان کے تاج میںلگتی رہیں۔ پندرہ سالہ سفر کے دوران کئی جگہ کانٹے آئے اور گڑھے بھی' مگر دلیریونس تمام رکاوٹیں اور مشکلات عبور کرتے اپنی منزل کی سمت گامزن رہے۔یہ پاکستانی کھلاڑی ''کرکٹ کا جینٹل مین'' کہلاتے ہیں کیونکہ کسی اسکینڈل نے ان کا دامن آلودہ نہیں کیا۔ بتاتے ہیں ''میرے والد سچے و پکے پاکستانی تھے۔
حب الوطنی کا یہی جذبہ میرے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ میں ریکارڈ بنانے نہیں صرف پاکستانی ٹیم کو جتوانے کے لیے کھیلتا ہوں۔'' یونس خان کا یہ دعویٰ برحق ہے۔ فروری 2009ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں یونس خان نے ٹرپل سنچری بنائی۔ وہ چاہتے تو سب سے زیادہ رنز بنانے کا برائن لارا والا ریکارڈ توڑ دیتے ، مگر انہوں نے پاکستانی ٹیم کی جیت کو ترجیح دی۔
دوران کیریئر یونس کو اپنے والد' تین بھائیوںاور بھتیجے کی اموات کے صدمے برداشت کرنے پڑے۔ یہ الم ناک غم انہوں نے حوصلے سے سہے اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوئے۔ بلکہ ان صدموں نے انہیں ذہنی و جسمانی طور پر زیادہ مضبوط بنا دیا۔فلک شاٹ مارنے کے شوقین اور اسپین بالنگ مہارت سے کھیلنے والے یونس خان کی اگلی منزل 10 ہزار رن بنانا ہے۔ اگر انہوںنے خود کو چاق و چوبند رکھا' تو وہ یہ سنگ میل بھی عبور کر سکتے ہیں۔ گو وہ سخت محنت' مسلسل کوشش' جذبہ حب الوطنی اور شرافت کے باعث پاکستان ہی نہیں دنیا کے عظیم ترین کرکٹروں میںاپنانام جلی حروف سے لکھوا چکے ۔
یونس خان کے منفرد ریکارڈز
یہ سطور قلمبند ہونے تک یونس خان 103ٹیسٹ کھیل کر 9071رنز بنا چکے۔ بیٹنگ ایوریج 54.50 فیصد بنتی ہے۔ یونس 31 سنچریاں جبکہ 30نصف سنچریاں بنا چکے۔ 264ایک روزہ بین لاقوامی میچ کھیل کر 7240رن بنائے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں 9جبکہ ون ڈے میچوں میں 3وکٹیں بھی لے چکے ۔ یونس کے اہم ریکارڈ درج ذیل ہیں:
٭ٹیسٹوں میں ڈیڑھ سو یا مزید رن سب سے زیادہ بنانے والے واحد کھلاڑی ۔ گیارہ بار یہ کارنامہ انجام دیا۔ پھر جاوید میاںداد کا نمبر ہے جنہوںنے دس بار یہ کارنامہ کر دکھایا۔
٭یونس نے اپنی پانچ سنچریاں ٹیسٹ کی چوتھی اننگوں میں بنائیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کوئی اور کھلاڑی یہ کارنامہ نہیں دکھا سکا۔ دوسرے نمبر پر سنیل گواسکر فائزہیں جنہوںنے چوتھی اننگوں میں چار سنچریاں بنا رکھی ہیں۔
٭ٹیسٹوںکی چوتھی اننگوں میں بلے بازی کرتے ہوئے یونس کی ایوریج 60.59 رہی ہے۔ یہ ان تمام کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے جنہوںنے بیس سے زائد چوتھی اننگیں کھیلی ہوں۔
٭یونس نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں بنا رکھی ہیں۔ دوسرے نمبر پر انضمام الحق (25سنچری) آتے ہیں۔
٭ٹیسٹوں میں یونس 63بار سنچری پارنٹرشپ میں شامل رہے۔ یہ کسی بھی کھلاڑی سے زیادہ تعداد ہے۔ دوسرا نمبر جاوید میاں داد کا ہے' وہ 50 بار سنچری پارٹنر شپ میں شریک رہے۔
٭یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے یچ پر سب سے زیادہ وقت گزارنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ دوران کیریئر 24 ہزار منٹ پچ پر گزار چکے۔ دوسرے نمبر پر میاں داد (23,568منٹ ) پر فائز ہیں۔ عالمی اعزاز بھارتی کھلاڑی' راہول ڈریوڈ (44,000 منٹ) نے بنا رکھا ہے۔
٭بیس اننگیں کھیلنے والے تمام پاکستانی کھلاڑیوں میں یونس کی بیٹنگ ایوریج سب سے زیادہ ہے۔ درحقیقت ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے 15بلے بازوں میں صرف کمار سنگا کارا (57.40) اور جیکواس کیلس (55.37) کی ایوریج ان سے زیادہ ہے۔
٭35 سال کا ہونے کے بعد ٹیسٹوں میں یونس کی بیٹنگ ایوریج 62 فیصد رہی ہے۔ یہ 35سال کا ہونے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تمام کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی حد تک یونس کے بعد انضمام الحق (52.29) اور ظہیر عباس (52.28) آتے ہیں۔
٭یونس سب سے زیادہ کیچ (113) پکڑنے والے پاکستانی فیلڈر ہیں۔ دوسرا نمبر میاںداد (94 کیچ) کا ہے۔
٭جاوید میاں داد (چھ ) کے بعد سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں (پانچ) یونس ہی نے بنائی ہیں۔
٭یونس خان واحد پاکستانی بلے باز ہیں جو ٹیسٹ کھیلنے والے تمام نوممالک کے خلاف سنچری بنا چکے ۔ عالمی سطح پر وہ یہ کارنامہ دکھانے والے 12ویں کھلاڑی ہیں۔
٭ تیز ترین سات ہزار رنز بنانے والوں میں یونس کا پانچواں نمبر ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ 90 میچوں میں انجام دیا۔
٭ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان دوسرے کھلاڑی ہیں جنہوں نے وطن سے باہر زیادہ (24) سنچریاں بنائیں۔ پہلے نمبر پر سچن ٹنڈولکر (29سنچریاں) فائز ہیں۔
یہ کوئی معمولی شاٹ نہیں تھا... اس کے ذریعے یونس خان کو ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے پاکستانی بلے باز کا اعزاز حاصل ہوگیا۔کہتے ہیں، انسان محنت، دیانتداری اور شرافت کی مدد سے جو چاہے پا لیتا ہے۔اس قول کا ثبوت دیکھنا ہو تو یونس خان کی جدوجہد زندگی دیکھ لیجیے۔ یہ سخت محنت، سچائی اور خلوص کی خصوصیات ہی ہیں جن کے ذریعے انہیں عزت، شہرت اور دولت کی برکات حاصل ہوئیں۔ ان کی داستان حیات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ انسان مسلسل محنت سے عظیم کامیابیاں پاسکتا ہے۔
٭٭
پاکستان کے عظیم کرکٹ کھلاڑیوں میں سے ایک محمد یونس خان 10 دسمبر 1977ء کو مردان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، اقبال خان کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ یہ گھرانا شریفانہ اطوار اور سادگی کے باعث علاقے میں معزز حیثیت رکھتا تھا۔کچھ عرصے بعد اچھے روزگار کی تلاش اقبال خان کو کراچی لے گئی۔ وہاں انہیں سٹیل ملز میں ملازمت مل گئی۔ عام سی تنخواہ تھی، مگر اس سادگی پسند گھرانے کے خرچے بھی زیادہ نہ تھے۔
اس زمانے میں بھی کرکٹ پاکستان کا مقبول کھیل تھا۔ اقبال خان کے سبھی بیٹے یہی کھیل کھیلنے لگے۔ ان میں سے یونس کو جنون کی حد تک کرکٹ سے لگاؤ تھا۔ وہ سکول سے آتے تو گھر میں بلے سے کھیلنے کی مشق کرتے۔ شام کو گلی یا پارک میں محلے کے لڑکوں کی معیت میں کھیلتے۔ شروع میں تو زیادہ کھیلنے کے باعث یونس کو والد سے ڈانٹ پڑی۔ تاہم لڑکے کے بڑے بھائی، محمد شریف خان درمیان میں آگئے۔ انہوں نے والد کو یقین دلایا کہ اگر یونس کو کھیلنے کا موقع دیا جائے تو وہ عمدہ کرکٹر بن کر قومی ٹیم میں شامل ہوسکتا ہے۔
بڑے بیٹے کی یقین دہانی پر اقبال خان نے یونس کو نکھارنے و سنوارنے کی ذمہ داری انہی کو سونپ دی۔بڑے بھائی نے یہ ذمے داری بخوبی نبھائی۔یونس خان کی خوش قسمتی کہ اس زمانے کا مشہور پاک سٹار کرکٹ کلب اسٹیل ملز کے قریب ہی علاقہ ملیر میں واقع تھا۔ ممتاز پاکستانی کھلاڑیوں مثلاً سعید انور، تسلیم عارف، راشد لطیف اور عاصم کمال نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز اسی کلب سے کیا۔یہ مئی 1992ء کی بات ہے، ایک دوست کے ساتھ یونس پاک سٹار کرکٹ کلب پہنچے۔ وہ اس کا حصّہ بننا چاہتے تھے۔ کلب کے سیکرٹری اور کوچ امجد علی نے اگلے دن یونس کو آزمائشی طور پر ایک میچ میں کھلایا۔ انہوں نے 60 رن بنائے۔ عمدہ کارکردگی کی بنا پر یونس کو کلب کی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔
امجد علی نے پھر پندرہ سالہ لڑکے کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ اسے کرکٹ کھیلنے کے اسرار و رموز سکھائے اور تربیت دی۔ یونس خان اس زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ''امجدبھائی نے مجھے رہنمائی دی اور میری بہت مدد کی۔ میں ان کے احسانات کا بدلہ کبھی نہیں اتار سکتا۔''اُدھر یونس کے کوچ، امجد علی عاجزی و انکسار سے بتاتے ہیں ''میں یونس کا پہلا کوچ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سخت محنت، ثابت قدمی اور انتہائی ڈسپلن کی مدد سے آج اپنے مقام پر پہنچے۔''
1992ء میں کراچی بدقسمتی سے لسانی و نسلی فسادات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اپنی سرخ و سفید رنگت کے باعث یونس اپنی نسل کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ اُدھر ملیر میں مخالف نسل کے افراد کی اکثریت تھی۔ یہ خطرہ موجود تھا کہ یونس نسلی تصادم کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں مگر جان کی پروا کیے بغیر وہ ملیر آتے جاتے رہے۔اسٹیل ملز سے ملیر پہنچنے کے لیے یونس کو مختلف بسیں بدلنا پڑتیں۔ یوں آنے جانے پر خاصا خرچ اٹھ جاتا۔ مگر والد بیٹے کی خوشنودی اور ترقی کے لیے اخراجات برداشت کرتے رہے۔ بیٹے نے اعلیٰ تعلیم تو نہ پائی، مگر کرکٹ کو بطور ہنر اپنالیا۔ یہی ہنر سیکھ کر یونس نے دنیا بھر میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے رقم کرالیا۔
نوجوانی میں بھی یونس خان بہت خوددار اور شریف تھے۔ امجد علی بتاتے ہیں ''بسوں میں سفر کرنے کی وجہ سے یونس خاصے تھک جاتے، مگر انہوں نے کبھی اپنے حالات کو کوسنے نہ دیئے۔ نہ ہی وہ کسی سے پیسے مانگتے یا مراعات چاہتے۔ ان کی بس یہی تمنا ہوتی کہ وہ کرکٹ کھیلتے رہیں۔''امجد علی کا مذید کہنا ہے ''وہ بہت فرماں بردار،مذہبی اور بھلے نوجوان تھے۔ میں جو کچھ بتاتا، بڑے دھیان سے سنتے اور اسی پر عمل کرنے کی سعی کرتے۔ کرکٹ سے بہت لگاؤ رکھتے اور نہایت انہماک و خلوص سے اسے سیکھتے۔ خود کو چاق و چوبند رکھنا ان کی پہلی ترجیح تھی۔ یہی وجہ ہے، آج بھی یونس چست و متحرک ہیں۔''
1992ء میں کرکٹ کلب کی گراؤنڈ غیر ہموار اور سخت تھی۔ وہاں چھلانگ مار کر گیند روکنے کا مطلب خود کو زخمی کرنا تھا۔ اسی لیے سبھی لڑکے ''ڈائیو'' مارنے سے گریز کرتے۔ مگر یونس تو کرکٹ کے ہر شعبے پر حاوی ہونے کی تمنا رکھتے تھے۔ چناں چہ وہ ڈائیو مار کر گیند روکنے سے نہ گھبراتے۔ گو اس عمل سے عموماً ان کے بازوؤں یا ٹانگوں کے چھل جانے کے باعث خون رسنے لگتا۔ گڑھوں سے پُر میدان میں فیلڈنگ کرنے کا یہ تجربہ آگے چل کر کام آیا اور یونس سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے پاکستانی کھلاڑی بن گئے۔
یونس خان نے اپنے کلب کی طرف سے کئی میچ کھیلے اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یوں وہ علاقے میں جانے پہچانے کرکٹر بن گئے۔ آخر 1995ء میں اسٹیل ملز کرکٹ ٹیم کے کوچ، محمد علی نے انہیں اپنی صفوں میں شامل کرلیا۔ یونس کی ماہوار تنخواہ 2500 روپے مقرر ہوئی۔نوجوان یونس مسلسل محنت سے اپنا کھیل بہتر بنانے اور سنوارنے میں لگے رہے۔ بعض کھلاڑی کھیل کی خداداد صلاحیتیں لیے پیدا ہوتے ہیں جیسے وسیم اکرم یا سچن ٹنڈولکر! بعض کھلاڑی سخت محنت اور جدوجہد سے کھیل میں مہارت پاتے ہیں۔ یونس خان کا شمار آخر الذکر کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت کراچی میں نسلی و لسانی اختلافات کا چرچا تھا۔ اسی لیے ساتھیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود نوجوان یونس کراچی کرکٹ ٹیم میں شامل نہ ہوسکے ۔مگر نیت نیک ہو' تو اللہ تعالیٰ بھی حیران کن طریقے سے مہربانی فرماتے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں یونس کی شمولیت کا واقعہ دلچسپ ہے۔ہوا یہ کہ 1998ء کے رمضان میںپشاور کی کرکٹ ٹیم قومی چیمپئن شپ میں حصہ لینے کراچی آئی۔ ایک افطار پارٹی میں یونس کے قدر دانوں امجد علی' راشد لطیف اور باسط علی کی ملاقات پشاوری مہمانوں ارشد خان'شاہد حسین وغیرہ سے ہوئی جو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہ چکے تھے۔ انہوں نے ارشد خان پر زور ڈالا کہ یونس کو پشاور ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔ انہوں نے نوجوان کھلاڑی کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔
ارشد خان نے کراچی کے دوستوں سے وعدہ کیا کہ وہ یونس کو پشاور ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے وعدہ ایفا کیا اور تین ماہ بعد یونس کو پشاور آنے کا کہا۔ نوجوان نے پہلی ٹرین پکڑی ' پشاور پہنچے ' وہاں کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے اور 23 جنوری 1999ء کو حیدر آباد کرکٹ ٹیم کے خلاف اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیلا۔ انہوں نے 43رن بنائے۔اس سال یونس نے فرسٹ کلاس میچ کھیلتے ہوئے اٹھارہ سو سے زائد رن بنا ڈالے۔
یہ شاندار کارکردگی انہیں قومی سلیکٹروں کی نگاہوں میں لے آئی۔ چناں چہ اوائل 2000ء میں سری لنکن پاکستان آئے' تو یونس کو ان کے خلاف کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ یونس نے 13 فروری کو اپنا پہلا ون ڈے میچ کھیلا اور46رنز کی عمدہ اننگ کھیلی۔ 26فروری کو سری لنکا کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھلا اور اسی میں سنچری بنا کر زور دار انداز میںاپنی آمد کا اعلان کر دیا۔یونس خان نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور نت نئی کامیابیوں کی کلغیاں ان کے تاج میںلگتی رہیں۔ پندرہ سالہ سفر کے دوران کئی جگہ کانٹے آئے اور گڑھے بھی' مگر دلیریونس تمام رکاوٹیں اور مشکلات عبور کرتے اپنی منزل کی سمت گامزن رہے۔یہ پاکستانی کھلاڑی ''کرکٹ کا جینٹل مین'' کہلاتے ہیں کیونکہ کسی اسکینڈل نے ان کا دامن آلودہ نہیں کیا۔ بتاتے ہیں ''میرے والد سچے و پکے پاکستانی تھے۔
حب الوطنی کا یہی جذبہ میرے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ میں ریکارڈ بنانے نہیں صرف پاکستانی ٹیم کو جتوانے کے لیے کھیلتا ہوں۔'' یونس خان کا یہ دعویٰ برحق ہے۔ فروری 2009ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں یونس خان نے ٹرپل سنچری بنائی۔ وہ چاہتے تو سب سے زیادہ رنز بنانے کا برائن لارا والا ریکارڈ توڑ دیتے ، مگر انہوں نے پاکستانی ٹیم کی جیت کو ترجیح دی۔
دوران کیریئر یونس کو اپنے والد' تین بھائیوںاور بھتیجے کی اموات کے صدمے برداشت کرنے پڑے۔ یہ الم ناک غم انہوں نے حوصلے سے سہے اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوئے۔ بلکہ ان صدموں نے انہیں ذہنی و جسمانی طور پر زیادہ مضبوط بنا دیا۔فلک شاٹ مارنے کے شوقین اور اسپین بالنگ مہارت سے کھیلنے والے یونس خان کی اگلی منزل 10 ہزار رن بنانا ہے۔ اگر انہوںنے خود کو چاق و چوبند رکھا' تو وہ یہ سنگ میل بھی عبور کر سکتے ہیں۔ گو وہ سخت محنت' مسلسل کوشش' جذبہ حب الوطنی اور شرافت کے باعث پاکستان ہی نہیں دنیا کے عظیم ترین کرکٹروں میںاپنانام جلی حروف سے لکھوا چکے ۔
یونس خان کے منفرد ریکارڈز
یہ سطور قلمبند ہونے تک یونس خان 103ٹیسٹ کھیل کر 9071رنز بنا چکے۔ بیٹنگ ایوریج 54.50 فیصد بنتی ہے۔ یونس 31 سنچریاں جبکہ 30نصف سنچریاں بنا چکے۔ 264ایک روزہ بین لاقوامی میچ کھیل کر 7240رن بنائے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں 9جبکہ ون ڈے میچوں میں 3وکٹیں بھی لے چکے ۔ یونس کے اہم ریکارڈ درج ذیل ہیں:
٭ٹیسٹوں میں ڈیڑھ سو یا مزید رن سب سے زیادہ بنانے والے واحد کھلاڑی ۔ گیارہ بار یہ کارنامہ انجام دیا۔ پھر جاوید میاںداد کا نمبر ہے جنہوںنے دس بار یہ کارنامہ کر دکھایا۔
٭یونس نے اپنی پانچ سنچریاں ٹیسٹ کی چوتھی اننگوں میں بنائیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کوئی اور کھلاڑی یہ کارنامہ نہیں دکھا سکا۔ دوسرے نمبر پر سنیل گواسکر فائزہیں جنہوںنے چوتھی اننگوں میں چار سنچریاں بنا رکھی ہیں۔
٭ٹیسٹوںکی چوتھی اننگوں میں بلے بازی کرتے ہوئے یونس کی ایوریج 60.59 رہی ہے۔ یہ ان تمام کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے جنہوںنے بیس سے زائد چوتھی اننگیں کھیلی ہوں۔
٭یونس نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں بنا رکھی ہیں۔ دوسرے نمبر پر انضمام الحق (25سنچری) آتے ہیں۔
٭ٹیسٹوں میں یونس 63بار سنچری پارنٹرشپ میں شامل رہے۔ یہ کسی بھی کھلاڑی سے زیادہ تعداد ہے۔ دوسرا نمبر جاوید میاں داد کا ہے' وہ 50 بار سنچری پارٹنر شپ میں شریک رہے۔
٭یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے یچ پر سب سے زیادہ وقت گزارنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ دوران کیریئر 24 ہزار منٹ پچ پر گزار چکے۔ دوسرے نمبر پر میاں داد (23,568منٹ ) پر فائز ہیں۔ عالمی اعزاز بھارتی کھلاڑی' راہول ڈریوڈ (44,000 منٹ) نے بنا رکھا ہے۔
٭بیس اننگیں کھیلنے والے تمام پاکستانی کھلاڑیوں میں یونس کی بیٹنگ ایوریج سب سے زیادہ ہے۔ درحقیقت ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے 15بلے بازوں میں صرف کمار سنگا کارا (57.40) اور جیکواس کیلس (55.37) کی ایوریج ان سے زیادہ ہے۔
٭35 سال کا ہونے کے بعد ٹیسٹوں میں یونس کی بیٹنگ ایوریج 62 فیصد رہی ہے۔ یہ 35سال کا ہونے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تمام کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی حد تک یونس کے بعد انضمام الحق (52.29) اور ظہیر عباس (52.28) آتے ہیں۔
٭یونس سب سے زیادہ کیچ (113) پکڑنے والے پاکستانی فیلڈر ہیں۔ دوسرا نمبر میاںداد (94 کیچ) کا ہے۔
٭جاوید میاں داد (چھ ) کے بعد سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں (پانچ) یونس ہی نے بنائی ہیں۔
٭یونس خان واحد پاکستانی بلے باز ہیں جو ٹیسٹ کھیلنے والے تمام نوممالک کے خلاف سنچری بنا چکے ۔ عالمی سطح پر وہ یہ کارنامہ دکھانے والے 12ویں کھلاڑی ہیں۔
٭ تیز ترین سات ہزار رنز بنانے والوں میں یونس کا پانچواں نمبر ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ 90 میچوں میں انجام دیا۔
٭ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان دوسرے کھلاڑی ہیں جنہوں نے وطن سے باہر زیادہ (24) سنچریاں بنائیں۔ پہلے نمبر پر سچن ٹنڈولکر (29سنچریاں) فائز ہیں۔