پیپلز پارٹی پنجاب کے اعلیٰ عہدوں میں تبدیلی

صدر منظور وٹو اور جنرل سیکرٹری تنویر اشرف کائرہ کا لاہور ائیر پورٹ پہنچنے پر ان کا اچھا استقبال کیا گیا.


Khalid Qayyum October 23, 2012
صدر منظور وٹو اور جنرل سیکرٹری تنویر اشرف کائرہ کا لاہور ائیر پورٹ پہنچنے پر ان کا اچھا استقبال کیا گیا. فوٹو فائل

ISLAMABAD: آئندہ عام انتخابات میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں ، صدر زرداری نے پنجاب میں ترپ کا پتہ کھیلا ہے۔

انہوں نے یہ پتہ میاں منظور وٹو کی شکل میں پھینکا ہے۔ انہیں امتیاز صفدر وڑائچ کی جگہ وسطی پنجاب کا صدر بناکر آصف زرداری نے اپنی ترجیحات واضح کردی ہیں۔ اس فیصلے سے انہوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کا آئندہ الیکشن جیتنے میں سنجیدہ ہے اور اس مقصد کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف جیالا کلچر کو ہی اہمیت دی جائے۔ پارٹی میں نئے لوگوں کو بھی ویلکم کیا جائے گا اور انتخابی سیاست کو ترجیح دی جائے گی۔ دراصل پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کی نئی تنظیم انتخابی سیاست کیلئے بنائی گئی ہے، اس میں قومی وصوبائی دونوں اسمبلیوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور ایک ایسی شخصیت کو وسطی پنجاب کا صدر بنایاگیا ہے جو کم ازکم شہبازشریف اور پرویزالٰہی کے قد کی ہے۔

میاں منظور وٹو پنجاب میں چوہدری برادران سے مل کر شریف برادرارن کا مقابلہ کریںگے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن پالیٹکس میں سیٹیں کیسے نکالنی ہیں۔ میاں منظور وٹو شریف برادران کے اتنا ہی خلاف ہیں جتنا چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی ہیں، یوں منظور وٹو اور چودھری برادران کا مشترکہ ایجنڈا پنجاب میں شریف برادران کو شکست دینا ہے۔ میاں منظور وٹو کو بھاری ٹاسک دیا گیا ہے، اب اگر انہوں نے اپنا ٹاسک پورا نہ کیا اور معیار پر پورا نہ اترے تو ان کا سیاسی کیریئر بھی ختم ہوجائے گا ۔ ان کیلئے یہ بڑا چیلنج ہے، ایک طرف ورکر ہیں اور دوسری طرف انتخابی سیاست ہے ۔کیا وہ دونوں کے درمیان پل بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔

منظور وٹو اور تنویر اشرف کائرہ دونوں سٹیٹس کو کے لوگ ہیں ، کیا وہ پارٹی میں کوئی انقلابی تبدیلی لائیں گے اور پیپلزپارٹی کی سوچ کو آگے بڑھا سکیں گے؟ وہ انتخابی کردار تو ادا کریں گے مگر پارٹی کے اندر نظریاتی جوش وجذبہ پیدا نہیں کرسکیں گے کیونکہ انہیں ورکرز کی زیادہ پہچان نہیں ہے۔ انہیں 30نومبر کو پارٹی کے یوم تاسیس تک ورکرز سے رابطے بڑھانا ہوں گے۔ نئی تنظیم میں شہروں کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔ صدر اور جنرل سیکرٹری کے دونوںاہم عہدے دیہی علاقے سے بنائے گئے ہیں اور یوں پیپلزپارٹی نے عملی طور پر پنجاب میں شہری سیاست کوبالکل چھوڑدیا ہے۔ محسوس ہورہا ہے جیسے شہری سیاست عمران خان پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اب صرف وہاں سیاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جہاں پیپلزپارٹی کا مکمل کنٹرول ہے۔

میاں منظور احمد وٹو بڑے خوش قسمت ترین سیاستدان ہیں،ایوب خان کے دور میں وہ ضلعی کونسلر تھے مگر اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث وہ سیاسی میدان میں نمایاں ہوتے چلے گئے ۔ 1977ء میں اگرچہ انہیں پیپلز پارٹی کا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر بعد میں یہ ٹکٹ ان کی بجائے میاں غلام محمد مانیکا کو دیا گیا۔ منظور وٹو اس واقعہ کے بعد تحریک نظام مصطفیٰ میں شامل ہوگئے بعد میں تحریک استقلال میں چلے گئے اور انہوں نے اس پارٹی کے اہم ترین لیڈروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی۔ 1989ء میں ایم آر ڈی کے فیصلہ کے خلاف انہوں نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہوئے اور ضلع کونسل اوکاڑہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ان کا شمار صوبائی اسمبلی کے ذہین ترین سپیکرز میں ہوتا تھا۔ میاں منظور احمد وٹو کی بطور صدرنامزدگی سے مسلم لیگ(ن) تشویش میںمبتلاء ہے۔

میاں منظور وٹو سیاسی رابطوں اور جوڑ توڑ کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ ماضی میں پنجاب میں نواز شریف کی سیاست کو ناکام بنا چکے ہیں۔ منظور وٹو نے 92 ء میں بطور سپیکرپنجاب اسمبلی مسلم لیگ(ن) کی دو تہائی اکثریت ختم کردی اور کچھ عرصے کیلئے وزیراعلی بھی رہے ۔ 93 ء میں 18 ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ پیپلزپارٹی کے اتحادی وزیراعلیٰ بن گئے تھے ۔ وہ اب اپنے ٹھنڈے اور میٹھے مزاج سے صدر زرداری کے بہت قریب ہوچکے ہیں۔

صدر زرداری نے اب تک پنجاب میں صرف چند ایک مقامات کے دورے کئے ہیںاور ان میں ایک اوکاڑہ کا دورہ بھی تھا جہاں منظور وٹو نے بھکر، خوشاب، راجن پور اور دیگر اضلاع کی بعض اہم سیاسی شخصیات کی صدر زرداری سے ملاقاتیں بھی کروائی تھیں۔تنویر اشرف کائرہ کی بطور صوبائی جنرل سیکرٹری نامزدگی اچھا فیصلہ ہے۔ پارٹی میں اس فیصلے کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا گیا ہے، ان کی پارٹی کے ساتھ گہری وابستگی ہے، وہ ساڑھے تین سال پنجاب کے وزیرخزانہ رہے اور تین بجٹ پیش کئے ، ان کے خاندان کی پارٹی کیلئے بڑی قربانیاں ہیں ۔ ان کے کزن توقیر اکرم کائرہ بے نظیر بھٹو کے سکیورٹی انچارج تھے اور ان کے ساتھ دھماکے میںشہید ہوگئے تھے ۔ انہیں وسطی پنجاب میں پیپلزپارٹی کو مضبوط بنانے اور صدر زرداری اور فریال تالپور کی توقعات پر پوراا ترنے کیلئے بیوروکریٹ سٹائل سے نکل کر جیالا سٹائل اپنانا ہوگا۔

صدر منظور وٹو اور جنرل سیکرٹری تنویر اشرف کائرہ کا لاہور ائیر پورٹ پہنچنے پر ان کا اچھا استقبال کیا گیا اور انہیں ریلی کی صورت میں ناصر باغ لایا گیا،پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداداستقبال کے لئے ائیرپورٹ پر موجودتھی ، میاں منظور وٹو نے بسوں اور ویگنوں پر اپنے علاقے کے لوگ لاکر ٹھیک طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، لاہور شہر سے بہت کم پارٹی کارکن استقبال میں شریک ہوئے ۔میاں منظوروٹو پر ایک اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ انہوں نے کئی پارٹیاں تبدیل کیں، پیپلزپارٹی کے سابق دورحکومت میں جب میاں منظوروٹوکووزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا تووہ مسلم لیگ (ن) کے قائدنوازشریف کے گھر ماڈل ٹائون پہنچ گئے اورپریس کانفرنس میںپیپلزپارٹی کی قیادت کو چارج شیٹ کیا، اس دوران میاں منظور وٹو نے ماڈل ٹاؤن شریف خاندان کی رہائشگاہ کے باہر جنگلے ہٹانے کا ذمہ دارپیپلزپارٹی کوقراردیا تھا۔

میاں منظوروٹو کو پہلے پیپلز پارٹی میں اپنی قبولیت پیدا کرنا ہوگی۔ یہ بطور صدر میاں منظوروٹو کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ رانا ثنااﷲ جیسا جیالا اگر میاں صاحب کے متوالوں کی آنکھ کا تارا بن سکتا ہے تو میاں منظور وٹو جیالوں کا لیڈر کیوں نہیں ہوسکتا۔اس ایک مثال سے ہی پنجاب میں ہونے والے انتخابی دنگل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں